مشرقی ایثار

مصنف : ام طلحہ

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : اگست 2011

عورت کے ایثار کی ایک اور داستان اور اس پر ہونے والے ظلم کی ایک اور کہانی

            چونکہ میں نے بیان کردہ خاتون سے یہ اجازت نہیں لی ہے کہ میں انکی زندگی کا احوال لکھوں اسلئے میں نام بدل دوں گی لیکن لکھنے کا مقصد بیان کرنا ہے کہ آج بھی تعلیم اور شعور کے باوجود عورت کے ساتھ کیا کیا ہو رہا ہے۔

            اس لڑکی نے جس کا نام ہم ربیعہ فرض کر لیتے ہیں ایک سخت گیر والد کے سائے میں آنکھ کھولی۔بہن بھائیوں میں تیسرا نمبر تھا۔ والدہ تعلیم یافتہ تھیں مگر شوہر کے رعب کے باعث بچوں کو گھر میں چھپا کر رکھا کرتی تھیں۔ والد کے گھر موجودگی کے درمیان کسی کی مجال نہ تھی کہ آواز بھی نکال سکے۔ والدہ نے شادی کے بعد بی اے کیا تھا اسکے بعد بھی پڑھنا چاہتی تھیں مگر اجازت نہ ملی۔ انہوں نے بچوں کی تعلیم پر خوب توجہ دی۔ خوش قسمتی سے والد بھی بچوں کی تعلیم کے لئے بہت سنجیدہ تھے لیکن بس انکا سخت گیر مزاج سب کو ہر وقت ڈرا سہما رہنے پر مجبور رکھتا تھا۔ ربیعہ بھی پڑھائی میں ذہین تھی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن بی اے کے فوراً بعد اسکی شادی ہو گئی۔ شادی ہوئی تو اس نے سوچا کہ شاید اب سانس لینا نصیب ہوگا جیسا کہ اسکے گھر کا ماحول میں بیان کر ہی چکی ہوں۔ مگر معاملہ اس کے برعکس پایا۔ جب 7 نندوں اور دو دیوروں کے درمیان اس نے بڑی بہو کی حیثیت سے قدم رکھا تو اسے وہ چاؤ مفقود نظر آیا جو پہلے پہلے بھائی کی شادی پر ہوتا ہے۔ اس نے اسے اپنا وہم سمجھا لیکن یہ شدت سے محسوس کرگئی کہ رخصتی کے بعد سسر نہ تو اسے دیکھنے آئے نہ ہی اسے ان کے پاس لے جایا گیا۔ جب شوہر سے پہلی بات ہوئی تو وہ بھی انہی ہدایات پر مبنی تھی کہ میری شادی شدہ بہنیں جب بھی گھر آئیں کھانا کھلائے بغیر مت جانے دینا، دیوروں کے کسی کام میں کمی مت کرنا، غیر شادی شدہ بہن کو کسی کام کو ہاتھ مت لگانے دینا، سسر کی اجازت کے بغیر اپنے کمرے میں بھی مت آنا، انکی خدمت اپنے والد سے زیادہ کرنااور بہت کچھ۔ خیر اس سب کو اس نے اپنا ایمان سمجھ لیا۔ اگلے دن ولیمے کے لیے تیار دلہن جب ولیمے کے بعد گھر آئی تو پتہ چلا کہ ایک محاذ اسکے خلاف کھل چکا تھا۔ شوہر نے اسے خوب سنائیں کہ اس نے اب تک سسر کو سلام کیوں نہیں کیا۔ اس بیچاری نے شرم میں ڈرتے ڈرتے عرض کی کہ کوئی لیکر ہی نہیں گیا۔وہ بیچاری خود کیسے کہتی، مگر یہ توجیہ قابل قبول نہ تھی۔ شوہر نے فرمایا کہ سب اس بات پر تم سے ناراض ہیں بڑی نند سے کہو کہ وہ تمہیں لیکر جائیں میں باہر جارہا ہوں۔ غرض یہ مرحلہ طے ہوا، سسر کی ہدایات بھی سنیں اور شادی کے دس دن میں ہی جھاڑو لیکر کھڑی ہوگئی۔ روز نند کی واپسی پر جو کہ ملازمت پیشہ تھی خوب برا بھلا سنتی کہ کوئی کام نہیں آتا، کھانے کی برائی صفائی میں نقص، کپڑوں کی دھلائی استری میں نقص اور بہت کچھ۔ اسے لگا کہ اس سے اچھی تو وہ میکے میں ہی تھی۔ کم از کم ماں اور بہن بھائیوں سے دکھ سکھ تو کہ لیتی تھی۔ ماں کے سکھ کی خاطر انہیں بھی کچھ نہیں بتایا اور نند کی رپورٹوں پر شوہر کے ہاتھوں بھی بے عزت ہوتی رہی اور روز آنے والی شادی شدہ نندوں کی باتیں بھی اپنی ماں کے نام سنتی رہی جس نے اسے کچھ نہیں سکھایا۔ اس عرصے میں شادی کے فوری بعد اللہ نے خوش خبری بھی دے دی لیکن وہ بھی خوش خبری نہ رہی۔ اسے ڈاکٹر کے پاس جانے سے منع کردیا گیا ۔ یہ کہہ کر کہ وہ بھی تو عورتیں ہیں جو اسی حالت میں کھیتوں میں کام کرتی ہیں وہ کونسے ڈاکٹر کے پاس جاتی ہیں۔ اس موقع پر اس کے شوہر کا کردار کچھ تبدیل ہوا اور انہوں کام کی رعایت کے سلسلے میں نہ صحیح کم از کم اسکی صحت کے معاملے میں اسکا خیال رکھنا شروع کردیا۔ چھپ چھپ کر اسکے لئے پھل لاتے اور اپنے نام پر کمرے میں دودھ لاتے اور اسے پلاتے۔ یوں اولاد کیخاطر ایک محبت کا آغاز ہوا اور رعب کا نفسیاتی دباؤ کچھ کم ہوا۔ لیکن چونکہ جسمانی دباؤ جوں کا توں رہا لہٰذا صحت گرتی گئی۔آخر نتیجہ یہ نکلا کہ قبل ازوقت انتہائی کمزور بچی کی ولادت ہو گئی۔ بچی کو دیکھ کر سسرال والوں نے کہا ایک تو بیٹی وہ بھی ایسی، جس کی سانس کا بھی پتہ نہ چلتا تھا مگر زندگی اللہ کی دین ہے سو اس نے اس میں جان ڈالی۔ اس نے کبھی میکے کچھ نہ بتایا تھا مگر اس موقع پر سب قلعی کھل گئی جب سسر نے سب کے سامنے کہا کہ اتنی جلدی بھی کیا تھی۔ کچھ عرصہ ہماری خدمت تو کرتی پھر خدمت کراتی۔خیر جلد ہی پھر کام پر لگ گئی۔ بچی سارا دن سسر کے پاس جھولے میں پڑی رہتی اور وہ صرف اسکی ضروریات پوری کرکے پھر کام میں جت جاتی۔ ایم اے کرنے کا نام لیا تو چپ کرا دیا گیا کہ ہماری بہوئیں نوکری نہیں کرتیں(بیٹیاں تمام ملازمت پیشہ تھیں جنکی شادی پر سٹامپ لکھوائے گئے کہ نوکری نہیں چھڑائی جائے گی)اسی طرح تین برس کا عرصہ گزر گیا سسر کا انتقال ہو گیا اور نند کی شادی ہو گئی مگر کیونکہ شادی شدہ بہنوں کا عمل دخل بند نہ ہوا اسلئے شوہر نے اولاد کی خاطر گھر الگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کو وہ انکا سب سے بڑا احسان مانتی ہے کیونکہ اس میں تو اتنی جرات ہی نہیں تھی۔ بظاہر لگتا ہے کہ کہانی کا اختتام ہو گیا ہے لیکن آگے کیا ہوا ربیعہ الگ گھر میں تو آگئی مگر شوہر اپنے حاکم مزاج پر قابو نہ پاسکے۔ مگر وہ شاید عادی ہو چکی تھی۔ نئے گھر میں ایک اور بیٹی کی ولادت ہوئی اور خوب طعنے سنے۔ بچی کی ولادت پر شوہر کی بہنوں کو چیخ چیخ کر روتے دیکھا۔ پھر اللہ نے بیٹا بھی دے دیا اور اس نے اللہ کا شکر کیا۔چونکہ مقروض ہو کر گھر لیا تھا اسلئے نوکری بھی کر لی ٹیوشنیں بھی پڑھائیں اور میرے سمجھانے پر پرائیوٹ ایم اے بھی کر لیا۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ ایک بہترین نوکری بھی مل گئی اور گھر کے حالات بہترین ہو گئے۔ لیکن اب ایک عجیب سا مسئلہ درپیش ہے۔ شوہر کو بہنوں کی باتیں سن کر ہاتھ اٹھانے کی عادت ہو چکی ہے۔ وہ عادت سے مجبور ہو کر اسے بات بے بات مارتے اور گالی گلوچ کرتے ہیں۔ وہ صبح سے شام تک نوکری کرتی ہے گھر آتے ہی ڈھیروں گالیاں سنتی ہے کہ آج تمہارے بچوں نے یہ کیا اور یہ کھلونایہاں کیوں پڑا ہے اور وغیرہ وغیرہ۔ ایسا بھی ہوا کہ ایک دن آفس ڈراپ کرتے ہوئے شوہر صاحب کو غصہ آگیا اور انہوں نے کئی مرد و خواتین سٹاف ممبرز اور حتیٰ کہ چوکیدار اور آفس بوائے کے سامنے زوردار گالی دے کر ہاتھ رسید کر دیا۔ اس واقعے کی میں خود گواہ ہوں۔ میرا اس واقعے پر بہت خون کھولا ہوا لیکن جب تک کوئی بندہ اپنے لئے کچھ نہ کرنا چاہے تو کوئی اسکے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔ اس نے اس دن پہلی بار اپنا دل میرے سامنے کھولا۔باقی باتیں تو میں اس سے پرانے گھریلو تعلقات اور اسکی نندوں کی خبر رسانی کی عادت کی وجہ سے پہلے ہی جانتی ہوں لیکن اسکے شوہر کا کردار میری سمجھ میں نہیں آرہا۔ کاش کوئی اس بارے میں مجھے بتا سکے۔ ایک آئیڈیل گھر جس میں بیٹیاں بیٹا مالی آسودگی پرائیویسی سب کچھ ہے۔ کچھ مقروض صحیح مگر اپنے گھر کے مالک ہیں وہاں اتنے بے قابو غصے کا کیا سبب ہو سکتا ہے۔ کیامرد کیلئے ایسا غصہ لازم ہے؟

            وہ عورت جو شوہر سے زیادہ پڑھی لکھی ہے، زیادہ کماتی ہے وہ وجہ بے وجہ کیوں مار کھاتی ہے اور اسکے پٹنے کی داستان اسکا محلہ بھی سناتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں عورتوں میں شعور نہیں ہے۔ اپنے حقوق سے آگاہی نہیں ہے۔ اس عورت کے بارے میں کیا کہا جائے جو پڑھی لکھی بھی ہے اور اپنے حقوق بھی جانتی ہے لیکن انکا مطالبہ نہیں کرتی۔ اس نے جب اپنا حال بیان کیا جس واقعے کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے تو اس نے کہا کہ میں کیا کروں۔ میرے شوہر کے میرے اوپراحسانات ہیں۔مارتے ہیں اور پھر پندرہ منٹ بعد ہنستے ہوئے آجاتے ہیں۔ گلہ کرو تو کہتے ہیں گالی تو میں مذاق میں دیتا ہوں۔ انکا غصہ منٹوں میں اڑجاتا ہے۔میں انہیں کیا کہوں۔ زیادہ سمجھانے کی کوشش کروں گی تو گھر ٹوٹ جائے گا۔ میں ان حقوق کا کیا کروں۔ جیسی گزر رہی ہے گزرنے دو۔ مجھے سمجھ نہیں آتا ایسی عورت کا کیا کرنا چاہئے جو مار کھانے کی عادی ہو چکی ہو۔