تلاش

مصنف : خالدہ تبسم

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : جولائی 2011

            میری نریمان سے ملاقات وائی ایم سی اے میں ہوئی تھی۔ میرے پوچھنے پر کہ وہ برطانوی ہے تو پھر اس کا نام مصری کیوں ہے؟ اس نے بتایا کہ اس کے والد بحری جہاز پر ملازم تھے اور اس کی پیدائش کی اطلاع ان کو مصر میں ملی تھی جہاں ان کا جہاز لنگر انداز تھا تب ہی انہوں نے اس کا نام مصری رکھ دیا۔

            وہ ایک خوش باش سی لڑکی تھی جس کو ٹیبل ٹینس کھیلنے کا بے حد تک شوق تھا۔ میری اس سے جان پہچان بڑھی تو اس نے بتایا کہ اس کی امی کو جب پتہ چلا کہ میں پاکستانی ہوں تو انہوں نے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ہے ۔ ایک دن میں بتائے ہوئے پتے پر اس کے گھر پہنچ گئی۔ نشست گاہ میں صوفے پر ایک باوقار، خوبصورت اور بارعب خاتون بیٹھی تھیں۔ یا اللہ یہ پرستان کی باسی تو نہیں ہے۔ میں لمحے بھر کو ٹھٹک گئی۔ نریمان نے ان کا تعارف کرایا کہ یہ اس کی امی ہیں۔ خاتون نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا ، ان کے انداز میں بہت دھیما پن تھا۔ اس کے بعد میری ملاقات نریمان کی ماں برتھا سے اکثر ہوتی رہی۔

             برتھا کے نانا لکھنو کے معزز گھرانے کے فرد تھے ۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی منگنی ایسے ہی ایک گھرانے میں کردی جن کا بیٹا علی گڑھ میں پڑھتا تھا۔ خاندانی جھگڑوں کی وجہ سے یہ منگنی قائم نہ رہ سکی اور اسی عرصہ میں ان کے جاننے والے نواب کا رشتہ ان کی بیٹی کے لیے آگیا۔ اپنی خاندانی آن اور بیٹی کے منگیتر کے گھر والوں کو نیچا دکھانے کے لیے انہوں نے بیٹی کی شادی اس نواب سے کر دی اور وہ نواب صاحب کی تیسری بیوی بن کر چلی گئیں۔ تقسیم ہند سے پہلے اس طرح کی شادیاں عام تھیں۔

            لکھنو کے تعلیم یافتہ ماحول میں پلی اور پڑھی لکھی ، مضافات میں واقع ایک حویلی میں دلہن بن کر گئی جہاں عورتیں صرف اونچی اونچی دیواروں کے اندر سانس لیتی تھیں اور مرد دیوان خانے میں بالاخانوں سے آئی ہوئی رقاصوں سے دل بہلاتے تھے ۔ وہ اس ماحول کو نہ اپنا سکیں۔ اس سونے کے پنجرے میں ان کو اپنا میکہ شدت سے یاد آتا تھا۔ ان کو کھلی فضا میں سانس لینے کی عادت تھی اور یہاں ہر طرف پہرے اور پابندیاں تھیں۔ ان کے شوہر میں وہ سارے عیب موجود تھے جنہیں آج بھی وڈیرے اور نواب اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ اسی عرصے میں ایک نئی زندگی نے ان کے وجود میں کروٹ لی اور انہوں نے چاند سی بچی کو جنم دیا۔ باپ نے سونے چاندی کے تاروں سے بنے ہوئے پالنے میں سوتی ہوئی نوزائیدہ بچی کو ایک نظر دیکھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ یہ بچی نور افشاں تھی جس کا نام بعد میں برتھا رکھا گیا۔

            اسی دور میں ہنگامے عروج پر پہنچ گئے۔ جلاؤ گھیراؤ ، چاقو زنی اور کرفیو نے برطانوی حکومت کی کمر توڑ دی تھی ۔ دوسری جنگ عظیم جیتنے کے بعد برطانوی حکومت میں اپنی کالونیوں کی شورش کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ رہی تھی۔ شاید جنگ عظیم دوم نے اس مملکت کو تھکا دیا تھا۔ اسی دور میں نورافشاں کی ماں نے خاوند سے لکھنو جانے کی اجازت طلب کی ۔ خاوندنے اجازت دے دی اور وہ ایک نوکرانی کے ہمراہ جب خرابی صحت کے ساتھ میکے پہنچیں تو سب پریشان ہو گئے کیونکہ والدین کا خیال تھا کہ ان کی بیٹی حویلی میں راج کرے گی۔ بیٹی ماں باپ کے گلے لگ کر خوب روئی اور والدین کو مجبور کیا کہ اسے طلاق دلوا دیں۔ والدین کی محبت نے بیٹی کے آنسوؤں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور بیٹی کے مجبور کرنے پر داماد پر خلع کے لیے مقدمہ دائر کر دیا کیونکہ وہ کسی حالت میں دوبارہ سونے کے پنجرے میں قید ہونے پر تیار نہ تھی۔ مقدمے بازی بھی زمینداروں اور نوابوں کا مشغلہ ہوتا ہے ۔ دونوں طرف سے مقدمہ لڑا گیا لیکن نواب صاحب نے ایک بار بھی بچی کو لینے کا دعوی نہ کیا اور یوں نورافشاں(برتھا) کی ماں کو طلاق مل گئی۔

            اسی زمانے میں دنیا کے نقشے پر سبز ہلالی پرچم کے سائے میں ایک نئی مملکت نے جنم لیا اور وہ انگریز جو ملازمت کے سلسلے میں ہندستان بھیجے گئے تھے ، انہوں نے اپنا بوریا بستر باندھا۔ انہی میں نور افشاں کے نانا کے ایک دوست مسٹر براؤن اور مسز براؤن بھی تھے جو حکومت برطانیہ کی طرف سے محکمہ صحت میں ملازم تھے اور اپنی بیوی این کے ساتھ لندن جانے کو تیار تھے ۔ ادھرنور افشاں کی ماں کے منگیتر کو پتہ چلا کہ طلاق ہو گئی ہے تو انہوں نے دوبارہ رابطہ کیا ۔اب معاملہ بچی کا تھا لیکن ماں کو اس بچی سے لگاؤ نہ تھا کیونکہ وہ اسے نواب کی یادگار سمجھتی تھی اور وہ اس کی کوئی یاد اسے اپنے پاس رکھنا گوارا نہ تھا۔ اسے دیکھ کر ان کو حویلی میں گزارے ہوئے تکلیف دہ دن یاد آجاتے تھے۔

            نانا نے اس پریشانی کا ذکر مسٹر براؤن اور لیڈی براؤن سے کیا جن کو خدا نے اولاد کی نعمت سے محروم رکھا تھا۔ انہوں نے خواہش کی کہ یہ بچی انہیں دے دی جائے تو وہ اس کو لندن لے جائیں گے۔ ماں پر تو بچی ویسے ہی بوجھ تھی ، نانا کو یہ تکلیف دہ فیصلہ کرنا پڑا اور انہوں نے نواسی اسی انگریز جوڑے کو بخش دی۔

            ایک دن صبح اچانک نورافشاں کی آنکھ کھلی تو کھڑکی سے اسے سمندر کی لہریں نظر آئیں ۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ زمین لہریں کیوں لے رہی ہے اور اس کے برابر سوئی ہوئی امی کے بال سیاہ سے سنہرے کیسے ہو گئے ہیں۔ بابا کی شکل بھی بدل چکی تھی اور یہ سب لوگ کسی اجنبی زبان میں بات کر رہے تھے۔ اس ننھی منی بچی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ لکھنو کا اتنا بڑا گھر ایک دم چھوٹا کیسے ہو گیا۔ آسمان پر ہر وقت دھند کیوں چھائی رہتی ہے ، بارش کیوں ہوتی ہے اور کھڑکی کے باہر بغیر خوشبو کے بڑے بڑے پیلے لال گلاب کیسے کھلے رہتے ہیں اور اس کا نام نور افشاں سے کیوں برتھا ہو گیا ہے کیونکہ وہ نئے والدین کے ساتھ لکھنو سے لندن پہنچ چکی تھی۔

            بچے بہت جلد نئے ماحول اور زبان کے عادی ہو جاتے ہیں اور پچھلا سب بھلا دیتے ہیں۔ برتھا کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اکلوتی ہونے کی وجہ سے مسٹر براؤن اور لیڈی براؤن نے اس کی تربیت بڑے اچھے انداز میں کی ۔ سب لوگ یہی سمجھتے تھے کہ وہ لیڈی این براؤن کے ہاں ہندستان میں پیدا ہوئی ہے۔

            کالج میں برتھا کی دوستی فلپ سے ہو گئی۔ جس کے ماں باپ نے جنگ عظیم دوم کے بعد یونان سے لندن میں سکونت اختیار کر لی تھی ۔ فلپ بہت ذہین لڑکا تھا او راس کو بحری جہاز پر ملازمت کرنے کا شوق تھا ۔ ابھی برتھا نے کالج کی تعلیم ختم نہ کی تھی کہ لیڈی براؤن دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہو گئیں۔ یہ زخم اس کے لیے بہت بڑا تھا ۔ وہ گھر میں خود کو اکیلا محسوس کرتی تھی ، مسٹر براؤن اس کی بہت دلجوئی کرتے مگر بیوی کی موت نے انہیں بھی غمزدہ کر دیا تھا۔ وہ اب گھنٹوں برآمدے اور کمرے میں اس صوفے کو تکا کرتے جہاں پر این بیٹھا کرتی تھی۔ برتھا کی کوشش کے باوجود انہوں نے اپنی خوابگاہ کو بالکل ویسا ہی رہنے دیا جیسی وہ این براؤن کے سامنے تھی۔ انہوں نے دواؤں کی خالی بوتلیں تک پھینکنے سے انکار کر دیا ۔ وہ شاید اسی ماحول میں زندہ رہنا چاہتے تھے جب این ان کے ساتھ رہا کرتی تھیں۔ مسٹر براؤن کی یاسیت کا یہ دور برتھا کے لیے بڑا کٹھن تھا ۔ فلپ نے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ وہ اس کو اور مسٹر براؤن کو کبھی سیر کرانے ، کبھی مچھلی کا شکار کرانے اور کبھی اپنے گھر لے جاتا تھا۔ اسی زمانے میں اسے بحری جہاز پر ملازمت مل گئی جو بچپن سے اس کا خواب تھا۔ مسٹر براؤن نے فلپ سے کہہ دیا کہ اگر اس کو دلچسپی ہے تو وہ برتھا سے شادی کر کے اپنی ملازمت پر جائے کیونکہ بری صحت کے باعث ان کی زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں ہے۔ فلپ نے بات مان لی اور فلپ کی شادی برتھا سے ہو گئی۔ دونوں میاں بیوی لندن کے مضافات میں ہنی مون منا کر واپس آئے ۔ برتھا ، فلپ کے ساتھ بحری جہاز پر نہ جانا چاہتی تھی کہ مسٹر براؤن اکیلے رہ جاتے مگر انہوں نے کہا کہ وہ اپنے شوہر کے ہمراہ چلی جائے۔ ابھی وہ جانے کی تیاریوں میں تھی کہ مسٹر براؤن پر نمونیہ کا حملہ ہو گیا۔ ان کو ایمبولینس میں اسپتال لے جایا گیا ۔ دو دن نیم بے ہوشی کی حالت میں رہے ۔ جب حالت ذرا بہتر ہوئی تو بڑی مشکل سے بیٹی کو اتنا کہہ سکے …… ‘‘برتھا لفافہ دیکھنا……’’ یہ کہہ کر وہ اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ برتھا کے لیے صدمہ بہت بڑا تھا مگر خدا کا شکر کہ فلپ کاسہارا موجود تھا۔ اس نے دلاسا دیا اور جب وہ اس کے ساتھ اپنے انگریز باپ کے گھر گئی اور ان کی الماری کھولی تو وہاں لفافہ رکھا تھا جس پر درج تھا …… برتھا کے لیے۔ اس لفافے میں مکان کے کاغذات ، شیئرز اور بنک دستاویز کے علاوہ پنشن کے کاغذات بھی تھے مگر ساتھ ہی اسے ایک اور لفامہ بھی ملا جس میں انگریز والد نے اپنی لے پالک بیٹی کو خصوصی تلقین کی تھی ۔ اس میں ایک فوٹو تھا جو پرانا ہونے کی وجہ سے گلابی ہو گیا تھا اور ساتھ خط میں تمام تفصیل لکھی گئی تھی ۔ تصویر میں وہ دونوں انگریز میاں بیوی ایک ہندستانی صاحب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور خط میں برتھا کا اصل نام نورافشاں تھا۔ اس کے باپ کی حویلی کا پتہ اور نانا کے گھر کا لکھنو کا پتہ بھی درج تھا…… ساتھ ہی اس کے بچپن کی داستان رقم تھی ۔

            نور افشاں نے جو ،اب ،برتھا تھی ، بے قراری سے بوسیدہ فوٹو کو غور سے دیکھا اور اس کے ذہن پر پڑا ہوا پردہ ہٹنے لگا ۔ اس کے ذہن میں اپنی ماں ، نانا اور باپ کی دھندلی شبیہیں بننے لگیں۔ اس نے فلپ کو ساری بات بتا دی اور بھارت جانے کی خواہش ظاہر کی ۔ فلپ نے بتایا کہ اس کا جہاز چند روز بعد مشرق وسطی سے ہوتا ہوا بمبئی جائے گا ۔ یہ اس کی زندگی کا سب سے لمبا سفر تھا ۔ جب وہ بہت چھوٹی تھی تو ایک دن اس طرح بمبئی سے بحری جہاز کے ذریعے لندن گئی تھی۔ تب اس کو قطعی علم نہ تھا کہ یہ کیسا گھر ہے جو سمندر میں چل رہا ہے اور زمین پر پانی لہریں مار رہا ہے مگر اب وہ جوان تھی ، شادی شدہ تھی اور ایک بالغ نظر انسان کے روپ میں بمبئی میں قدم رکھ رہی تھی۔ دونوں نے بمبئی سے ہوائی جہاز پکڑا اور پہلے لکھنو گئے اور ٹیکسی پر اس جگہ پہنچے جس کا پتہ ان کے پاس تھا۔ یہ نانا کا مکان تھا۔ کسی نے دروازہ کھولا۔ وہ تنگ ڈیوڑھی سے گزر کر کھلے صحن میں پہنچ گئی ، پتہ چلا یہاں کافی گھرانے رہتے ہیں۔ ایک اجنبی گوری چٹی میم کو دیکھ کر اس کے اردگرد بھیڑ لگ گئی مگر حیرت سے دیکھنے والوں میں سے کسی کو انگلش نہ آتی تھی اور برتھا اردو سے نابلد تھی۔ اس نے اپنے نانا کا نام لیا تو ایک بزرگ نے بتایا کہ وہ پاکستان چلے گئے ہیں ۔ بزرگ یہ سب اشارے میں بتا رہا تھا۔ اس نے بزرگ آدمی کو اطمینان دلایا کہ وہ یہ گھر لینے نہیں آئی بلکہ صرف اپنے نانا کا پتہ معلوم کرنا چاہتی ہے۔ اس نے پرانی تصویر دکھائی ۔ اس شخص نے پاکستان کا پتہ دے دیا اور وہ بوجھل قدموں سے اس گھر سے نکلی جو اس کے وارثوں کا تھا اور ٹیکسی میں بیٹھ گئی۔ پھر اس نے ڈرائیور کو باپ کی حویلی کا پتہ دکھایا۔ یہ حویلی لکھنو کے مضافا ت میں تھی۔ ٹیکسی ڈرائیور ان کو وہاں بھی لے گیا ۔ یہ ایک بوسیدہ سی بڑی سنگین دیواروں والی عمارت تھی جو اب آسیب زدہ لگتی تھی۔

            حویلی کے اندر ایک شہر آباد تھا۔ اس نے ایک مکین کو اپنے باپ کا نام بتایا تو اسے جھٹکا سا لگا ۔ اس نے کہا کہ میں ان کا بیٹا ہوں ۔ برتھا نے انکشاف کیا کہ وہ اس کی سوتیلی بہن ہے ، نور افشاں۔ تب اس کو جھٹکا لگا پتہ چلا کہ باپ کا تو انتقال ہو چکا ہے اور ان کی چھوڑی ہوئی دو بیویوں کی اولاد کے درمیان زبردست مقدمہ بازی ہو رہی ہے۔ برتھا نے گھوم پھر کر حویلی دیکھی ۔ یہاں بڑے ہال میں ابھی تک اس کے والد کی جوانی کی تصویر ٹنگی ہوئی تھی ۔ جب انہوں نے شیر کا شکار گیا ہو گا تو مردہ شیر کے تن پر پیر رکھ کر یہ تصویر بنوائی ہو گی ۔ مردہ شیر ان کے قدموں میں پڑا تھا ۔ اس کے سوتیلے بھائی نے بڑے فخر سے بتایا کہ یہ ہمارے والد ہیں۔ بہت اعلی پائے کے شکاری تھی ۔ تھوڑی دیر رکنے کے بعد وہ بمبئی لوٹ آئی اور فلپ کے ساتھ اپنے جہاز پر سوار ہو گئی۔

            ان کا جہاز ٹور مکمل کر کے لندن واپس آگیا لیکن اسے پاکستان جانے کی آرزو تھی کہ وہاں اس کے نانا کا گھر تھا۔ بحری جہاز پر کام کرنے والوں کی دوستیاں ان ملکوں میں ضرور ہوتی ہیں جہاں جہاں ان کے جہاز جاتے ہیں۔ فلپ کے بھی ایک دوست تھے ۔ اس نے ان سے رابطہ کیا ، پھر دونوں میاں بیوی ہوائی جہاز سے کراچی آگئے۔ دوست نے فلپ کی آؤ بھگت کی جس کا نام مظہر تھا۔ مظہر او راس کی بیوی کے ہمراہ یہ دونوں برنس روڈ پر اس جگہ آئے جہاں کا پتہ انہیں لکھنو سے ملا تھا۔ دروازہ برتھا کے ماموں کی بیوی نے کھولا۔ یہ گھر بہت چھوٹا تھا ۔ اس کی نگاہوں میں نانا کی لکھنو والی حویلی گھوم گئی جو وسیع و عریض تھی۔ تنگ سے کمرے میں ایک پلنگ پر اس کے نانا لیٹے ہوئے تھے۔ بہو نے سہارا دے کر ان کو تکیے سے ٹیک لگا کر بٹھایا۔ لندن کا نام سن کر بوڑھا آدمی چونک پڑا۔ یہ لندن سے آپ سے ملنے آئی ہیں ، مسز مظہر نے بتایا۔ کیا یہ نور افشاں ہے ……؟ بوڑھے آدمی نے سوال کیا۔ ہاں…… میں نور افشاں ہوں ۔ برتھا نے اقرار کیا اور آپ سے ملنے آئی ہوں۔ نانا نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا : ‘‘مجھے معاف کر دو بیٹا …… میں مجبور تھا۔ تمہارے ہوتے تمہاری ماں کی دوسر ی شادی محال ہو رہی تھی ۔ تمہاری ماں اپنے منگیتر کے ساتھ جانا چاہتی تھی اور تمہارے مستقبل کا کچھ پتہ نہ تھا۔ میں تم کو لکھنو کی سڑکوں پر بھیک مانگنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتا تھا جبکہ تمہارا باپ تم کواپنے ساتھ رکھنے پر آمادہ نہ تھا۔’’

            برتھا کچھ دیر نانا کے پاس رہی اور روتی رہی ۔ اس نے چاہا تھا کہ اپنی ماں سے بھی ملے مگر نانا نے اس کو منع کر دیا۔ ‘‘تمہاری ماں کے دوسرے شوہر سے جو بچے ہیں ان کو تمہارے ہونے کا کوئی علم نہیں ہے اور تمہاری ماں نہ چاہے گی کہ وہ اپنے بچوں پر یہ بات ظاہر کرے کہ اس کی ایک اوربچی بھی تھی ۔ ’’یہ بات سن کر برتھا کے دل کے تمام چراغ بجھ گئے۔

            برتھاماں سے ملنے کی خواہش لے کر واپس لندن آگئی۔اس کادل بجھ چکا تھا وہ کبھی اپنے رشتہ داروں سے ملی اور نہ ان سے رابطہ کیا۔ جستجو ختم ہو چکی تھی کیونکہ اس کی شناخت کا مسلہ حل ہو گیا تھا۔ لیکن ماں سے ملنے کی ہو ک آخر دم تک اس کے سینے سے اٹھتی رہی لیکن نانا کی ہدایت کے مطابق وہ اس کی اور اس کی نئی اولاد کی زندگی میں کوئی خلل نہ ڈالنا چاہتی تھی۔

            ہندستان کے بٹوارے کے بعد کئی ایسے لاوارث بچوں کے ساتھ مختلف قسم کی کہانیاں وابستہ ہیں …… کیونکہ جب ملکوں میں تاریخیں بدلتی ہیں تو انسان عجیب و غریب قسم کے سانحات کی نذر ہو جاتے ہیں……

            بہرحال نریمان کی پیدائش کے بعد اس کو حقیقی خوشی ملی تھی تاہم کبھی کبھی شناخت کا زخم بھی رسنے لگتا تھا۔ اس بار جب میں پاکستان آرہی تھی تو اس نے مجھ سے درخواست کی کہ برنس روڈ جا کر اس کے نانا سے ضرور ملوں ۔ میں اس کے دیے ہوئے پتہ پر گئی مگر اس فلیٹ میں کوئی اور لوگ رہتے تھے کیونکہ برتھا کے نانا کا انتقال ہو چکا تھا۔