کفن چور

مصنف : ڈاکٹر صفدر محمود

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : مئی 2011

            یہ شخص مظفرگڑھ کے ایک دیہات کا معزز چوہدری ہے اور علاقے میں عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ تیس ایکڑ زرخیز اراضی کا مالک ہے، خوشحال ہے، ڈیرے دار اور مہمان دار ہے۔ میرا بھی تعلق پنجاب کے دیہاتی علاقے سے ہے اس لئے میں جانتا ہوں کہ پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں تیس ایکڑ اراضی کا مالک ٹھیک ٹھاک لینڈ لارڈ سمجھا جاتا ہے۔ اس سال تو اشیاء خوردنی گندم، چاول، چینی اورکپاس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے سبب زمینداروں کی آمدنی چالیس ہزار سے لے کر ساٹھ ہزار روپے فی ایکڑ تک چلی جائے گی لیکن گزشتہ سال یہ آمدنی پچیس تیس ہزار فی ایکڑ تھی۔ اس حوالے سے مظفر گڑھ کے اس چوہدری کی سالانہ آمدنی کم ازکم آٹھ نو لاکھ روپے سالانہ تھی۔ سیلاب آیا اور سب کچھ بہا کر لے گیا۔ چوہدری کی فصلیں تباہ ہوگئیں، جانور پانی میں بہہ گئے اور ان جانوروں میں اس کی دو نہایت قیمتی بھینسیں بھی تھیں جو اس قدر دودھ دیتی تھیں کہ چوہدری صاحب کا سارا خاندان اس دودھ سے سیراب ہوتا تھا، اس سے مکھن نکلتا تھا اور چوہدری کے کارندوں کے لئے لسی بنتی تھی۔ ان جانوروں میں چوہدری کی پیاری گھوڑی بھی شامل تھی جس پر سوارہوکر وہ کھیتوں کی نگرانی کیا کرتا تھا۔ سیلاب کیا آیا لاکھوں لوگوں کی مانند چوہدری بھی اپنے ملازمین کی سطح پر آ گیا، گھر ٹوٹ پھوٹ گیا اور چوہدری سڑک پر مہاجر بن کر بیٹھ گیا۔ سیلاب کے دنوں میں وہ اپنے خاندان کی بھوک پیاس مٹانے کے لئے قطاروں میں کھڑا ہو کرخوراک حاصل کرتا، خوار ہوتا، لوگوں کی جھڑکیاں سہتا اور پولیس کے ڈنڈے کھاتا رہا جو اسے اندر سے مسلسل مجروح کرتے رہے۔ اس سارے عرصے میں و ہ باطنی طور پر ٹوٹ پھوٹ گیا۔ پھر حکومت نے مالی امداد کا اعلان کیا تو اسے روشنی کی کرن نظر آئی۔ وہ روشنی کی اس کرن کاپیچھا کرتا کرتا وطن کارڈ لینے پہنچ گیا۔ وہ ذہن میں منصوبہ بندی کر رہا تھا کہ میں اب اس مالی امداد سے زمین پر ہل چلا کر اوردھرتی کا سینہ پھاڑ کر بیج بووں گا اور فصلیں اگا کر خوشحال زندگی واپس لاؤں گا۔ جب وہ کارڈ لینے پہنچا تو وہاں تعینات پولیس کانسٹیبل نے اس سے ایک ہزار روپے رشوت مانگی۔ چوہدری نے اسے سمجھایا کہ وہ سیلاب کامارا ہوا ہے اورخالی جیب ہے۔ پولیس اہلکار نے اسے اندر جانے سے روک دیا۔ دونوں میں بدمزگی اور تلخی ہوئی۔ آفات اورذہنی کرب کا مارا چوہدری پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ چکا تھا وہ اس پولیس گردی کو برداشت نہ کرسکا اور واپس آ کر خودکشی کرلی۔ یوں حکومت ایک آفت زدہ شخص کے بوجھ سے رہا ہوگئی اور وہ شخص مسلسل توہین، لاٹھیو ں اور گالیوں سے آزاد ہو کر ابدی نیند سو گیا۔ اس کا خاندان غم سے نڈھال ہے لیکن اس سے پولیس یا انتظامیہ کو کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ ان کے لئے یہ روزمرہ کا معمول ہے۔

            میں نے جب یہ خبراخبارات میں پڑھی تو تفکر اور افسوس کے سیلاب میں بہنے لگا اور سوچنے لگا کہ ہم کس قدر سنگدل اور ظالم لوگ ہیں کہ سیلاب کے مارے ہوئے لوگوں سے ہمدردی کرنے کی بجائے ان کے جسمو ں سے چمٹے ہوئے کپڑے بھی اتار لینا چاہتے ہیں۔ میں اسی سوچ میں گم تھا کہ ہوا نے میرے کانوں میں سرگوشی کی۔ ‘‘ہم کفن چور ہیں اور ایسی قوموں پر اللہ کارحم نہیں بلکہ عذاب نازل ہوتا ہے۔’’ سیلاب زدگان کے ساتھ کیا کیا نہ ہوا۔ پولیس کی رشوت خوری، لاٹھی چارج اور توہین آمیز سلوک کا تو ذکر ہی کیا بعض خاندانوں کی معصوم لڑکیاں تک اٹھالی گئیں۔ سیلاب زدگان کی مدد کے لئے بھیجے گئے ٹرک لوٹ لئے گئے او ر بعض مقامات پر طاقت کے زورپر امدادی ٹرکوں کا رخ ان علاقوں کی طرف موڑ دیا گیا جہاں سیلاب کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ حکومتی انتظامات کا نوحہ ہر رو ز سیلاب زدگان پر لاٹھی چارج کی خبریں لاتا ہے اور کتنے ہی بزرگ قطاروں میں کھڑے ہو ہو کر اللہ کو پیارے ہو گئے جبکہ پولیس اہلکار خالی جیبوں والوں سے رشوت مانگ مانگ کر اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں لوگوں کی تکلیف، بھوک اور ننگ کا ذرا بھی احساس نہیں۔ کیا یہ ‘‘کارنامے’’مردے کے جسم سے کفن اتارنے کے مترادف نہیں!

            پنجاب حکومت نے بعض سیلاب زدہ علاقوں میں انفراسٹرکچر بحال کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ میں یہ خبر پڑھ کر غم زدہ ہو گیا کہ حکومتی اہلکاروں نے خوف ِ خدا اور انسانی ہمدردی کوبالائے طاق رکھتے ہوئے رقم کا خاصہ حصہ خردبرد کر دیا اورکمیشنوں کے اس کھیل میں چیف انجینئر سے لے کر اکاونٹینٹ تک سبھی شامل تھے۔ محکمہ اینٹی کرپشن کی رپورٹ پڑھتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں کفن چوروں کی روداد پڑھ رہا ہوں۔

ماشاء اللہ ہماری قوم میں ‘‘داو گیروں’’ اور جعل سازوں کی کمی نہیں۔ میں جعلی عکس ڈالنے والوں کو فنکار کہتاہوں۔ ایسے حضرات نے سیلاب کے دوران بڑے بڑے دعوے کئے۔ اگر یہ وعدے پورے کرتے اور اس سرزمین سے کمائی گئی دولت کا ایک حصہ سیلا ب زدگان کی بحالی پر لگاتے تو اب تک سینکڑوں دیہات آباد ہوچکے ہوتے۔

            میں ہمیشہ سے حکومت کی فضول خرچیوں، شاہ خرچیوں اور بادشاہانہ انداز کارونا روتارہا ہوں کیونکہ میں خلوص نیت سے محسوس کرتا ہوں کہ قوم و ملک کو پیسے پیسے کی بچت کی ضرورت ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں کے مغل سٹائل نے نہ صرف ہمار ے وسائل چھین لئے ہیں بلکہ عالمی سطح پر ہمیں بھکاری بنا دیا ہے۔ میں مغل سٹائل حکمرانی میں اقربا پروری ،دوست نوازی، کمیشن خوری اور فضول خرچی کو شامل کرتا ہوں جن کی حیرت انگیز کہانیاں آپ ہر روز پڑھتے اور سنتے ہیں۔ ہمارے حکمران نہ خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں پر رحم کھانے کوتیار ہیں اور نہ ہی وزراء کی فوج ظفرموج گھٹانے کو پسند کرتے ہیں۔ ابھی کل ہی پی اے سی کی میٹنگ میں راز کھلا ہے کہ ایک وزیر صاحب دس لگژری گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں۔ رینٹل پاورہاوسز میں چھپی کرپشن کی کہانیاں ہمیں لہولہان کردیتی ہیں اور میں سوچنے لگتا ہوں کہ رشوت خور غریب قوم کا گوشت نوچ رہے ہیں۔

            خوبصورت انجیلنا اقوام متحدہ کی سفیر ہے۔ وہ گزشتہ دنوں سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھنے آئی تھی۔ میری ناقص اطلاع کے مطابق شاید اس نے سیلاب زدگان کے لئے ایک ملین ڈالر یو این کے فنڈ میں دیئے۔ پاکستان وزٹ کے بعد اس نے جو رپورٹ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو دی ہے وہ چشم کشا بھی ہے اور ہمارے لئے تازیانہ بھی۔ اس نے سیلاب کی تباہ کاریوں پرآنسو بہانے کے بعد لکھا ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم نے قومی خزانے سے خاصا خرچ کرکے اپنا جہاز ملتان بھجوا کر اپنی فیملی کومیرے ‘دیدار’ کے لئے بلایا حالانکہ قوم کو ان حالات میں پائی پائی کی ضرورت ہے۔ پھراس نے لکھا ہے کہ میرے کھانے کی میز پر قسم قسم اور نوع نوع کے کھانے دیکھ کر میں پریشان ہوگئی اورسوچنے لگی کہ کیا یہ سیلاب اور آفت زدہ ملک کا وزیراعظم ہے؟ اس رپورٹ کا ذکر ایک محفل میں ہوا تو دبئی سے آئے ہوئے ایک پاکستانی نے یہ راز فاش کرکے ہمیں حیران اور پریشان کردیا کہ ہمارے ایک پیار ے وزیر اکثر صدرمملکت کا طیارہ لے کر دبئی آتے ہیں اور یوں قومی خزانے کو لاکھوں کا ٹیکہ لگاتے ہیں۔ اسی مجلس میں شریک ایک صاحب نے انجیلنا رپورٹ کا ذکر سن کر فقرہ پھینکا کہ ابھی تو بے چاری انجیلنا نے‘‘ بیگمات’’ کی لندن شاپنگ نہیں دیکھی اورنہ اسے علم ہے کہ ‘‘بیگمات’’ نے کتنے کروڑ کا قرضہ معاف کروا لیا ورنہ وہ بے ہوش ہوجاتی کیونکہ یہ سب کچھ صرف اورصرف پاکستان میں ہوتا ہے جہاں سیاسی حکمرانوں کو جمہوریت اور فوجی آمروں کو آمریت خوب راس آتی ہے۔ بیچارے عوام کو کچھ بھی راس نہیں آتا؟میں یہ باتیں سن رہا تھا کہ ہوا نے ایک بار پھر میرے کان میں سرگوشی کی ‘‘ہم کفن چور ہیں کفن چور’’

(بشکریہ جنگ کراچی)