ماں

مصنف : روشن آرا

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : مئی 2011

            میرا نام روشن آرا ہے ۔پتا نہیں ماں باپ نے یہ نام کیوں رکھاکیونکہ نا م سے تو میں روشن آرا ہوں لیکن حقیقت میں روشنی میرے پاس کبھی نہیں آئی۔میری شادی بیس سال کی عمر میں میرے چچا زاد سے ہو گئی۔ شادی کے چند سال تو بہت اچھے گزرے ، اگرچہ شوہر کی آمدنی تھوڑی تھی مگر وہ تھے بہت اچھے، اس لیے دن ہنسی خوشی گزر رہے تھے ۔ میرے تیسرے بچے کی پیدایش کے ایک ہفتے بعد مجھے یہ خبر ملی کہ میرے شوہر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ چل بسے ہیں۔میں بیوہ ہو گئی ۔ کچھ دنوں تک تو مجھے ہوش ہی نہ رہا۔ ایک مہینے بعد ذرا سنبھلی تو میری ساس اور دیور نے میرے کمرے میں آکر کہا کہ دیکھو اب جاوید تو چلا گیا ہے ۔ کمانے والا اب تمہارا دیور ہی رہ گیا ہے ۔تمہارے سسر بھی معذور ہیں اس لیے کوئی آسرا نہیں۔ اس لیے اب ہم تمہیں نہیں رکھ سکتے ۔ بہتر یہ ہے کہ تم اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ۔بچوں کو بھی ساتھ لے جاؤ ۔ دوسری شادی کرنا چاہو تو بچوں کو ہمارے پاس بھیج دینا ۔ ہم رکھ لیں گے ۔میں نے کہا کہ امی جان میں تم پر بوجھ نہیں بنوں گی سلائی کڑھائی کر کے گزارا کر لوں گی ۔ لیکن مجھے اس گھر میں رہنے دیں کہ اس گھر سے میرے شوہر کی یادیں وابستہ ہیں اور میرے بچوں کی اپنے باپ کی یادیں ۔شادی کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں میں بس اپنے بچوں کو پالوں گی۔ مگر میری ایک بات انہوں نے نہ مانی ۔ انہوں نے کہا تمہارے پاس تین دن ہیں سوچ لو۔ ہم یہ گھر بیچ رہے ہیں تا کہ تمہارا دیور کوئی کام شروع کر سکے ۔ میرا دل بھر آیا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے پھر میں آج ہی چلی جاتی ہوں۔میں اپنے بچوں کو لے کر اپنی ماں کے گھر چلی آئی ۔ بچے یہ سوال ہی کرتے رہ گئے کہ امی جان ہمیں دادی اماں او رچچا نے گھر سے کیوں نکال دیا؟ مگر میرے پاس ان کے ہر سوال کا جواب رونے کے علاوہ اور تھا ہی کیا؟چھوٹے بچے نے کہا کہ امی جان جب ابو آئیں گے تومیں ان سے دادی کی اور چچا کی شکایت کروں گا۔ یہ سن کر میں اورروئی ۔ مگر کب تک ؟

            میں اپنی ماں کے گھر کچھ ہی دنوں رہی تھی کہ بھابیوں نے بھائیوں کے کان بھرنے شروع کیے ۔ کہ اس کے بچے ہمارے بچوں کو تنگ کرتے ہیں۔ حالانکہ میں سارا دن اپنے بچوں کو کمرے ہی میں بندر کھتی تھی۔لیکن پھر بھی ان کو شکایت تھی ۔ نہ ہی میرا کوئی بھائی میرے بچوں سے پیا ر کرتا اور نہ ہی وہ بیچارے باہر جا سکتے ۔ بس کمرے ہی میں گھوم پھر کر سو رہتے ۔ میں نے اپنا زیور بیچ کر ایک سلائی مشین لی اور محلے کی عورتوں سے درخواست کی کہ وہ مجھے کپڑے سینے کے لیے دے دیا کریں۔اللہ کا کرم ہوا میری سلائی لوگوں کو پسند آ گئی اور مجھے کام ملنا شروع ہو گیا۔اب میں نے پہلا کام یہ کیا کہ بچوں کوسکول داخل کرا دیااورخود ہی ان کو چھوڑ کر اور لے کر آتی۔ لیکن اس کے باوجود بھی میری بھابیوں کو میرا اس گھر میں رہنا پسند نہ آیا۔ وہ دن رات اسی کوشش میں مصروف رہتیں کہ میں کسی طرح یہاں سے چلی جاؤں۔ چنانچہ بھائیوں کی بے رخی بھی حد سے بڑھ گئی۔ اب ان سب نے مل کر یہ پروگرام بنایا کہ میری شادی کسی بوڑھے سے کر دی جائے اور بچوں کو کسی یتیم خانے میں جمع کر ا دیا جائے ۔اس پر میں کئی رات نہ سو سکی اور میں نے بالآخر اس گھر کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ میرے شوہر کی آخر ی نشانی دو چوڑیا ں میرے پاس محفوظ تھیں وہ بیچ کر میں نے اسی محلے میں ایک گھر کرایے پر لے لیا۔اس دو کمرے کے مکان کا کرایہ ( اُس وقت) بارہ سو تھا بل ملا کر پندرہ سو بن جاتا تھا۔ گھر کا راشن اور بچوں کی فیسیں ملا کر مجھے تین ہزا راور چاہیے تھے اور اس طرح مجھے ہر ماہ کم از کم ساڑھے چار ہزار کی ضرورت تھی۔میں نے سلائی کاکام بڑھایا اور اپنی ایک عزیز سہیلی سے کہا کہ کوشش کرو کہ مجھے کسی فیکڑی سے مہینے بھر کا کام مل جائے تا کہ بچوں کا گزر بسر ہو سکے میری سہیلی نے کہا کہ اس کی امی جس گھر میں کام کرنے جاتی ہے اس بیگم کا اپنا بوتیک ہے میں امی سے کہوں گی کہ اس سے بات کرے شاید تمہیں کام مل جائے ۔لیکن فوری کام نہ مل سکا۔ یہ ایک غریب محلہ تھا یہاں اتنے کپڑے کون سلواتا ہے لہذا تنگی سے ہوتے ہوئے فاقوں کی نوبت آ گئی۔ایک دن میں سارا دن خالی ہنڈیا چولھے پرچڑھا کر بچوں کو بہلاتی رہی۔ لیکن کچھ بندوبست نہ ہوسکا۔ بچے روتے روتے سو گئے۔رات یوں ہی گزر گئی اور صبح اٹھ کر میں اپنے پروردگار کے آگے خوب روئی اورکہا مولا تو ہی بتا کہاں جاؤں؟بھائیوں سے کس منہ سے مانگوں۔ میں ابھی دعا کر ہی رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔دیکھا تو میری وہی عزیز سہیلی کھڑی تھی۔ اس نے میرا چہر ہ دیکھ کر کہا ، رو کیوں رہی ہو؟ اتنے میں میرا چھوٹا بچہ نیند سے اٹھ کر آ گیا اور کہنے لگا کہ امی آپ نے کل بھی کھانا نہیں دیا ، اب پھر صبح ہو گئی ہے ۔ مجھے کھانا دیں بہت بھو ک لگ رہی ہے۔میری دوست نے جب یہ سنا تو کہنے لگی ، روشن، میں تمہارے لیے اتنی ہی غیر ہوں کہ تم مجھے اپنے گھر راشن کے ختم ہونے کا بھی نہ بتا سکی ۔ کم از کم تم ان بچوں کا خیا ل کرو۔ میں نے کہا ، تم ہر موڑ پر میرے کام آئی ہو میں آخر تمہیں ہر وقت کیسے تنگ کرتی رہوں؟اس نے کہا مجھے پتا ہے کہ تمہارے پاس آج کل کام نہیں ہے اور تم غیرت مند عورت ہو ۔مجھ سے کچھ نہ چھپایا کرو۔ ورنہ میں بھی گنا ہ گار ہو ں گی کہ تمہاری دوست ہوتے ہوئے بھی تمہاری خبر نہ لی۔ اس نے کہا کہ میں تمہیں یہ بتانے آئی تھی کہ میں اپنے شوہر کے ساتھ گاؤں شفٹ ہو رہی ہوں۔ تم فکر نہ کرنا امی تمہارا خیا ل رکھیں گی اور تمہیں کام لا کر دیں گی اور وہ اپنی بیگم سے کہہ کر بوتیک کا کام بھی دلوائیں گی۔ یہ کہہ کر وہ چلی گئی اور تھوڑی ہی دیر میں کھانے سے بھر ی ہوئی ٹرے لے کر آئی اور اس کے ساتھ مجھے دوہزار روپیہ دے کر چلی گئی۔میری سہیلی اسی دن گاؤں چلی گئی۔ میں اس دوہزار کا اکٹھا راشن لے آئی کہ بچوں کو بھوکا نہ سونا پڑے ۔ میرے بچے بار بار پو چھتے امی پھر توہمیں بھوکا نہیں سلاؤ گی؟میں جواب میں آہیں بھر کر چپ ہو رہتی۔چھوٹا بچہ پوچھتا کہ امی ابو کیوں نہیں آتے ؟ وہ اب آپ کو پیسے کیوں نہیں دیتے ؟ ہمارے لیے ٹافیا ں کیوں نہیں لاتے اب آئے تو میں بھی ان سے نہیں بولوں گا۔ ان سب باتوں کے جواب میں میرے پاس آنسو ہوتے تھے اور بس آنسو ۔

            مشکلات اور مفلسی سے بھرے وقت میں جس طرح میری دوست نے ساتھ دیا میں اس کا احسان عمر بھر نہیں دے سکتی ۔ اس کی امی نے مجھے بوتیک سے کام لا کر دینا شروع کر دیا۔مجھے پہلا ہی آ رڈر ۲۵ جوڑوں کا مل گیا جس سے میرے پاس معقول پیسے بن گئے۔بوتیک کی مالکن کو میرا کام پسند آیا اور اس نے مجھے مستقل کام دینا شروع کر دیا اس طرح میری آمدنی کا معقول ذریعہ بن گیا۔ بچوں کی تعلیم بھی بغیر کسی مشکل کے جاری ہو گئی ۔ ایک دن بوتیک کی مالکن نے کہا کہ تم کتنا پڑھی ہوئی ہو ۔ میں نے کہا کہ میٹرک کیا ہوا ہے ۔ اس نے کہا اگر میں تمہیں چھوٹی سی فیکٹری بنا دوں تو کیا تم سنبھال لو گی ۔ میں نے حامی بھر لی۔بیگم نے مجھے میرے ہی گھر کے کمرے میں سلائی مشینیں لگادیں اور کہا کہ سنبھالو اور میرا آرڈر پورا کر دیا کرو۔یوں اللہ نے کرم کیا میں ترقی کرتی چلی گئی۔اچھی خاصی آمدنی شروع ہو گئی اور جس گھر میں رہتی تھی اسی گھر کو میں نے خرید لیا۔میں اپنی ماں کو بھی ساتھ لے آئی کیونکہ وہ بھی بھائیوں پر بوجھ بن گئی تھی۔اب میر ا ایک بیٹا کمپیوٹر سائنس کا فائنل امتحان دے رہا ہے ایک کو بنک میں جاب مل گئی ہے بیٹی کا شادی کر دی ہے۔ اور اب بیٹے مجھ سے کہتے ہیں کہ ماں کام چھوڑ دو۔ لیکن میں کرتی رہوں گی کیونکہ کیا پتا کہ شادی کے بعد بیٹے بھی پرائے بن جائیں۔ اب تو اللہ کے فضل سے خوشحالی ہے اور وہ بچے جن کی خاطر میں نے ساری زندگی قربان کی تھی وہ اب میرا سہارا ہیں اور فرمانبردار بھی ہیں۔ لیکن پتا نہیں کب تک اس لیے میں اپنا کام چھوڑنا نہیں چاہتی ۔میرا سب عورتوں کے لیے یہی پیغام ہے کہ وہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر ہمت نہ ہاریں، اللہ کوشش کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے ۔

٭٭٭