زندگی کا جبر مسلسل

مصنف : پیرسید لطف علی شاہ بخاری

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : اپریل 2011

رشتوں اور مذہب کے تقدس کی پامالی کی اندوہناک کہانی
کہانی میں نام اور مقامات تبدیل کر دیے گئے ہیں

             یہ کہانی میں نے آپ کو اس لیے نہیں سنائی کہ آپ میری فراخدلی پر واہ واہ کریں۔ میں نے تو بس رشتوں اور مذہب کے نام پر ہونے والی زیادتیوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے۔

             لالچ ایک گندا اور موذی مرض ہے ۔جس بدنصیب آدمی کے ساتھ ایک بار چمٹ جائے تو پھر مرتے دم تک یہ مرض اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی ۔ مجھے اپنی تقر یباً ستر سالہ زندگی میں اس بات کا خوب تلخ تجربہ ہوا ہے جب تک میرے دادا جان زندہ رہے ،ہمارے گاؤں والوں کے لئے ہی کیا بلکہ علاقہ بھر میں ہمارا گھرانہ سب کے لئے ایک مثال تھا میرے دادا جان ایک بہت بڑی جائیداد کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے کی ایک معروف و مشہور شخصیت تھے ۔اپنے علاقے کے جاگیر دار ہونے کے باوجود میرے دادا میں غریبوں ،مسکینوں اور ناداروں سے ہمدردی کا جذبہ تھا ۔یہی وجہ تھی کہ ہر چھوٹا بڑا ہمارے گھرانے کے ہر فرد کو نہایت ہی عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھتا ۔مگر یہ سلسلہ میرے دادا جان کی اچانک وفا ت کے چند برس بعد تک ہی جاری رہ سکا ۔

            بعد میں وہ کچھ ہوا جس کا تصور کرنا بھی ناممکن تھا ۔میرے دادا نے اپنی زندگی میں دو شادیاں کی تھیں ۔پہلی بیوی کے بطن سے تین بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں ۔جبکہ دوسری بیوی کے بطن سے صرف ایک ہی بیٹا تھا ۔یہی میرا باپ تھا ۔میرا باپ اپنے سارے بہن بھائیوں سے عمر میں چھوٹا تھا ۔دادا جان نے اپنی زندگی میں ہی سارے بیٹے اور بیٹیوں کی شادیاں کرا دی تھیں ۔جب تک دادا جان زندہ رہے ہماری لمبی چوڑی حویلی کے اندر صرف ایک ہی چولہا جلا کرتا تھا ۔یعنی ہمارے اس گھرانے کے سب افراد میں اتحادو پیار تھا مگر جب ہمارے دادا جان اچانک فوت ہوگئے تو اس کے چند برس بعد ہی تینوں چچا نے میرے ماں باپ کو اپنے آپ سے علیحدہ کر دیا ۔اس طرح ایک گھر میں دو چولہے جلنا شروع ہوگئے اسی طرح گھر میں چھوٹے موٹے جھگڑے ہونا شروع ہوگئے ۔یہ جھگڑے صرف میرے ماں باپ کے ساتھ ہی ہوا کرتے تھے ۔اس طرح ہمارے اس گھرانے کی خوشگوار فضا نفرتوں اور پریشانیوں میں بدلنا شروع ہو گئی ۔میرے تینوں چچا اور ان کے گھر والے ایک گھرانہ بن گئے ۔جبکہ اس ایک ہی حویلی میں میرے ماں باپ ان سے علیحدہ ہو کر رہ گئے ۔

            یہ سارے حالات میری پیدائش سے پہلے کے ہیں ۔جب میں ایک سال کا ہوا تو میرا باپ ایک زہریلے سانپ کے ڈسنے کی وجہ سے اچانک فوت گیااور جب میری عمر تقریباًچار برس کی تھی تو میری ماں بھی گھر کے ایک پالتو بیل کی ٹکر لگنے سے اچانک ہی فوت ہو گئی ۔

            میری ماں کے مرجانے کے بعد میری پرورش وغیرہ تین چچا اور ان کے گھر والوں نے کرنا شروع کر دی تھی ۔میرے سارے چچا وغیرہ کی اولادیں تھیں ۔ ان کے بیٹے اور بیٹیاں عمر میں مجھ سے بڑے تھے ۔ میرے تینوں چچوں کے بچے گاؤں کے سکولوں میں پڑھا کرتے تھے ۔پہلے تو مجھے زیادہ احساس نہ ہوا ۔مگر جب میری عمر تقریباً چھ سات برس ہوئی تو اپنے ان بہن بھائیوں کو رنگ برنگے بستے اٹھائے سکول جاتے ہوئے دیکھتا تو میرے دل کے اندر بھی سکول جانے کا شوق پیدا ہوتا ۔اپنے بچوں کو وہ باقاعدگی او ر سختی سے سکول پڑھنے بھیجتے ۔میں بھی تو چھ سات برس کا ہو چکا تھا ۔سکول جانے کی میری عمر بھی تھی ۔مگر اس دوران کسی بھی چچا نے مجھے سکول جانے کا نہ کہا ۔میں آخر بچہ تھا ۔اتنی خاص سمجھ بوجھ مجھ میں نہ تھی ۔اس لئے میں تقریباً سارا دن اپنے گاؤں کے بچوں کے ساتھ کھیل کود میں گزار دیتا تھا ۔

            جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا سکول جانے کی تمنا میرے دل میں زور پکڑتی جا رہی تھی ۔اس لئے اپنی اس ننھی منی سی خواہش کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک دن میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے بڑ ے چچا کے آگے کر دیا ۔بس میری اس خواہش کا اظہار کرنے کی دیر تھی کہ میرے اس بڑے چچا کے تیور بگڑ گئے ۔اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے خوب ڈانٹا اور جھاڑا ۔یہ پہلا موقعہ تھا کہ میں اپنے گھر کے کسی فرد سے ڈانٹ کھائی تھی اس لئے نہایت ہی پریشان سا ہو کر رہ گیا میں کافی دیر تک بیٹھا روتا رہا ۔اس دوران میں اپنے گھر کے کسی فرد نے مجھے دلاسا دینے یا چپ کرانے کی ذرہ بھر کوشش بھی نہ کی ۔آخر میں اسی طرح روتا ہوا چاچا بخشو کے گھر آکر بیٹھ گیا ۔

            چاچابخشو اور اس کی گھر والی ماسی یہ دونوں ہمارے گھر کے پرانے ملازم تھے۔ چاچا کا مکان ہماری حویلی سے ملحقہ ہی تھا میرے دادا جان نے جب چاچا بخشو کی شادی کر وائی تھی تو یہ چھوٹا سا مکان بھی اسے بنوا کر دیا تھا ۔چاچا بخشو نے مجھ سے رونے کی وجہ پوچھی تو میں نے ان کو اپنے رونے کی وجہ بتا دی چاچا میری بات سن کر پریشان سے ہو کر اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے ۔میں وہیں بیٹھا روتا رہا ۔اتنے میں ماسی اور اس کی بیٹی زینت میرے پاس آکر بیٹھ گئیں ۔زینت میری ہم عمر ہی تھی ۔

            چاچا بخشو کی صرف دو اولادیں تھیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی ۔اسکی بیٹی میری ہم عمر تھی جبکہ اس کا بیٹا عمر میں کئی سال مجھ سے بڑا تھا چاچا کے بیٹے کو اس کے ننھیال والے چھوٹی سی عمر میں ہی اپنے ہاں لے گئے تھے ۔سنا تھا کہ ان کا یہ بیٹا اپنے ننھیال میں کسی سکول میں پڑھ رہا تھا ۔خیر اسی طرح چاچا بخشو کے گھر شام پڑ گئی ۔میں شام کو اپنے گھر چلا گیا ۔وہاں جا کر میں نے محسوس کیا کہ گھر میں تقریباً ہر فرد کے تیور بدلے بدلے سے ہیں ۔مجھ سے کسی نے بھی یہ نہ پوچھا کہ کہاں گئے تھے ۔اب کہاں سے آرہے ہو ۔

            خیر اسی طرح دن گزرنے لگے تقریبا ایک سال کا عرصہ اور گزر ا ہوگا کہ ایک دن بڑے چچا نے مجھ سے کہا کہ بیٹا آج جمعہ کا دن ہے لہٰذا جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے آج میں تمھیں اپنے ہمراہ مسجد میں لے جاؤں گا بڑی چچی نے مجھے مسجد جانے کے لئے تیار کیا اورنئے کپڑے اور جوتے بھی پہننے کو دئیے جب مسجد جانے کا وقت ہوا تو میں اپنے بڑے چچا اور اپنے چھوٹے چچا کے ہمراہ مسجد میں جا پہنچا ۔مسجد اس وقت نمازیوں سے بھری ہوئی تھی ۔جب میاں جی نے جمعہ کی نماز پڑھا لی تو میرے بڑے چچا اچانک اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا ۔‘‘بھائیو ! آج میں تمھیں ایک خاص خوشخبری سنانا چاہتا ہوں ۔میں اپنے مرحوم بھائی ملک راحت خان کے بیٹے کو فقط خدا کی رضا کی خاطر حفظ قرآن پاک کرانے کے لئے ایک مشہور و معروف دینی مدرسہ میں بھیج رہا ہوں ۔چونکہ آج جمعہ کا مبارک دن ہے اس لئے اس مبارک موقعہ پر ہم سب مل کر خدا سے دعا مانگیں کہ خدا ہمارے اس بھتیجے کو اس نیک مقصد کے لئے قبول فرما لے اوراسے اس مقصد میں کامیاب کرے ۔’’

            چچا اپنی بات ختم کرکے اپنی جگہ پر بیٹھے ہی تھے کہ مسجد کے ایک کونے میں چاچابخشو اپنی جگہ سے اچانک اٹھ کھڑا ہوا کھڑے ہو کر کہنے لگا ۔‘‘اوئے ملک رفعت خان ! کچھ تو خدا کا خوف کھا ،اپنے بال بچوں کو تو تم سارے بھائی اپنے سینے سے لگا ئے ہوئے بیٹھے ہو ۔تمھارے سارے بھائیوں کے بچے تو اسی اپنے گاؤں کے سکولوں میں پڑھ رہے ہیں مگر اپنے مرے ہوئے بھائی کے اس معصوم بچے کو تم اپنے گھر سے دھکا دے کر پردیس بھیج رہے ہو ۔ملک رفعت خان ! تم ہم سب کو تو دھوکہ دے سکتے ہو مگر یاد رکھو ،خدا کی ذات کو تم ہر گز دھوکہ نہیں دے سکتے ۔’’

            چاچا ابھی کھڑے بول ہی رہے تھے کہ میرا بڑا چچا یک دم اپنی جگہ سے اٹھا اور چاچا کو مارنے کے لئے اس کی طرف بڑھا مگر مسجد میں موجود لوگوں نے بڑی مشکل سے چچا کو چاچا بخشو کی طرف بڑھنے سے روک دیا یوں اس مبارک موقعہ پر مسجد میں ایک فساد دنگا ہوتے ہوتے رہ گیا ۔ویسے میرے سمیت مسجد میں موجود ہر فرد چاچا کی اس حرکت پر حیران وپریشان سا تھا کہ آخر چاچا کو کیا پڑی کہ میرے چچا کے آگے بول پڑا ۔اس لئے مسجد میں موجود لوگوں میں کھسر پھسر جاری رہی جب میں اپنے دونوں چچوں اور دیگر افراد کے ہمراہ مسجد سے باہر نکلاتو دیکھا کہ مسجد سے ذرا پرے ہٹ کر کچھ لوگ چاچا کو اپنے گھیرے میں لے کر اس کے ساتھ کھڑے باتیں کررہے تھے ۔میرے دونوں چچا ان کی طرف دیکھے بغیر مجھے اپنے ہمراہ لے کر اپنے گھر آگئے ۔

            بڑے چچا نے گھر آتے ہی اپنے ایک اور ملازم کو یہ پیغام دے کر چاچا بخشو کے گھر بھیج دیا کہ بخشو اور ان کے گھر والوں سے جا کر یہ کہہ دو کہ آج شام تک ہمارا مکان ہی نہیں بلکہ ہمارا گاؤں بھی چھوڑ کر کہیں اور دفع ہو جاؤ ورنہ تمھارے لئے اچھا نہ ہوگا ۔ہمارا یہ ملازم چچا کا یہ پیغام لے کر چاچا کے گھر کی طرف چلا گیا ۔جب شام ہوئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ چاچا بخشو ماسی اور ان کی بیٹی زینت اپنے گھر کا سامان بیل گاڑی پر لادے ہوئے جارہے تھے ۔جونہی میں نے ان کو اس طرح سے جاتے ہوئے دیکھا تو چیخیں مار کر رو پڑا اور اسی طرح روتا ہو ا اپنے گھر آگیا ۔

            مجھے اس طرح روتا ہوا دیکھ کر مجھ سے چھوٹے چچا نے رونے کی وجہ پوچھی تو میں نے صاف صاف ان کو بتا دیا کہ چاچا اور ان کے گھر والوں کو جاتے ہوئے دیکھ کر مجھے رونا آگیا ہے ۔بس میرا اتنا ہی بتا دینے کی ہی دیر تھی کہ میرے اس چھوٹے چچا نے ایک زوردار طمانچہ میرے منہ پر دے مارا ۔میں طمانچہ کھاتے ہی زمین پر گر گیا ۔میں جوں ہی زمین پر گرا چچا نے مکوں ،تھپڑوں اور ٹھڈوں کی مجھ پر بارش بر سا دی ۔مجھے اپنے اس چھوٹے چچا کے ہاتھوں مار کھاتے ہوئے تقریبا سارے گھر کے افراد دیکھ رہے تھے مگر ان میں سے کسی نے بھی مجھے بچانے کی ضرورت محسوس نہ کی ۔اس روز چچا نے مجھے خوب پیٹا ۔میرے جسم کے کئی حصوں پر زخم بھی لگ گئے ۔چچا تو مجھ پر اپنا سارا غصہ اتار کر اپنے کمرے میں جا بیٹھے مگر میں وہیں زمین پر پڑا تڑپتا کراہتا رہا ۔

            اسی طرح زمین پر پڑے ہوئے مجھے کافی دیر گز ر گئی تو میری بڑی چچی میرے پاس آئی ۔مجھے اٹھ کھڑا ہونے کو کہا ۔میں بڑی مشکل سے اٹھ کھڑا ہوا ۔تو چچی مجھے اپنے کمرے میں لے جانے کی بجائے مجھے میری ماں والے کمرے میں لے گئی ۔وہاں مجھے ایک چارپائی پر بیٹھ جانے کو کہا ۔میں چارپائی پر بیٹھ گیا ۔یہ میری ماں کا ایک کچا سا کوٹھا تھا ماں کے مر جانے کے بعد کئی سالوں سے اس کوٹھے کو دروازہ بند پڑا تھا ۔آج کئی سالوں کے بعد اس کوٹھے کا دروازہ دوبارہ کھلا تھا چچی مجھے اس کوٹھے میں بٹھا کر خود باہر نکل گئی ۔میں اس چارپائی پر بیٹھا کافی دیر تک روتا رہا آخر جب بیٹھے بیٹھے تھک گیا تو اسی چارپائی پر لیٹ گیا ۔میرا خیال تھا کہ گھر کا کوئی نہ کوئی فرد ضرور میرے پاس آئے گا مگر میرا یہ خیال غلط ہی نکلا ۔کسی نے جھانک کر بھی نہ دیکھا ۔آخر اسی طرح روتا دھوتا میں سو گیا ۔

            جب صبح اٹھا تو میرے جسم کے ہر حصہ میں ایک درد اٹھ رہا تھا ۔میں کافی دیر تک اسی طرح لیٹا رہا اس وقت بھی گھر کا کوئی فرد میری خبر لینے نہ آیا ۔آخر میں خود ہی اٹھ کر سیدھا بڑی چچی کے کمرے میں آبیٹھا ۔چچی مجھے دیکھ کر خاموش بیٹھی رہی ۔چونکہ اس وقت سخت بھوک سی لگ رہی تھی ،میں نے چچی سے کچھ کھانے کو مانگا تو چچی بڑ بڑاتے ہوئے اٹھی اور کھانا میرے آگے لا کر رکھ دیا ۔میں کافی بھوکا تھا ۔جھٹ پٹ کھانا کھا لیا ۔جونہی میں کھانا کھانے سے فارغ ہوا ۔چچی جو میرے قریب ہی بیٹھی ہوئی تھی ،اس نے کو سناشروع کر دیا کہ تمھاری وجہ سے پورے گاؤں میں اس گھر کے بڑوں کی بے عزتی اور بد نامی ہوئی ہے ۔پھر میری اس چچی نے میری مرحومہ ماں کو بھی کوسنا شروع کر دیا ۔جب تک چچی صرف مجھے ڈانٹتی رہی ،مجھے زیادہ محسوس نہ ہو ا۔مگر جب اس نے میری مری ہوئی ماں کے بارے میں بکواس کرنا شروع کی تو مجھے اپنی چچی پر سخت غصہ آیا ۔جی میں آیا کہ چچی کو خوب سناؤں مگر میں نے چچی سے صرف اتناہی کہہ دیا ۔‘‘بڑی اماں !آخر میری مری ہوئی ماں کاکیا قصور ہے ،جو تم اسے برا بھلا کہہ رہی ہو ’’۔

            میرا صرف اتنا ہی کہنا تھا کہ چچی غصے سے بھرئی ہوئی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔میرے پاس آگئی۔ اس نے آتے ہی میرے بالوں کو مضبوطی سے پکڑ کر میرے سر کو خوب زور سے جھنجھوڑا اور ساتھ ہی اس عورت نے میرے منہ پر پانچ چھ زور دار تھپڑ دے مارے۔ اس کی مار سے بچنے کی خاطر میں بھاگ کر کمرے سے باہر نکل آیا۔ مجھے صحن میں نکلتا دیکھ کر میرا ایک چچا مجھے مارنے کے لیے میری طرف لپکا۔ مگر میں اس سے پہلے اپنی حویلی کے بڑے دروازے سے باہر آگیا۔ جب میں حویلی سے باہر نکل گیا تو پھر میرے پیچھے کوئی بھی نہ آیا۔

            راستے میں مجھے اپنے گاؤں کا کرم دین لوہار مل گیا۔ اس نے مجھ سے اس طرح رونے اور بھاگنے کی وجہ دریافت کی۔ میں نے اسے صرف اتنا ہی بتایا کہ مجھے چچی نے مارا ہے۔وہ میری یہ بات سن کر مجھے سیدھا اپنے گھر لے گیا اور اپنی بیوی کو میرے بارے میں بتایا۔ اس کو میرے چہرے پر تھپڑوں کے نشان نظر آئے تو اس عورت نے مجھ سے پوچھا کہ تم کو کس نے مارا ہے۔ جب میں نے اس کو ساری بات بتلائی تو اس عورت نے بڑے پیار سے میرے سر اور منہ پر بوسے دیے۔ میں شام تک ان کے گھر میں رہا۔

            جونہی شام پڑی میرا بڑا چچا اپنے ایک بیٹے کے ہمراہ مجھے لینے کے لیے آگیا۔ ان دونوں کو اس گھر میں دیکھ کر میں ڈر گیا کہ شاید یہ پھر مجھے مارنے پیٹنے کے لیے آئے ہیں۔ اس لیے جب میرے چچا نے مجھے اپنے ساتھ گھر آنے کا کہا تو میں ڈر کے مارے رو پڑا۔ ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا مگر کرم دین اور اس کے گھروالوں کے کہنے پر میں ان کے ساتھ گھر جانے کے لیے چل پڑا۔ راستے میں ان دونوں نے مجھ سے نہ کوئی بات کی اور نہ مجھے مارا پیٹا۔ گھر میں بھی مجھے کسی نے کچھ بھی نہ کہا۔ جاتے ہی مجھے کھانا وغیرہ کھلایا گیا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد بڑے چچانے مجھے اپنے کمرے میں بلا لیا۔ جب میں ان کے پاس گیا تو وہ مجھے کہنے لگے:ـ‘‘اس گھر میں تم آزاد رہ کر آوارہ ہوگئے ہو۔ اس لیے کل صبح میں تمہیں فلاں قصبہ کے ایک دینی مدرسہ میں داخل کرانے کے لیے لے جاؤں گا۔ تمہاری چچی نے تمہارے لیے کپڑے اور سامان وغیرہ تیار کر رکھا ہے۔ اب جاکر آرام سے سو جاؤ۔ کیونکہ کل ہم نے ایک لمبا سفر کرنا ہے۔’’

            چچاکے کہنے پر میں اپنی ماں والی کوٹھڑی میں جا کر چارپائی پر لیٹ گیا۔ صبح سویرے بڑی چچی نے مجھے آجگایا۔ ناشتہ وغیرہ کر نے کے بعد مجھے جانے کے لیے تیار کر دیا گیا۔ بڑے چچا نے سفرکے لیے اپنا گھوڑا تیار کر لیاتھا۔ چچا اور میں سفر پر روانہ ہوگئے۔ میری اس مختصر سی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ میں اپنے گھر یا اپنے گاؤں سے کہیں باہر جارہاتھا۔ یہ بہت لمبا سفر تھا۔ ختم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔ میں گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ بیٹھ کر بہت زیادہ تھک چکا تھا۔ آخر شام سے کچھ دیر پہلے میں اور چچا اس مدرسہ میں جا پہنچے۔ مجھے ایسے معلوم ہوا کہ کہ چچا اس مدرسہ اور مدرسہ والوں سے پہلے سے ہی خوب واقف ہیں۔ گھوڑے سے اترتے ہی چچا نے ایک درخت کے ساتھ گھوڑے کو باندھا اور پھر مجھے ہمرا ہ لیے اس مدرسہ میں داخل ہوئے۔

            چار پانچ موٹے موٹے صحت مند لمبی لمبی داڑھیوں والے آدمی فرش پر بچھائی ہوئی دریوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم دونوں کو کمرے میں داخل ہوتا دیکھ کر یہ سارے آدمی اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان میں ایک آدمی جواُن سارے آدمیوں کے درمیان گاؤ تکیے کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے بیٹھا تھا، یہ میرے چچا کا نام لیتے ہوئے آگے بڑھا۔ چچا اور یہ دونوں آپس میں بغلگیر ہوگئے۔ اس نے چچا سے خیریت وغیرہ دریافت کی۔ اس کے بعد بار ی باری سب نے بڑے خلوص کے ساتھ چچا اور مجھ سے مصافحہ کیا۔

            پھر اس موٹے آدمی نے میرے متعلق پوچھا کہ کیا یہی وہ آپ کا بھتیجا ہے جس کے بارے میں آپ نے مجھ سے بات کی تھی۔ تو چچا نے میری طرف ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہاں، میرا یہی بھتیجا ہے جس کو میں لوفری اور آوارہ گردی سے بچانے کی خاطر آپ کے اس دینی مدرسہ میں داخل کروانا چاہتا ہوں۔

            ‘‘ملک صاحب! اب کوئی فکر نہ کرو’’ …… چچا کی بات سن کر اس موٹے آدمی نے ہنس کر کہا…… ‘‘یہاں اس کی ساری لوفری ختم ہوجائے گی۔ ہمارے پاس تو بڑے بڑے آ کر ٹھیک ہوگئے ہیں۔ یہ تو ابھی بچہ ہے۔’’ مغرب کی نماز کے بعد چچا اور میں نے ان کے ساتھ مل بیٹھ کے کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد عشا کی نماز پڑھی گئی۔ واپس اسی کمرے میں پہنچے تو اس موٹے آدمی نے ایک لڑکے کو اپنے پاس بلوا لیا۔ جب لڑکا آگیا تو اس موٹے آدمی نے اس کے کان میں کچھ کہا۔ یہ لڑکا مجھے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گیا۔ وہاں پہلے سے دو لڑکے بیٹھے ہوئے تھے۔ جاتے ہی اس لڑکے نے ان لڑکوں سے کہا کہ یہ لڑکا آج یہاں داخل ہونے کے لیے آیا ہے۔ وڈے استاد نے کہا ہے کہ یہ تمہارے کمرے میں ہی ٹھہرے گا۔ یہ لڑکا مجھے اِن لڑکوں کے ساتھ بٹھا کر خود باہر چلا گیا۔ جونہی میں ان لڑکوں کے ساتھ بیٹھا تو انہوں نے مجھ پر الٹے سیدھے سوالات کرنے شروع کر دیے۔ کیا نام ہے، باپ کا کیا نام ہے، کس جگہ سے آئے ہو ۔ ان باتوں کے علاوہ وہ ساتھ ساتھ مذاق بھی کر رہے تھے۔ مگر دن بھر کا سفر کرنے کی وجہ سے میرے جسم کا جوڑ جوڑ درد کر رہا تھا اور ساتھ ہی تھکاوٹ کی وجہ سے نیند تنگ کر رہی تھی۔ وہ لڑکے ابھی باتیں کر ہی رہے تھے کہ میں سوگیا اور مجھے اپنا کوئی ہوش نہ رہا۔

            مسجد سے اذان کی آواز آئی تو ان لڑکوں نے مجھے جگا دیا۔ میں نے سب سے پہلے ان لڑکوں سے پوچھا کہ میرے چچا کہاں ہیں۔ یہ لڑکے مجھے اپنے ہمراہ مسجد میں لے گئے۔ وہاں جا کر چچا کو ادھر اُدھر دیکھا مگر وہ نظر نہ آئے تو میں نے وہیں بیٹھ کر رونا شروع کردیا۔ مجھے روتا دیکھ کر لڑکوں نے ایک آدمی کو بلا لیا۔ اس آدمی نے ڈانٹتے ہوئے مجھ سے رونے کی وجہ پوچھی تو میں نے اس سے بھی کہا کہ میرے چچا کہاں چلے گئے ہیں؟

            ‘‘اب بھول جاؤ اپنے چچا کو’’ اس آدمی نے میرا کان مروڑتے ہوئے کہا۔ ‘‘اب تمہیں اس مدرسہ میں روتا ہوا کوئی نہ دیکھے۔ اب تم اس مدرسہ میں داخل ہوچکے ہو۔ یہی تمہارا گھر ہے، تم نے یہیں رہنا ہے۔ تمہارے چچا تمہیں ہمارے پاس چھوڑ کر اپنے گاؤں واپس چلے گئے ہیں۔’’

            اس آدمی کے منہ سے اپنے چچا کی واپسی کا سن کر مجھے اس قدر دکھ ہو ا کہ میں وہیں چکرا کر زمین پر گر گیا۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں ایک کمرے میں فرش پر پڑا ہوا تھا۔ چند لڑکے میرے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ چند روز تو میں متواتر روتا ہی رہا۔ نہ مجھے کھانے کا ہوش رہا اور نہ ہی پینے کا۔ روتے روتے سو جاتا اور پھر روتے روتے جاگ پڑتا۔ مگر میرے اس رونے دھونے کا اس مدرسہ کے کسی فرد کے دل پر اثر نہ ہوا اور نہ ہی ان کو میری اس بے کسی پر رحم و ترس آیا۔

            ان دنوں میری حالت اس پرندے جیسی تھی جو کھانے پینے کی پروا کیے بغیر پنجرے کی دیواروں سے ٹکریں مار مار کر اپنا سر زخمی کر ڈالتا ہے مگر پھر بھی اسے پنجرے کی قید سے رہائی نصیب نہیں ہوتی۔ آخر کچھ دنوں بعد تھک ہار کر مجبوراً اسے پنجرے کی قید سے سمجھوتہ کر لینا پڑتا ہے۔ میں بھی کئی دنوں تک خوب رویا چلایا، تڑپا پھڑکا مگر آخر مجھے بھی اس مدرسہ اور مدرسہ والوں سے سمجھوتہ کر لینا پڑا۔ اس امید پر کہ میرے چچا وغیرہ ضرور ایک دن آ کر مجھے اپنے گھر واپس لے جائیں گے۔ مگر میرا یہ خیال خام ہی ثابت ہوا۔ انہوں نے تو ایک خاص منصوبے کے تحت مجھ سے اپنی جان چھڑا لی تھی۔

            جوں جوں وقت گزرتا گیا میں اس مدرسہ کے ماحول میں ڈھلتا گیا۔ یہاں آنے کے کچھ دن بعد ہی لڑکوں کے اس گروپ میں مجھے شامل کر دیا گیا جو دو دو یا تین تین لڑکوں کی ٹولیوں میں بٹ کر اس قصبہ کی آبادی کے گھروں سے دوپہر اور شام کی نماز کے فوراً بعد روٹیاں اور سالن وغیرہ مانگنے جایا کرتے تھے۔ پہلے دن دوپہر کے وقت میں دو لڑکوں کے ہمراہ روٹیاں مانگنے گیا۔ میرے کاندھے پر موٹے سے کپڑے کا ایک جھولا سا لٹکا دیا گیا اور ساتھ ہی میرے ہاتھ میں ایک بڑا سا برتن تھما دیا گیا ۔ ان لڑکوں نے مجھے صدا لگانے کی ٹریننگ بھی دی کہ کسی کے دروازے پر جا کر آواز کیسے لگائی جاتی ہے۔ چنانچہ جب ہم تینوں لڑکے آبادی میں پہنچے تو ان لڑکوں نے مجھے ایک گھر کے دروازے پر کھڑا کر کے آواز لگوائی:‘‘روٹی جی روٹی، طالب آیاہے۔ روٹی جی روٹی۔’’

            جب میں نے پہلی مرتبہ ایک دروازے پر کھڑی کر صدا لگائی تو تھوڑی دیر بعد ایک بوڑھی سی عورت روٹیاں اور سالن لیے دروازے پر آگئی ۔ میں جب اس سے روٹیاں لے رہا تھا تو اس عورت نے مجھے غور سے دیکھا اور پھر کہنے لگی:‘‘معلوم ہوتا ہے کہ تم نئے آئے ہو اور مجھے تو تُوکسی بڑے گھرانے بچہ دکھائی دیتا ہے۔’’ ابھی میں اس عورت کو کوئی جواب دینے والا تھا کہ اتنے میں میرے ایک ساتھی نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔ میں کوئی جواب دیے بغیر ان کے ساتھ چل پڑا۔ اس طرح کافی دیر تک میں نے کئی گھروں کے دروازوں کے آگے صدا لگائی۔ ان سے کھانا وغیرہ لیتا رہا۔ آخر اپنے ساتھیوں کے کہنے پر میں اُن کے ہمراہ مدرسہ کی طرف چل پڑا۔

            جب ہم آبادی سے باہر نکل آئے تو ساتھیوں نے ایک درخت کے سائے تلے بیٹھنے کا کہا۔ میرے ساتھ وہ دونوں بھی بیٹھ گئے۔ بیٹھتے ہی انہوں نے مجھ سے روٹیوں والا جھولا لے لیا۔ اس جھولے کو کھول کر تقریباً ساری روٹیاں اس میں سے نکال کر ایک کپڑے کے اوپر رکھ دیں۔ پھر ان دونوں نے روٹیوں کی چیکنگ شروع کر دی۔ جو روٹیاں خالص گھی وغیرہ سے خوب اچھی طر ح سے چپڑی ہوئی تھیں، ان روٹیوں کو عام سادہ روٹیوں سے الگ کر کے رکھ دیا گیا۔ برتن مختلف گھروں کے مختلف قسم کے سالن وغیرہ سے بھرا ہوا تھا۔ برتن میں جو گوشت کی مزے دار بوٹیاں وغیرہ تھیں خود بھی کھانے لگ گئے اور ساتھ مجھے بھی یہ گوشت کی بوٹیاں کھانے کو کہا۔ وہاں ہم تینوں نے مل بیٹھ کر خوب تسلی سے چپڑی ہوئی روٹیوں اور گوشت سے اپنا پیٹ بھرا۔ کھانے کے دوران یہ دونوں لڑکے مجھے باربار ہدایات بھی دیتے رہے کہ خبردار اس کھانے وغیرہ کا کسی اورکے آگے بالکل ذکرہی نہیں کرناہے۔ ورنہ ہمارے مدرسہ والے لوگ بڑے ظالم اور لالچی ہیں۔ اگر ان کو ہماری حرکتوں کا علم ہوگیا تو مار پیٹ کے علاوہ مدرسہ میں ہمارا کھانا پینا بھی بند کر دیں گے۔

            ہماری یہ ٹولی جب مدرسہ میں پہنچی تو لڑکوں کے دوسرے گروپ جو ہماری طرح روٹیاں وغیرہ لینے گئے تھے، ہم سے پہلے پہنچے ہوئے تھے۔ اب صرف ہماری ٹولی ہی کا انتظار ہو رہا تھا۔ جونہی ہم مدرسہ میں پہنچے تو ساری ٹولیوں کا کھانا ایک جگہ اکٹھا کر لیا گیا۔ پہلے تو پانچ چھ برتن اساتذہ کے گھروں کے لیے بھر کر روٹیوں سمیت ان کے گھر بھیج دیے گئے۔ اس کے بعد مدرسہ کے تقریباً سارے طالب علم ایک جگہ دائرہ بنا کر بیٹھ گئے۔ پلیٹوں میں کھانا ڈال کر ان کے آگے رکھ دیا گیا۔ میرا پیٹ تو کھانے سے پہلے بھر اہوا تھا مگر اپنے ساتھیوں کی ہدایات کے مطابق مجھے مجبوراً دوبارہ کھانا کھانا پڑ گیا۔ میں دوبارہ کھانا کھا تو بیٹھا مگر اس کے تھوڑی دیر بعد میرے پیٹ میں عجیب سی گڑ بڑ ہونا شروع ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی مجھے متلی سی ہونا شروع ہوگئی۔ چونکہ میں نے کبھی بھی اتنا زیادہ نہیں کھایا تھا، اس لیے میرا پیٹ زیادہ کھانا برداشت نہ کر سکا۔

            تھوڑی ہی دیر بعد مجھے قے آنا شروع ہوگئی ۔ وقفہ وقفہ سے مجھے اس قدر قے آئی کہ کافی جگہ میری قے سے بھر گئی۔ اس قے آجانے کے بعد میری طبیعت سخت خراب ہوگئی۔ میں اپنے کمرے میں جا لیٹا۔ اس دوران ہمارا ایک استاد اس جگہ سے گزرا جہاں میری قے پڑی ہوئی تھی۔ اچانک اس کی نظر میری قے پر پڑ گئی۔ اس نے وہیں کھڑے ہو کر میری قے کا معائنہ کرنا شروع کر دیا۔ جب وہ اس معائنے سے فارغ ہوا تو اس نے چند لڑکوں کو بلایا اور پوچھا کہ یہ قے کس نے کی ہے۔ لڑکوں نے میرے بارے میں بتادیا تو استاد نے فوراً ہی مجھے اپنے پاس بلا لیا۔ میری طبیعت سخت خراب تھی۔ مگر میں استاد کے بلانے پر چلا گیا۔ استاد نے بڑے غصہ سے مجھ سے پوچھا کہ یہ قے تمہی نے کی ہے۔ میں نے ہاں میں جواب دیا۔

            ‘‘تم نے اتنا زیادہ گوشت کہاں سے کھایاہے؟’’ استاد نے میری کی ہوئی قے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہاـ: ‘‘یہ دیکھو، بوٹیاں ہی بوٹیاں تمہارے پیٹ سے نکل کر یہاں نکلی پڑی ہیں۔’’

            لڑکوں نے جو مجھے ہدایات سنائی تھیں ان میں سے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ تم سے کوئی غلطی یا قصور سرزد ہو بھی جائے تو پوچھنے والا بے شک پوچھتا رہے، اپنا سر کھپاتا رہے مگر تم نے کسی صورت میں بھی اپنا جرم و قصور تسلیم نہ کرنا ہوگا۔ اگر مان جاؤ گے تو پھر اس جرم و قصور کے مطابق سخت سزا کے مستحق بن جاؤ گے۔ مجھے اپنے ساتھیوں کی یہ ہدایت یاد آ گئی تو میں اپنے استاد کے سامنے صاف مکر گیا۔ صرف اتنا ہی کہا کہ استاد جی جو کھانا مدرسہ میں آیا تھا صرف وہی کھانا میں نے دیگر طالب علموں کے ساتھ بیٹھ کر کھایا ہے۔ میرے اس جواب کے بعد بھی استاد کومیرے جواب سے تسلی تو نہ ہوئی لیکن استاد نے مزید مجھے کچھ نہ کہا۔ ساتھ ہی مجھے اپنے کمرے میں جانے کی اجازت دی۔ میں دوبارہ اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گیا۔

            ابھی مجھے لیٹے تھوڑی ہی دیر گزری ہوگی کہ میرے دونوں ساتھی ہنستے مسکراتے ہوئے میرے پاس آ بیٹھے۔ اپنے استاد کے سامنے مکر جانے پر مجھے دونوں نے بہت شاباش دی۔

            رات بھر میں اپنی خراب طبیعت کی وجہ سے بے آرام رہا۔ اس دوران کسی نے بھی میری خیریت دریافت کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ چند دنوں تک میری طبیعت خراب سی رہی۔ مگر طبیعت خراب ہونے کے باوجود بھی میری حالت پر کسی کو ترس نہ آیا۔ اپنی ناساز طبیعت کے باوجود بھی روزانہ میں گھروں سے روٹی وغیرہ مانگنے جاتا رہا۔ آخر کچھ دنوں بعد بغیر کسی علاج معالجہ کے میری طبیعت ٹھیک ہو گئی۔

            مجھے اس مدرسہ میں آئے تقریباً دو ماہ کا عرصہ بیت گیا مگر اپنے گھر کا کوئی ایک فرد بھی میری خبر لینے نہ آیا۔ حالانکہ تقریباً ہر شب میں اس امید کے ساتھ سوجایا کرتا تھا کہ اگلی صبح کوئی نہ کوئی اپنے گھر کا فرد ضرور میرے پاس آئے گا۔ سارا دن ان کے انتظار میں ہی گزر جاتا۔ مگر کوئی بھی میری خبر لینے نہ آیا۔ اب جوں جوں دن گزر رہے تھے میں اپنے گھروالوں کے لیے اداس سا ہوتا جا رہا تھا۔ اب دن رات مجھے اپنے گھر والوں کی یاد ستانے لگ گئی۔

            ایک دن میں اپنے مدرسہ کے وڈے استاد کے پاس چلا گیا۔ اس کے پاس جا کر میں نے اپنے گھر جانے کی اجازت مانگی تو اس وڈے استاد نے مجھے اپنے گھر جانے کی اجازت دینے کے بجائے مجھے خوب جھاڑا اور ساتھ ہی مجھے تاکید بھی کی کہ آئندہ گھر جانے کا نام نہیں لینا ورنہ سخت سزا ملے گی۔ اپنے گھر جانے کی اجازت نہ ملنے پر میں بہت زیادہ رنجیدہ سا ہوگیا۔ اپنے میں کمرے میں واپس آکر خوب رویا۔

            اسی مدرسہ میں ایک اور طالب علم بھی تھا جس کا گاؤں میرے گاؤں سے چند ہی میل دور تھا۔ یہ لڑکا بھی کافی عرصہ سے اپنے گھر کو نہیں گیا تھا جس کی وجہ سے یہ لڑکا بھی اپنے گھر جانے کے لیے بہت زیادہ بے چین اور بے قرار ساتھا۔ ایک ہی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہ لڑکا میرا دوست بن گیا تھا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں اپنے گھر والوں کے لیے اداس ہوں تو اس نے بھی مجھے اپنی حالت بتائی۔ ہم دونوں نے خفیہ طور پر اس مدرسہ سے بھاگ کر اپنے اپنے گاؤں جانے کا فیصلہ کر لیا۔ میں تو اپنے گاؤں جانے والے راستوں سے ناواقف تھا۔ چونکہ لڑکا چند برسوں سے اس مدرسہ میں پڑھ رہا تھا اس دوران یہ لڑکا کئی مرتبہ اپنے گاؤں جا چکا تھا۔ اس لیے یہ لڑکا گاؤں جانے والے راستوں سے بخوبی واقف تھا۔

            ہم نے فرار ہونے کی تیاری کر لی۔ پروگرام کے مطابق جب رات ہوئی اور تقریباً سارے مدرسے والے سو گئے تو ہم دونوں چوری چھپے مدرسہ سے نکل کھڑے ہوئے۔ مدرسہ سے آبادی ختم ہونے تک ہمیں خطرہ تھا کہ ہم کہیں پکڑے نہ جائیں۔ ڈر اور خوف کے مارے تقریباًدوڑتے ہوئے ہم جلد ہی آبادی سے بخیریت باہر نکل گئے۔ یہ ایک کچا راستہ تھا جس پر ہم دونوں چلے جار ہے تھے۔ میں کبھی بھی اتنا زیادہ پیدل نہ چلا تھا۔ زیادہ چلنے کی وجہ سے تھک گیا تھا۔ مگر اس لڑکے کے کہنے پر مجھے مجبوراً چلنا پڑجاتا۔ ہم دونوں اس رات کے اندھیرے میں کوئی پانچ چھ میل پیدل چلے ہوں گے۔ اس سڑک کے نزدیک ہی ایک چھوٹی سی آبادی تھی۔ جب ہم اس آبادی کے برابر سے گزر رہے تھے تو اس آبادی کے کتوں نے ہمیں دیکھ لیا۔ تھوڑی ہی دیر میں بہت سارے کتے بھونکتے ہوئے ہماری طرف آنے لگے۔ کتوں کو آتا دیکھ کر میں سخت گھبرا گیا۔ اب کتوں کے بھونکنے کی آوازیں بہت قریب سے سنائی دینے لگیں تو ہم دونوں ڈر اور خوف کے مارے بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہمارے پاس تو کوئی ایسا ہتھیاروغیرہ نہ تھا کہ جس سے ہم اپنا دفاع کرتے۔ آخر کار بہت سارے کتوں نے آ کر ہمیں گھیر لیا۔ نہ جانے کیا وجہ تھی یا یہ کس قسم اور نسل کے کتے تھے کہ یہ ہم پر حملہ آور ہونے کے بجائے ہمیں گھیرے میں لے کھڑے ہو کر بھونکنے اور غرانے لگ گئے۔ غالباً یہ تربیت یافتہ کتے تھے۔

            رات کے وقت کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سن کر اس آبادی کے کچھ افراد ہاتھوں میں لاٹھیاں اور کلہاڑیاں وغیرہ لے کر بھاگتے ہوئے آگئے۔ انہوں نے آتے ہی کتوں کو دور بھگایا۔ پھر وہ سیدھے ہمارے پاس آگئے۔ اس وقت ہم دونوں ڈر اور خوف کے مارے زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔ پہلے تو وہ سب ہم دونوں کو اس رات کے اندھیرے میں اور اس ویران راستہ پر دیکھ کر حیران سے رہ گئے۔ آخر ان آدمیوں میں سے ایک پکی عمر کا آدمی ہمارے قریب آیا اور آتے ہی سب سے پہلے ہم سے یہ پوچھا کہ تم دونوں کون ہو۔ کہاں سے آرہے ہو اور تمہیں کہاں جانا ہے۔ میرا ساتھی تو خاموش رہا۔ میں نے اس آدمی کو بتایاکہ ہم فلاں گاؤں جار ہے ہیں۔

            ‘‘ماما! یہ جھوٹ بول رہا ہے۔’’ وہاں کھڑا ہوا ایک آدمی بول پڑا۔ ‘‘یہ آدھی رات کا وقت اس گاؤں کے جانے کا ہے۔ ضرور یہ دونوں کوئی واردات کر کے آرہے ہیں یا واردات کرنے جا رہے ہیں۔’’

            میں نے خدا کی قسمیں اٹھا اٹھا کر انہیں یقین دلانے کی بھر پور کوشش کی مگر وہ نہ مانے۔ انہوں نے ہم دونوں کو پکڑا اور اپنے ڈیرے پر لے گئے۔ یہ ڈیرہ دورنہیں تھا۔ وہاں جاکر ایک کمرے میں زمین پر ہمیں مجرموں کی طرح بٹھا کر ہم سے ان آدمیوں نے پولیس والوں کی طرح تفتیش کرنا شروع کر دی۔ اس دوران اس آبادی کے کئی بوڑھے جوان اس کمرے میں آگئے۔ بہت زیادہ پیدل چلنے کی وجہ سے اس وقت ہم دونوں کی حالت بہت زیادہ خراب سی ہو رہی تھی ۔ پھر اوپر سے تفتیش کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔

            ان میں سے ایک آدمی نے دوران تفتیش مجھ سے پوچھا کہ تم کس کے بیٹے ہو۔ جب میں نے اس آدمی کو اپنے باپ ، چچا اور خاندان وغیرہ کے بارے میں بتایا تو یہ سن کر ان سارے آدمیوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ یہ سارے میرے خاندان اور چچا وغیرہ کا سن کر حیران رہ گئے۔ یہ لوگ میرے چچا وغیرہ کو جانتے تھے۔ جب انہوں نے یہ سنا تو ایک آدمی ہماری طرف بڑھا۔

            ‘‘بیٹا! شکر ہے کہ ہمیں وقت پر پتہ چل گیا ہے کہ تو کون ہے۔’’ اس آدمی نے کہا ‘‘ہم تم دونوں پر کوئی زیادتی وغیرہ نہ کر بیٹھے۔ تمہارے خاندان کو کون نہیں جانتا۔ وہی تو ہمارے علاقہ کے سردار ہیں۔ تھوڑی دیر میں انہوں نے ہمارے لیے بستر لگا دیے۔ میں چونکہ سخت تھکا ہوا تھا جونہی بستر پر لیٹا، میں سوگیا۔ صبح سویرے نیند سے جگا دیا گیا۔ ناشتہ سے فارغ ہوئے تو دو آدمی ہم دونوں کو اپنے ہمراہ گھوڑوں پر سوار کر کے چل پڑے۔ میں تو یہ سمجھتا رہا کہ یہ لوگ ہمیں اپنے گاؤں کی طرف لے جارہے ہیں۔ مگر میرا ساتھی اچانک بول اٹھا کہ ہمیں دوبارہ مدرسہ میں نہ لے جائیں۔ تب مجھے بھی سمجھ آئی کہ یہ لوگ ہمیں گاؤں کے بجائے مدرسہ کی طرف لے جار ہے ہیں۔ اپنی ساتھی کی طرح ان آدمیوں کے آگے میں نے بھی فریادیں کرنا شروع کر دیں کہ خدا کے واسطے ہمیں دوبارہ مدرسہ میں نہ لے جائیں مگر ان آدمیوں کے آگے تو ہماری آہ و زاری بے سود ہی رہی۔

            دوپہر کے وقت انہوں نے ہمیں مدرسہ میں پہنچا دیا۔ جونہی مدرسہ والوں نے ہمیں دیکھا، پکڑ کر سیدھا وڈے استاد کے سامنے پیش کر دیا۔ ان آدمیوں نے وڈے استاد اور اس مدرسہ کے دیگر عملہ والوں کو ہمارے بارے میں ساری کارروائی سنائی۔ ان آدمیوں کی بات سن کر وڈا استاد جو اس وقت سخت غصہ کی حالت میں اچھل رہا تھا، اس نے مدرسہ سے تین چار موٹے تازے صحت مند لڑکے بلوا لیے۔ جب یہ لڑکے آ پہنچے تو وڈے استاد نے انتہائی غصہ کے عالم میں ان سے کہا کہ ان دونوں کا خوب اچھے طریقے سے علاج کر دو تا کہ پھر دوبارہ آئندہ کے لیے یہ مدرسہ سے بھاگنے کا سوچ بھی نہ سکیں۔

            وڈے استاد کا حکم سنتے ہی ان ظالم لڑکوں نے ہمیں دبوچ لیا۔ ٹانگوں سے پکڑکر گھسیٹتے ہوئے مدرسہ سے ملحقہ ایک چھوٹے سے خالی مکان کے اندر لے گئے۔ وہاں ہمیں لے جاتے ہی ان مسٹنڈوں نے ہم دونوں کو بے دردی سے مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ وقفہ وقفہ سے مار پیٹ کا سلسلہ چند روز تک جاری رہا۔ رات کو ہمیں اس مکان کے ایک کمرہ میں بند کر دیا جاتا۔ صبح سویرے باہر نکال کر مار پیٹ کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ مار کھا کھا کہ ہم دونوں کی جسمانی حالت انتہائی خراب ہو گئی تھی۔

            ایک روز مدرسہ کا ایک اور لڑکا ہمارے کمرے میں آیا۔ یہ لڑکا مجھے اپنے ہمراہ وڈے استاد کے پاس لے گیا۔ جب میں وڈے استاد کے کمرے میں پہنچا، وہاں میں نے جاتے ہی اپنے دو چچوں کو اپنے استاد کے ہمراہ بیٹھے ہوئے دیکھا۔ جونہی ان پر میری نظرپڑی، میری تو چیخیں نکل گئیں۔ میں اپنے چچا کے ساتھ لپٹنے کے لیے ان کی طرف بڑھا تو میرے دونوں چچا نے مجھے اپنے نزدیک آنے سے سختی سے منع کر دیا۔ مجبوراً میں وہیں روتا چلاتا کھڑا رہ گیا۔

            چچا نے مجھے ڈانٹنا شروع کر دیا۔ کافی دیر تک مجھے ڈانٹتے جھاڑتے رہے پھر میرے سامنے اس وڈے استاد سے کہا کہ اس لوفر پر اس طرح کی سختی اور کنٹرول کرو تا کہ یہ دوبارہ اس مدرسہ سے فرار ہونے کی جرأت نہ کر سکے۔ پھر انہوں نے مجھے دفع ہونے کا کہا۔

            میرے پورے وجود کے انگ انگ میں ایک عجیب قسم کا درد پیدا ہوگیا تھا۔ اس مار پیٹ کی وجہ سے میرا حلیہ تک بگڑ گیا ۔ مگر اپنے چچا کا یہ سلوک اور رویہ دیکھ کر مجھے اپنے سارے درد بھول گئے۔یقین کریں کہ ان کی ڈانٹ سن کر میرا دل و کلیجہ پھٹنے کو آگیاتھا۔ مجھے چچا سے اس سلوک کی ہر گز امید نہ تھی۔ یہ دکھ اس مار پیٹ والے دکھ سے کہیں زیادہ تھا۔ جب میں اپنے کمرے میں واپس آیا تو میرا ساتھی میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ تمہیں وڈے استاد نے کیوں اپنے پاس بلوایا تھا۔ میں نے اسے اپنے دل کا دکھڑا سنایا۔وہ بھی میرے چچا کے ایسے رویے پر ششدر ہو کر رہ گیا۔

            اس کمرہ میں ہمیں قید ہوئے تقریباً ساتھ آٹھ دن اور گزرے تو ایک دن ہمیں کمرے سے نکال کر باہر صحن میں بٹھا دیا گیا۔ اتنے میں ایک لوہار اپنے ساز و سامان اور اوزاروں کے ساتھ آکر ہمارے پاس بیٹھ گیا۔ اس نے بیٹھتے ہی ایک پرانے سے تھیلے میں سے اپنے اوزاروں کے ساتھ زنجیریں نکالیں۔ اس دوران تین چار لڑکوں نے مجھے مضبوطی سے پکڑ کر دبوچ لیا۔ انہوں نے جونہی مجھے قابو کیا اس لوہار نے میرے پاؤں کو ان زنجیروں سے باندھنا شروع کر دیا۔ یہ خوفناک منظر دیکھ کر تو میری روح بھی کانپ اٹھی۔ اس دوران میں نے چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر مجھے ان مسٹنڈے لڑکوں نے اس طرح مضبوطی سے قابو کررکھا تھا کہ میں اپنی اس بربادی پر تڑپ بھی نہ سکا۔

            کچھ دیر میں ہی اس آدمی نے میرے پاؤں میں زنجیریں ڈال دیں۔ اس کے بعد پھر میرے دوسرے ساتھی کی باری آئی۔ اس لوہار نے اس کے پاؤں کو بھی زنجیروں سے جکڑ دیا۔ جب ہم زنجیروں میں جکڑ دیے گئے تو ان لڑکوں نے وڈے استاد اور چند دیگر استادوں کو بلا لیا۔ جونہی وہ ہماری بے بسی کا تماشہ دیکھنے کے لیے پہنچے تو وڈے استاد نے دھاڑ کر ہمیں حکم دیا کہ اٹھو اور ہمیں چل کر دکھاؤ۔ ہم کچھ قدم چلے تو سہی مگر انتہائی مشکل سے۔ چونکہ ہمارے پاؤں زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ چلنے کے دوران ہم دونوں گر بھی پڑے۔ ہمیں بری طرح گرتا دیکھ کر وڈے استاد اور دیگر تماشائیوں کے منہ سے قہقہے سے نکل جاتے۔

            ‘‘انہیں گرنے دو۔’’ وڈے استاد نے کہا: ‘‘نئی نئی بات ہے، آخر کب تک گریں گے۔ کچھ دنوں کے بعدیہ خود بخود ہی اس کے عادی بن جائیں گے۔’’

            زنجیر لگنے کے کچھ دن بعد ہم دونوں کو دوبارہ مدرسہ میں رہنے کی اجازت دے دی گئی۔ صبح نماز، درس وغیرہ کے بعد ہم دونوں کی ڈیوٹی لگا دی گئی کہ مسجد اور سارے مدرسہ کی عمار ت کی صفائی وغیرہ کیا کریں۔ چنانچہ اسی بری حالت میں چند ماہ مدرسہ میں جھاڑو وغیرہ دیتے گزر گئے۔ ایک دن میں اورمیرا ساتھی صفائی کے کام میں لگے ہوئے تھے ۔ دوپہر کا وقت تھا کہ مدرسہ کا ایک لڑکا میرے پاس آیا اور آکرکہنے لگا کہ تمہارا ایک مہمان آیا ہوا ہے۔ جو اس وقت مسجد میں بیٹھا ہے۔ مہمان کا سن کر میں حیران ہوگیا کہ میرا یہ مہمان آخر ہے کون۔ ساتھ خوش بھی ہوا۔ اس مہمان کے بارے میں کھڑا سوچتا رہا۔

            میں نے مسجد کے ہال میں جھانک کر دیکھا تو مجھے ایک آدمی بیٹھا ہوا نظر آیا مگر دور سے میں اسے پہچان نہ سکا۔ جب میں چلتا تھا میرے چلنے سے زنجیر کی آواز پیدا ہوتی تھی۔ پھر اس کمرے کی خاموشی میں تو زنجیروں کی آواز زیادہ گونج رہی تھی۔ زنجیروں کے فرش پر گھسٹنے کی آواز سن کر وہ آدمی اپنی جگہ اٹھ کھڑا ہو۔ جب میں اس کے قریب پہنچا اور اسے غور سے دیکھا تو فوراً ہی پہچان گیا۔ وہ چاچا بخشو تھا۔ میں اس سے لپٹ گیا۔ اس نے بھی بڑے پیار و خلوص کے ساتھ مجھے اپنے گلے لگا لیا۔میں اس سے لپٹ کر خوب رویا۔ رو رو کر میرے دل پر کافی عرصہ کا چھایا ہوا غبار کچھ ہلکا ہوا تو پھر چاچا کے ساتھ باتیں ہوئیں۔ سب سے پہلے چاچا نے مجھ سے ان پاؤں میں لگی بیڑیوں کے بارے میں پوچھا۔ کیونکہ وہ میرے پاؤں میں ان بیڑیوں کو دیکھ کر بے حد افسردہ سے ہو رہے تھے۔ اپنے اساتذہ کی اجازت سے چاچا کو اپنے کمرے میں لے آیا۔ مہمان کی وجہ سے مجھ سے بیگار کا کام نہ لیا گیا۔ چاچا نے اس دوران میرے ساتھ کافی باتیں کیں۔ چاچا نے میرے ماں باپ کے علاوہ میرے چچوں کے بارے میں کئی انکشافات بھی کیے جن کو میں زندگی میں پہلی بار سن کر حیران رہ گیا۔

            ‘‘کیاآپ کو ان وجوہات کا علم ہے؟’’ میں نے بخشو چاچا سے پوچھا‘‘ کہ میرے چچا وغیرہ کیوں میرے ساتھ غیروں جیسا سلوک کر رہے ہیں؟’’

            ‘‘میں تمہیں پریشان کرنے تمہارے پاس نہیں آیا تھا۔’’ چاچا نے کہا ‘‘شکر ہے کہ تم نے خود ہی مجھ سے پوچھ لیا ہے۔ ویسے تم کو اپنے اور اپنے چچا وغیرہ کی حقیقت کے بارے میں آگاہ ہونا ضروری ہے تا کہ تم کسی بھی وقت ان کے دھوکے میں آکر اپنے ماں باپ کی طرح جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھو…… تمہیں معلوم ہے یا نہیں، میری عمر کا بیشتر حصہ تمہارے گھرانے کی خدمت کرتے ہوئے گزرگیا، اس لیے تمہارے اس گھرانے کا وہ کون سا چھوٹا بڑا راز ہے جس کا مجھے علم نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ میں نے عمر بھر تمہارے گھر کا نمک کھایا ہے۔ مگر آج تک میں نے تمہارے گھرانے کی کوئی بات بھی لوگوں کے سامنے ظاہر نہ کی۔ تمہاری اس حالت کو دیکھ کرمیرے دل کو بہت صدمہ ہوا ہے اتنے بڑے باپ اور خاندان کا بیٹا آج اس حال میں ہے...

            ‘‘آج تمہارے پاؤں میں زنجیریں پڑی دیکھ کر دل چاہا کہ دیوار کے ساتھ ٹکریں مار مار کر اپنا سر پھوڑ لوں۔ میں تیرے باپ کا اگرچہ ایک ادنیٰ سا نوکر تھا مگر ہم دونوں کی دوستی پورے علاقے میں مشہور ہوا کرتی تھی۔ تیرا باپ میرا جگری یار ہوا کرتا تھا۔ تیرا باپ غریبوں کا انتہائی ہمدرد اور انتہائی رحم دل انسان تھا۔ کیاتمہیں معلوم ہے کہ تیرا باپ اپنے باپ کی ایک لمبی چوڑی جائیداد میں اپنے سوتیلے بھائیوں میں برابر کا حصہ دار تھا۔’’

            چاچا کے منہ سے بار بار سوتیلے بھائی کا ذکر سن کر میں نے چاچا سے پوچھا کہ کیا یہ میرے تینوں چچا میرے باپ کے سوتیلے بھائی تھے۔ تو چاچا نے حیرانگی سے مجھ سے کہا۔ بیٹا کیا تمہیں پہلے معلوم نہیں ہے کہ یہ تیرے سارے چچا وغیرہ تیرے باپ کے سوتیلے بھائی تھے۔ تیرا باپ تو اکلوتا تھا۔ نہ اس کا کوئی بھائی اور نہ ہی اس کی کوئی سگی بہن تھی۔ بس اکیلا ہی تھا۔

            ‘‘تمہیں بیٹا ایک اور خاص بات بتاؤں۔’’ بخشو چاچا نے کہا ‘‘ شاید تم نے بھی سن رکھا ہوگا کہ تمہارا باپ ایک زہریلے سانپ کے ڈسنے سے اچانک مر گیا تھا اور اس کے مرنے کے چند سال بعد تمہاری ماں اپنے ہی گھر کے ایک پالتو بیل کی ٹکر لگنے سے ہلاک ہو گئی تھی۔ بیٹا خدا پر یقین کرو، یہ سارا جھوٹ اور بکواس تھا۔حقیقت یہ تھی کہ تمہارے چچا اور ان کی گھر والیاں تمہارے باپ کی جائیداد ہتھیانے کے چکر اور لالچ میں پڑ گئے اور اسی لالچ نے ان کو اندھا کر دیا تھا۔ اپنے کسی منصوبے کے تحت تمہارے باپ اور ماں کو مروا کر اپنے لیے راستہ صاف کر دیا۔ اس وقت صرف تم ہی اپنے باپ کی وراثت کے حقدار ہو

            ان لوگوں نے ہمیں بھی کبھی کا مروا دیا ہوتا۔ نہ جانے اب ان کا تیرے بارے میں کیا منصوبہ ہے۔ بیٹا، تو مجھے اپنے سگے بیٹوں کی طرح پیارا ہے۔ تمہیں یاد ہے کہ ایک دن تیری ذات کے لیے میں مسجدکے اندر تیرے چچا وغیرہ کے ساتھ جھگڑ پڑا تھا کیونکہ اس وقت تیرے بڑے چچا کی باتیں سن کر مجھے شبہ سا پڑگیا کہ کہیں تمہیں بھی جان سے مار دینے کا منصوبہ تو نہیں ہے۔یہ ظالم لوگ تمہیں بھی کبھی کا مار یا مروا دیتے۔ شاید ان کو یہ ڈر پڑگیا تھا کہ کہیں لوگوں کو کوئی شک نہ پڑ جائے اور پچھلے بھید بھی نہ کھل جائیں۔’’

            چاچا میرے ساتھ بیٹھا نیا سے نیا انکشاف کرتا جارہا تھا اور میں بیٹھا ان انکشافات کو سن سن کر حیران سے بھی زیادہ حیران ہوتا جا رہا تھا۔

            ‘‘بیٹا ! اپنے چچا اور سب گھر والوں سے سنبھل اور محتاط ہوکر رہنا۔’’ سارے انکشافات کرنے کے بعد آخر میں چاچا نے کہا: ‘‘مجھے پورا یقین ہے کہ یہ لوگ تمہیں ضرور دھوکہ دیں گے۔ مناسب تو یہی ہے کہ تم اس مدرسہ سے بھی کہیں اور چلے جاؤ تا کہ تمہارے چاچا وغیرہ کو تمہارے بارے میں خبر بھی نہ ہوسکے کہ تم کہاں چلے گئے ہو اور ہاں، جب اپنے گھر کے لیے اداس ہو جایا کرو تو بیٹا میرا گھر تیرا اپنا ہی گھر ہے۔’’

            چاچا نے مجھے اپنے گاؤں کا پورا اتا پتا سمجھایا۔ چاچا بخشو میرے واسطے نئے کپڑوں کا سلا ہوا جوڑا، نئے جوتے اور اپنے گھر سے مٹھائی بھی بنوا کر لایا تھا۔ باتوں باتوں کے درمیان جونہی چاچا کی نظر میرے پاؤں میں پڑی زنجیروں پر پھرپڑی تو وہ اپنی بات کو ادھورا چھوڑ کر میرے چاچا اور ان مدرسے والوں کو برا بھلا کہنا اور کوسنا شروع کر دیا۔

            انہی باتوں کے دوران ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا۔ میں اور چاچا نماز پڑھنے کے لیے مسجد چلے گئے۔ جب نماز وغیرہ پڑھ لی گئی اور کچھ نمازی وڈے استاد کے ارد گرد ہو کر مسئلے مسائل پوچھنے کے لیے بیٹھ گئے تو چاچا بھی اپنی جگہ سے اٹھ کر سیدھا ان آدمیوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔

            ‘‘کیا آپ ہی اس مدرسہ کے منتظم اعلیٰ ہیں؟’’ چاچا نے بیٹھتے ہی اپنی مخصوص سی گرجدار آواز میں وڈے استاد سے پوچھا۔

            ‘‘بزرگو! بتائیں کیا بات ہے؟’’ وڈے استاد نے جواب دیا۔‘‘مولوی جی! کیا آپ صاحب اولاد ہیں یا نہیں؟’’وڈے استاد نے بڑی حیرانگی سے جواب دیا: ‘‘جی ہاں،میں صاحب اولاد ہوں۔’’وڈے استاد کی بات سن کر چاچا نے سخت غصہ سے کہا:‘‘مولوی! میں یہ نہیں مانتا کہ تیرے بھی بچے ہیں۔’’

            چاچا کے منہ سے یہ بات سن کر وہاں بیٹھے ہوئے سارے آدمی چاچا کو ایک حیرت کی نگاہ سے دیکھنے لگ گئے۔ چاچا کی یہ بات سن کر وڈا اُستاد ایک عجیب سی ہنسی ہنسااور پھر ساتھ ہی کہنا لگا۔ تم بے شک نہ مانو ۔ میں نے اپنے بچوں کے بارے میں کسی کو منوانا تھوڑا ہی ہے۔

            ‘‘میاں جی! اگر تم واقعی صاحب اولاد ہوتے۔’’ چاچا نے پھر گرجتے ہوئے کہا ‘‘بچوں والے ہوتے تو وہ دیکھو۔’’ چاچا نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ‘‘کیا برا حشر کر دیا تم لوگوں نے اس بچے کا۔ کیا تم سب کو ذرا بھی رحم نہ آیا اس معصوم اور یتیم بچے پر؟ اس سے تو کہیں یہ بہتر تھا کہ یہ بچہ تمہارے دینی مدرسہ کی بجائے کسی جیل خانے میں چلا گیا ہوتا۔’’

            ‘‘اوئے تم ہوتے کون ہو؟’’ وڈا استاد غصے سے بھڑک کر بولا ‘‘ہمارے مدرسے کے معاملات میں دخل دینے والے تم ہو کون؟’’

            چاچا ان کو کوئی جواب دینے چاہتے تھے کہ وڈے استاد نے چاچا کو مسجد سے باہر نکل جانے کا کہا مگر اس کے جواب میں چاچا نے مسجد سے یہ کہہ کر نکل جانے سے انکار کر دیا کہ تم کون ہوتے ہو مجھے خدا کے گھر سے نکالنے والے۔ اتنے میں ہمارے مدرسہ کے تین چار آدمی اٹھے اور چاچا کے پاس جا کر انہوں نے مسجد سے نکل جانے کا کہا۔

            ‘‘مولوی جی! میں تو واپس جا رہا ہوں’’ چاچا نے وڈے استاد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:‘‘مگر میری چند باتیں غور سے سن لو۔ اس بچے کو لا وارث نہ سمجھیں۔ اگر اس کے اپنوں نے اس معصوم کو دھکا دے کر آپ کے پاس لا پھینکا ہے مگر آج میں خانہ ِ خدا میں کھڑا ہو کر قسم اٹھا رہا ہوں کہ آج کے بعد میں ہی اس کا وارث ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ میرے جانے کے بعد اسے تنگ کرنا شروع کر دیا جائے۔ تم جیسے ظالموں نے اس معصوم بچے کو زنجیروں سے جکڑ رکھا ہے۔ تمہارے حق میں بہتر یہ ہوگا کہ اسے زنجیروں سے آزادکر دو۔’’ چاچا اسی طرح دھاڑتا ہوا مسجد سے نکل گیا۔

            اس بات کو ابھی بمشکل ایک ہی ہفتہ گزرا ہوگا کہ ایک دن میرا بڑا چچا مدرسہ میں آ دھمکا۔ چچا نے مدرسہ پہنچتے ہی مجھے اپنے پاس وڈے استاد کے کمرے میں بلوا لیا۔ جب میں اس کمرے میں داخل ہوا تو چچا وڈے استاد کے ساتھ بیٹھا باتیں کر رہا تھا۔ میرے داخل ہوتے ہی ان دونوں نے آپس میں گفتگو کرنا چھوڑ دی۔ چچا نے انتہائی غصہ میں مجھ سے پوچھا کہ بخشو کیا لینے دینے آیا تیرے پاس۔ میں نے صرف اتنا ہی کہہ دیا کہ مجھے تو معلوم نہیں ہے کہ چاچا بخشو کیا لینے دینے آیا تھا۔ یہ بات ابھی میرے منہ میں ہی تھی کہ چچا یک دم اٹھا اور اپنے پاؤں سے جوتا اتار کر میری پٹائی شروع کرنا شروع کر دی۔ چچا نے مجھے خوب مارا۔ آخر وڈے استاد نے مجھے چچا سے نجات دلائی۔ وڈے استاد نے مجھے اپنے کمرے سے نکل جانے کا کہا۔

            اس کے بعد مجھ پر نگرانی بھی سخت کر دی گئی اور ساتھ ہی مجھ سے بیگار کاکام بھی زیادہ کرایا جانے لگا۔ تقریباً سارا دن کام کرتے کرتے میرا جسم تھکاوٹ سے چور چور ہوجاتا۔ اب اس مدرسہ میں پڑھائی کے بجائے زیادہ تر مجھ سے بیگار لی جانے لگی۔

            انہی برے حالات میں تقریباً ایک ماہ گزرا تھا کہ ایک دن دوپہر کے وقت اچانک سات آٹھ آدمیوں کی ٹیم ہمارے مدرسہ میں آپہنچی۔ میں اس وقت اپنے مدرسہ کے صحن میں جھاڑو دے رہا تھا۔ اس گروپ کے آدمی مجھ سے ذرا فاصلے پر آ کر کھڑے ہوگئے اور بڑے غور سے مجھے دیکھنے لگے۔ میں ان کو دیکھ کر ڈر گیا کہ نہ جانے یہ لوگ کیوں مجھے غور سے دیکھ رہے ہیں۔ اچانک ان میں سے ایک آدمی میرے پاس آگیا۔ آتے ہی اس نے مجھ سے کہا۔ بیٹا ذرا میرے ساتھ آؤ۔ ہمارا صاحب تمہیں بلا رہاہے۔

            میرے چہرے پر گھبراہٹ کے اثرات دیکھ کر اس آدمی نے مجھ سے کہا: بیٹا ڈرو نہیں۔ ہم تجھے کچھ نہیں کہتے۔ صرف ہمارا صاحب تمہارے ساتھ کوئی بات کرنا چاہتا ہے۔ اس آدمی کے دوبارہ کہنے پر میں نے جھاڑو زمین پر پھینکا اور اس آدمی کے ہمراہ ان لوگوں کے آگے خاموشی سے جا کھڑا ہوا۔ تقریباً سارے ہی آدمی ایک عجیب سی خاموشی کے ساتھ مجھے دیکھتے رہے۔ پھر کچھ دیر کے بعد ان میں سے ایک آدمی چند قدم بڑھ کر میرے پاس ہی آکھڑا ہوا۔ اس نے آتے ہی بڑے پیار اور شفقت سے اپنا ہاتھ میرے سر پر پھیرا پھر مجھ سے اس آدمی نے پوچھا۔ بیٹا، تم اس مدرسہ میں پڑھتے ہو۔ میں نے ہاں میں جواب دیا۔‘کب سے یہاں پڑھ رہے ہو؟’’

            ‘‘جی تقریباً ایک سال سے۔’’ میں نے جواب دیا۔

            ‘‘بیٹا ! بھلا ہمیں یہ بتاؤ کہ یہ زنجیر جو تمہارے پاؤں میں لگے ہیں یہ کس نے لگائے ہیں؟’’ جب اس آدمی نے یہ بات مجھ سے پوچھی تو جواب دینے کے بجائے میں اس کے آگے رو پڑا۔ مجھے یوں روتا دیکھ اس آدمی نے پھر مجھ سے پوچھا:‘‘بیٹا! ہم تمہیں رلانے یا ڈرانے کے لیے یہاں نہیں آئے ہیں۔ ہمیں یہ بتاؤ کہ اس مدرسہ میں تمہارے علاوہ کوئی اور لڑکے بھی ہیں کہ جن پاؤں میں یہ زنجیریں لگی ہوئی ہوں؟’’

            ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ وڈا استاد اور دیگر استاد بھی دوڑتے ہاپنتے ہوئے آ پہنچے۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے سارے اساتذہ نے بڑی عزت و احترام کے ساتھ ان آدمیوں کے آگے جھک جھک کر مصافحہ کیا۔ پھر یہ سارے استاد ایک طرف ہو کر کھڑے ہو گئے۔ میں ان دونوں کے درمیان ہی کھڑا رہ گیا۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد جس آدمی نے میرے ساتھ باتیں کی تھیں ، اس نے اساتذہ سے پوچھا کہ اس مدرسہ کا منتظم اعلیٰ کہاں ہے۔ یہ سن کر وڈے استاد نے اپنا ایک قدم آگے بڑھایا اور اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ جی جناب میں ہی اس مدرسہ کا منتظم اعلیٰ ہوں۔

            ‘‘منتظم اعلیٰ صاحب!’’ اس آدمی نے کہا:‘‘آپ کے اس مدرسہ میں یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟’’ اس آدمی نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

            ‘‘جناب ! ہمارے مدرسہ میں کئی ایک طالب علم انتہائی لوفر اور شرارتی ہوتے ہیں۔’’ اس آدمی کے پوچھنے پر وڈے استاد نے کہا۔ ‘‘پھر انہی کے والدین کی اجازت سے ہی ہم ایسے بچوں کے ساتھ یہ سلوک کر لیتے ہیں۔’’

            وڈے استاد کا جواب سن کر یہ آدمی سخت غصہ میں آگیا۔ ساتھ ہی اس آدمی نے وڈے استاد سے پھر پوچھا کہ اس مدرسہ میں صرف یہی ایک شرارتی بچہ ہے یا کوئی اور بھی ہیں۔ اس آدمی کی یہ بات سن کر میں نے دیکھا کہ وڈے استاد کی پیشانی پر پسینہ پھوٹ نکلا۔ نہیں جناب اس لڑکے کے علاوہ اور کوئی بھی ایسا لڑکا نہیں ہے۔

            ‘‘مولانا جی! آپ تو ایک دینی مدرسہ کے منتظم اعلیٰ ہیں’’ وڈے استاد کا جواب سن کر اس آدمی نے بڑے آرام سے وڈے استاد سے کہا:‘‘کیا اسلام جھوٹ بولنے کی اجازت دیتا ہے؟’’

            ‘‘نہیں جی، اسلام تو ہر گز اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے وڈے استاد نے قرآن کی ایک آیت پڑھی پھر خود ہی اس کا ترجمہ کر کے سنایا کہ: ‘‘جھوٹے پر خدا کہ لعنت’’

            ‘‘میاں جی! تمہیں شرم آنی چاہیے۔’’ اس آدمی نے ڈانٹ کر کہا۔ ‘‘ اتنا کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود بھی تم نے ہمارے آگے جھوٹ سے کام لیا ہے کہ اس لڑکے کے علاوہ اور کوئی لڑکا نہیں ہے کہ جس کے پاؤں میں بیڑیاں لگی ہوئی ہوں... مولوی جی! قیدی لڑکوں کے بارے میں میرے پاس بے شمار شکایات موصول ہوتی ہیں۔ پر مجھے ان شکایات پر ہر گز یقین نہ آیا تھا کہ ایک دینی مدرسہ میں بھی بچوں کے ساتھ ایسا ظلم و ستم ڈھایا جاسکتا ہے۔ بتانے والوں نے مجھے سب کچھ ہی بتا دیا ہے۔ لہٰذا میرے آگے جھوٹ سے کام نہ لیں۔ سار ے لڑکے یہاں بلوائیں۔’’اس کے ساتھ ہی اس آدمی نے اپنے دو آدمیوں سے کہا کہ وہ خود بھی ان کے ساتھ جا کر وہ لڑکے یہاں لے آؤ۔ مجبوراً ہمارے اساتذہ کو بھی ان آدمیوں کے ہمراہ مدرسہ کے کمروں میں جانا پڑا۔ تھوڑی ہی دیر بعد پانچ چھ لڑکے جن کے پاؤں میں میری ہی طرح بیڑیاں لگی ہوئی تھیں، بڑی مشکل سے اپنے قدم اٹھاتے ہوئے میرے ساتھ آ کر کھڑے ہوگئے۔ جب اس آدمی نے ان لڑکوں کو اس حالت میں دیکھا تو اس کا چہرہ غصہ سے لال سرخ ہوگیا۔

            ‘‘میاں جی! ا ن معصوم بچوں کی اس حالت کو دیکھ کر میرے دل کو بڑی ہی ٹھیس پہنچی ہے۔’’ اس نے غصے اور دکھ سے کہا: ‘‘مولوی جی! کیا ہمارے پیغمبرؐ نے بھی اپنے شاگردوں کے ساتھ ایسا ہی برا سلوک کیا تھا؟ خدا نخواستہ اگر کوئی غیر مذہب ہمارے اس دینی مدرسہ کے طالب علموں کو اس نا گفتہ بہ حالت میں دیکھ لے تو تم خود ہی بتاؤ کہ وہ ہمارے دین اسلام اور ہمارے دینی مدرسوں کے بارے میں کیا تصور کرے گا؟ میاں جی! ان بیڑی لگے معصوم بچوں کو ابھی میں نے چلتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس حالت میں ان کے لیے ایک ایک قدم اٹھانا بھی مشکل سا ہو رہا تھا۔ اس کے باوجود مجھے یہ بھی رپورٹ ملی ہے کہ انہی آفتہ زدہ بچوں سے اس آبادی کے گھروں سے بھیک بھی منگوائی جاتی ہے۔ آخر یہ بھی کسی ماں باپ کے لخت جگر ہیں۔ انسانوں کے ہی بچے ہیں نہ کہ کسی حیوان کے۔’’

            یہ آدمی کوئی پڑھا لکھا بڑا سا افسر دکھائی دے رہا تھا۔ اس آدمی نے اپنے آگے کھڑے ہوئے تقریباً سارے اساتذہ کو کافی دیرتک خوب جھاڑا۔ جب یہ آدمی ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے ہٹا تو اس نے وڈے استاد کو حکم دیا کہ ابھی ابھی فوراً ہمارے سامنے ان بچوں کے پاؤں سے بیڑیاں اتروا ڈالو۔ یہ سن کر وڈے استاد نے فوراً ہی اپنے ساتھ کھڑے ہوئے ایک اور استاد سے کہا کہ جلدی سے جا کر لوہار کو بلا لاؤ۔ اس بڑے افسر نے سب سے پہلے میرے پاؤں سے بیڑیاں اتارنے کا کہا۔ جیسے ہی میرے پاؤں سے بیڑی اتری، میں اٹھ کر سیدھا اس افسر کے پاس جا کھڑا ہوا۔ اس کا شکریہ ادا کیا۔ اس طرح کچھ دیر بعد سارے لڑکوں کے پاؤں بیڑیوں سے آزاد ہوگئے۔

            اس افسر کے چلے جانے کے بعد ہمارے مدرسے کا ماحول خوشگوارسا بن گیا۔ وڈے استاداور ہمارے دیگر اساتذہ کے مزاجوں میں بھی تلخی اور غصہ کے بجائے ایک نرمی سی پیدا ہوگئی۔ اب نہ ہم سے کوئی خاص بیگار لیا جاتا اور نہ ہی طالب علموں کو بھیک مانگنے کے لیے آبادی کے دروازوں پر بھیجا جاتا۔ اب طالب علموں کا زیادہ تر وقت پڑھائی میں صرف ہونے لگا۔ میں اپنے گھر کے لیے تو پہلے سے کافی اداس تھا مگر اجازت نہیں تھی کہ میں گھر چلا جاؤں۔ اس افسر کے جانے کے تقریباً دس بارہ روز بعد جب میں نے اپنے اساتذہ سے اپنے گھر جانے کی اجازت مانگی تو وڈے استاد نے مجھے فوراً ہی گھر جانے کی اجازت دے دی۔ اس طرح میں دوسرے دن پیدل ہی اپنے گھر کی طرف روانہ ہو پڑا۔

            صبح کی نماز پڑھ کر میں گھر کے لیے روانہ ہوا تھا۔ میں سارا دن چلتا رہا۔ شام پڑ گئی۔ رات چھا گئی۔ رات کے کسی حصے میں اپنے گھر جا پہنچا۔ اس وقت گھر کے سارے افراد سوئے ہوئے تھے۔ مجھے اس طرح اچانک گھر میں دیکھ کر سارے حیران رہ گیا۔ مگر ان سب نے میرے گھر آجانے پر کوئی خاص خوشی وغیرہ کا اظہار نہ کیا۔ میں نے چونکہ دن رات پیدل سفر کیا تھا، راستے میں کوئی چیز کھانے کو نہ ملی تھی۔ اس لیے بھوک اور نیند سے بے تاب ہو رہا تھا۔ گھر والوں نے مجھ سے روٹی وغیرہ تک کا نہ پوچھا بلکہ مجبوراً مجھے خود کھانا مانگنا پڑا۔ کھانا کھاتے ہی میں سو گیا۔ صبح ہوئی تو دوپہر تک سویا رہا۔ آخر بڑی چچی نے مجھے جگا کر ناشتہ وغیرہ دیا۔

            میں ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہو کر ہی بیٹھا ہی تھا کہ میرا بڑا چچا میرے پاس آبیٹھا۔ اس نے میرے پاس بیٹھتے ہی مجھ سے کہا کہ تم نے افسر کے آگے اپنے مدرسہ والوں کی کیوں شکایت لگائی تھی۔ چچا کے منہ سے افسر اور پھر شکایت کا سن کر میں دنگ سا رہ گیا کہ ان کو اس افسر وغیرہ کی کس طرح خبر ہو گئی ہے۔ میں نے چچا سے کہا کہ میں نے تو اپنے مدرسہ والوں کی کوئی شکایت کسی کے آگے نہیں کی ہے۔

            ‘‘ذلیل کا بچہ! میرے آگے جھوٹ بولتا ہے۔’’ چچا نے غصے سے کہا:‘‘کل ہی تمہارے مدرسہ کا وڈا اُستاد میرے پاس یہاں آیا تھا۔ اس نے تیرے بارے میں سب کچھ مجھے بتا دیا ہے۔ تمہارے اس استاد نے مجھے یہ بھی بتا یا ہے کہ یہ ساری شیطانی بخشو کی معلوم ہوتی ہے۔ وہی شخص تمہارے پاس آ کر سارے سبق تمہیں پڑھا گیا ہے۔ جب تو کہنا اور سبق وغیرہ بخشو کے مانتا ہے تو چل ہمارے گھر سے بھی دفع ہوجا۔ ابھی ابھی اور فوراً ہی ہمارے گھر سے نکل جا۔’’

            ابھی میرا بڑا چچا مجھے گھر سے نکلنے کی دھمکیاں دے رہا تھا کہ اتنے میں ہمارا منجھلا چچا آکرہمارے پاس کھڑا ہوگیا۔‘‘بھائی! کیوں تم گھر والے اس بچے کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہو؟’’ اس نے آتے ہی میرے چچا سے کہاـ‘‘آخر یہ ہمارا ہی بیٹا ہے۔ اس نے اپنے ہی گھر میں آنا ہے۔ یہ بے چارہ آخر کہا ں جائے ؟ کچھ خدا کا خوف کرو۔ آخر اس ہمارے بیٹے نے ہمارا نقصان ہی کیا کِیا ہے؟ لہٰذا میری بات مانو، اس معصوم بچے کو یہیں اپنے گھر میں رہنے دو۔ اگر تم نے اس کو اپنے گھر سے نکال دیا اور یہ بچہ گاؤں میں کسی اور کے گھر میں جا ٹھہرا تو خود سوچو اس پورے گاؤں والوں کے آگے ہماری کیا عزت رہ جائے گی؟’’

            اس چچا نے اپنے بھائی کو سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانا۔ اس کے دماغ پر مجھے اپنے گھر اور گاؤں سے نکال دینے کا بھوت ہی سوار رہا۔آخر میرا منجھلا چچا بھی تھک ہار کر اپنے کمرے میں جا بیٹھا۔ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ چپکے سے اپنے گھر سے باہر نکل آیا۔ اب میں حیران و پریشان تھا کہ اب جاؤں تو کہاں جاؤں؟ ایک دو مرتبہ خیال آیا کہ دوبارہ اپنے مدرسہ میں چلا جاؤں مگر میرا دل نہ مانا۔

            آخر ذہن میں چاچا بخشو کا خیال آیا کہ کیوں نہ میں چاچا کے گھر چلا جاؤں۔ چاچا جب میرے پاس مدرسہ میں آیا تھا تو اس دوران اس نے مجھے اپنے گاؤں کے بارے میں بتایا تھا جو ہمارے گاؤں سے تقریباً دس بارہ میل دور تھا۔ چنانچہ میں نے اپنے دل ہی دل میں چاچا کے گھر جانے کے فیصلہ کر لیا۔ ساتھ ہی ساتھ مجھے یہ بھی انتظار رہا کہ شاید مرے چچا وغیرہ اپنے کیے پر پچھتا جائیں۔ مجھے آ کر اپنے گھر واپس لے جائیں۔ اس واسطے میں اسی انتظار میں بھی بیٹھا رہا۔ مگر ان کا انتظار کرتے کرتے جب کافی دیر گزر گئی۔ اپنے گھر کا کوئی فرد بھی مجھے لینے نہ آیا تو میرا دل بھر آیا۔

            میں چاچا کے گاؤں کی جانب چل پڑا۔ میں گاؤں کی آبادی سے گزر رہا تھا۔ ایک گلی میں کرم داد لوہار کی دکان تھی۔اس نے مجھے اپنی دکان کے آگے سے گزرتا ہوا دیکھا تو مجھے آواز دے کر اپنی دکان میں بلایا۔ تو میں اس کے پاس چلا گیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا۔ بیٹا ، کہاں جارہے ہو۔ میں نے اس سے کہا: بابا مجھے بڑے چچا نے گھر سے نکال دیا ہے۔

            بابا کرم داد نے مجھے اپنی دکان میں بیٹھ جانے کو کہا۔ جب میں بیٹھا تو اس نے مجھ سے کہابیٹا! پریشان مت ہو۔ نہ جانے تمہارے چچا کو کیا ہوگیا ہے۔ میں ابھی جاکر انہیں تمہارے بارے میں سمجھاتا ہوں، امید ہے کہ وہ میری بات جلد ہی سمجھ جائیں گے۔ ابھی بابا کرم داد بیٹھا میرے ساتھ یہی باتیں کر رہا تھا کہ اتنے میں میرا بڑا چچا اور چھوٹا چچا دونوں اس دکان میں ہی آگئے۔ دکان میں داخل ہوتے ہی انہوں نے مجھ سے کہا کہ تو ابھی تک گاؤں سے باہر نہیں گیا۔

            ‘‘دیکھو، یہ تمہارا اپنا ہی بیٹا ہے’’ بابا کرم داد اُن کے پاس جا کھڑا ہوا۔ ‘‘اس بے چارے کو اپنے گھر سے نہ نکالو۔ خدا کا خوف کرو۔ گاؤں والے کیا کہیں گے۔ خوامخواہ اپنے آپ کو گاؤں والوں کے سامنے تماشا نہ بناؤ۔ ورنہ ہر کوئی تم پر انگلیاں اٹھائے گا۔ ’’

            میرے دونوں چچا جو اس وقت سخت غصہ میں تھے، بابا کرم داد کی یہ باتیں سن کر اور طیش میں آ کر بپھر گئے۔ ان کو بپھرتا ہوا دیکھ کر بابا کرم داد جو ایک بوڑھا اور غریب آدمی تھا ، دکان کے ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گیا۔

            صورتِ حال کو دیکھ کر میں گھبرا گیا۔ اچانک اپنی جگہ سے اٹھا اور دوڑ کر دکان سے باہر نکل گیا۔ دوڑتا بھاگتا ہوا میں اپنے گاؤں کی آبادی سے جلد ہی باہر نکل آیا۔ پھر بھی بھاگتا رہا۔ راستہ میں مجھے اپنے ہی گاؤں کا ایک آدمی ملا۔ اس نے مجھ سے اس طرح دوڑنے بھاگنے کی وجہ پوچھی مگر میں نے اس آدمی سے چاچا بخشو کے گاؤں کا نام لے کر اس کے گاؤں کو جانے والا راستہ پوچھا تو اس آدمی نے مجھے بتایا کہ تم جس راستے پر جارہے ہو یہ راستہ سیدھا اسی گاؤں کو جاتا ہے۔

            اس ریتلے راستہ پر پیدل چلنے کی وجہ سے میرے پاؤں سوج سے گئے۔ پیروں پر چھالے بھی پڑ گئے۔ میرے جوتوں نے میرے پاؤں کو زخمی کر دیا تھا۔ اب میں ننگے پاؤں چلنا شروع کر دیا تھا۔ ابھی میں نے پیدل پانچ چھ میل کافاصلہ طے کیا ہوگا کہ اتنے میں ایک گھوڑا سوار اپنا گھوڑا سرپٹ دوڑاتا ہوا پیچھے سے فاصلہ پر جا کر رک کر کھڑا ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد میں جب اس کے پاس پہنچا تو اس نے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے بیٹھے مجھ سے پوچھا۔ بیٹا تم نے کہاں جانا ہے۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں نے فلاں گاؤں جانا ہے تو اس نے مجھ سے کہا کہ میں بھی اسی گاؤں جانا ہے۔ وہ گاؤں تو ابھی بہت دور ہے ۔ آؤ میرے ساتھ گھوڑے پر سوار ہو جاؤ۔

            میں چل چل کر تھک چکا تھا۔ پاؤں زخمی ہونے کی وجہ سے مجھ سے چلنا بھی بہت دشوار ہو رہا تھا۔ میں اس آدمی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ آخر شام سے کچھ دیر پہلے ہم دونوں گاؤں میں چا پہنچے۔ اس آبادی کی کئی گلیوں سے گزرتا ہوا جب ہمارا گھوڑا ایک گلی میں داخل ہوا تو ایک کچے اور چھوٹے سے دروازے کے آگے اس آدمی نے گھوڑا روک دیا اور وہیں کھڑے ہو کر چاچا بخشو کو آواز دی۔ تھوڑی دیر بعد ایک چھوٹی سی لڑکی دروازے سے باہر آئی۔ اس آدمی نے اس بچی سے کہا کہ یہ لڑکا بخشو کا مہمان ہے۔ یہ کہہ کر وہ آدمی اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر چلا گیا۔

            گھر کے اندر داخل ہوا تو دیکھا اپنے گھر کے اندر چولہے کے پاس ہی بیٹھی ماسی آٹا گوندھ رہی تھی۔ اس نے مجھے اپنی طرف آتا دیکھ کر بڑے غورسے دیکھا۔ جب میں نے اس کے قریب جا کر سلام کیا تو وہ فوراً پہچان گئی۔ جونہی اس نے مجھے پہچانا، اس کو آٹا گوندھنا بھول گیا۔ اٹھ کھڑی ہوئی اور لپک کر اس نے مجھے اپنی بانہوں میں لپیٹ لیا۔ اس دوران اس نے کئی بار میرے سر اور پیشانی پر پیار و خلوص سے بھرے بوسے دیے۔ ساتھ ساتھ بار بار مجھ سے میری خیریت پوچھتی رہی۔

            اچانک اس کی نظر میرے زخمی اور سوجے ہوئے پیروں پر پڑی تو اس کے منہ سے ایک ہلکی سی چیخ نکلی ‘‘اف میرے بیٹے، تم نے ہمارے پاس آنے کے لیے کس قدر تکلیف اٹھائی ہے۔ میرے ساتھ آؤ تا کہ تمہارے ان زخموں پر کوئی دوائی لگا دوں۔ تمہارے یہ زخم بہت زیادہ دکھ رہے ہوں گے۔’’

            ماسی کمرے سے باہر نکل گئی۔ تھوڑی دیر بعد واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں پانی سے بھرا لوٹا اور دوسرے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی ڈبیا پکڑی ہوئی تھی۔ میرے پیر مٹی سے اٹے ہوئے تھے۔ ماسی نے میرے دونوں پیروں کو بڑی احتیاط سے دھویا پھر ان کے زخموں پر دوائی لگائی۔ تھوڑی دیر بعد میرے ان زخموں سے جو درد اٹھ رہا تھا، اس میں کافی فرق آگیا۔ جب درد سے کچھ افاقہ سا ہوا تو مجھے بھوک ستانے لگی۔ ماسی سے کہہ دیا کہ مجھے سخت بھوک لگی ہوئی ہے۔ یہ سنتے ہی ماسی کمرے سے باہر نکل گئی ۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد تازہ اور گرم گرم روٹیاں ساتھ ہی مکھن سے بھرا اَیک کٹورہ ماسی نے میرے آگے لا کر رکھ دیا۔ ساتھ ہی ماسی نے مجھ سے کہا۔ بیٹا، شرم نہ کرنا، خوب پیٹ بھر کر کھا لو۔ نہ جانے کس دقت سے چل کر آئے ہو۔

            چاچا بخشو اور ان کے گھر والے مجھے دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ میں تھکا ہوا تھا۔ اس لیے جلد سو گیا۔ صبح اٹھا تو چاچا اپنے کام پر چلے گئے تھے اور زینت اپنے سکول پڑھنے چلی گئی تھی۔ اس گاؤں میں ایک چھوٹا سا پرائمری سکول تھا جہاں لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے ہی پڑھا کرتے تھے۔ ویسے لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے بہت ہی کم تھی۔ چند دن گزرے تو ایک دن چاچا مجھے بھی اپنے ہمراہ اس سکول میں داخل کروانے لے گئے۔ اس وقت اس سکول کا واحد استاد کلاس کو پڑھا رھا تھا۔ ماسٹر ہم دونوں کے ساتھ بڑی عزت و احترام کے ساتھ پیش آیا۔ جب اس ماسٹر صاحب نے چاچا سے سکول میں آنے کی وجہ پوچھی تو چاچا نے ان کو بتایا کہ میں اپنے اس بیٹے کو پڑھنے کے لیے سکول میں داخل کرانے آیا ہوں۔

            ماسٹر جی نے چاچا سے پوچھا کہ یہ بچہ کس کلاس میں داخل ہوگا۔ شاید اس ماسٹر کا یہ خیال تھا کہ میں کسی بڑی کلاس میں داخل ہوں گا۔ مگر جب اس ماسٹر کو چاچا نے بتایا کہ میرے اس بیٹے نے آج سے ہی سکول والی پڑھائی شروع کر نی ہے ۔ تب ماسٹر صاحب نے دوبارہ چاچا سے پوچھا کہ اس سے پہلے یہ بچہ کیا کرتا رہا ہے۔ تو چاچا نے جواب دیا۔ ماسٹر جی، چھوڑو اِن گئی گزری باتوں کو۔ جو وقت جیسے بھی گزر گیا سو گزر چکا ہے۔

            اس ماسٹر صاحب نے مجھے اس جماعت میں بیٹھنے کی اجازت دے دی۔ اب میں بھی اپنا چھوٹا سا بستہ لے کر ہر روز زینت کے ساتھ سکول جانے لگا۔ مجھے سکول میں گئے چند ہی روز گزرے ہوں گے کہ اس ماسٹر جی نے مجھے اپنے پاس بلوا لیا۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ اپنے آگے ایک فارم رکھے ہوئے تھے۔ وہ مجھ سے کہنے لگے : ہاں بیٹا، آج سے میں تمہیں اپنے سکول میں داخل کر رہا ہوں۔ لہٰذا اِس فارم پر تمہارے کوائف وغیرہ درج کرنے ہیں۔ ہاں تو کیا نام ہے تمہارا۔ میں نے ان کو اپنا نام بتایا تو انہوں نے اس کاغذ پر میرا نام لکھ لیا۔ پھر مجھ سے میرے باپ کا نام پوچھا تو میں شش و پنج میں پڑ گیا۔ کیونکہ مجھے تو صرف اپنے چچا وغیرہ کے نام معلوم تھے۔ ویسے بھی میں نے اپنے بڑے چچا کو ہی اپنا باپ سمجھا تھا۔

            میری اس خاموشی اور پریشانی کو بھانپتے ہوئے اس ماسٹر جی نے مجھ سے پوچھا کیوں بیٹے کیا بات ہے۔ اپنے باپ کا نام لینے سے شرماتے ہو یا کوئی خاص وجہ ہے۔ تب میں نے اس ماسٹر جی سے کہا کہ مجھے اپنے باپ کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ اس لیے آپ میرے بارے میں چاچا بخشو سے ہی سب کچھ پوچھ لیں۔ کیونکہ وہ ہمارے گھرانے اور ہمارے خاندان والوں سے بہت اچھی طرح سے واقف ہیں۔

            یہ ماسٹر میری اِ ن باتوں کو سن کر حیران رہ گیا۔ آخر میں مجھ سے اس نے صرف اتنا کہا کہ کمال ہے بیٹا، نو دس سال کی عمر ہے تمہاری مگر اس عمر میں بھی تم اپنے بڑوں سے واقف نہیں ہو۔ تب اس ماسٹر جی نے مجھ سے کہا کہ کل سکول آتے وقت بخشو کو اپنے ہمراہ ضرور لیتے آنا۔

            دوسرے دن چاچا میرے اور زینت کے ساتھ سکول میں آیا۔ ہمارے اکلوتے ماسٹر صاحب سے علیحدگی میں باتیں کرکے تھوڑی دیر بعد چاچا سکول سے چلا گیا۔ اس کے بعد میں اس سکول کی پہلی کلاس میں باقاعدہ داخل ہوگیا۔ داخل ہوجانے کے بعد سکول میں ماسٹر جی سے سبق لیتا۔ گھر واپس آتا تو زینت پڑھائی میں میری مدد کرتی ۔ کیونکہ زینت مجھ سے دو جماعت آگے تھی۔ ویسے بھی بچپن سے مجھے سکول میں پڑھنے کا شوق تھا اور اب چاچا بخشو کی مہربانی سے میں سکول میں بھی داخل ہوچکا تھا۔

            اپنی اس مختصر اور چھوٹی سی عمر میں ، مَیں نے بہت دھکے کھائے تھے۔ سخت ترین مشکلات اور مصیبتیں جھیلی تھیں۔ اسی وجہ سے اس چھوٹی سی عمر میں ہی میرے ہوش اپنے ٹھکانے پر آگئے تھے۔ اس لیے میں پڑھائی کے معاملہ میں سکول میں بھی ماسٹر صاحب سے بڑے شوق سے پڑھتا اور پھر گھر میں آکر تو میں اپنے قاعدہ کا کیڑا سا بن جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے ایک سال میں دو جماعتیں اکٹھی پاس کر لیں۔ پڑھائی میں میرا اتنا تجربہ ہوگیا تھا کہ اگر چہ زینت مجھ سے اب صرف ایک جماعت ہی آگے رہ گئی تھی۔ مگر اس کی ساری کتابیں میں با آسانی پڑھ لکھ لیا کرتا تھا۔

            چاچا کا اپنا بڑا بیٹاجو ننھیال میں رہا کرتا تھا، بی اے پاس کر چکا تھا۔ وہ سال بھر میں چند مرتبہ کچھ دنوں کے لیے آجایا کرتا تھا۔ اس کا نام عمران تھا۔ عمران بہت خلوص بھرا لڑکا تھا۔

            ایک مرتبہ جب عمران گھر آیا تو اس نے مجھے بتایا کہ مجھے وکیل بننے کا بہت زیادہ شوق ہے اس لیے بی اے کرنے کے بعد میں وکالت پڑھنے کے لیے لاہور یا کسی اور بڑے شہر میں چلا جاؤں گا۔

            چاچا کے گھر رہ میرا وقت بہت اچھا گزر رہا تھا ۔ میں اور زینت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خوب محنت کر رہے تھے۔ محنت کا یہ صلہ ملا کہ میں اور زینت نے ایک ساتھ ہی اپنے اس اسکول کا آخری امتحان پاس کر لیا۔ اب میرے اور زینت کے لیے مزید پڑھنا مشکل ہوگیا کیونکہ ہمارے اس گاؤں میں اس سکول سے بڑا سکول کوئی اور نہیں تھا۔ اگر تھا بھی تو وہ سکول ہمارے اس گاؤں سے پانچ چھ میل دور ایک اور قصبے میں تھا۔ جس کی وجہ میں اور زینت بہت زیادہ پریشان سے ہوگئے۔ ہماری اس پریشانی کو دیکھتے ہوئے چاچا نے زینت سے کئی بار کہا کہ وہ آگے پڑھنا چھوڑ دے۔ مگر زینت کو تو مجھ سے کہیں زیادہ مزید پڑھنے کا شوق تھا۔ چاچا کے بار بار کہنے کے باوجود زینت اپنی ضد پر قائم رہی۔

            ہر روز پانچ چھ میل کاپیدل آنا جانا میرے لیے بھی اور پھر خاص کر زینت تو ایک لڑکی تھی۔ اس کے لیے تو اور بھی مشکل تھا۔ اس لیے چاچا نے بڑی سوچ و بچار کے بعد اس مشکل کا یہ حل ڈھونڈ نکالا کہ چاچا نے اس گاؤں کو خیر آباد کہہ کے اس قصبہ میں آکر آباد ہوگیا۔ یہاں لڑکوں کے علاوہ لڑکیوں کا ایک علیحدہ سکول تھا۔ یہاں آجانے کے چند دنوں بعدمیں اور زینت اپنے اپنے سکولوں میں داخل ہوگئے۔ اس طرح ایک بار پھر ہم دونوں اپنی پڑھائی وغیرہ میں دن رات مگن ہو گئے۔

            مجھے اپنے چچا کے گھر سے آئے ہوئے چار پانچ سال کا عرصہ بیت گیا مگر اس عرصہ کے دوران ایک بار بھی میرے چچا یا اپنے ہی گھر کے کسی فرد نے میری کچھ بھی خبر نہ لی کہ میں کہاں مر کھپ گیا ہوں۔ ویسے اب میرا بھی دل نہیں چاہتا تھا کہ وہ میرے پاس آئیں اور پھر مجھے دوبارہ اپنے گھر لے جائیں۔ اب میں ان کے گھر جانا چاہتا تھا اور نہ ان کے ساتھ کسی قسم کا تعلق رکھنا چاہتا تھا۔ میرے لیے اب چاچا بخشو اور ان کے گھر والے ہی میرے اپنے تھے۔

            وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے اور زینت میں ایک عجیب سی محبت، پیار اور خلوص کا جذبہ بڑھتا جار ہا تھا۔ ماسی سے بھی کہیں زیادہ زینت میرا ہر وقت خیال رکھتی۔ اپنے سگے بھائی اور مجھ میں زینت ذرہ بھر فرق نہ رکھتی۔

            اسی طرح وقت کے پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا۔ زینت ڈاکٹر بن گئی اور میں نے ایک غیر ملکی تعمیراتی کمپنی میں ایک اچھی خاصی تنخواہ پر بطور انجینئر ملازمت کر لی۔ اس کمپنی میں غیر ممالک میں بھی آنے جانے کے کافی چانس تھے۔ ہم تینوں کو یکے بعد دیگرے ملازمتیں مل گئیں۔ ہم گاؤں کو چھوڑ کر لاہور ایک کرائے کا گھر لے کر رہنے لگے۔ ہم تینوں کو تنخواہ مل جاتی تو ہم تنخواہ کی رقم چاچا یا ماسی کے ہاتھ پر رکھ دیتے۔

            اس طرح چند ہی سالوں میں ہمارے پاس اتنا پیسہ اکھٹا ہوگیا کہ اس رقم سے سب سے پہلے چاچا اور ماسی کو حج کرایا۔ پھر اس رقم سے ایک پلاٹ خرید کر اس پر ایک اچھا سا مکان بنوالیا۔ جب اپنا مکمل ہوگیا تو کرایہ والے مکان سے اپنے مکان میں شفٹ ہوگئے۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا گھر میں پیسوں کی ریل پیل ہوتی جارہی تھی۔ ہمارا یہ چھوٹا سا گھرانہ جنت کا نمونہ سا بن گیا۔

            اس دوران میری کمپنی والوں نے کینیڈاجانے کے لیے میرے آرڈر کر دیے۔ ابھی روانگی میں چند روز باقی تھے کہ ایک روز چاچا اور ماسی سکینہ نے ہم تینوں کو اپنے کمرے میں بلایا۔ عمران میں اور زینت تینوں ان کے بلانے پر ان کے کمرے میں ان کے پاس جا بیٹھے۔ اس وقت چاچا اور ماسی کے چہروں پر پہلے سے کچھ زیادہ مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ پہلے تو ہمارے درمیان ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ پھر اچانک چاچا نے اپنے ایک ہاتھ سے میرے ہاتھ کو پکڑا اور پھر اپنے دوسرے ہاتھ سے پاس ہی بیٹھی ہوئی زینت کا ہاتھ پکڑا۔ پھر ہمارے ان دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے کے اوپر نیچے رکھ دیا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر میں اور زینت حیران سے رہ گئے۔

            ‘‘آج کے بعد میں نے تم دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بھر کے لیے اکھٹا باندھ دیا ہے۔’’ چاچا نے مسکراتے ہوئے کہا۔

            جب اپنے چاچا کے منہ سے یہ بات سنی تو میں اور زینت شرم و حیا کی وجہ سے پانی پانی ہو گئے۔ شرم کی وجہ سے ہم دونوں کے سر جھک گئے۔ اس دوران ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی۔ کیونکہ زندگی میں ہم دونوں کے دماغ میں ایسا خیال تک بھی نہ آیاتھا۔ میرے وجود میں ایک عجیب سا طوفان اٹھ کھڑا ہوا کہ یہ کیا ہوگیا ہے۔ مگر کچھ نہ کہنے پر مجبور تھا۔

            آج میں جو کچھ بھی تھا چاچا اور ماسی سکینہ کی شب و روز کی محنت و مشقت کا صلہ تھا۔ کیونکہ میری خاطر ایسی وہ کون سی مشکلات تھیں جو ان دونوں نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر انہوں نے اپنے سروں پر نہ اٹھائی تھیں۔ میری ہی خاطر میرے اس غریب، لاوارث چاچا نے صرف میرے چچا وغیرہ سے نہیں بلکہ میرے پورے خاندان والوں سے دشمنی مول لی تھی۔ حالانکہ اس وقت میرے چچا وغیرہ اور خاندان والوں کے آگے چاچاکی حیثیت رائی کے دانے سے کمتر تھی اور پھر جب میں اس کے گھر آگیا اگر اس وقت چاچا نہ پڑھاتا۔ اپنے ساتھ لوگوں کے گھروں کے کام کاج کرواتا تو بھلا میں کیا کر سکتا تھا۔ مگر آفرین ایسے با ہمت اور حوصلہ مند شخص پر کہ اس نے سگی اولاد اور مجھ میں ذرہ بھر فرق بھی نہ آنے دیا۔

            آخر میں کینیڈا چلا آیا۔ تقریباً ایک سال مجھے یہاں رہنا پڑا۔ اس دوران اپنے گھر والوں کے علاوہ زینت اور میں ایک دوسرے کو خط لکھتے رہتے۔ زینت کے خطوں کی تحریروں سے محسوس ہوتا کہ وہ چاچا کے اس فیصلہ پر کافی خوش ہے۔ زینت اپنے ہر خط میں لکھتی کہ چھوڑو کینیڈا وغیرہ کو اپنے ہی ملک میں آکر کوئی اور اچھی سی سروس کر لو۔ تقریباً ایک سال بعد میں وطن واپس لوٹا۔

            جب میں کینیڈا میں تھا تو اس دوران عمران کا تبادلہ بطور سول جج اس ضلع میں ہوگیا جہاں میرا گاؤں بھی تھا۔ میرے چچا اسی ضلع کے گاؤں میں رہتے تھے۔ بھائی عمران اکثر چھٹی پر گھر آتے رہتے تھے۔

            ایک بار جب وہ گھر آئے تو آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد اپنے بریف کیس سے ایک فائل نکال کر مجھے یہ کہتے ہوئے کہ ذرا اِس فائل کے اندر رکھے ہوئے کاغذات کا بھی مطالعہ کر لیں۔ انہوں نے فائل میرے آگے رکھ دی۔ اس وقت میں اخبار کا مطالعہ کر رہا تھا۔ میں نے اخبار ایک طرف رکھ دی۔ فائل کھول کر بیٹھ گیا۔ جونہی میں نے فائل کھولی۔ اس فائل کے اندر رکھے ہوئے پہلے ہی کاغذ کی تحریر پر میری نظر پڑی ۔ اس تحریر میں اپنا اپنے تینوں چچا اور اپنے گاؤں کا نام پڑھ کر حیران ہو کر بیٹھ گیا۔

            یہ ایک درخواست تھی۔ جو ہمارے خاندان کے ایک فرد نے میرے تینوں چچا وغیرہ کے خلاف دی ہوئی تھی کہ ان تینوں افراد (میرے چچا وغیرہ) نے اپنے ایک حقیقی مرحوم بھائی کے اکلوتے بیٹے کی جائیداد جعلسازی کے ذریعے اپنے نام منتقل کروالی ہے۔ جبکہ ان مذکورہ تینوں افراد کا یہ حقیقی بھتیجا آج سے تقریباً اٹھارہ بیس سال کے عرصہ سے اپنے گھر اور گاؤں سے غائب ہے۔ ان تینوں افرادکے علاوہ کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کا بھتیجا کہاں مر کھپ گیا ہے۔ لہٰذا جعلسازی سے منتقل ہونے والی جائیداد کی تحقیق کرائی جائے۔ اس درخواست اور فائل کے اندر رکھے ہوئے اور کاغذات کو کئی بار پڑھا۔ ان سارے کاغذات وغیرہ کو پڑھ کر پہلی بار مجھ پر انکشاف ہوا کہ میرے نام تو ایک بہت بڑی جائیداد ہے۔

            ایک شام ہم جب اپنے سارے گھر کے افراد اکٹھے بیٹھ کر چائے پی رہے تھے تو اس دوران بھائی عمران نے مجھ سے کہا کہ میں تو کل صبح اپنی ڈیوٹی کے لیے واپس چلا جاؤں گا لہٰذا اب تم مجھے بتاؤ کہ اس درخواست کے مطابق اب تمہارے چچا وغیرہ کے ساتھ کیا کارروائی کرنی چاہیے۔

            بھائی عمران کی یہ بات سن کر میں نے اپنی خاموش نگاہوں سے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے چاچا کی طرف دیکھا۔ جو اس وقت خاموشی کے ساتھ چائے پینے میں مصروف تھے۔ اس دوران چاچا نے بھی اچانک مجھے غور سے دیکھنا شروع کر دیا۔ شاید وہ میرے جواب کے انتظار میں تھے۔ مگر اس طویل سی خاموشی کو دیکھ کر چاچا نے مجھ سے کہا کہ بیٹا، اپنے چچا وغیرہ کے بارے میں جو کچھ تم کہنا چاہتے ہو کھلے دل سے اپنے دل کی بات کہہ ڈالو۔ ہمیں تمہاری کسی بات پر بھی اعتراض نہ ہوگا۔ چاچا کی بات سن کر مجھے کافی حوصلہ ملا تو تب میں نے بھائی عمران سے کہا: ‘‘دیکھو، خدا نے ہمیں کتنا کچھ دے دیا ہے۔’’ میں نے سب کو مخاطب کر کے کہا‘‘میرے چچا وغیرہ کا اپنا ایک عمل تھا اور نیت تھی۔ اپنے کیے کی وہ ایک نہ ایک دن ضرور سزا بھگتیں گے۔ ویسے بھی معاف کردینا ایک بہت بڑا انتقام ہی ہوا کرتا ہے۔ وہ جو کچھ بھی ہیں، جیسے بھی ہیں میرے مرے ہوئے باپ کے بھائی اور میرے باپ کا خون تو ہیں۔’’

            جونہی میں نے یہ باتیں کیں، چاچا جو بیٹھے میری ان باتوں پر اپنا دھیان رکھے ہوئے تھے، اچانک اپنی جگہ سے اٹھے اور سیدھا میرے پاس آکھڑے ہوئے۔ میرے سر کو بوسہ دیتے ہوئے کہنے لگے۔‘‘بیٹا، واقعی اپنے باپ پر ہی گیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ تیرا باپ بھی ایسی ہی خصلت و عادت کا مالک ہوا کرتا تھا۔ تیرا دادا اَور تیرا باپ مسکینوں ، غریبوں پر بڑے ہی مہربان ہوا کرتے تھے۔ ’’

            یہ کہانی میں نے آپ کو اس لیے نہیں سنائی کہ آپ میری فراخدلی پر واہ واہ کریں۔ میں نے تو بس رشتوں اور مذہب کے نام پر ہونے والی زیادتیوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے۔

(بشکریہ، ماہنامہ حکایت، لاہور، جنوری ۲۰۰۴)