کیا ترک علاج اولیٰ ہے؟

مصنف : مولانا جلال الدین عمری

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : فروری 2011

کیا ترکِ علاج اولیٰ ہے؟

            دوا علاج کرانا جائز ہی نہیں بلکہ مستحب اور پسندیدہ ہے۔ بلکہ بعض حالات میں یہ واجب بھی ہو سکتا ہے ۔اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓکی ایک روایت سے بحث کرنا ضروری ہے ۔روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :مجھے اللہ کے رسولوں اور ان کی امتوں کا مشاہدہ کرایا گیا میں نے دیکھا کہ کسی کے ساتھ اس کا ایک ہی ماننے والا تھا ،کسی کے ساتھ دو تھے،کسی کے ساتھ چھوٹی سی جماعت تھی اور کسی کے ساتھ ایک بھی نہیں تھا ۔اسی دوران میں نے ایک بڑی جماعت دیکھی جو افق پر چھائی ہوئی تھی ،مجھے خیال ہوا کہ یہ میری امت ہوگی ۔لیکن بتایا گیا کہ یہ حضرت موسیٰ ؑ کی امت ہے ۔پھر میں نے اس سے بڑی ایک جماعت دیکھی جو ہر طرف چھائی ہوئی تھی ۔مجھ سے کہا گیا کہ یہ تمھاری امت ہے اور اس کے ساتھ ستر ہزار انسان وہ بھی ہوں گے جو جنت میں اس طرح جائیں گے کہ ان کا حساب نہ ہوگا ۔رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ وہ کون لوگ ہیں آپ ﷺ نے فرمایا : ھم الذین لا ینظرون و لا یکتوؤن و لا یستر قون و علیٰ ربھم یتوکلون۔ "یہ وہ لوگ ہیں جو پرندوں کے ذریعے نہ شگون لیتے ہیں ،نہ داغ لگواتے ہیں اور نہ جھاڑ پھونک کرتے ہیں اور ا پنے رب سے بھروسا کرتے ہیں ۔"

یہ سن کر حضرت عکاشہ بن محصنؓ نے دریافت فرمایا کہ کیا میرا بھی شمار انھی میں ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا ہاں!تم بھی انھی میں ہو ۔ایک دوسرے شخص نے پوچھا کہ کیا میں بھی ،انھی لوگوں میں ہوں ؟آپ ؐ نے فرمایا :عکاشہؓ تم سے اس میں سبقت لے گئے ۔

            اس روایت سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ تدبیر کے مقابلے میں توکل کا مقام اونچا ہے ۔علاج کرانا جائز تو ہے لیکن جو شخص بیماری میں دوا علاج کی فکر نہ کرے اور خدا پر بھروسا رکھے ،اس کا شمار ان ستر ہزار خوش نصیب انسانوں میں ہوگا ،جو بغیر کسی حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے ۔لیکن یہ استدلال کئی پہلوؤں سے غلط ہے ۔

            (۱) رسول اللہؐ کی سنت اور آپ کا اسوہ یہ ہے کہ صحت خراب ہوتو علاج کرایا جائے ۔اس لیے جو شخص علاج کراتا ہے ،وہ سنت پر عمل کرتا ہے اور جو نہیں کراتا وہ سنت کو ترک کرتا ہے ۔علاج نہ کرانا کسی فضیلت کا باعث ہوتا تو یقینا آپؐ اس سے احتراز فرماتے ۔اس کے جواب میں کہا جا تا ہے کہ آپ ﷺ نے علاج اس لیے کرایا تاکہ امت کو یہ بتایا جائے کہ یہ ایک جائز فعل ہے ۔اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ علاج کرانا شرعاً بہتر ہے اور فضیلت کا باعث ہے ۔لیکن یہ جواب صحیح نہیں ہے ۔اس لیے کہ اگر قرآن و حدیث میں اشارۃ ً یا کنا یتہ ہی سہی علاج معالجے سے منع کیا گیا ہوتاتو اسے منسوخ کرنے اور جواز کا حکم دینے کی ضرورت پیش آتی ۔جب اس سے منع ہی نہیں کیا گیا تو اس کا جواز ازخود ثابت ہے ۔کسی حکم کی ضرورت نہیں ہے ۔پھر یہ کہ جواز ثابت کرنے کے لیے دو ایک بار کا علاج بھی کافی ہو سکتا ہے ۔حالاں کہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے بہ کثرت علاج کرائے ہیں ۔آپ ﷺ کو جو دوائیں یا علاج بتائے جاتے تھے ،ان کی وجہ سے حضرت عائشہؓ کی طبی معلومات اتنی زیادہ ہو گئی تھیں کہ لوگ تعجب کرتے تھے ۔

            (۲) کسی صیح حدیث میں صراحت کے ساتھ ترک علاج کی کوئی فضیلت نہیں بیان ہوئی ہے ۔اس کے بر خلاف رسول اللہ ؐ نے مختلف امراض کی دوائیں اور ان کے علاج بتائے ہیں ۔صحابہ کرام ؓ کو علاج کا مشورہ دیا ہے اور انھوں نے اس پر عمل بھی کیا ہے ۔ترک علاج افضل ہوتا تو کم از کم اکابر صحابہؓ حتی الواسع اس سے اجتناب فرماتے ۔حدیث اور سیرت کی کتابیں بتاتی ہیں کہ حضرات صحابہ نے علاج سے احتراز نہیں بلکہ اسے اختیار کیا اور اس سے فائدہ اٹھایا ہے ۔ان کے اس عام طریقے یا سنت کے خلاف کوئی واقعہ مل جائے تو اس کے اسباب معلوم کرنے ہوں گے ۔اسی طرح کے ایک واقعے کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے ابو ظبیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیمار ہوئے تو حضرت عثمانؓعیادت کے لیے تشریف لے گئے ۔دریافت کیا تکلیف کیا ہے؟ جواب دیا گناہوں کی فرمایا کس چیز کی طلب اور خواہش ہے؟ جواب دیا اللہ کی رحمت کی ۔فرمایا کسی طبیب کو بلاؤں ؟جواب ‘طبیب’ ہی نے بیماری دی ہے (وہی) اسے ٹھیک کرے گا ) فرمایا ۔آپ کے لیے بیت المال سے رقم (وظیفہ) کا حکم جاری کر دوں ؟جواب دیا :مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے ۔فرمایا :آپ کی بچیوں کے کام آئے گی جواب دیا :کیا آپ کو ڈر ہے کہ میری بچیاں فاقے میں مبتلا ہو جائیں گی ؟میں نے ان سے کہہ رکھا ہے کہ وہ ہر رات سورۂ واقعہ پڑھیں ۔میں نے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد سنا ہے کہ جو شخص ہر رات سورۂ واقعہ پڑھے گا ،وہ کبھی فاقے سے دو چار نہ ہوگا۔

 اس واقعے میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے طبیب کو بلانے سے منع کیا تو اس سے یہ استدلال کچھ زیادہ قوی نہ ہوگا کہ علاج کا ترک کردینا افضل ہے ۔اس کے کچھ اور اسباب بھی ہو سکتے ہیں ۔

            (۱) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت عثمانؓ کے درمیان بعض وجوہ سے ایک طرح کی شکر رنجی رہی ہے ۔اس وجہ سے امکان ہے کہ انھوں نے اس بات کو پسند نہ کیا ہو کہ حضرت عثمانؓ ان کے لیے طبیب کا نظم فرمائیں ۔انھوں نے غالباً اسی لیے عطیہ کی پیش کش کو بھی قبول نہیں کیا ۔جب کہ حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں بیت المال سے ان کا وظیفہ جاری تھا ۔روایت میں آتا ہے کہ ان کے انتقال سے دو چار سال پہلے حضرت عثمانؓ نے وظیفہ بند کر دیا تھا یا کہ انھوں نے اسے قبول کرنے سے معذرت کر لی تھی ۔ان کے انتقال کے بعد یہ رقم ان کے ورثاء کے حوالے کی گئی ۔

            (۲) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا یہ واقعہ ان کے مرض الموت کا ہے ۔ممکن ہے کہ اس وقت انھوں نے علاج کی افادیت نہ محسوس کی ہو ۔

            (۳) اگر علاج کا ترک کرنا افضل ہوتا تو شاید حضرت عثمانؓ اس کی پیش کش ہی نہ فرماتے اور اگر پیش کش ہوتی تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ صاف الفاظ میں فرماتے کہ علاج کرنے سے نہ کرنا زیادہ ثواب کا باعث ہے ۔

            (۴) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت گزر چکی ہے کہ اللہ نے ہر بیماری کا علاج رکھا ہے ۔اس سے علاج کی اہمیت و افادیت سامنے آتی ہے ۔ان کی کوئی رائے بہ ظاہر اس کے خلاف نہیں ہو سکتی ۔

            علاج کو تو کل کے منافی سمجھنا بھی صحیح نہیں ہے ۔اس لیے توکل یہ نہیں ہے کہ آدمی اسباب و وسائل کو اختیار نہ کرے ۔بلکہ توکل کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو اصل اعتماد اسباب و وسائل پر نہیں بلکہ خدا کی ذات پر ہو وسائل کو اختیار کیے بغیر جو توکل کیا جائے وہ توکل غلط قسم کا توکل ہوگا ۔بیماری میں توکل یہ ہے کہ آدمی دوا علاج کرنے کے باوجود اللہ پر بھروسہ رکھے اور مرض او ر شفاء سب کو اسی کی جانب سے سمجھے ۔امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں :

            صیح احادیث میں علاج کا حکم ہے یہ توکل کے منافی نہیں ہے ۔جس طرح بھوک پیاس ، گرمی اور سردی کو جو چیزیں دور کرتی ہیں ان کے ذریعے ان کو دور کرنا خلاف توکل نہیں ہے ،اسی طرح علاج بھی توکل کے خلاف نہیں ہے ۔بلکہ صیح بات یہ ہے کہ توحید کی حقیقت ہی اس وقت مکمل ہوتی ہے جب کہ آدمی ان اسباب کو استعمال کرے ،جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مسببات کو مقدر کر رکھا ہے ۔اور شرعاً ان کے استعمال کا حکم دیا ہے ۔ان کو چھوڑنے والا اپنی جگہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے توکل کا اعلیٰ مقام حاصل ہے ۔حالاں کہ اس سے توکل کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور یہ اللہ کے قانون اور حکمت کے بھی خلاف ہے ۔توکل کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی کو دین ودنیا کے کسی بھی فائدے کو حاصل کرنے اور دونوں جگہ کے کسی بھی نقصان سے بچنے میں اللہ پر اعتماد ہو ۔اس اعتماد کے ساتھ اسباب کا ختیار کرنا بھی ضروری ہے ۔ورنہ آدمی حکمت و شریعت دونوں کو چھوڑنے والا ہوگا ۔اسے نہ تو اپنے عجز و کو تاہی کو توکل سمجھنا چاہیے ،اور نہ توکل کو عجز و اور کو تاہی بنا دینا چاہیے ۔

 حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں :

            جس شخص کو اللہ تعالیٰ پر وثوق اور اعتماد ہو اور جسے یہ یقین ہو کہ اللہ کا فیصلہ بہرحال نافذ ہو کر رہے گا ۔اس کا رسول اللہ ﷺ کے احکام اور آپ ﷺ کی سنت کے اتباع میں اسباب و وسائل کو اختیار کرنا توکل کو نقصان نہیں پہنچائے گا ۔رسول اللہ ﷺ نے جنگ میں (ایک نہیں ) دوزرہیں پہنیں ۔سر مبارک کی حفاظت کے لیے خود استعمال فرمایا (احد میں ) گھاٹی کے دہانے پر تیر اندازوں کو بٹھایا مدینے کے اطراف خندق کھدوائی ،حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت کی (صحابہ کو ) اجازت دی ۔خود بھی ہجرت فرمائی ،کھانے پینے کے سازو سامان رکھے ،گھر والوں کے لیے غلہ اکھٹا کیا اور اس کا انتظار نہیں کیا کہ آسمان سے کو ئی چیز نازل ہو حالاں کہ آپ ﷺ اس کے زیادہ مستحق ہو سکتے تھے ۔اسی طرح ایک شخص نے آپؐ سے سوال کیا کہ میں اپنے اونٹ کو باندھوں یا کھلا چھوڑ دوں ؟آپ ﷺ نے فرمایا : اسے باندھو اور پھر توکل کرو ۔گو یا آپؐ نے یہ اشارہ کیا کہ احتیاط سے توکل ختم نہیں ہوتا ۔

            جب دوا علاج کرانا توکل کے منافی نہیں ہے تو پھر حضرت عکاشہ بن محصنؓ کی روایت کا کیا مطلب ہے ؟اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں ممنوع اور نا پسندیدہ طریقوں کو اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ صحیح طریقوں کی احادیث میں نشاندہی بھی کر دی گئی ہے ۔اس حدیث میں پہلی بات یہ کہی گئی ہے :

 ‘‘ھم الذین لا یتطیرون’’ یہ وہ لوگ ہیں ،جو پرندوں کے ذریعے شگون نہیں لیتے اہل عرب کسی کام کے لیے نکلتے یا کوئی مقصد ان کے سامنے ہوتا تو یہ جاننے کے لیے کہ اس میں وہ کامیاب ہو ں گے یا ناکام ،پرندوں کے ذریعے شگون لیتے تھے ۔اس کادائیں جانب اڑنا مبارک سمجھا جاتا تھا ۔اس کی ان کے نزدیک زیادہ اہمیت نہیں تھی ۔البتہ اس کے بائیں جانب پرواز کرنے کو بہت اہمیت دیتے تھے یہ نحوست کی علامت تھی ۔چنانچہ‘‘ تطیر ’’ بد فالی ہی کو کہا جا تا ہے ۔ اسلام نے اس طرح کے اوہام کو ختم کر دیا ۔البتہ کسی موقع پر کسی کی زبان سے کوئی اچھا کلمہ نکل جائے تو اس سے خوشی محسوس کرنا ایک فطری بات ہے اس سے اسلام منع نہیں کرتا ۔چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لا طیرۃ و خیرھا الفال قالوا و ماالفال قال الکلمۃ الصالحۃیسمعھااحدکم. ‘‘پرندوں کے ذریعے شگون لینا صیح بات نہیں ہے اس میں بہتر چیز فال ہے لوگوں نے پوچھا ۔فال کیا ہے ؟آپؐ نے فرمایا اچھی بات جو تم میں سے کوئی شخص سنتا ہے ۔’’

زیر بحث حدیث میں دوسری بات یہ کہی گئی ہے : لا یکتوون (اور وہ داغ نہیں لگواتے )

            بعض امراض میں لوہا گرم کر کے داغ دیا جاتا تھا ۔عربوں میں یہ احساس تھا کہ اس سے بیماری کا بالکل استیصال ہو جاتا ہے کبھی کبھی احتیاطی طور پر بھی داغ لگوایا جاتا تھا یہ ایک بہت ہی سخت اور تکلیف دہ علاج ہے اس میں بے احتیاطی سے نقصان پہنچنے کا شدید خطرہ رہتا ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے بطو ر علاج اس کی افادیت تو تسلیم کی ہے ،لیکن جہاں تک ہو سکے ،ا س سے بچنے کی تلقین کی ہے اور بلا ضرورت اس علاج کو نا پسند فرمایا ہے ۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا :الشفاء فی ثلاث شر بۃ عسل و شر طۃ محجم و کیۃ نار و انھی امتی عن الکی .

            ‘‘شفاء تین چیزوں میں ہے شہد کا گھونٹ پچھنے کا نشان ،اور آگ سے داغ لگانا میں اپنی امت کو داغ لگانے سے منع کرتا ہوں ’’حضرت عمران بن حصبینؓ بیان کرتے ہیں: نھی النبی ﷺ عن الکی فا کتو ینا فما ا فلحنا ولا نجحنا۔  ‘‘نبی ﷺ نے داغ لگوانے سے منع فرمایا۔ (حرام نہیں قرار دیا ) ہم نے داغ لگوایا لیکن ہم نے فلاح نہیں پائی اور کامیاب نہیں ہوئے ۔

            ان احادیث میں داغ کے ذریعے علاج کی جو ممانعت ہے وہ حرمت کے لیے نہیں ہے بلکہ اس سے کراہت اور ناپسندیدگی کا اظہارہوتا ہے ۔اسی وجہ سے صحابہ کرامؓ نے وقت ضرورت اس پر عمل کیا ۔اگر یہ طریقہ علاج ممنوع یا حرام ہوتا تو ظاہر ہے صحابہ کرامؓ اس سے بالکل اجتناب فرماتے ۔لیکن ان احادیث سے بہرحال یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شدید ضرورت کے بغیر داغ لگوانا یا احتیاطی تدبیر کے طور پر اس پر عمل کرنا مکروہ اور نا پسندیدہ ہے ۔اوپر کی حدیث میں ان لو گوں کی تعریف کی گئی ہے ،جو اس نا پسندیدہ علاج سے حتی الواسع پر ہیز کرتے ہیں ۔

 تیسری صفت جس کا حدیث میں ذکر ہے وہ یہ ہے :

            ولا یسترقون (وہ جھاڑ پھونک نہیں کرتے ہیں )اس کا صیح مفہوم سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ دور جاہلیت میں جھاڑ پھونک کا رواج تھا ۔اس میں غیر اسلامی اور مشرکا نہ تصورات بھی شامل ہوتے تھے ۔رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا لیکن اگر اس طرح کی خرابی نہ ہو تو اس کی اجازت بھی دی ہے ۔

            جھاڑ پھونک کو علماء نے تین شرائط کے ساتھ بالاتفاق جائز قرار دیا ہے ۔ایک یہ کہ اللہ کے کلا م اور اسکے اسماء و صفات کے ذریعے جھاڑپھونک کی جائے ۔دوسری یہ کہ عربی زبان میں ہو ،کسی اور زبان میں ہو تو اس کا معنی و مفہوم سمجھ میں آئے تاکہ اس میں کوئی غلط بات شامل ہو تو اسے ترک کر دیا جائے ،تیسری یہ کہ جھاڑپھونک کے بارے میں یہ اعتقاد نہ ہو کہ بذات خود اس میں تاثیر ہے، بلکہ یہ سمجھا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس میں تا ثیر پیدا ہوتی ہے ۔

            اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فی نفسہٖ جھاڑ پھونک سے نہیں بلکہ اس میں مشرکانہ کلمات کے استعمال سے منع کیا گیا ہے ۔

            جہاں تک اس سلسلے میں قرآن و حدیث کی دعاؤں کا تعلق ہے ،ان کے جواز بلکہ استحباب میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے ۔پھر ان کے ترک کو افضل کیسے کہا جا سکتا ہے ۔اس لیے کہ حدیث میں جس یقین اور توکل کی تعلیم دی گئی ہے یہ دعائیں تو اسے مضبوط اور اس میں اضافہ کرتی ہیں ۔

            سوال یہ ہے کہ اگر حدیث میں غلط یا ناپسندیدہ طریقوں سے اجتناب کی فضیلت بیان ہوئی ہے تو اس سے ہر مو من بچتا ہی ہے اور اسے فی الواقع بچنا بھی چاہیے ۔پھر ان ستر ہزار کی کیا خاص فضیلت ہے،جب کہ حدیث بتاتی ہے کہ ان کو دوسروں پر امتیاز اور فضیلت حاصل ہے ؟

            اس کا جواب یہ ہے کہ بیماری میں خاص طور پر جب کہ وہ طول کھینچ جائے یا پیچیدہ شکل اختیار کرلے تو علاج کے صیح اور پسندیدہ طریقوں ہی پر قناعت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے صحت اتنی عزیز ہوتی ہے ایسی صورت میں بہت سے نیک اور صالح افراد بھی حرام اور ممنوع دواؤں کے استعمال سے باز نہیں رہتے خدا پر ان کا یقین بھی کمزور پڑنے لگتا ہے اور وہ بڑی آسانی سے جادو منتر ،ٹوٹوں اور ٹوٹکوں اور قبروں کا سہارا لینے لگتے ہیں ۔اس وقت علاج کے جائز طریقوں ہی پر اکتفا کرنا، غیراللہ سے استعانت نہ چاہنا اور صرف اللہ پر بھروسہ رکھنا بڑے دل گردے کا کام ہے ۔اس کے لیے بڑے ایمان و یقین اور توکل کی ضرورت ہوتی ہے ۔

            حدیث سے بہ ظاہر یہ شبہ بھی ہوتا ہے کہ اس طرح کے اصحاب ِتوکل امت میں صرف ستر ہزار ہوں گے ۔لیکن اس طرح کے اعداد کثرت کے اظہار کے لیے ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان خصوصیات کے افراد کی تعدا د بھی اس امت میں چھوٹی موٹی نہ ہوگی بلکہ بہت بڑی ہوگی ۔

٭٭٭

اقوال زریں

تین کام کسی کے دل میں آپ کی عزت کو بڑھاتے ہیں۔
1- سلام کرنا، 2- کسی کو جگہ دینا، 3- اچھے نام سے پکارنا۔
خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش رہے۔

یاد رکھو

  • جو شخص تمہاری باتوں کو غور سے نہ سنے اسے سننے کی تکلیف نہ دو۔
  • سب سے بڑا گناہ وہ ہے جو کرنے والے کی نظر میں چھوٹا ہو۔
  • جب یہ پتا چل جاتا ہے کہ زندگی کیا ہے تو وہ بہت کم بچی ہوتی ہے۔
  • جو شخص نصیحت مان لے وہ بعض اوقات نصیحت کرنے والے سے بھی بڑا ہوتا ہے۔
  • آسمان پر نظر ضرور رکھو پر یہ نہ بھولو کہ پیر زمین پر ہی رکھے جاتے ہیں۔

٭٭٭