جواب :زمین وآسمان اورجوکچھ اس میں ہے سب کا سب اللہ تعالی کے حکم سے اپنی جگہ پر قائم ہے حتی کہ وہ چٹان بھی جس کے بارہ میں سوال کیا گیا ہے ، اللہ تبارک وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے : ‘‘ بلاشبہ اللہ تعالی ہی آسمان وزمین کوتھامے ہوئے ہے کہ وہ نہ گریں ، اوراگر وہ گر جائیں تواس کے بعد کوئی اورانہیں تھام ہی نہیں سکتا ۔’’ اور اللہ سبحانہ وتعالی نے کچھ اس طرح فرمایا : ‘‘اوراس ( اللہ تعالی ) کی نشانیوں میں سے ہی ہے کہ آسمان وزمین اس کے حکم سے قائم ہیں ۔’’ بیت المقدس کی چٹان ہوا میں معلق نہیں کہ اس کے ہرطرف خلا ہو بلکہ وہ ابھی تک پہاڑ والی جانب سے پہاڑ کے ساتھ ملی ہوئی ہے اوروہ اپنے پہاڑ کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے۔ پہاڑ اورچٹان دونوں عادی اورکونی اسباب کے ساتھ اپنی جگہ پرقائم ہیں اور یہ اسباب سمجھ میں بھی آنے والے ہیں ، پہاڑ اورچٹان کی حالت بھی کائنات کی دوسری اشیا کی طرح ہی ہے۔ لیکن ہم اللہ تعالی کی قدرت کا انکارنہیں کرتے کہ وہ فضا میں کائنات کی کسی چیز کا کوئی جزپکڑکرمعلق کردے ، اورپھرسب کی مخلوقات تواللہ تعالی کی قدرت سے فضا میں قائم ہیں جس کا ذکراوپر بھی گذر چکا ہے۔ قوم موسیٰ نے جب شریعت پرعمل کرنا چھوڑ دیا تواللہ تعالیٰ نے ان پرطورپہاڑکو اٹھا دیا جو کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے معلق تھا ، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے : ‘‘اورجب ہم نے تم سے وعدہ لیا اورتم پر طورپہاڑ کواٹھا کرکھڑا کردیا اور کہا کہ جو ہم نے تم کو دیا ہے اسے مضبوطی سے تھام لو اور جوکچھ اس میں ہے اسے یادکرو تاکہ تم بچ سکو (البقرۃ ( 63 )۔’’ اورفرمان باری تعالی کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے : ‘‘ اوروہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب ہم نے پہاڑ اٹھا کرسائبان کی طرح ان کے اوپرمعلق کردیا اوران کو یقین ہوگیا کہ اب ان پر گرا ( اورہم نے کہا ) کہ جو کتاب ہم نے تم کودی ہے اسے مضبوطی سے تھام لواور اس میں جوکچھ احکام ہیں انہیں یاد کروتوقع ہے کہ تم اس سے متقی بن جاؤ گے (الاعراف )( 171 )۔’’

المختصر، جوچٹان بیت المقدس میں ہے وہ ہر جانب سے فضا میں معلق اورپہاڑسے کلی طور پرعلیحدہ نہیں بلکہ ایک طرف سے پہاڑکے ساتھ منسلک اورچمٹی ہوئی ہے۔

(عبداللہ صالح المنجد)

 جواب :عربوں میں کچھ نہ کچھ دین ابراھیم کی رمق باقی تھی اور یہودیوں اورعیسائیوں کے ساتھ ان کے تعلقات بھی تھے۔ لیکن جو مشکل پائی جاتی تھی وہ یہ تھی کہ وہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے ساتھ اور بھی الہٰ اورمعبود بنا رکھے تھے جن کی عبادت کی جاتی تھی ، اورپھر وہ ان بتوں اورغیراللہ کی عبادت اس دلیل اورحجت پرنہیں کرتے تھے کہ وہ رب اورخالق ورازق ہیں بلکہ وہ انہیں اللہ تعالی اور اپنے درمیان واسطہ قرار دیتے اوروہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کے ذریعہ سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل ہوتا ہے اور اسی لیے اللہ تعالی نے ان کے بارہ میں فرمایا : ‘‘اوراگرآپ ان سے یہ سوال کریں کہ انہیں پیدا کرنیوالا کون ہے تو یہی کہیں گے کہ اللہ تعالی پیدا کرنے والے ہے ۔’’ تویہ بات ان کے اس اعتراف پر دلالت کرتی ہے کہ خالق اللہ تعالی ہے ، اور ایک دوسری آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا: ‘‘ اوراگر آپ ان سے یہ سوال کریں کہ آسمان وزمین کس نے پیدا کیے ہیں ؟ توضرور یہ کہیں گے کہ اللہ تعالی نے ۔’’ اوراسی طرح اوربہت سی ایسی آیات ہیں جو اس پردلالت کرتی ہیں کہ وہ توحید ربوبیت پرایمان رکھتے تھے ، لیکن ان کا شرک توحید الوہیت میں تھا جیسا کہ اللہ تعالی نے مندرجہ ذیل فرمان میں ذکر کیا ہے : ‘‘اورجن لوگوں نے اللہ تعالی کے سوا اولیابنا رکھے ہیں ( وہ کہتے ہیں ) کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ( بزرگ ) اللہ تعالی کے قرب کے لیے ہماری رسائی کروا دیں ۔’’یعنی وہ لوگ یہ کہتے تھے کہ ہم تو ان کی عبادت صرف اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ تواس بنا پراللہ تعالی نے انہیں مشرک اورکافرقرار دیا کیونکہ توحید ربوبیت کا اقرار ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ توحید الوہیت اورتوحید اسما و صفات پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔

(عبداللہ صالح المنجد)

جواب :مسجد اقصی قبلہ اول اور ان تین مساجد میں سے ہے جن کی طرف سفرکر کے جانا جائز ہے ، کہا جاتا ہے کہ اسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا۔ جیسا کہ سنن نسائی ( 693 )میں حدیث موجود ہے اوراسے علامہ البانی نے صحیح کہا ہے ۔اورایک قول یہ ہے کہ پہلے سے موجود تھی توسلیمان علیہ السلام نے اس کی تجدید کی تھی اس کی دلیل صحیحین میں ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسجد حرام ( بیت اللہ ) تومیں نے کہا کہ اس کے بعد کونسی ہے ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : مسجد اقصی ، تومیں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس سال ، پھرجہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہے۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3366 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 520 )۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کورات کے ایک حصہ میں بیت المقدس کی سیر کرائی گئی اوراس مسجد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے انبیا علیہم السلام کونماز پڑھائی۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے معراج کا واقعہ ذکرکرتے ہوئے فرمایا ہے : ‘‘پاک ہے وہ اللہ تعالی جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقینا اللہ تعالی ہی خوب سننے والا اوردیکھنے والا ہے (الاسرا) ( 1 )۔ ’’

اورقبہ صخرہ توخلیفہ عبدالملک بن مروان نے ( 72 ھ ) میں بنوایا تھا۔ فلسطینی انسائیکلوپیڈیا میں ہے کہ : مسجد اقصیٰ کے نام کا اطلاق پورے حرم قدس پر ہوتاتھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین قبہ صخرہ جسے عبدالملک بن مروان نے 72 ھجری الموافق 691 میں بنوایا تھا جوکہ اسلامی آثارمیں شامل ہوتا ہے ، اورآج یہ نام حرم کے جنوبی جانب والی بڑی مسجد پر بولا جاتا ہے۔ دیکھیں : الموسوعہ الفلسطینی? ( 4 / 203 )۔ اوراسی انسائیکلوپیڈیا میں ہے کہ : مسجد اقصی کے صحن کے وسط اور قدس شہرکے جنوب مشرقی جانب یہ قبہ بنایا گیا ہے جو کہ ایک وسیع وعریض اور مستطیل شکل کا صحن جس کی مساحت شمال سے جنوب کی جانب تقریبا 480 میٹر اورمشرق سے مغرب 300 میٹربنتی ہے، اوریہ پرانے القدس شہر سے تقریبا پانچ گناہ زیادہ ہے۔ یہ عبارت کچھ کمی بیشی کے ساتھ پیش کی گئی ہے ، دیکھیں الموسوعہ الفلسطینی? ( 3 / 23 )۔

تووہ مسجد جوکہ نمازکی جگہ ہے وہ قبہ صخری نہیں ، لیکن آج کل قبہ کی تصاویرمنتشر ہونے کی بنا پراکثر مسلمان اسے ہی مسجد اقصی خیال کرتے ہیں ، حالانکہ فی الواقع ایسی کوئی بات نہیں ، مسجد تو بڑے صحن کے جنوبی حصہ میں واقع ہے اورقبہ صحن کے وسط میں ایک اونچی جگہ پر۔ اوریہ بات تواوپربیان کی چکی ہے کہ زمانہ قدیم میں مسجد کا اطلاق پورے صحن پرہو تا تھا۔ اس کی تائید شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ : مسجد اقصیٰ اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سیلمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا ، اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصیٰ کا نام دینے لگے ہیں ، اس جگہ میں جسے عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا نمازپڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ اس لیے کہ جب عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے بیت المقدس فتح کیا تواس وقت اونچی جگہ ( قبہ صخرہ ) پرزیادہ گندگی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ یہودی اس طرف نماز پڑھتے تھے تواس کے مقابلہ میں عیسائی اس جگہ کی توہین کرتے ، تو عمررضی اللہ تعالی عنہ نے اس گندگی کوصاف کرنے کا حکم صادر فرمایا ، اورکعب رضی اللہ تعالی عنہ سے کہنے لگے :

تیرے خیال میں ہمیں مسلمانوں کے لیے مسجد کہاں بنانی چاہیے ؟ ، توکعب رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا : کہ اس اونچی جگہ کے پیچھے ، توعمررضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے ، اویہودی ماں کے بیٹے ! تجھ میں یہودیت کی ملاوٹ ہے ، بلکہ میں تواس کے آگے بناؤں گا اس لیے کہ ہماری مساجد آگے ہوتی ہیں۔ دیکھیں : الرسائل الکبری لشیخ الاسلام ( 2 / 61 )۔

تویہی وجہ ہے کہ ائمہ کرام جب بھی مسجد اقصیٰ بیت المقدس میں داخل ہوکرنماز پڑھتے تو اسی جگہ پرپڑھتے تھے جسے عمررضی اللہ تعالی عنہ نے تعمیرکیا تھا ، اوراس اونچی جگہ ( گنبدوالی ) کے پاس نہ توعمراور نہ ہی کسی اورصحابی رضی اللہ تعالی عنہم میں سے کسی نے نماز پڑھی تھی اورنہ ہی خلفائے راشدہ کے دور میں اس پرقبہ ( گبند ) ہی بنا ہوا تھا بلکہ یہ جگہ عمراورعثمان ، علی ، اورمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور یزید اورمروان کے دور حکومت میں یہ جگہ بالکل کھلی تھی۔

اورنہ ہی صحابہ کرام اورتابعین عظام میں کسی نے اس قبہ کی تعظیم کی اس لیے کہ یہ قبلہ منسوخ ہوچکا ہے ، اس کی تعظیم توصرف یہودی اورعیسائی کرتے ہیں ، اس کا معنی یہ نہیں کہ ہم مسلمان اس کی تعظیم نہیں کرتے بلکہ ہم اسے وہ تعظیم دیتے ہیں جوہمارے دین میں ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے جس طرح کہ ہر مسجد کوتعظیم دی ہے۔

اورعمررضی اللہ تعالی عنہ نے جوکعب رضی اللہ تعالی عنہ کی بات کا انکارکیا اورانہیں اے یہودی ماں کے بیٹے کہا تو یہ اس لیے تھا کہ کعب رضی اللہ تعالی عنہ اسلام سے قبل یہودی علمامیں سے تھے جب انہوں نے عمررضی اللہ تعالی عنہ کواس اونچی جگہ کے پیچھے مسجد بنانے کا مشورہ دیا تواس میں اس چٹان کی تعظیم ہوتی کہ مسلمان نماز میں اس کی طرف منہ کرکے نمازادا کریں ، اور اس چٹان کی تعظیم تو یہودیوں کے دین میں ہے نہ کہ مسلمانوں کے دین اسلام میں۔ مسلمانوں کا قبے کو ہی مسجد اقصیٰ سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تصویروں میں اسے اچھی عمارت وہئیت میں دیکھا ہے ، تویہ اس غلطی کوختم نہیں کرسکتا جوکہ مسجد اقصی اورقبہ کی تمیزمیں پیدا ہوچکی ہے۔ اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ یہودی سازش کا نتیجہ ہو تا کہ ان کے اس قبہ کی تعظیم کی جانی لگے اور وہ اس کی جانب ہی متوجہ ہوجائیں ، یا پھر یہ کہ اس قبے کا اظہار اس لیے کیا جارہا ہے تا کہ مسجد اقصی کوختم کرکے ہیکل سلیمانی قائم ہوسکے۔

اوریہ سب کچھ اس لیے ہے کہ مسلمان یہ گمان کرنے لگیں کہ یہ قبہ صخرہ ہی مسجداقصیٰ ہیں ، اوراگر یہودی اصلی مسجداقصیٰ کومنہدم کرنے لگیں تومسلمانوں کے شوروغوغا کرنے پر انہیں یہ کہا جاسکے کہ یہ دیکھیں مسجد اقصیٰ تو اپنی حالت پرقائم ہے اور اس کی دلیل میں وہ تصویریں پیش کریں تواس طرح وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائیں گے اورمسلمانوں کے غیظ وغضب اورتنقید سے بھی بچ جائیں گے۔

(عبداللہ صالح المنجد)

 جواب :چانداورستارہ مسلمانوں کی علامت بنانے کی شریعت اسلامیہ میں کوئی اصل نہیں اور نہ ہی یہ دورنبوی اورخلفائے راشدین کے دور میں معروف تھا ، بلکہ بنو امیہ کے دورمیں بھی موجود نہیں تھا ، یہ توان ادوار کے بعدکی پیدوار ہے ، مؤرخین اس بارہ میں اختلاف کرتے ہیں کہ اس کی ابتدا کب اورکیسے ہوئی اورکس نے اسے شروع کیا۔ ایک قول تو یہ ہے کہ یہ فارسیوں نے شروع کیا ، اوریہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسے شروع کرنے والے اغریق تھے اوربعد میں یہ کچھ حادثات میں مسلمانوں میں منتقل ہوا۔ دیکھیں : الترتیب الاداریہ للکتانی ( 1 / 320 )۔ اوراس کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب مسلمانوں نے مغربی ممالک کوفتح کیا توان کے کنیسوں میں صلیب لٹک رہی تھی تومسلمانوں نے اس صلیب کے بدلہ میں ہلال رکھ دیا تواس بنا پریہ لوگوں میں منتشر ہوگیا۔ سبب جوبھی ہو معاملہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے جھنڈے اورشعار سب کے سب شریعت اسلامیہ کے موافق ہونے ضروری ہیں ، اورجب کہ ہلا ل کے شعار ہونے پرکوئی شرعی دلیل نہیں ملتی۔اگرچہ مسلمانوں نے اسے اپنا رکھا ہے۔ اوررہا مسئلہ چاند ستاروں میں اعتقاد کا تومسلمانوں کا یہ اعتقاد ہے کہ یہ اللہ تعالی کی مخلوق ہیں ذاتی طور پرنہ توکسی کونفع دے سکتے اورنہ ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں اورنہ ہی زمینی احداث میں ان کی کوئی تاثیر ہی ہے ، یہ تو صرف اللہ تعالی نے بشروانسان کے فائدہ کے لیے پیدا فرمائے ہیں ، اسی کو اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں ذکر کیا ہے : ‘‘آپ سے ہلا ل کے بارہ میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجیے یہ تولوگوں کے وقتوں اور حج کے موسم کے لیے ہیں ۔ البقرۃ( 189 )۔’’ اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا : ‘‘ہم نے رات اوردن کواپنی قدرت کی نشانیاں بنایا ، رات کی نشانی کوتوہم نے بے نور کردیا اوردن کی نشانی کوروشن بنایا ہے تا کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرسکو اور اس لیے بھی کہ سالوں کا شمار اورحساب معلوم کرسکو ۔ الاسرا( 12 )۔’’

اورستاروں کے بارہ میں علما نے کہا ہے کہ اللہ تعالی نے ستاروں کوتین مقاصد کے لیے پیدا فرمایا ہے ، انہیں آسمان کی زینت بنایا ، اورشیاطین کورجم کرنے کے لیے ، اور ایسی علامتیں بنایا جن سے راستہ معلوم کیا جاتا ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے صحیح بخاری کتاب بد الخلق میں کہا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ‘‘اوروہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے ستاروں کوپیدا کیا تا کہ تم ان کے ذریعہ سے اندھیروں میں اورخشکی میں اورسمندر میں راستہ معلوم کرسکو ۔ الانعام ( 97 )۔’’ اوراللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

‘‘ بلاشبہ ہم نے آسمان دنیا کوچراغوں ( ستاروں ) سے مزین کیا ہے اور انہیں شیطانوں کے مارنے کا ذریعہ بنادیا اورشیطانوں کے لیے ہم نے دوزخ کا عذاب تیار کیا ہے۔ الملک ( 5 )۔’’

(عبداللہ صالح المنجد)

جواب :جنبی شخص کے لیے نماز ادا کرنے سے قبل غسل کرنا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ‘‘اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو پاکیزگی اور طہارت اختیار کرو۔’’ اور اگر پانی کی غیر موجودگی یا پھر کسی عذر (مثلاً پانی استعمال کرنے میں بیماری کو ضرر ہو یا پھر شدید سردی میں پانی استعمال کرنے سے بیماری میں اور اضافہ ہونے کا خدشہ ہو ، یا پانی گرم کرنے کے لیے کوئی چیز نہ ہو ) کی بنا پر پانی استعمال کرنے سے عاجز ہو تو غسل کی جگہ تیمم کرسکتا ہے کیونکہ فرمان باری تعالی ہے : ‘‘اور اگر تم مریض ہو یا مسافر یا تم میں سے کوئی ایک قضائے حاجت سے فارغ ہوا ہو یاپھر تم نے بیوی سے جماع کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاکیزہ اور طاہر مٹی سے تیمم کر لو۔’’ اس آیت میں دلیل ہے کہ جو مریض شخص پانی استعمال نہ کرسکتا ہو یا پھر اسے غسل کرنے سے موت کا خدشہ ہو یا مریض زیادہ ہونے کا یا پھر مرض سے شفایابی میں تاخیر ہونے کا، تو وہ تیمم کر لے۔’’ اس تشر یع کا حکم بیان کرتے ہوئے فرمایا: ‘‘اللہ تعالی تم پر کوئی تنگی نہیں کرنا چاہتا لیکن تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے اور تم پر اپنی نعمتیں مکمل کرنا چاہتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو۔ المائدہ 6 ۔’’ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ‘‘غزوہ ذات سلاسل میں شدید سرد رات میں مجھے احتلام ہو گیا ، اس لیے مجھے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اگر میں نے غسل کیا توہلاک ہو جاؤں گا ۔ اس لیے میں نے تیمم کر کے اپنے ساتھیوں کو فجر کی نماز پڑھا دی چنانچہ انہوں نے اس واقعہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : ‘‘اے عمرو! کیا آپ نے جنابت کی حالت میں ہی اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی تھی؟ ’’ چنانچہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو غسل میں مانع چیز کا بتایا اور کہنے لگا کہ میں نے اللہ تعالی کا فرمان سنا ہے : ‘‘اور تم اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرویقینا اللہ تعالی تم پر رحم کرنے والا ہے۔ النسا 29 ۔ ’’ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے اورکچھ بھی نہیں فرمایا۔ ’’ سنن ابو داؤد حدیث نمبر 334 علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابو داؤد میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں: ‘‘ اس حدیث میں اس کا جواز پایا جاتا ہے کہ سردی وغیرہ کی بنا پر اگر پانی استعمال کرنے سے ہلاکت کا خدشہ ہو تو تیمم کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح تیمم کرنے والا شخص وضو کرنے والوں کی امامت بھی کروا سکتا ہے۔’’ دیکھیں فتح الباری (454/1) اور شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں: ‘‘اگر تو آپ گرم پانی حاصل کرسکیں یا پھرپانی گرم کرسکتے ہوں یا پھر اپنے پڑوسیوں وغیرہ سے گرم پانی خرید سکتے ہوں تو آپ کے لیے ایسا کرنا واجب ہے ، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ‘‘اپنی استطاعت کے مطابق اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرو۔’’ اس لیے آپ اپنی استطاعت کے مطابق عمل کریں ، یا تو پانی گرم کر لیں یا پھر کسی سے خرید لیں یا پھر اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ جس سے آپ پانی کے ساتھ شرعی وضو کرسکیں۔ لیکن اگر آپ ایسا کرنے سے عاجز ہوں اور شدید سردی کا موسم ہو اور اس میں آپ کو خطرہ ہو اور نہ ہی پانی گرم کرنے کی کوئی سبیل ہو اور نہ ہی اپنے اردگرد سے گرم پانی خرید سکتے ہوں تو آپ معذور ہوں گے اور آپ کے لیے تیمم کرنا ہی کافی ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ‘‘اپنی استطاعت کے مطابق اللہ کا تقوی اختیار کرو۔’’ آپ کو چاہیے کہ جتنے جسم کا آپ غسل کر سکتے ہیں اس کا غسل کریں مثلا اگر آپ کے لیے کسی ضرر کا اندیشہ نہ ہو تو بازوؤں اور ٹانگیں وغیرہ جو کچھ دھو سکتے ہوں وہ دھو لیں اور پھر تیمم کرلیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آپ کو جلد از جلد شفایاب کرے اور آپ کی بیماری کو آپ کے گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا سبب بنائے ۔ واللہ اعلم۔

(عبداللہ صالح المنجد)

 سوال :قرآن مجید میں آتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال دعوت وتبلیغ کا کام کیا۔ اب تک میرا خیال تھا کہ انسان کی اوسط زندگی اور قد کاٹھ ایک جیسا ہی ہے۔ دوچار انچ یا پانچ دس سال کا فرق تو سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن روایات میں جس طرح عوج بن عنق کے قد کاٹھ کے بارے میں جس طرح مبالغہ آرائی پائی جاتی ہے وہ حقیقت نظر نہیں آتی۔ چونکہ ان کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے اس لیے ہم آسانی سے اس کی تردید کر سکتے ہیں۔ لیکن حضرت نوح علیہ السلام کی ساڑھے نو سو سال تبلیغ کا ذکر قرآن مجید میں ہے جس کو ہم کسی قیمت نہیں جھٹلا سکتے۔ کیا حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے تمام افراد کی عمریں اتنی ہی تھیں؟ اس قوم کے قد کاٹھ ہمارے جیسے تھے یا ان کی نوعیت کچھ اور تھی۔ مجھے یاد پڑتاہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ اب سے چار پانچ ہزار سال پہلے بتاتے ہیں۔ چار پانچ ہزار سال انسانی تاریخ میں کوئی معنی نہیں رکھتے۔ یہ بات کسی طور سمجھ میں نہیں آتی کہ صرف چار ہزار سال پہلے کسی کی عمر ہزار سال ہو۔ قرآن سے کسی اور پیغمبر کے بارے میں اس طرح کی بات معلوم نہیں ہوتی۔

جواب :حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ قبل تاریخ کا زمانہ ہے۔مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ بائیبل میں دیے گئے شجرہ نسب سے حضرت آدم اور حضرت نوح وغیرہ کے زمانے کا اندازہ لگانا درست نہیں ہے۔ اس شجرہ نسب میں وہی نام باقی رہ گئے ہیں جو بہت معروف ہوگئے تھے اور بیچ کی کئی نسلیں غائب ہیں۔ ان کے خیال میں یہ درحقیقت بڑے بڑے سرداروں کے نام ہیں۔ ایک اور دوسرے شخص کے بیچ میں ممکن ہے کئی سو برس کا فاصلہ ہو۔ ان کی اس رائے کو سامنے رکھیں جو واضح طور پر درست لگتی ہے تو حضرت نوح کے زمانے کے بارے میں کوئی اندازہ قائم کرنا ممکن نہیں۔ البتہ اگر کوئی خارجی شواہد موجود ہوتے تو ہمیں کوئی رائے قائم کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔ لیکن حضرت نوح کے حوالے سے ایسے کوئی شواہد میرے علم کی حد تک ابھی تک نہیں ملے۔ اب ہمارے پاس واحد یقینی ذریعہ قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید میں بھی صرف حضرت نوح علیہ السلام کی عمر ہی کا ذکر ہے۔ کوئی اور بات اس زمانے کے انسانوں کے حوالے سے مذکور نہیں ہے۔ بائیبل کتاب پیدایش کے باب ۵ اور ۶ میں جو تفصیل منقول ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لمبی عمروں کا یہ سلسلہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد ختم کر دیا گیا۔ قرآن مجید کے بیان کی روشنی میں ہم یہ اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ بائیبل کا یہ بیان درست ہو۔ لیکن یقینی رائے کے لیے سائنسی شواہد کی دستیابی ضروری ہے البتہ حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں قرآن کا بیان حتمی ہے اور ان کے بارے میں ہم یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی عمر یہی تھی۔ یہ سوال کہ اس زمانے کے لوگوں کے قد کاٹھ کیا تھے، اس کا واحد ماخذ اسرائیلی روایات ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اس سلسلے میں جو کچھ مروی ہے وہ انھی روایات سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے۔ لہذا اس باب میں خاموشی ہی بہتر ہے۔ جو خارجی شواہد ابھی تک سامنے آئے ہیں ان سے تو قد کاٹھ کے بارے میں ان بیانات کی تائید نہیں ہوتی۔ لیکن قبل تاریخ کے انسان کے بارے میں ان تصورات کی قطعی تردید بھی شاید ابھی ممکن نہیں ہے۔ معلوم تاریخ کے انسان کی عمر اور قد کاٹھ کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ آج کے انسان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔ خارجی شواہد یعنی عمارتیں اور دوسرے آثار سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن کیا اس کی روشنی میں ہم قرآن کے بیان کی نفی کر سکتے ہیں۔ یقینا اس نفی کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ قرآن کے بیان کو ماننے کے بعد ہم یہ اندازہ بھی قائم کر سکتے ہیں کہ ان کے زمانے میں عام عمریں بھی ایسی ہی تھیں۔ اس اندازے کی تائید بائیبل کے بیان سے بھی ہوتی ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کی عمر کو ایک معجزہ بھی قرار دے سکتے ہیں۔ باقی رہا قد کاٹھ تو اس باب میں کوئی یقینی بات ہمارے پاس نہیں ہے۔ خارجی شواہد کی روشنی میں ہم ان اسرائیلی روایات کو رد بھی کر سکتے ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: نمازی کی سجدے تک کی جگہ سے گزرنا گناہ ہے۔ اگر اس نے اپنے آگے کوئی نشان قائم کر رکھا ہے تو اس کے پرے سے گزرا جا سکتا ہے ، خواہ وہ نشان ایک چھڑی کھڑی کر کے ہی قائم کیا گیا ہو۔ اگر ایسا کوئی نشان قائم نہ کیا گیا ہو تو سجدے کی جگہ چھوڑ کر گزرا جا سکتا ہے۔ اگر اتنا فاصلہ رکھا جائے جس سے نمازی کو کوئی الجھن پیش نہ آئے تو زیادہ بہتر ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :شدید مصروفیت کا لفظ درست نہیں ہے۔ سفر جس طرح قصر نماز کی رخصت کا باعث ہے اسی طرح سفرجیسی صورت حال جس میں آپ کے پاس بعض اوقات نماز پڑھنے کا موقع نہیں ہوتا دو نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں۔ لیکن گھر اور دفتر کی شدید مصروفیت نمازیں جمع کرنے کا سبب نہیں ہو سکتی۔ظہر اور عصر کی نمازیں جمع ہو سکتی ہیں اور مغرب اور عشا بھی جمع ہو سکتی ہیں۔ جمع کرنے میں ظہر کے وقت ظہر کے معاً بعد عصر یا عصر کے وقت عصر سے معاً قبل ظہر کو ملایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مغرب کے ساتھ عشا کو اور عشا کے ساتھ مغرب کو بھی ملایا جا سکتا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

 جواب :اسلام میں داخل ہونے سے کیا مراد ہے۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں اور ہمارے پاس ان سے دین سیکھنے اور جاننے کا براہ راست موقع ہو تو کسی فقہ کے ساتھ تمسک کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ عملاً معاملہ یہ ہے کہ ہم قرآن و سنت کے عالم ہوں تب بھی بہت سے معاملات میں ہمیں دوسرے علما کی رائے اور سوچ سے استفادہ کرنا پڑتا ہے۔ عام آدمی جو قرآن و سنت سے براہ راست استفادہ نہیں کر سکتا وہ علما کی آ را قبول کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں رکھتا ۔ اس کو یہ مشورہ دینا مہلک ہے کہ تم براہ راست قرآن و سنت سے جو کچھ سمجھ میں آتا ہے اسے اختیار کرو اور کسی عالم کی را ئے اور تحقیق کیطرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھو۔ عام آدمی کو صحیح مشورہ یہی ہے کہ وہ قرآن و سنت ہی کو دین کا ماخذ جانے اور علما سے اسی رائے کو قبول کرے جو اسے قرآن وسنت کے دلائل پر مبنی لگتی ہو۔ اگر کسی شخص کا اختلاف اس کے سامنے آئے تو وہ اس اختلاف کو اپنی استعداد کی حد تک دلائل ہی کی بنا پر رد کرے اور اس اختلاف کی حقیقت کو سمجھنے میں اپنے دینی رہنما سے مدد لے۔ لیکن اگر اسے محسوس ہو کہ اختلاف کرنے والے کی رائے قرآن و سنت سے زیادہ قریب ہے تو اسے اختیار کرے اور اپنے گروہ کے ساتھ وابستگی کو تعصب نہ بننے دے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ اپنے گروہ کی رائے کے ساتھ اصرار اگر اللہ اور رسول کی اطاعت کے جذبے کے ساتھ ہو تو مطلوب ہے۔ تقلید انسانی مجبوری ہے۔ اسے صرف اس وقت برا قرار دینا چاہیے جب یہ حق کے مقابلے میں کھڑی ہو جائے اور بندہ جانتے بوجھتے حق کا انکار کر دے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :دنیا میں کامیابی یا فروغ پانا ہی اگر حق ہونے کی دلیل ہے تو وہ پیغمبر جنھیں ان کی قوموں نے جھٹلا دیا اور چند نفوس کے سوا کسی نے ان کی بات نہ سنی ان کے بارے میں دوسری رائے قائم کرنا پڑے گی۔ دنیا میں فروغ کے اسباب دوسرے ہیں۔ ہمارے مسلمانوں میں شرک کی بعض صورتیں رائج ہیں کیا رائج ہونے یااکثریت میں ہونے کی وجہ سے وہ بھی درست قرار پائیں گی۔ اس وقت بھی عیسائی مذہب کے ماننے والے سب سے زیادہ ہیں اور انھیں دنیاوی غلبہ بھی حاصل ہے۔ تثلیث کا عقیدہ ان کا بنیادی عقیدہ ہے۔ کیا یہ عقیدہ ان کی اس ترقی اور فروغ کی وجہ سے صحیح مان لیا جائے۔حق صرف وہ ہے جسے قرآن حق قرار دے۔ خواہ اس بات کو ماننے والا آدمی دنیا میں ایک ہو اور اس کی بات کو ساری دنیا رد کردے۔

(مولانا طالب محسن)

 جواب :آپ کے سوالات کے حوالے سے میری گزارشات حسب ذیل ہیں:

کسی گروہ کو جو قطعی نصوص سے ثابت کسی امر کا منکر ہو، تاویل کی رعایت دیتے ہوئے تکفیر سے بچانے کا اصول بالکل درست ہے، تاہم اس کا عملی اطلاق کرتے ہوئے بہت سے دوسرے پہلووں کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ قادیانیوں کے معاملے میں امت نے کم وبیش اجماعی طور پر اس اصول کے اطلاق کو درست نہیں سمجھا جس کے بنیادی وجوہ میرے فہم کے مطابق دو ہیں:

ایک یہ کہ تاویل کی رعایت علمی وعقلی طور پر اسی صورت میں دینی چاہیے جب اس بات کا کافی اطمینان ہو کہ منکر دیانت داری کے ساتھ غور کرتے ہوئے فی الواقع کسی شبہے کی وجہ سے انکار کر رہا ہے۔ مرزا غلام احمد کے معاملے میں یہ صورت نہیں پائی گئی۔ اول تو نبوت اور نزول وحی کا دعویٰ کرنا بذات خود ایک بہت بڑا جھوٹ اور افترا ہے۔ پھر مرزا صاحب کے ہاں کذب اور افترا اور اخلاقی بد دیانتی کی جو مثالیں کثرت سے پائی جاتی ہیں ، وہ اس کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتیں کہ ان کے بارے میں کسی حسن ظن سے کام لیا جائے۔ مزید برآں کسی بھی گروہ کی طرف سے پیش کی جانے والی تاویلات خود اپنی نوعیت کے لحاظ سے بھی یہ بتا دیتی ہیں کہ ان میں شبہے کا پہلوکتنا ہے اور عمداً تحریف کا کتنا۔ صدر اول میں جن گروہوں مثلاً جہمیہ وغیرہ اور بعد میں روافض کی تکفیر کے متعلق سلف نے عمومی طور پر جو احتیاط کی ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ نصوص اور واقعات کی تعبیر میں عام انسانی نفسیات اور فہم کے اعتبار سے ایسی گنجائش محسوس کرتے ہیں جو ان گروہوں کے راہ راست سے بھٹکنے کا سبب بنی۔ خود قرآن نے یہود کے لیے'مغضوب علیہم' اور نصاریٰ کے لیے 'ضالین' کے الگ الگ الفاظ استعمال کر کے اس پہلو کو واضح کیا ہے اور کفر وضلالت میں دونوں گروہوں کے اشتراک کے باوجود قرآن کا لب ولہجہ یہود کے بارے میں بدیہی طور پر زیادہ سخت اور بے لچک، جبکہ نصاریٰ کے معاملے میں نسبتاً نرم ہے۔ قادیانی حضرات کی تاویلات کا معاملہ نصاریٰ سے زیادہ یہود سے مشابہت رکھتا ہے۔ مرزاصاحب اور ان کے حواریوں کی پیش کردہ تمام تاویلات سے صاف واضح ہوتا ہے کہ وہ نصوص کو خارج میں قائم کردہ ایک مفروضے کے اثبات کے لیے توڑنا مروڑنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے واضح ترین دلالتوں کو چھوڑ کر دور از کار تاویلات اور احتمالات کا سہارا لینے میں وہ کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ یہ ساری صورت حال میرے خیال میں اس کا سبب بنی ہے کہ علماے اسلام قادیانی گروہ کے معاملے میں تاویل اور شبہے کی وجہ سے عدم تکفیر کے اصول کا اطلاق کرنے پر مطمئن نہیں ہوئے اور ان کی تکفیر ہی پر امت کا اتفاق ہو گیا۔

دوسری اہم وجہ وہ اصول ہے جسے علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ نے اپنی تحریروں میں واضح کیا ہے۔ کسی گروہ کو تاویل کا فائدہ دینا اس لازمی شرط سے مشروط ہے کہ وہ گروہ امت مسلمہ کے بنیادی مذہبی تشخص سے ہٹ کر اپنے لیے کسی الگ مذہبی تشخص کا مدعی نہ ہو۔ دنیا کے مذاہب میں امت مسلمہ کا بنیادی مذہبی تشخص جو اسے سماجی اورمعاشرتی سطح پر دوسرے گروہوں سے ممتاز کرتا ہے، وہ ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک دین کا واحد اور حتمی ماخذ ماننا۔ اگر کوئی گروہ ختم نبوت کے عقیدے میں تاویل کر کے ایک نئے مصدر اطاعت اور ماخذ ہدایت کی بنیاد پر اپنا الگ تشخص قائم کرتا ہے تو وہ غیر تشریعی، ظلی اور امتی نبی کی اصطلاحوں کا کتنا ہی سہارا لے، عملاً وہ اپنے آپ کو ایک نئے مرکز اطاعت سے وابستہ کر دیتا ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینے کے باوجود آپ کی تعلیمات کی تعبیر وتشریح میں وہ اس نئے مرکز اطاعت کو حتمی اتھارٹی کا درجہ دیتا ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی بات عملاً بے معنی ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود قادیانی حضرات اپنے اس تصور کی رو سے مجبور ہیں کہ ایمان واسلام کے دائرے کو مرزا صاحب کے معتقدین تک محدود رکھتے ہوئے ان پر ایمان نہ رکھنے والی ساری امت مسلمہ کو 'کافر' شمار کریں۔

قادیانی گروہ کو قانونی طور پر مسلمانوں سے الگ ایک غیر مسلم گروہ قرار دے دیے جانے سے امت مسلمہ کے تشخص اور اس کی اعتقادی حدود کی حفاظت کا مقصد پورا ہو جاتا ہے البتہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ قادیانی قیادت اور ان کے تاویلاتی جال میں پھنس جانے والے عام سادہ لوح مسلمانوں کو دعوت اور پیار سے واپس لانے کی کوشش کی جائے اور اس کے لیے مسلمان علما اور داعیوں کی ایک پوری جماعت تیار کی جائے

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)