میں نے کیوں اسلام قبول کیا؟

مصنف : عبد الرحمن / رگھو بیر سنگھ (مظفر نگر، اتر پردیش)

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : جنوری 2011

میرا پرانا نام رگھو بیر سنگھ تھا۔ میں قصبہ کھتولی ضلع مظفر نگر (یوپی) کے ایک کمہار مزدور گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ گھر کے لوگ سادگی میں مجھے رگھو کہا کرتے تھے۔ ۱۹۷۱ء میں اللہ نے مجھے ہدایت عطا فرمائی۔ اس وقت میری عمر اکیس سال ہو گی۔ میرے والد دیپ چند جی کا انتقال ہو گیا ہے۔ اب میرے تین بھائی اور دو بہنیں حیات ہیں۔ والدہ کا میری شادی کے سال انتقال ہو گیا تھا۔ اس وقت میں کھتولی میں جنرل مرچنٹ کی دکان کرتا ہوں۔ درمیان میں میں نے نائی کی دکان بھی کی تھی۔ شرعی قباحتوں کی وجہ سے اب میں نے وہ دکان چھوڑ دی ہے۔

میرے قبول اسلام کا واقعہ ایک لطیفہ ہے۔ ہوا یہ کہ ۱۹ سال کی عمر میں میری شادی ہو گئی۔ بیوی بہت خوبصورت تھی۔ ان کا میکہ بھی ہمارے خاندان سے ذرا اونچا تھا۔ ان کے والد ایک اچھے کسان تھے اور کچھ کاروبار بھی کرتے تھے۔ ہمارے گھر غربت کی حالت میں اس کا دل نہ لگا۔ میں دسویں کلاس فیل تھا۔ وہ مجھے سے پڑھی ہوئی بھی زیادہ تھی۔ اس نے انٹرمیڈیٹ پاس کر رکھا تھا۔ وہ مجھے بہت پسند آئی اور مجھے اس سے محبت ہو گئی۔ ایک مرتبہ اس کے میکے والے اس کو لینے کے لیے آئے، وہ گھر چلی گئی۔ کچھ زمانے کے بعد اس کے لینے کے لیے گیا تو ا س نے آنے سے انکار کر دیا۔ مجھے بہت صدمہ ہوا، پھر میں نے والد کو لینے کے لیے گئے، مگر ان لوگوں نے اس کو نہیں بھیجا۔ رشتے داروں اور ذمہ داروں سے سفارشیں کرائیں، مگر انھوں نے صاف انکار کر دیا۔

 ظاہری کوششیں بے کار ہو جانے کے بعد سیانوں اور ملاؤں سے ٹونے ٹوٹکے، گنڈے اور تعویذ کرانے شروع کیے، مگر کام بننے کی کوئی صورت نہ نکلی۔ میں اس کو بہت یاد کرتا۔ میرا دل ہر کام سے اچاٹ ہو گیا اور نیم پاگل سی حالت میں بے چین رہتا۔ میرے والد کو کسی نے بتایا کہ جمعہ کی رات ہفتہ کی صبح تک اکبر خاں والی مسجد میں مسلمانوں کا بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ وہاں بہت سے مولوی لوگ آتے ہیں۔ آپ وہاں جاؤ۔ میرے والد سنیچر کی صبح کو وہاں پہنچے۔ لوگوں نے بتایا کہ مسجد کے باہر جاؤ۔ جب پروگرام ختم ہو گا، کسی مولوی سے ملوا دیں گے۔ ایک ملا جی مسجد سے باہر تہری کی ٹھیلی لگاتے تھے۔ میرے والد صاحب ان کے پاس گئے اور اپنا دکھ بتایا۔ انھوں نے کہا کہ ہم کھتولی والے سارے کاموں میں پھلت والوں کے پاس جاتے ہیں۔ وہ جوان جو کھڑے ہوئے تقریر کر رہے ہیں، وہ پھلت کے رہنے والے ہیں۔ وہ اگرچہ دیکھنے میں مولوی نہیں لگ رہے ہیں، مگر پھلت کے ہیں او رپھلت کے لوگ بہت پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب وہ نکلیں تو بس ان سے چمٹ جانا۔ وہ منع کریں گے، لیکن اگر انھوں نے تیرا کام کر دیا تو بس تیرا کام بن جائے گا۔

اصل میں وہ مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب تھے، جو اس وقت مشن اسکول میں گیارہویں کلاس میں پڑھتے تھے۔ اسکولی ڈریس میں اجتماع میں شریک ہوتے تھے۔ گو وہ جماعت تبلیغ سے لگے ہوئے تھے اور بہت اچھی تقریر کرتے تھے، مگر لوگ اس وقت ان کو مولوی صاحب کہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ہفتہ واری اجتماع میں جوڑنے والی یا صبح چھ نمبر والی بات اکثر وہی کرتے تھے۔ اشراق سے فارغ ہو کر وہ باہر نکلے۔ بستہ ساتھ تھا۔ اسکول کی طرف رخ تھا۔ میرے والد ان کے پیچھے آواز لگاتے دوڑے۔ مولوی صاحب! مولوی صاحب! وہ مولوی صاحب ہوتے یا اپنے آپ کو مولوی صاحب سمجھتے تو سنتے۔ میرے والد نے دوڑ کر ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولے : جی! ایسی بھی کیا بات ہے؟ اتنی آواز دے رہا ہوں، سنتے بھی نہیں!

وہ بولے: آپ مولوی صاحب، مولوی صاحب، آواز دے رہے تھے۔ میں مولوی کہاں ہوں؟ میرے والد بولے: یہ تو مجھے ملا جی تہری والوں نے خوب بتایا ہے کہ پھلت والے اپنے آپ کو بہت چھپاتے ہیں۔ آپ کو میرا کام کرنا پڑے گا۔ انھوں نے معلوم کیا کہ آپ کا کیا کام ہے؟ میرے والد صاحب نے کہا: لڑکے کی بیوی نہیں آتی۔ لڑکا غم میں مرا جا رہا ہے۔ کچھ کام بھی نہیں کرتا۔ ایسا تعویذ دے دو کہ بہو آ جائے۔ وہ بولے: بھائی! ملا جی نے آپ سے مذاق کیا ہے۔ میرے تو پردادا نے بھی کبھی تعویذ نہیں بنایا۔ میرے والد صاحب کو ملا جی نے بتایا تھا کہ وہ انکار کریں گے، تم ہر گز نہ ماننا۔ ان کے انکار سے والد صاحب کو اور بھی یقین ہو گیا کہ چھپے ہوئے آدمی ہیں۔ ہر ایک کا کام نہیں کرتے، اس لیے انھوں نے اصرار کیا، بولے: آپ مجھے تو نہیں بہکا سکتے ہیں۔ مجھے سب اصلیت پتا ہے۔ میں آپ کے ساتھ رہوں گا اورجب تک میرا کام نہیں ہو گا، ہر گز نہ ٹلوں گا۔

بہت سمجھانے اور معذرت کرنے کے باوجود جب وہ نہیں مانے تو انھوں نے جان چھڑانے کے لیے اگلے سنیچر کا وعدہ کر کے اپنی جان چھڑائی۔

اگلے سنیچر جب محمد کلیم صدیقی صاحب نے مسجد میں تقریر کے دوران جوتوں والے برآمدے کی طرف گردن گھمائی تو میرے والد پر ان کی نگاہ پڑی۔ وہ مجھے لے کر وہاں صبح صبح پہنچ گئے تھے۔ کمہاروں کی صبح بھی جلدی ہوتی ہے۔ کلیم صاحب کو پچھلے ہفتے کا اصرار یاد آیا۔ بات کا توازن بگڑ گیا، کسی طرح اپنے کو سنبھال کر بات پوری کی۔ اشراق کی نیت باندھی ۔ نماز میں جان بچانے کی ترکیب سوجھی۔ دو رکعت پڑھ کر انھوں نے میرے والد کو بلایا اور کہا: اپنے بیٹے کو مسجد کے غسل خانے میں بھیج کر اشنان (غسل) کرنے کو کہو۔ انھوں نے مجھے نہانے کو کہا۔ نماز پڑھ کر وہ مجھے مسجد کے باہر والے حجرے میں لے گئے او رتین بار کلمۂ طیبہ پڑھوایا۔ اس کے معنی بھی بتائے او رمجھے کہا کہ بس ایک مالک سب کچھ کرنے والا ہے۔ اگر تم نے یہ کلمہ دل میں بٹھا لیا تو وہ مالک تمھاری بیوی کو بغیر بلائے بھیج دے گا اور مجھے ایک کاغذ پر ہندی میں کلمہ طیبہ لکھ کر دیا کہ ہر وقت سچے دل سے اس کا جاپ کرتے رہو۔ باہر آ کر میرے والد سے کہا کہ میں نے ان کو ایک منتر بتا دیا ہے کہ اس کا جاپ کریں، مالک ضرور آپ لوگوں کی سن لے گا۔

اس کے بعد مسجد میں جا کر انھوں نے دو رکعت اور نفل پڑھی۔ اور خوب دل سے دعا کی کہ الٰہی، زبان سے تو میں نے کہلوا دیا،دل میں آپ اتار سکتے ہیں۔ ہم دونوں مطمئن ہو کر گھر لوٹے۔ چوتھے دن میرے سسر میری بیوی کو لے کر میرے گھر آ گئے۔ خوشی خوشی ان کو چھوڑ کر چلے گئے۔ مجھے اس منتر پر بہت اعتقاد ہو گیا اور خوب اس کا جاپ کرتا اور کبھی زور زور سے مزے لے کر پڑھنے لگتا تھا۔ کبھی کبھی مزے میں مجھے وجد آ جاتا۔ اگلے سنیچر کو میرے والد دو کلو لڈو لے کر پھلت پہنچے۔ اس سنیچر کومحمد کلیم صدیقی صاحب نہیں آئے۔ وہ مایوس ہو کر لوٹے اور تیسرے سنیچر کو پھر گئے۔ اجتماع سے فارغ ہو کر جیسے ہی وہ مسجد سے نکلے تو میرے والد نے ان کا بہت شکریہ ادا کیا او روہ لڈو پیش کیے۔ انھوں نے لڈو واپس کر دیے کہ اس میں میرا کچھ کام نہیں۔ مالک نے آپ کی سن لی۔ میرے والد نے کہا : ایک بات پوچھنی ہے کہ میرا بیٹا ہر وقت آپ کے جس منتر کا جاپ کرتا رہتا ہے، اس سے کچھ نقصان تو نہیں ہو گا؟ انھوں نے کہا کہ بہت اچھا ہے، اس کو بہت فائدہ ہو گا۔

میں ہر وقت کلمہ پڑھتا رہتا۔ ایک دن مزے مزے میں زور زور سے میں اس کلمے کو پڑھتا پھلت جا رہا تھا۔ پھلت کے ایک ملا جی جو بڑھئی کا کام کرتے تھے، غلام حسین ان کا نام ہے، وہ ہمارے محلے میں کواڑ کھڑکیاں بنانے آتے تھے۔ انھوں نے سن لیا۔ وہ ہمیں اچھی طرح جانتے تھے۔ انھوں نے سنا تو بولے: ارے رگھو! تو یہ کیا پڑھ رہا ہے؟ میں نے کہا کہ یہ منتر ہے۔ پھلت والے مولوی صاحب نے بتایا تھا۔ اس سے تو میری بیوی آئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ تواسلام کا کلمہ ہے۔ یہ کلمہ پڑھ کے ہی تو آدمی مسلمان ہوتا ہے۔ میں نے کہا تو کیا میں مسلمان ہو گیا ؟ انھوں نے کہا اگر سچے دل سے تو نے پڑھا ہے تو مسلمان ہو ہی جائے گا۔ میں نے کہا کہ میں تو سچے دل سے اور وشواس (یقین) سے ہی پڑھتا ہوں۔ ایسا تو آپ بھی نہ پڑھتے ہوں گے۔ اس پر وہ بولے: پھر تو تو مسلمان ہو گیا۔ میں نے کہا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ انھوں نے کہا: اب تمھیں اپنا مسلمان نام رکھنا چاہیے اور نماز یاد کر کے پانچ وقت کی نماز پڑھنی چاہیے۔ میں نے پوچھا کہ کیا نام رکھوں۔ انھوں نے کہا کہ عبد الرحمن رکھ لو۔ میں نے کہا کہ نماز مجھے کون سکھائے گا؟ انھوں نے کہا کہ میں سکھا دوں گا۔ میں نے کہا : بہت اچھا، وہ روز رات کو مجھے وقت دیتے، دن چھپنے کے بعد وہ مجھے نماز سکھاتے، پندرہ بیس روز میں مجھے خاصی نماز آ گئی۔ انھوں نے مجھے ہندی میں ایک دو کتابیں لا کر دیں، ‘‘جنت کی کنجی’’ اور ‘‘دوزخ کا کھٹکا’’ تو مجھے آج تک یاد ہیں۔

میں چھپ چھپ کر نماز پڑھنے لگا۔ میں نے وہ کتابیں اپنی بیوی کو پڑھائیں اور ان کو اپنے مسلمان ہونے کا حال بتایا اور اس کو قسم دے کر کہا کہ سچی ہندو بیوی شوہر کے ساتھ اس کی چتا میں جل جاتی ہے۔ تجھے بھی میرے مذہب میں آ جانا چاہیے۔ وہ تیار ہو گئی۔ ملا جی غلام حسین نے اس کو بھی کلمہ پڑھوا دیا۔ اس کا نام فاطمہ رکھ دیا اور اب ہم ایک دوسرے کی پہرے داری کر کے کبھی کبھی باری باری گھر میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ ایک روز میرے والد نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا۔ مجھے ڈانٹنے لگے، مجھے بھی غصہ آ گیا اور میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں، آپ سے جو ہو، وہ کر لو۔ انھوں نے بھائیوں کے ساتھ مل کر مجھے بہت مارا اور میں گھر سے بھاگ گیا۔

اس کے بعد میں تیس روز گھر سے باہر رہا۔ میں دہلی چلا گیا اور خیال تھا کہ بس یہاں کوئی روزگار دیکھ لوں گا۔ میرے والد صاحب پانچ چھ لوگوں کو لے کر پھلت پہنچے اور کلیم صاحب سے میرا پتا مانگا۔ انھوں نے لا علمی کا اظہار کیا، مگر ان کو یقین نہ آیا۔ وہ کہتے رہے کہ آپ نے اس پر جادو کر کے اس کو مسلمان کیا اور ہمارا لڑکا آپ کے پیٹ (علم) میں ہے۔ اگر پرسوں تک وہ نہ آیا تو ہم تھانے میں رپورٹ کر دیں گے۔ کلیم صاحب بہت پریشان ہوئے۔ ان کو سمجھایا کہ میری تواس کے ساتھ ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ میں نے آپ کے ساتھ بھلاکیا۔ آپ اس کا یہ بدلہ دے رہے ہیں! مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے، مگر انھوں نے ایک نہ سنی اور بدتمیزی سے دھمکی دے کر واپس آ گئے۔

نہ جانے کیوں میرا دل دلی میں بہت گھبرایا۔ میرے دل میں شدید تقاضا ہوا کہ پھلت جاؤں اور محمد کلیم صدیقی صاحب سے ملوں ۔ رات گزارنا مشکل ہو گیا۔ مجبوراً اسٹیشن پہنچا۔ رات کو ایک گاڑی کھتولی جاتی تھی۔ اس سے کھتولی پہنچا اور صبح صبح پیدل پھلت پہنچ گیا۔ کلیم صاحب مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ میں نے سارا ماجرا سنایا۔ انھوں نے بتایا کہ میں تو بہت پریشان تھا۔ ہمارے گھر والے بھی تھانہ پولیس سے بہت بچتے ہیں۔ بہت دعا کر رہا تھا، اللہ کا شکر ہے، آپ آ گئے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے کھتولی لے چلیں۔ میرا ہاتھ پکڑ کر میرے والد کے ہاتھ میں دے دیں کہ آپ کا بیٹا یہ ہے۔ اب آپ اس کو چھوڑیں یا بند کر کے رکھیں، میں ذمہ دار نہیں ہوں گا۔ اور اس سے بھی معلوم کر لو کہ میں اس سے کبھی ملا بھی تھا؟ انھوں نے کہا: کہ وہ تمھیں بہت ماریں گے۔ میں نے کہا میں خود سنبھال لوں گا۔ وہ مجھے لے کر لئے اور میرے والد صاحب کے ہاتھ میں میرا ہاتھ دے کر کہہ آئے کہ آئندہ میں ذمہ دار نہیں، اس سے پوچھ لو: یہ کبھی مجھ سے ملا تھا؟ میں نے کچھ روز معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے گھر میں رہنا شروع کیا۔

ہمارے محلے کے قریب میں مسلمان بیکری کا کام کرتے تھے، جو پونہ (مہاراشٹر) میں رہتے تھے۔ میں نے حکمت کے ساتھ والد صاحب کو اس پر راضی کیا کہ میں بھی ان کے ساتھ وہاں جاؤں گا۔ میں پونہ چلا گیا اور پھر بیوی کو بھی لے گیا۔ وہاں جا کر مجھے وطن بہت یاد آیا۔ میں نے کچھ پیسے کمائے اور کھتولی کے ایک مسلم محلے میں مکان بنا لیا۔ جماعت میں وقت لگاتا رہا۔ الحمد للہ، دین سے بہت اچھا تعلق ہو گیا۔ مہاراشٹر کی ایک جماعت کا امیر بنا دیا گیا۔ ہم پھلت پہنچے۔ میں نے اذان بھی عربی لہجے میں سیکھ لی تھی۔ ظہر کی اذان کہی۔ مولوی کلیم صاحب سے ملنے کے لیے گھر پہنچا۔ میں ان سے چمٹ گیا۔ وہ مجھے پہچان نہ سکے۔ جب میں نے بتایا کہ کھتولی والا آپ کا رگھو ہوں۔ انھوں نے مجھے گلے لگایا اور بہت خوش ہوئے۔ جماعت کا یہ وقت جو میرے اپنے علاقے میں لگا، بہت اچھا رہا۔

اس کے بعد مولوی کلیم صاحب کے مشورے سے میں کھتولی آ کر رہنے لگا او راپنے گھر والوں کو کھتولی سے خرچ بھیجتا تھا۔ تقریباً دس سال سے کھتولی میں رہ رہا ہوں۔ پہلے میں نے نائی کی دکان کھولی لی تھی، مگر مسلمانوں کی داڑھی مونڈنا مجھے عجیب لگتا تھا، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر استرا چلانا مجھے بہت ناگوار تھا، پھر میں نے جنرل مرچنٹ کی دکان کھولی۔ الحمد للہ، اچھی چل رہی ہے۔

میرے پانچ بچے ہیں: تین لڑکے، محمد عثمان، محمد علی اور محمد حسین۔ دو بیٹیاں ہیں: عائشہ اور زینب۔ الحمد للہ، سب دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ بڑا لڑکا بہت اچھا حافظ ہو گیا ہے۔ گجرات کے ایک مدرسے میں پڑھ رہا ہے۔ محمد علی کے ۱۶ پارے حفظ ہو گئے ہیں۔ الحمد للہ، محمد حسن کے تین پارے حفظ ہو گئے ہیں۔ وہ سب سے زیادہ ذہین ہے۔ عائشہ اور زینب دونوں نے قرآن شریف پڑھ لیا ہے۔ ان کا بھی حفظ شروع ہو گیا ہے۔ میں نے شب قدر اور جماعت میں دعا کی تھی کہ اے اللہ! میرے سارے بچوں کو حافظ، عالم اور دین کا داعی بنا دیجیے اور صحابہ کے انداز کا مسلمان بنا دیجیے۔ مجھے امید ہے کہ میرے اللہ جو مجھے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی طرف لائے ہیں، وہ میری مراد ضرور سنیں گے۔

میں اس تصور سے بھی کانپ جاتا ہوں کہ اگر میرے اللہ مجھے ہدایت نہ دیتے تو کفر پر میری موت ہوتی۔ اچانک پھر مجھے غم سا ہو جاتا ہے کہ کہیں میری شامت اعمال کی وجہ سے مجھ سے اسلام کی نعمت چھین نہ لی جائے، اس لیے کہ اصل ایمان تو خاتمے کا ہے۔ میں اس تصور سے کانپ کر اکثر سجدے میں گر جاتا ہوں او ردعا کرتا ہوں کہ کسی کوہدیہ دے کر واپس لینے والا انسان ایسا ہے، جیسا الٹی کر کے چاٹنے والا۔ آپ تو کریموں کے کریم ہیں۔ آپ نے میری خواہش کے بغیر مجھ کو ہدایت دی ہے۔ میرا خاتمہ بھی ایمان پر کیجیے۔ مجھے امید ہے کہ میرے اللہ میرا خاتمہ ایمان پر فرمائیں گے۔ انشاءاللہ

٭٭٭