اِدھر اُدھر سے

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : دسمبر 2012

تتلیاں آخر کہاں چلی جاتی ہیں؟

عام تتلیوں کی مانند لارج بلیو بھی زندگی کے چار ادوار میں سے گزرتی ہے’ یعنی انڈا’ لاروا’ پیوپا اور تتلی’ لیکن ایک بات ماہرین حیوانات کی سمجھ میں نہ آتی تھی۔ پیوپے کی شکل میں آنے کے بعد یہ تتلی نامعلوم طریقے سے غائب ہوجاتی اور تلاش کے باوجود اس کا سراغ نہ ملتا۔ چند ماہ بعد ایک صبح یہ تتلی کی صورت میں پھولوں کا طواف کرتی ہوئی نظر آتی۔انیسویں صدی کے اواخر تک انگلستان کی تقریباً سب تتلیوں پر علمی تحقیق مکمل ہوچکی تھی لیکن لارج بلیو ابھی تک معمہ بنی ہوئی تھی۔ بارہا اس کے انڈوں کو تجربہ گاہ میں رکھا گیا’ جہاں یہ لاروے کے بعد پیوپے کی صورت اختیار کرتی۔ اس موقع پر اس کی پسندیدہ خوراک’ یعنی پودینے کے پتے بھی فراہم کیے جاتے لیکن پیوپے کی شکل میں آنے کے بعد پودے سے اس کی رغبت ختم ہوجاتی’ یہ کھانا چھوڑ دیتی’سخت بے چینی محسوس کرتی’ شیشے کے ڈبے میں ادھر اْدھر گھومتی اور پھر دم توڑ دیتی۔سائنس دان کئی برس تک اس مسئلے پر سر پٹکتے رہے’ لیکن یہ معمہ حل ہونے میں نہ آتا تھا کہ پیوپے ڈبے میں مر کیوں جاتا ہے اور معمول کے مطابق تتلی کی صورت اختیار کیوں نہیں کرتا؟ اسکے برعکس جنگل میں تو پیوپا غائب ہوجاتا تھا’ لیکن کچھ عرصے بعداچانک ظاہر ہونے والی تتلیوں سے معلوم ہوتا تھا وہ مرا نہیں۔

1915ء کی سردیوں میں اس راز پر سے پہلی بار پردہ ہٹا۔ تتلیوں کے مشہور محقق ایف’ ڈبلیو فروہاک اور اس کے ساتھی ڈاکٹر چپ مین کے ساتھ کارنوال کے نواح میں جنگلی پودینے کی چھان بین کررہے تھے تاکہ پیوپے کی گمشدگی کا سراغ لگاسکیں۔ اتفاقاً انہوں نے پودینے کا ایک ایسا پودا اکھاڑا جو چیونٹیوں کے بل پر اگا ہوا تھا۔ بل کے اندرونی حصے پر نظر ڈالتے ہی پروفیسر فروہاک حیرت میں ڈوب گیا۔ ایک خانے میں لارج بلیو کا پیوپا لیٹا ہوا تھا۔ اس نے پیوپے کو اٹھایا اور اس کا پیٹ چاک کیاتو ایک اور راز کھلا پیوپے کا معدہ چیونٹی کے نوزائیدہ بچوں سے بھرا ہوا تھا۔پروفیسر نے سوچا پیوپا’ چیونٹیوں کے بل میں کیسے گیا؟ کیا وہ ہمیشہ چیونٹی کے بل میں رہتا ہے؟ یہ اور اس کے قسم کے بہت سے سوالوں کے جواب اسے پریشان کررہے تھے۔ اس نے اپنے دو اور ساتھیوں کو جو تتلیوں کے ماہر سمجھے جاتے تھے اس کام پرلگایا۔ کیپٹن پیور فائی اور ایل ڈبلیو نیومین نے شیشی کے ایک صندوق میں چیونٹیوں کا ایک ایسا بل بنایا جس میں اخروٹ کے چھلکے استعمال کیے گئے تھے اور جسے بوقت ضرورت آسانی سے کھولا جاسکتا تھا۔ بل میں ایک ملکہ چیونٹی’ دو درجن عام چیونٹیاں اور کچھ مصنوعی انڈے رکھ دئیے گئے۔ قریب ہی گملوں میں جنگلی پودینے کے پودے تھے۔ ان پر تین مادہ ‘‘لارج بلیو’’ تتلیاں چھوڑ دی گئیں۔چیونٹیاں جلد ہی نئے گھر سے مانوس ہوگئیں۔ انہیں اپنی دل پسند خوراک مل رہی تھی۔ چند روز بعد تتلیوں نے پودینے کے پودے پر انڈے دئیے’ مقررہ وقت کے بعد ان انڈوں میں سے سنڈیاں (لاروے)نکل آئیں اور پھولوں سے پیٹ بھرنے لگیں۔ بیس دن گزر گئے۔ حتیٰ کہ وہ مرحلہ آپہنچا جس کا شدت سے انتظار تھا۔لاروے نے پیوپے کی شکل اختیار کرلی اور جلد ہی پھولوں سے منہ موڑ کر اپنی بے قراری ظاہر کرنے لگا اس حالت کو زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک چیونٹی ادھر آنکلی اور پیوپے میں غیرمعمولی دلچسپی ظاہر کرنے لگی۔ اس کے گرد ایک دو چکر لگائے اور پھر پیوپے کا وہ پہلو گدگدانا شروع کیا جہاں اس کا منہ تھا۔ معلوم ہوتا تھا پیار کا اظہار کررہی ہے۔کیپٹن پیورفائی اور نیومین اس کھیل کو بڑی دلچسپی اور تعجب سے دیکھتے رہے۔ چیونٹی’ پیوپے کو گدگداتی رہی’ حتیٰ کہ پیوپے نے اپنے منہ سے شہد کی مانند سیال شے کا ایک قطرہ نکالا’ چیونٹی اس قطرے کو فوراً پی گئی۔ پیوپے اور چیونٹی کا یہ کھیل ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا۔ اس دوران میں پیوپے کے منہ سے کئی قطرے نکلے جنہیں چیونٹی مزے لے لے کر پیتی رہی’ پھر اچانک پیوپے نے اپنے جسم کو درمیان میں سے اٹھایا۔ چیونٹی نے اشارہ سمجھ لیا’ اس نے پیوپے کو گردن سے پکڑا اور اٹھا کر بل کی طرف چل دی۔چند روز بعد ماہرین حیوانات نے چیونٹیوں کا بل کھولا’ تو پیوپے کی اس طرح تواضع کی جارہی تھی جیسے وہ بہت معزز مہمان ہو۔ غالباً چیونٹی اس مٹھاس کا بدلہ چکارہی تھی جو اس نے پیوپے کے جسم سے حاصل کی تھی

’چنانچہ چیونٹیوں کے نوزائیدہ بچے پیوپے کے سامنے پڑے تھے جنہیں وہ نہایت اطمینان سے تناول کررہا تھا۔ تین چیونٹیاں اپنے اگلے پیروں سے اس کا جسم سہلا رہی تھیں۔چنانچہ یہ راز آشکا ر ہو گیا کہ قدرت چیونٹیوں کو اس کام پر مامور کرتی ہے کہ وہ پیوپے کو تتلی بنائے۔

آسٹریا: اسلام سو برس سے تسلیم شدہ مذہب

مسلمانوں سے تعلقات کی بات ہو تو آسٹریا کی تاریخ کچھ زیادہ شفاف نہیں لیکن وہاں اسلام کے بارے میں قدیم قانون کو رواداری کی نشانی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔اس قانون کے تحت اسلام کے پیروکاروں کو کیتھولک ازم، لوتھرن ازم، جوڈازم اور بدھ ازم جیسے ملک کے سرکاری طور پر تسلیم شدہ مذاہب کے ماننے والوں کے برابر حقوق دیے گئے تھے۔اختتامِ ہفتہ پر آسٹرین حکام اور ملک کے اسلامی برادری نے اس قانون کے سو سال کی تکمیل پر منعقدہ تقریبات میں شرکت کی۔یوں اب آسٹریا میں اسلام اب سو سال سے سرکاری طور پر ایک تسلیم شدہ مذہب ہے۔تاہم یہاں کے زیادہ تر عوام ایک اور تاریخی واقعے کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں۔ یہ واقعہ سنہ سولہ سو تراسی میں ویانا کا محاصرہ ہے، جب مسلمانوں کی سلطنتِ عثمانیہ کی عیسائیوں کے زیرِ تسلط یورپ کی جانب پیش قدمی روک دی گئی تھی۔حالیہ چند برس میں آسٹریا کے انتہائی دائیں بازو کے خیالات کے حامی سیاستدانوں کے اسلام مخالف بیانات شہ سرخیوں میں رہے ہیں۔

آسٹریا کی اسلامی برادری اپنے مذہب کے بارے میں اس قانون کو نادر قرار دیتی ہے۔ اس قانون کے تحت مسلمانوں کو ملک میں سرکاری سکولوں میں مذہبی تعلیم کے حصول اور عوامی مقامات پر عبادت کی آزادی سمیت کئی حقوق دیے گئے ہیں۔ویانا کے نیوگوتھک ٹاؤن ہال میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آسٹریا کی اسلامی برادری کے سربراہ فواد سناک نے اس قانون کو بقیہ یورپ کے لیے ایک مثال قرار دیا اور کہا کہ آسٹریا میں اسلام کو زیادہ تر عوام نے ایک خطرے کے طور پر نہیں دیکھا۔آسٹریا کے صدر ہینز فشر نے اسی تقریب میں پرامن اور باہمی احترام پر مبنی تعلقات پر زور دیا۔ انہوں نے زور دیا کہ آسٹریا کے سرکاری مذاہب اپنے قانونی رتبے کی وجہ سے ملک کے قوانین کا احترام کرنے اور انہیں تسلیم کرنے کے پابند ہیں۔آسٹریا میں اسلام سے متعلق یہ قانون سنہ انیس سو بارہ میں ہیبسبرگ خاندان کے بادشاہ فرانز جوزف کے دور میں اس وقت لایا گیا تھا جبکہ آسٹریا نے بوسنیا ہرزیگووینا کو اپنی سلطنت میں شامل کیا تھا۔ اس قانون کے نفاذ کی وجہ بوسنیائی مسلم فوجیوں کی آسٹریائی بادشاہ کی فوج میں شمولیت کی راہ ہموار کرنا تھی۔دارالحکومت ویانا کے کونسلر عمر الراوی کا کہنا تھا کہ یہ قانون مسلمانوں کو آسٹریائی معاشرے میں ضم میں ہونے میں مدد دیتا ہے اور انہیں یہ احساس دیتا ہے کہ معاشرہ انہیں قبول کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ‘اسلام کے بارے میں آسٹریا یورپ میں ایک مثالی نمونہ ہے لیکن آسٹریا کے مسلمان بھی یورپی مسلمانوں کا نمونہ ہیں اور وہ اپنے حقوق و فرائض کے بارے میں جانتے ہیں’۔عمر الراوی کے مطابق ‘آسٹریائی مسلمان دنیا بھر میں اپنی شناخت بطور آسٹرین کرواتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس ملک سے تعلق رکھتے ہیں جس نے ہمیں احترام، پہچان اور بہت سی سہولیات دیں جو کچھ مسلم ممالک کے عوام کو بھی میسر نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم یہ کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم آسٹرین ہیں’۔ ابتدائی طور پر اس قانون کے تحت صرف حنفی فرقے کے سنّی مسلمان آتے تھے لیکن بعدازاں اس میں شیعہ اور سنّی دونوں فرقوں کو شامل کر لیا گیا تھا۔پہلی جنگِ عظیم کے بعد جب آسٹرین سلطنت کا خاتمہ ہوا تو ملک میں مسلمانوں کی تعداد چند سو رہ گئی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس میں اْس وقت اضافہ شروع ہوا جب انیس سو ساٹھ کی دہائی میں ترک اور یوگوسلاو کارکن اور پھر نوّے کی دہائی میں بوسنیائی پناہ گزین آسٹریا آئے۔اس وقت آسٹریا میں تقریباً پانچ لاکھ مسلمان آباد ہیں جو کہ ملک کی کل آبادی کا چھ فیصد ہیں۔ درالحکومت ویانا میں اسلام رومن کیتھولکس کے بعد دوسرا بڑا مذہب ہے۔آسٹریا کی اسلامی برادری کے مطابق اس وقت ملک میں ساٹھ ہزار مسلمان بچے مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ تعلیم جرمن زبان میں فراہم کی جاتی ہے۔

جاسوس کی کہانی

نوجوان سرجیت بوڑھے ہوکر بھارت واپس ہوئے ۔تیس برس کے بعد پاکستانی جیل سے حال ہی میں رہا ہونے والے بھارتی جاسوس سرجیت سنگھ بھارت واپس آئے ہیں جن سے بی بی سی کی نامہ نگار گیتا پانڈے نے ریاست پنجاب کے ایک گاؤں فڈّا میں ان کے گھر جا کر ان سے ملاقات کی اور ان کی کہانی سنی۔

یہ دسمبر سنہ انیس سو اکیاسی کی بات ہے جب سرجیت سنگھ اپنی بیوی سے یہ کہہ کر گھر سے نکلے تھے کہ وہ جلد ہی واپس آجائیں گے لیکن دوبارہ ملاقات کرنے میں انہیں تیس برس چھ مہینے لگے جب سرجیت سنگھ کی کالی داڑھی پوری طرح سفید ہوچکی تھی۔ایک طرف سرجیت جاسوسی کے جرم میں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید کر دیے گئے تو دوسری جانب ان کے اہل خانہ نے یہ سمجھ کر امید چھوڑ دی کہ شاید وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ قید تنہائی میں رہے۔ ان کی ملاقات کے لیے نہ تو کوئی آیا اور نہ ہی کوئی خط ان تک پہنچا۔ انہیں موت کی سزا سنائی گئی تھی اور موت کے انتظار میں ہی وقت گزار لیکن اس کے باوجود ان کا یقین اور اعتماد ان کے ساتھ رہا۔وہ کہتے ہیں ‘بس یہ سب اوپر والے کا احسان و کرم ہے جس نے ان طویل برسوں کے دوران ہماری مدد کی۔’ اس قید کے دوران ہی سرجیت سنگھ کے بڑے بیٹے، ان کے چار بھائیوں، ایک بہن اور والد کا انتقال ہوگیا۔تہّتر برس کی عمر میں سرجیت سنگھ جب واہگہ بارڈر سے بھارت واپس پہنچے تو خاندان میں بہت کچھ بدل چکا تھا۔ اپنے ملک واپس پہنچتے ہی ان کے اس انکشاف نے سب کو حیرت میں ڈال دیا کہ وہ پاکستان بھارت کے لیے جاسوسی کرنے گئے تھے۔دوسری جانب بھارت سمیت پاکستان سے آنے والا ہر قیدی سرجیت سنگھ کے جاسوس ہونے کا ہمیشہ سے انکار کرتا رہا ہے۔"میں سرحد پار کر کے ایک پاکستانی ایجنٹ کو بھرتی کرنے گیا تھا۔ جب میں اس کے ساتھ واپس آیا تو سرحد پر تعینات ایک بھارتی افسر نے اس کی بے عزتی کردی۔ افسر نے اس ایجنٹ کو ایک تھّپڑ مارا اور اسے اندر نہیں آنے دیا۔ وہ ایجنٹ بہت پریشان تھا تو میں اسے دوبارہ ساتھ پاکستان لے کر گیا۔ لاہور میں اس نے پاکستانی حکام سے میری شناخت بتادی۔"

سرجیت سنگھ بھارت کے اس انکار سے بہت نالاں ہیں کہ انہوں نے ملک کے لیے اتنی بڑی قربانی دی لیکن اس کا کوئی صلہ نہیں ملا۔ وہ کہتے ہیں ‘بھارتی حکومت نے مجھے پاکستان بھیجا تھا اور میں وہاں خود نہیں گیا تھا۔’

سرجیت نے ایسی باتوں کو پوری طرح سے ردّ کیا کہ وہ اہمیت جتانے کے لیے یا اپنے آپ کو بڑا دکھانے کے لیے جاسوسی کا دعویٰ کرتے ہیں۔سرجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ ان کی غیر موجودگی میں فوج نے ان کے اہل خانہ کو ڈیڑھ سو روپے ماہانہ کے حساب سے پینشن مہیا کی۔ ‘اگر میں نے ان کے لیے کام نہیں کیا تو پھر انہوں نے میرے گھر والوں کو یہ رقم کیوں ادا کی۔’سرجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ حکومت کا سلوک ان کے ساتھ غیر منصفانہ ہے اور وہ اپنے حقوق کے لیے لڑائی لڑیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں کہ اگر حکومت ان کے دعوے کو مسترد کرتی رہے گی تو پھر وہ کیا کریں گے، ان کا کہنا تھا ‘میرے پاس دستاویزی ثبوت ہیں اور پھر میں اپنے حقوق کے لیے سپریم کورٹ کا سہارا لوں گا۔’

مسٹر سنگھ نے وہ ثبوت دکھانے سے منع کیا اور یہ واضح نہیں کہ آخر وہ ثبوت کیا ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ نوجوانی میں انہوں نے بی ایس ایف ( بارڈر سکیورٹی فورسز) میں کام کیا تھا پھر سنہ انیس سو انہتر میں اسے چھوڑ کر وہ کسان بن گئے۔ ان کے مطابق ستّر کے عشرے میں فوج نے ان سے جاسوس بننے کی پیش کش کی اور اس کے لیے انہیں دوبارہ بھرتی کیا۔ وہ کہتے ہیں ‘میں نے پاکستان کا پچاسی بار دورہ کیا۔ میں پاکستان جاتا تھا اور وہاں سے فوج کے لیے دستاویز لے کر آتا تھا۔ میں ہمیشہ دوسرے روز واپس آجاتا اور اس میں کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔’لیکن وہ کہتے ہیں کہ آخری دورے پر سب کچھ گڑ بڑ ہوگیا۔ ‘میں سرحد پار کر کے ایک پاکستانی ایجنٹ کو بھرتی کرنے گیا تھا۔ جب میں اس کے ساتھ واپس آیا تو سرحد پر تعینات ایک بھارتی افسر نے اس کی بے عزتی کردی۔ افسر نے اس ایجنٹ کو ایک تھّپڑ مارا اور اسے اندر نہیں آنے دیا۔ وہ ایجنٹ بہت پریشان تھا تو میں اسے دوبارہ ساتھ پاکستان لے کر گیا۔ لاہور میں اس نے پاکستانی حکام کو میری شناخت بتا دی۔’بس اس کے بعد سرجیت سنگھ کو گرفتار کرکے لاہور میں فوج کی ایک سیل میں تفتیش کے لیے لے جایا گیا۔ سنہ انیس سو پچاسی میں ایک فوجی عدالت نے انہیں موت کی سزا سنائی۔ سنہ نواسی میں پاکستان کے صدر غلام اسحاق خان نے ان کی رحم کی اپیل منظور کی اور ان کی موت کی سزا کو عمر قید میں بدل دیا۔وہ کہتے ہیں ‘شروع میں تو مجھے گھر واپسی کی کوئی امید نہیں تھی۔ جب میں موت کی سزا کاٹ رہا تھا تو مجھے لگا کہ بس اب سب ختم ہے۔ لیکن جب اسے عمر قید میں بدلا گیا تو میری امید جاگی۔’

سرجیت سنگھ کی اہلیہ ہربنس کور کا کہنا ہے کہ جب شروع میں ان کے شوہر واپس نہیں آئے تو وہ انہیں لگا کہ سرجیت کو کام کرانے کے لیے پکڑ رکھا گیا ہوگا۔ لیکن جب دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں اور مہینے برسوں میں تبدیل ہوئے بات سمجھ سے باہر ہوگئی۔ ‘میں یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ زندہ ہیں یا مردہ۔’سرجیت کی بیٹی پرمندر کور اس وقت بارہ یا تیرہ برس کی تھیں۔ باپ کی گمشدگی کے بعد ہی انہیں سکول چھوڑنا پڑا کیونکہ پیسوں کی کمی تھی۔ وہ کہتی ہیں۔ ‘ کچھ وقت کے بعد ہمیں لگا کہ وہ مر چکے ہوں گے۔ ہمیں وہ بہت یاد آتے۔ ہمیں اکثر یہ خیال آتا کہ اگر پاپا زندہ ہوتے تو ہم اچھا کھانا کھاتے، اچھے کپڑے پہنتے اور سماج میں ہمارا مقام بھی بہتر ہوتا۔’جب ساری امیدیں ٹوٹ چکی تھیں تو اچانک ان کی گمشدگی کے پچیس برس بعد دو ہزار چار میں ان کے آبائی مکان کے پتے پر ایک خط موصول ہوا جو سرجیت سنگھ نے اپنے بڑے بیٹے کلوندر سنگھ برار کے نام لکھا تھا۔اس خط کے بعد ہی انہیں یہ پتہ چلا کہ جس شخص کو مردہ سمجھ کر تمام امیدیں چھوڑ دی گئی تھیں وہ زندہ ہے۔ ہربنس کور کہتی ہیں کہ ‘خط پانے کے بعد میری امید بڑھی کہ میں اپنے شوہر کو دوبارہ دیکھ سکوں گی۔’

بھارتی حکومت کے روّیے اور سرجیت سنگھ کی ناراضگی کے اظہار کے بعد کئی لوگ ان کی مدد کو بھی سامنے آئے ہیں۔ ریاستی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ ان کے کھیتوں تک سڑک تعمیر کرے گی، ایک ٹیوب ویل بنائیگی اور اور انہیں بجلی کا کنیکشن دیا جائیگا۔ پنجاب میں محکمہ آب پاشی کے وزیر جنمی جا سنگھ نے ان سے جاکر ملاقات کی ہے اور انہیں ایک لاکھ روپے دیے ہیں۔ کچھ مقامی لوگوں نے بھی پیسے جمع کر کے انہیں پچیس ہزار روپے دیے ہیں۔سرجیت سنگھ کہتے ہیں کہ پاکستان کی کوٹ لکھپت جیل میں اور بھی کئی بھارتی قیدی ہیں جن پر جاسوسی کا الزام ہے۔ ان میں دو سربجیت اور کرپال سنگھ موت کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت نے ان قیدیوں کی رہائی کے لیے کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی ہے۔ ‘حکومت کو کو ئی پرواہ نہیں ہے۔ وہ ان بھارتی قیدیوں کی رہائی کے لیے کچھ بھی کرنے سے منع کرتی ہے۔’بھارتی حکومت ایسے معاملات پر اکثر خاموش رہتی ہے اور وہ کوئی موقف اختیار نہیں کرتی۔

بھارت میں غریبوں پر طبی تجربے

            بھارت میں غریبوں کو بغیر بتائے ان پر نئی دواؤں کے تجربے کیے جانے کا معاملہ طول پکڑتا جا رہا ہے اور کمپنیوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ ایسے معاملات کی تحقیقات کرائیں جن کی وجہ سے کچھ مریضوں کی اموات ہو چکی ہیں۔بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کی نیتو سودی کہتی ہیں کہ وہ مئی دوہزار نو میں اندور شہر کے مہاراج یشونت راؤ ہسپتال میں اپنی ساس چندریلا بائی کا علاج کرانے کے لیے گئیں۔ ڈاکٹر نے ہمیں کہا کہ وہ ہمیں بیرون ملک تیار ہونے والے ایک لاکھ پچیس ہزار روپے کی ایک دوا دیں گے۔دوا لینے کے کچھ عرصہ بعد چندریلا بائی کو دل کے امراض نے گھیر لیا اور ایک ماہ کے اندر دل کا دورہ پڑنے سے ان کی موت ہو گئی۔نیتو کہتی ہیں کہ انہیں اس بات کا کوئی علم نہیں تھا کہ ان کی ساس کو ‘ٹوناپوفائی لائن’ دوا کے تجربے کے لیے ہسپتال میں داخل کیا جا رہا ہے۔ اس دوا کا تجربہ بائیوجن آئیڈک کے ذریعے کرایا جا رہا تھا۔نیتو اور ان کے شوہر دونوں ہی ان پڑھ ہیں اور جہاں تک انہیں یاد ہے جن دستاویزات پر انہوں نے دستخط کیے ان میں سے کوئی بھی ان کی رضامندی لینے کے لیے نہیں تھا۔ اندور ہسپتال کے ڈاکٹر رائے نے ان تجربات کی بات کو اٹھایا۔یہ تجربہ جو کہ بایوجن آئیڈک کمپنی کے ذریعے برطانیہ میں رجسٹرڈ کرایا گیا تھا اسے بعد میں روک دیا گیا کیونکہ اس کے خلاف کافی شکایتیں آ رہی تھیں۔ کمپنی نے یہ بھی کہا کہ انھیں چندرکلا کی موت کے بارے میں اطلاع نہیں دی گئی تھی۔لیکن دواؤں کے تجربے سے اموات کا یہ اکیلا واقع نہیں ہے۔ ایک دوسری کمپنی کے لیے کیے گئے ایسے ہی تجربے کے بارے میں نارائن سروییا کہتے ہیں کہ نہ تو ان سے اور نہ ہی ان کی ماں تیزوجا بائی سے یہ پوچھا گیا کہ انھیں کسی دوا کے تجربے میں شامل کیا جا رہا ہے یا وہ اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا نہیں۔تیزوجا بائی اپنے پیروں کا علاج کرانے ہسپتال پہنچی تھیں ان سے کہا گیا کہ ایک خیراتی ادارہ ان کے علاج کے اخراجات برداشت کرے گا۔کچھ ہی وقت میں تیزوجا بائی کے دونوں پیر فالج زدہ ہو گئے۔نارائن کہتے ہیں کہ انہوں نے ڈاکٹروں کو بتایا کہ دوا کا اثر خراب ہو رہا ہے لیکن ڈاکٹروں نے انہیں دوا جاری رکھنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ‘ یہ مسئلہ آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا۔ لیکن کچھ ہفتوں بات تیزوجا بائی کی بھی موت ہو گئی۔’

"میں نے ڈاکٹروں سے کہا کہ دوا کا اثر خراب ہو رہا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ دوا جاری رکھیں اور یہ مسئلہ دھیرے دھیرے ختم ہو جائے گا۔ لیکن کچھ ہفتوں بات تیزوجا بائی کی بھی موت ہو گئی."مہاراج یشونت راؤ ہسپتال میں اب تک کل تریپن لوگوں پر تجربے کیے جا چکے ہیں۔ یہ تجربہ برطانیہ اور جرمنی کی دوا کمپنیوں کی جانب سے سپانسر تھے. ان میں سے آٹھ لوگوں کی اموات ہو گئی ہے۔اس بات کا کوئی براہ راست ثبوت نہیں کہ مریضوں کی موت ادویات کے استعمال سے ہوئی لیکن ان معاملات میں کوئی طبی تحقیقات بھی نہیں ہوئی جس سے الزامات ثابت ہو سکیں۔زیادہ تر متاثرہ خاندان بے حد غریب ہیں اور ان سے بات کرنے کے بعد ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ ہسپتال پہنچنے پر انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور انہیں ایسی دوائیں دینے کی پیشکش کی گئی جو ان کی حیثیت سے باہر تھیں۔ان معاملوں کے سامنے آنے کے بعدمہاراج یشونت راؤ کے ڈاکٹر انل باہرانی پر غیر قانونی طور سے دوا کمپنیوں سے پیسے لینے، بیرون کا سفر کرنے اور مریضوں کی اجازت کے بغیر ان ادویات کا تجربہ کرنے کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔رامدھر شریواستو بھی متاثرین میں سے ایک ہیں۔ ڈاکٹر انل باہرانی نے تمام کوششوں کے بعد بھی بی بی سی سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ بہرحال ہمارے نمائندے کے ان کے کلینک پر پہنچنے کے دو دن بعد ہسپتال نے فوری طور پر ان کا تبادلہ بھی کر دیا۔ان تجربوں کے خلاف آواز اٹھانے والے اسی ہسپتال کے ایک دوسرے ڈاکٹر آنند رائے کو نہ صرف ہسپتال سے نکال دیا گیا بلکہ انہیں بے عزت بھی کیاگیا۔ تب سے وہ مسلسل ان معاملات کی تفتیش کر رہے ہیں۔ڈاکٹر آنند کہتے ہیں ‘یہ لوگ صرف غریبوں کو ہی ان تجربوں کے لیے منتخب کرتے ہیں۔‘ایسے لوگ جو پڑھے لکھے نہیں ہیں اور انہیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا کہ طبی تجربے کیا ہوتے ہیں۔’ہسپتال بھی یہ مانتا ہے کہ طبی تجربوں کو لے کر ان سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔ لیکن یہ کہانی بھارت کے صرف ایک ہسپتال کی نہیں ہے۔