خلوص کے رشتے

مصنف : عطیہ بخاری

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : دسمبر 2012

            وہ میرے ساتھ ڈینٹل کالج میں پڑھتا تھا۔ وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ رات 12 بجے تک ٹیوشنز کرتا تھا۔ اور جو بھی کماتا اپنی ماں کے ہاتھوں پر رکھ دیتا۔ مجھے اس کے گھریلو مسائل کا علم تھا۔ میں اس کی مدد اس طرح کردیتی کہ کبھی نوٹس بناکر دے دیتی۔ تو کبھی اپنی کتابیں دے دیتی اور کہتی پڑھ کر واپس کردو کبھی اپنے لیے کچھ نوٹس وغیرہ فوٹو کاپی کرا رہی ہوتی تو اس کے لیے بھی کرادیتی۔ ایک دن وہ مجھ سے بولا۔میں تم کو اپنی بہن سمجھتا ہوں اگر زندگی میں کبھی اپنے بھائی کی ضرورت محسوس ہوئی تو ضرور کہنا۔ میں نے اس سے پہلے کبھی کسی کو بھائی نہیں بنایا تھا اورمیں بھائی سگے رشتے کو ہی سمجھتی تھی۔اس لیے میں نے صاف گوئی سے جواب دیا۔ بھائی تو سگے رشتے کو ہی کہتے ہیں۔ وہ بولا بھائی سگا یا سوتیلا نہیں ہوتا ہے ، بھائی توصرف بھائی ہوتاہے۔میں یہ سن کر خاموش ہوگئی۔ اسی طرح دن گزرتے گئے اور ہم فائنل ائیر میں آگئے۔فائنل ائیر کے فائنل امتحان قریب تھے میں لائبریری میں بیٹھی تھی کہ ایک ڈیماسٹریٹر میرے پاس آئے اور ایک پیپر میری طرف بڑھایا۔ میں نے ان سے وہ پیپر لیے بغیر پوچھا یہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا یہ پروستھیٹک (ڈینٹسٹری کا ایک سبجیکٹ) کا پیپر ہے۔ امتحان میں یہی پیپر آئے گا۔میں ان باتوں پر یقین نہیں کرتی اور جب تیاری ہو تو پیپر آوٹ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتی لیکن مجھے اچانک اس کا خیال آیا پتا نہیں وہ امتحان کی تیاری کر بھی پارہا ہوگا یا نہیں۔ میں نے ڈیمانسٹریٹر سے پیپر لے لیا۔لائبریری سے نکلی تو سامنے سے وہ آتا نظر آیا۔ اس کے پاس جاکر میں نے یہ پیپر بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ پیپر آوٹ ہوا ہے تم رکھ لو صرف ان سوالات کی تیاری کرلو ،میں نے وہ پیپر خود دیکھے بغیر اس کو دے دیا۔اس نے پہلے حیران پھر خوش ہوتے ہوئے پیپر لے لیا اورچلا گیا۔ اسی طرح دن گزرتے گئے امتحان قریب آگئے۔ اور کالج سے چھٹیاں ہوگئیں۔ہم گھر بیٹھ کر امتحان کی تیاری کرنے لگے۔کلاس کی لڑکیوں کو کہیں سے علم ہوگیا کہ میرے پاس آؤٹ ہوا پیپر ہے اور امتحان میں وہی پیپر آرہا ہے۔لڑکیوں نے مجھے فون کرنے شروع کردئے۔ میں پہلے ان کو سمجھاتی کہ تم تو پڑھنے میں اتنی اچھی ہو اور تیاری بھی اچھی ہے پھر آوٹ ہونے والے پیپر کی تم لوگوں کو کیا ضرورت ہے لیکن ان سب کے اصرار پر میں نے بتادیا کہ وہ پیپر میرے پاس نہیں بلکہ میں نے اس کو اپنے منہ بولے بھائی کو دیدیا ہے اور میں نے خود تو وہ پیپر دیکھا بھی نہیں۔میں اس سے لے کر فوٹو کاپی کراکر تم لوگوں کو دے دیتی ہوں۔ یہ سنتے ہی ایک لڑکی مجھ سے بولی وہ تم کوپیپر کبھی واپس نہیں کرے گا۔ یہ لڑکے بہت دھوکے باز اور خود غرض ہوتے ہیں کبھی لڑکیوں کا فائدہ برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ میں نے اسکی بات پر یقین نہ کرتے ہوئے اپنے اسی بھائی کو فون کیا۔ اس نے میری بات سن کر جواب دیا کہ وہ پتا نہیں کہیں گم ہوگیا ہے مل ہی نہیں رہا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ لڑکے اس حد تک لاپرواہ ہوتے ہیں۔ مجھے اس لڑکی کی باتیں یاد آنے لگیں۔ میں نے اس سے کہا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ لڑکیاں لڑکوں کے بارے میں ٹھیک ہی کہتی ہیں کہ وہ دھوکے باز اور خود غرض ہوتے ہیں۔ لیکن مجھے دکھ اس بات کا ہے تم نے مجھے بہن بول کر دھوکہ دیا۔وہ یہی کہتا رہا کہ میرا یقین کرو میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں ، میں جھوٹ نہیں بول رہا۔ لیکن میں نے اس کی بات نہیں سنی اور فون بند کردیا۔میں نے لڑکیوں کو فون کرکے کہہ دیا کہ وہ پیپر واپس نہیں کررہا ہے اب تم لوگوں نے جو کرنا ہے کرو بس مجھے تنگ نہ کرو۔اس کے بعد میں نے فون اٹینڈ کرنا ہی چھوڑ دیا۔ اور امتحان کی تیاری میں لگ گئی۔امتحان کے دوران بھی میں نے کسی سے بات چیت نہیں کی۔ اور امتحان بھی گزر گئے۔ امتحان کے بعد میں نے اپنی ایک دوست کو فون کیا تو اس نے مجھے جو کچھ بتایا وہ میرے لیے کسی شاک سے کم نہ تھا۔ وہ بولی جب لڑکیوں کو پیپر نہ مل سکا تو وہ غصہ میں آکر پرنسپل کے پاس چلیں گیں۔ اور اس کی شکایت لگادی کہ فلاں لڑکے نے پیپر آوٹ کیا ہے۔اس کو پرنسپل نے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ اورباقی ڈاکٹرز کے سامنے بلایا اور پوچھ گچھ کی گئی۔ اس نے اعتراف کیا کہ ہاں اس کے پاس پیپر تھا لیکن وہ کہیں گم ہوگیا تھا۔جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ پیپر تم کو کس نے دیا تھا۔ تو اس نے آخر وقت تک میرا نام نہ لیا۔ بلکہ سارا الزام اپنے سر لیتے ہوئے اعتراف کرلیا کہ اس نے وہ پیپر ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کی الماری سے خود چوری کیا تھا۔تاکہ کوئی اور میرا نام نہ لے لے۔ اس کے پیپرز کینسل کرکے اسی وقت فیل کردیا گیا۔ ہمارے پروفیشن میں ریپوٹیشن کی بہت اہمیت ہے۔ اس کی عزت اور کیرئیر دونوں داؤ پر لگ گیا۔میں نے سنا تو سر پکڑ کر رہ گئی۔ ہمارا رزلٹ آگیا وہ فیل ہوگیا تھا اور ہماری ہاؤس جاب اسٹارٹ ہوگئی۔ اس نے سب سے ملنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ کالج بھی نہیں آتا تھا۔ ایک دن میں ایک مریض کو دیکھ رہی تھی کہ لڑکیوں نے آکر کہاکہ وہ آیا ہوا ہے۔ سپلیمنڑی امتحان کا زبانی امتحان تھا۔ میں مریض کو وہیں چھوڑ کر بھاگی۔وہ ایکسٹرنل کے روم کے باہر کھڑا اپنی باری کا انتظار کررہاتھا۔

            میں اس کے پاس جاکر اس پر برس پڑی۔ تمھیں کیا ضرورت تھی سارا الزام اپنے سر لینے کی۔ تمھیں اندازہ ہے تمھارے گھر والوں کے لیے تمھارا کیرئیر کتنا اہم ہے۔ تم میرا نام لے دیتے زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا میں فیل ہوجاتی مجھے نوکری نہ ملتی تو اتنا فرق نہیں پڑتا۔ میرے گھر والوں کو میری نوکری کی اتنی ضرورت نہیں جتنی تمھارے گھر والوں کو ہے میں یہ پروفیشن چھوڑبھی سکتی ہوں لیکن تم یہ نہیں کرسکتے ہو۔ میری بات سن کر اس کے چہرے رنگ بدلنے لگے۔اور سنجیدگی سے بولا۔ تم نے یہ کیسے سوچ لیاکہ میں اپنی بہن کا نام سب کے سامنے لیتا۔بہن کی عزت کے سامنے بھائی کے کیرئیر کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ سن کر میں یک دم خاموش ہوگئی میرے کانوں میں اس کی آواز گونجنے لگی کہ بھائی سگا یا سوتیلا نہیں ہوتا۔ بھائی تو بس بھائی ہوتا ہے۔ مجھے خاموش دیکھ کر مسکرا کر بولا میرے لیے دعا کرنا۔وہ گریجویشن کرنے کے کچھ عرصے بعد ملک سے باہر چلاگیا۔ وہاں اس نے پوسٹ گریجویشن کرلی اور ایک کامیاب زندگی گزارنے لگا۔

            اس کے بعد میری اس سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ کبھی بات ہوئی۔ لیکن آج بھی وہ بحیثیت بھائی میری دعاؤں میں شامل ہے۔

            اس نے مجھے اعتبار کرنا سکھایا۔ اب مجھے کوئی بھی اگر کہتا ہے کہ وہ مجھے اپنی بہن سمجھتا ہے تو میں صدق دل سے یقین کرتی ہوں۔ اور آج تک اس رشتے نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا۔