میں کیسے مسلمان ہوا؟

مصنف : عبداللہ (سنجیو پٹنائک)

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : دسمبر 2012

سوال : ذرا آپ اپنا تعارف کرالیں؟

جواب : میرا پرانا نام سنجیو پٹنائک تھا، میں کٹک اڑیسہ میں ایک تعلیم یافتہ گھرانہ میں ۹؍جنوری ۱۹۶۷ء کوپیداہوا، میرے پتاجی (والد صاحب ) ایک انٹر کالج میں لکچرر تھے، ہمارے والد صاحب کا اچانک ہارٹ فیل ہوکر انتقال ہوگیا، اس لئے مجھے مجبوراً بی ایس سی کے بعد تعلیم روکنی پڑی۔

سوال : اپنے قبول اسلام کا واقعہ بتایئے؟

جواب : والد صاحب کے انتقال کے بعد والدہ اور بہن کی ذمہ داری میرے سر پر تھی، بہن کی منگنی والد صاحب نے کر دی تھی میں نے قرض لے کر کسی طرح اس کی شادی کر دی، دو سال تک والد صاحب کے اسکول میں، میں جونیر سیکشن میں پڑھاتا رہا، مگر اس سکول کے پرنسپل سے میری اَن بن رہتی تھی اور مجبوراً مجھے ملازمت چھوڑنی پڑی، اس کے بعد دو چار جگہ تھوڑے تھوڑے وقت کے لئے میں کام کرتا رہا مگر قرض ادا نہ ہو سکا اور مسلسل مجھ پر دباؤ بڑھتا رہا، چھ سال تک میں روزگار کے لئے پریشان رہا، خودکشی کرنے کا ارادہ کیا اور ایک بڑی ندی کے پل پر چڑھا کہ ڈوب کر مر جاؤں۔میں پل پر چڑھ رہا تھا کہ ایک مولانا صاحب وہاں آگئے، انہوں نے سردی میں مجھے پل پر چڑھتے دیکھا موٹر سائیکل روکی اور میرا ہاتھ پکڑ کر نیچے کھینچا اور مجھ سے پل پر چڑھنے کی وجہ معلوم کی۔ میں نے اپنا ارادہ بتایا۔ مولانا صاحب نے مجھ سے کہا میری بات پہلے سن پھر جو چاہے کر لینا۔ انہوں نے کہا کہ ندی میں چھلانگ لگا کر ضروری نہیں کہ تم مر جاؤ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی طرح بچ جاؤ اور پانی پھیپھڑوں میں بھر جانے کی وجہ سے بیماری کے ساتھ تمہیں کب تک جینا پڑے اور اگر تمہاری موت ڈوب کر مرجانے میں لکھی ہے تو بھی اس موت کے بعد ایک زندگی ہے جو کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ تمہارے مالک نے یہ زندگی اور جان امانت بنا کر دی ہیں، جس کی حفاظت تمہارے ذمہ ہے۔ اگر تم نے اس کی حفاظت کرنے کے بجائے خودکشی کر لی تو قیامت (پر لوک)تک تمہیں یہ سزا دی جائے گی کہ تمہیں بار بار ڈوب کر مرنا پڑے گا، اس لئے اچھا ہے کہ مرنے سے پہلے مرنے کے بعد کی سدا رہنے والی زندگی کی فکر کرو۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ مرنے کے بعد تو سب گل سڑجاتے ہیں ۔مولانا صاحب بہت محبت کے ساتھ مثالیں دے کر مجھے سمجھاتے رہے، بیچ بیچ میں قرآن مجید کی آیتیں پڑھتے جاتے تھے، جن کا میرے دل پر بہت اثر ہوا۔ میں نے ان سے مرنے کے بعد کی زندگی کوکامیاب بنانے کے طریقہ کے بارے میں معلوم کیا تو انھوں نے مجھے مسلمان ہونے کو کہا اور مجھے مشورہ دیا کہ آپ ہمارے پیر صاحب کے یہاں یوپی چلے جاؤ۔ انھوں نے مجھے اطمینان دلایا کہ آپ کو وہاں جاکر کچھ ملے نہ ملے شانتی تو ضرور ملے گی۔ میں نے ان سے اپنے قرض کے بارے میں بتایا اور بتایا کہ اتنی دور جانے کا کرایہ میرے پاس نہیں ہے۔ وہ مجھے موٹر سائیکل پر بٹھا کر گھر لائے اور مجھے ایک خط لکھ کر دیااور ۵۰۰ ؍روپے بھی مجھے دیئے۔

 میں ماں کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ میری نوکری دلی لگ رہی ہے، ماں نے خوشی سے مجھے اجازت دیدی۔ میں ٹرین میں سوار ہوکر دلی پہنچا یہاں سے دوسری ٹرین میں کھتولی پہنچا اور پھر پھلت،مولانا صاحب سفر پر گئے تھے۔ اتفاق سے مولانا صاحب کے ایک مرید مولانا عقیق کٹکی صاحب آئے ہوئے تھے، میری ان سے ملاقات ہو گئی۔ مجھے ہندی بولنا نہیں آتی تھی ان کے ملنے سے میری جان میں جان آگئی ۔انہوں نے میری پوری کہانی سنی اور مجھے مبارک باددی کہ آپ نے بہت مناسب فیصلہ کیا ہے حضرت کل آجائیں گے اور حضرت مولانا صاحب کی بہت تعریف کی۔ اگلے روز چار بجے وہ سفر سے واپس آگئے، ملاقات ہوئی، مولانا صاحب نے مجھے کلمہ پڑھوایا اور میرا نام عبداللہ رکھا ۔مجھے صرف اُڑیا اور انگریزی زبان آتی تھی۔ میں نے انگریزی میں مولانا صاحب سے درخواست کی کہ مجھے یہیں رہنا ہے اورمجھے روز گار بھی چاہئے ۔مولانا صاحب نے مجھے مولانا عقیق صاحب کے ساتھ جسولہ گاؤں میں رہنے کے لئے بھیج دیا کہ آپ وہاں رہ کر کچھ دن ہندی اور اردو بولنا سیکھ لیں اور کچھ دین بھی سیکھ لیں۔میں ایک باہر کے سفر پر جارہا ہوں وہاں سے واپسی پر کسی اسکول میں آپ کی ملازمت لگو ادیں گے ۔میں اگلے روز صبح کو مولانا عقیق صاحب کے ساتھ جسولہ گاؤں چلاگیا۔وہاں پر میں نے قاعدہ پڑھنا شروع کیا، غسل وضو کا طریقہ سیکھا نماز سیکھنی شروع کی۔ مولانا عقیق صاحب نے پاکی اور بہت سی بیماریوں سے بچنے کے لئے ختنہ کرانے کا مشورہ دیا۔ میرے خیال میں بھی اصل مسلمانی ختنہ ہی تھی اس لئے میں نے بھی خود ختنہ کرانے پر زور دیا، نائی کو بلایا میں نے ختنہ کرالیا اور مجھے اطمینان ہواآج میں پکا مسلمان ہواہوں۔

سوال : آپ نے کھتولی تھا نے ابی کے خلاف ایک رپورٹ کرائی تھی، اس کی وجہ کیا تھی ؟

جواب : احمد بھائی میری کم ظرفی تھی، شاید کتابھی اتنی کم ظرفی اور کمینے پن کی حرکت نہ کرتا۔ میری آپ کے ابی سے صرف چند گھنٹوں کی ملاقات تھی، بلکہ اس میں بھی مصروفیت کی وجہ سے بیس پچیں منٹ سے زیادہ میری بات نہیں ہوئی، مگر ان بیس پچیس منٹ میں مجھے محسو س ہواکہ یہ آدمی اس کل یگ کا نہیں، یہ تو پوری انسانیت کے درد میں کڑھنے والا کسی پرانے زمانے کاآدمی ہے جس کی زبا ن میں ہر دکھے دل کے لئے مر ہم ہے ۔میں سالوں کا مایوس جیسے دوبارہ جنم لے کر پیدا ہواہوں۔ اصل میں میرے مزاج میں غصہ تو پیدائشی تھا مگر اتنی لمبی مایوسی کی زندگی نے مجھے حددرجہ چڑچڑا بنا دیا تھا۔ مولانا صاحب ایک لمبے سفر پر دو بئی اور عمرے کے لئے چلے گئے۔ میں جسولہ میں رہ رہا تھا، وہاں بھی میری باربار استادوں سے لڑائی ہوتی، مگر مولوی عقیق صاحب مجھے سمجھا دیتے ۔اتفاق سے مولوی عقیق کی والدہ بہت بیمار ہوگئیں اور ان کو اڑیسہ جانا پڑا۔ میں نے بھی اپنی ماں کی خبر لینے کو ان سے کہا۔ وہ مجھے لڑائی کے ڈرسے پھلت چھوڑ گئے،میں وہاں خانقاہ میں رہتا تھا۔ماسٹر اسلام صاحب جو خود ایک نو مسلم تھے ذمہ دار تھے۔ میری وہاں مہمانوں سے بار بار لڑائی ہوتی رہی ۔ماسٹر صاحب سمجھاتے رہے،بہت عاجز آکر لڑائی سے بچانے کے لئے میرے لئے انہوں نے مسجد کے حجرے میں رہنے کا انتظام کردیا۔ وہاں پر مؤذن صاحب سے بھی میری لڑائی ہوتی رہی۔ ایک روز میں نے مؤ ذن صاحب کو بہت گالیاں دیں ماسٹر اسلام صاحب نے مجھے بہت ڈانٹا کہ روز روز کی لڑائی ہم کب تک برداشت کرتے رہیں گے۔ مجھے غصہ آگیا اور ماسٹر صاحب کو گالیاں بکنے لگا اور ان کا گر یبان پکڑ لیا ان کو بھی غصہ آتا تھا، انھوں نے دو چانٹے زور زور سے میرے کو لگادئے بس کیا تھا میں آپے سے باہر ہوگیا۔ اپنا سامان اٹھایا اور سیدھا کھتولی تھانہ پہنچا اور تھانے جاکر رپورٹ لکھوائی کہ مولانا کلیم صاحب مجھے دلی سے گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر زبردستی لائے۔ مجھے مار مار کر کلمہ پڑھوایا اور مسلمان کیا، باندھ کر میرا ختنہ کروایا اور خود تو عرب کے سفر پر چلے گئے اور دو پہلوانوں اسلام اور عبداللہ کو میرے اوپر چھوڑگئے جو مجھے ما رمارکر نماز پڑھواتے ہیں۔ میں کسی طرح ان کی قید سے چھوٹ کر آیا ہوں۔ پولیس انسپکٹرمیری باتیں سن کر بہت ہنسا اور بولا بھلے مانس کچھ تو سچ بھی کہہ لے، آج کے زمانے میں ایسا ہوسکتا ہے ؟تو جوان آدمی ہے، بات بتا کیا ہے تو کس سے لڑ کر آیا ہے؟ میں نے کہا آپ میری رپورٹ لکھیں ورنہ میں ایس پی کے یہاں جاکر لکھواؤں گا۔

سوال : آپ نے ابی کے خلاف رپورٹ لکھوائی، جب کہ آپ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کی ہمدردی سے آپ بہت متاثر ہوئے تھے؟

جواب : احمد بھائی سچی بات یہ ہے کہ میرا ضمیر شاید موت تک اس کمینے پن کو معاف نہیں کرسکتا، مگر مجھ جیسے کتوں کے بھونکنے سے پریم ومحبت کی گاڑی کب رکنے والی ہے۔ میں نے تھانے میں رپورٹ کرائی، رپورٹ کچے کاغذ پر لکھ لی گئی، تھانہ انچارج نے دو سپاہیوں کو پھلت مولانا صاحب کو بلانے بھیجا۔ مولانا صاحب باہر کے سفر پر گئے ہوئے تھے، مولانا صاحب کے بڑے بھائی وکیل صاحب ایک ڈاکٹرصاحب کو لے کر تھانے آئے۔ تھانہ میں ایک خطر ناک معاملہ زوروں پر تھا، چند دن پہلے کچھ شیو سینکوں نے ایک گاؤں کے ایک جنگل میں ایک ۱۵؍سالہ مسلمان لڑکی سے بلاتکار (زنا) کرکے اس کو مار کر مٹی میں دبا دیا تھا مسلمانوں نے احتجاج کیا تو مایاوتی کے آرڈر سے ان لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ شیو سینک پورے علاقے کے اکٹھا ہو کر ان لوگوں کو رہا کرانے کے لئے دھرنا دے رہے تھے۔ ایسے گرم ماحول میں وکیل صاحب نے سوچا کہ کسی طرح اس معاملہ کو رفع دفع کرانا چاہئے۔ ایک بڑی رقم کا مطالبہ تھانے سے تھا۔ بڑی کہاسنی کے بعد کہ ہمیں خود کچھ نہیں چاہئے اس آدمی کو دینا ہے جس کے ساتھ ایسا جرم ہوا ہے۔ نوہزار روپے میں معاملہ طئے ہوگیا، تھا نیدار نے مجھے پانچ سوروپے کرایہ کے دیئے، میں نے زیادہ مانگے تو مجھے گالیاں دیں کہ جھوٹی رپورٹ لکھاتا ہے شرم نہیں آتی۔ میں تھا نے سے نکل کر بس میں بیٹھا، دہلی جاکرکٹک کا ٹکٹ لیا اور ٹرین سے گھر پہنچا میری ماں کادیہا نت ( انتقال ) ہو چکا تھا، لو گوں نے مجھے بتایا کہ وہ مولانا صاحب جو کلیم صاحب کے مرید تھے، انھوں نے میری ماں کا بہت علاج کرایا اور بہت خدمت کی اور وہ مسلمان ہوکر مریں اور مسلمانو ں کے قبرستان میں ان کو دفن کیا گیا۔ میں ایک ایسے بدقسمت فقیر کی طرح جس کو خواب میں بادشاہت مل گئی ہو اور پھر اچانک آنکھ کھل جائے اور فقیر کا فقیر رہے، پھلت سے واپس لوٹا۔ ایک انجانا سا ڈر مجھے اندر ہی اندرمحسوس ہورہا تھا کہ ایسے احسان اور ہمدردی کر نے والو ں کے ساتھ اس کمینے پن کی سزا مجھے زندگی میں ضرور بھگتنی پڑے گی۔ اتنے دنوں اسلام کی باتیں جاننے کے بعد مجھے ہندو بن کر جینے کو تو دل بالکل نہیں چاہتا تھا مگر میرا منھ بھی نہیں تھا کہ میں کسی مسلمان کے پاس جاؤں۔ ایک دو مہینہ میں کٹک میں گذ ارا کرتا رہا کبھی کچھ سوچتا کبھی کچھ،ایک روزایک پنڈت جی سے ملاقات ہوئی، وہ بنارس کے ایک بڑے آشرم کے ذمہ دار تھے۔ میں نے یہ سوچ کر کہ یہ دھارمک آدمی ہیں اپنی پریشانی کا ذکر کیا انھوں نے مجھ سے بنارس ساتھ چلنے کے لئے کہا میں ان کے ساتھ بنارس آشرم میں چلا گیا، ایک سال میں وہاں رہا، مگر مجھے ہندو دھرم کی کوئی بات بھی بھاتی نہیں تھی۔

            انہیں دنوں بنارس کے کئی آشرموں میں بم ملے، ہمارے آشرم میں بھی بم رکھے ملے پولیس نے سخت ایکشن لیا۔ خود مندروں میں رہنے والوں اور پجاریوں کی تحقیق و تفتیش ہوئی، نئے لوگوں میں مجھ پر پولیس کو شک ہوا۔ ہمارے پورے آشرم سے صرف مجھے، پولیس گاڑی میں بٹھا کر تھا نہ لے گئی، تھا نہ انچارج نے مجھ سے تفتیش شروع کی، تو ان کو مجھ پر اور بھی شک ہوگیا۔ کہنے لگے یہ لشکر طیبہ کا آدمی ہے، اس کی پینٹ ا تا ر کر دیکھو یہ مسلمان ہے، میری پینٹ اتاری گئی، میری ختنہ دیکھ کر ان کو یقین ہوگیا کہ یہی آتنگ وادی ہے ۔میں نے ان سے کہا کہ میری ختنہ زبردستی کرادی گئی تھی اور کھتولی تھانہ میں رپورٹ بھی لکھی ہوئی ہے ۔تھانہ انچارج نے کھتولی رابطہ کیا کھتولی والوں نے بتا یا کہ ہمارے یہاں ایسی کوئی رپورٹ دو سالوں میں بھی نہیں لکھی ہوئی ہے ۔پھر کیا تھا میرے ساتھ سختی ہونے لگی، مجھ سے تفتیش کے بعد اور جرم کے اقرار کے لئے جو بھی حیوانیت ہو سکتی تھی کی گئی۔ سخت ما ردی گئی میرے ناخن کھینچے گئے، حیوانیت کا کوئی ظلم ایسا نہ تھا جو میں نے نہ سہا ہو۔ خیال ہوتا تھا کہ میں اب مر جاؤں گا وہ مجھ سے دہشت گردوں کا پتہ مانگتے تھے مگر میں کہتا کہ یہ میرا جرم نہیں ہے جس کی سزا تم مجھے دے رہے ہو۔ بلکہ میرا جرم یہ ہے کہ میں نے اپنے محسن کے ساتھ دغا کی، مگر ان ظالموں کو کہاں سمجھ میں آنے والا تھا۔ میرے فوٹو اخباروں میں چھپے کہ لشکر کا پرانا آتنک وادی پجاری کے بھیس میں ایک سال وکاس آشرم میں رہا۔ پورا پر شاسن حرکت میں تھا،سب کچھ کر نے کے بعد جب ان کو مجھ سے کچھ سراغ نہیں مل سکا تو مجھے ڈی آئی جی کے یہا ں لے جایا گیا میرے پاؤ ں کی ہڈیوں میں فریکچر آ گئے تھے اس لئے مجھے لٹاکر لے جا یا گیا۔یہ ڈی آئی جی بریلی سے پرموشن ہوکر ڈی آئی جی بنے تھے، انھوں نے سارے پولیس والوں کو الگ کر کے محبت سے مجھ سے بات کی اور مجھے سچ بتا نے کو کہا، میں نے رو رو کر اپنی کہا نی ان کو بتا ئی اور بتا یا کہ یہ سب سزا مجھے اس گھناؤنے جرم کی مل رہی ہے کہ میں نے ایسے محسن کو دغا دی۔ مولانا کلیم صاحب کو وہ جا نتے تھے، وہ مولانا صاحب سے دہلی میں ملے تھے اور ان کی کتا ب‘‘آپ کی امانت آپ کی سیوا میں’’ پڑھ چکے تھے انھوں نے مجھے وہ منگواکر دکھائی، ڈی آئی جی کو میرے سچ پر یقین آگیا، انھوں نے مجھے بتایا کہ میں نے خود مولا نا صاحب کے ہاتھ چھ مہینے پہلے کلمہ پڑھا ہے، مگر ابھی میں نے اعلان نہیں کیا۔ واقعی تم نے بہت بری حرکت کی، انھوں نے مجھ سے کہا اب بھی اگر سکھی جیون چا ہتے ہو تو مولانا صاحب کے پاس پھلت جاؤ میں تمہیں یہاں سے چھڑوادیتا ہوں۔ شرط یہ ہے کہ تم اسلام پر جمے رہو، انھوں نے مجھے پولیس کی گاڑی میں بٹھا کر، بنارس کے ایک مدرسے میں بھیج دیا۔ مدرسے والوں نے مجھے رکھنے سے صاف منع کردیاکہ جس شخص پر دہشت گردی کا الزام ہو ہم لوگ اسے نہیں رکھ سکتے لوگ مدرسوں کو اور بھی بد نام کریں گے۔ مجھے ایک سرکاری اسپتال میں بھرتی کردیا گیا۔ میرے دونوں پاؤں پر پلاسٹر ہوا دو مہینے بعد میری ہڈیاں جڑ گئیں اور بیساکھیوں سے چلنے لگا مگر میری صحت بالکل خراب ہو گئی تھی سخت چوٹوں کی وجہ سے میرے گردے خراب ہو گئے تھے۔ بنارس کے ایک حاجی صاحب نے ڈی آئی جی کے کہنے پر میرے علاج پر کافی رقم خرچ کی مگر میری صحت بحال نہ ہوئی، تو مجھے دہلی علاج کے لئے جانے کا مشورہ دیا گیا۔ آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے لئے مجھے ڈاکٹر نے پرچہ لکھ دیا کچھ رقم حاجی صاحب سے لے کر دہلی آیا دہلی آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ میں ایک ہفتہ چکر لگاتا رہا مگرمیرا داخلہ نہ ہو سکا، مجبوراً میں صفدر جنگ اسپتال میں داخل ہو گیا، میں علاج سے بالکل مایوس ہو گیا تھا مجھے یہ خیال ہو تا تھا کہ کاش موت سے پہلے میں مولانا صاحب سے ایک بار ملاقات کرکے، ان کے قدموں میں پڑکر ان سے معافی مانگ لوں۔ شاید موت کے بعد کی زندگی کے لئے رحمت کا ذریعہ بن جائے، مجھے بار بار ڈی آئی جی صاحب کی وہ بات یاد آرہی تھی کہ اب بھی اگر سکھی جیون چاہتے ہو تو مولانا صاحب کے قدموں میں پھلت چلے جاؤ، مجھے یہ بھی خیال آرہا تھا کہ اس محسن کی کیا بات ہے کہ، ایسے غدار کو اتنی مشکل سے نجات ملی، تو ڈی آئی جی سے ان کے رشتہ کی وجہ سے ورنہ نہ جانے کس طرح جیل میں سڑ کر مرتا۔ مجھے مولانا صاحب کی بہت یاد آئی اور روزروز جیسے علاج سے مایوسی بڑھتی رہی یاد بڑھتی گئی کہ کاش کوئی صورت آخری ملاقات کی ہو جاتی۔

            ۹؍مارچ کو اچانک میری عید ہوگئی، ۱۲؍بجے کے قریب مو لانا صاحب اپنے کسی دوست ڈاکٹر صاحب سے ملنے صفدر جنگ پہنچے۔ وہ ڈاکٹر صاحب ہمارے وارڈ میں تھے میں نے دروازے سے مولانا کو آتے دیکھا تو میں گیٹ سے نہ جانے کس طاقت سے کود کر مولانا صاحب کے قدموں سے چمٹ گیا۔ مولانا صاحب شرو ع میں تو ڈر سے گئے مگر جب میں نے بتایا کہ میں آپ کا کمینہ نمک خوار احسان فراموش عبداللہ کٹک والا ہوں تو مولانا نے مجھے اٹھایا اور گلے لگایا اور معلوم کیا کہ یہ کیا حال ہو گیا۔ میں نے رو رو کر پوری کہانی سنائی، مولانا صاحب نے معلوم کیا اب اسلام پر ہو کہ نہیں، میں نے کہا اللہ تعالی نے حقیقی مسلمان تو اب بنایا ہے۔ اب بس آپ کے قدموں میں جان دینے کی آخری آرزو ہے مولانا صاحب میری حالت زار دیکھ کر بہت دکھی بھی ہوئے اور اس بات پر خوش بھی ہوئے کہ میں انہیں مل گیا۔ مولانا صاحب نے میری شرمندگی اور ندامت کو اور بھی بڑھادیاکہ اتنی کم ظرفی کے باوجود بھی وہ اس کے لئے فکر مند تھے کہ کہیں میں ہندو ہو کر نہ مرجاؤں اور ہمیشہ کی دوزخ کا ایندھن بنوں۔ انھوں نے بتایا کہ حج وعمرہ کے سفر میں ہر موقع پر میرے لئے دعا کی کہ میرے اللہ ! میرے عبداللہ کو میرے یہاں بھیج دیجئے اور اسے اسلام پر موت نصیب فرمائیے۔ مولانا صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے تمہارے اسلام پر چلنے کے لئے روزوں کی نذر مانی، نفلوں اور صدقوں کی نذر مانی، نذر بڑھاتا رہا، اب تک چالیس روزے، سو رکعت نفل اور دس ہزار روپے صدقہ کی نذر میں تمہارے اسلام پر واپس آنے کے لئے کرچکا ہوں۔ میں یہ سن کر بلک گیا کہ ایسے احسان فراموش کے ساتھ ایسی ہمدردی، یا اللہ یہ کائنات ایسے لو گوں کی وجہ سے قائم ہے۔ میں مولانا صاحب کے قدموں میں بار بار چمٹتا تھا کہ خدا کے لئے اس کمینہ کو معاف کردیں میری وجہ سے بھائی صاحب کو نو ہزار روپے تھانے میں بھی دینے پڑے۔ مولانا صاحب باربار مجھے گلے لگاتے اور کہتے کہ ہمارے اسلام پر ملنے کے بعد مجھے کسی بات کا بھی احساس نہیں رہا اور وہ نو ہزار روپے تو اللہ نے مجھے واپس دلوا دیئے تھے میں نے کہا وہ کیسے احمد بھائی دیکھئے اللہ کے یہاں سچے انسانیت دوستوں اور ہمدردوں کی کیسی ناز برداری ہوتی ہے۔ مولانا صاحب نے بتایا کہ میں باہر کے سفر سے واپس آیا تو لوگو ں نے میرا پورا واقعہ سنا یامیں نے ساتھیو ں سے کہا آپ لوگوں کو سمجھانا چاہئے تھا، نو ہزار روپئے کی تو ایسی بات نہیں ہے البتہ اگر وہ مرتد ہوگیا تو ایک آدمی کا ایمان سے چلے جا نا ساری دینا لٹ جانے سے زیادہ ہے۔ مولانا صاحب نے بتا یا، مجھے یہ بھی خیال ہوا کہ اگر تھانہ میں رشوت کا سلسلہ چل گیا تو یہ خون پولیس والوں کے منہ لگ جائے گا۔ حسن اتفاق کہ کچھ زمانہ پہلے مولانا صاحب نے حضرت مولانا رابع صاحب کا ایک پیام انسانیت کا دورہ علاقہ میں کرایا تھاجس میں میرٹھ، کھتولی، بجنور مظفر نگر میں پیام انسانیت کے زبردست جلسے ہوئے تھے۔ مظفر نگر کے جلسے میں ایس پی سٹی جناب اے کے جین بھی شریک ہوئے تھے، جو پیام انسانیت تحریک سے لکھنؤ پو سٹنگ کے زمانے سے واقف تھے۔ انھوں نے مظفر نگر میں میری تقریر سنی تو مجھ سے کہا کہ مولانا صاحب میں آپ کے اس فورم کا آجیون ( تاحیات ) سیوک ہوں، مجھے آپ ممبر بنانے کے لئے لائف ممبر شپ کی فیس لے لیں اور رات دن میں دیش کے جس کونے میں جس سیوا کے لئے آپ مجھے بلائیں گے، میں حاضر رہوں گا۔ تھانوں کا چارج ایس پی سٹی کے ہاتھ میں ہوتا ہے، مولانا صاحب نے سنا یا کہ میں نے معلوم کرایا کہ جین صاحب ابھی مظفر نگر میں ہیں یا نہیں ؟ خدا کا کرنا کہ ابھی تک وہ ایس پی سٹی تھے، میں نے ان کو فون کیا کہ مجھے ضروری کام ہے، جین صاحب نے بڑی معذرت سے کہا کہ مجھے خود سیوا میں حاضر ہونا چاہئے تھا، مگر اس وقت ایک مسئلہ یہ ہے کہ کا وڑ چل رہے ہیں، اگست کے مہینے میں ہریدوار سے لوگ کا ندھے پر کاوڑ میں جل لے کر اپنے اپنے مندروں پر چڑھا تے ہیں، بیسیوں لاکھ لوگ اس میں شریک ہوتے ہیں۔ پورے علاقے کے راستے بند کردئے جاتے ہیں اور پولیس پر انتظام کے لئے بڑا دباؤ ہوتا ہے اور آئی جی کی میٹنگ ہے اس لئے آپ ہی زحمت کریں مظفر نگر پہنچا بہت خوشی سے ملے، میں نے پورا واقعہ بتایا کہ روزگار سے پریشان خو د کشی کرنے والے ایک گریجو یٹ کو ہمارے ایک دوست نے میرے پاس بھیجا تھا وہ ہندی نہیں جانتا تھا اس لئے میں اس کو اڑ یا جاننے والے دوست کے پاس چھوڑ کر باہر چلا گیا، بعد میں کسی سے اس کی لڑائی ہوگئی اور اس نے جھوٹی رپورٹ لکھوائی اور تھانیدار نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھائی صاحب سے نو ہزار روپے لے لئے آپ اگر ہمیں دیش میں رہنے کا حق دار سمجھتے ہیں تو بتایئے ورنہ پھر ہمیں یہاں سے نکل جانے کے لئے کہیں۔ جین صاحب نے بہت افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ ہمارے ہوتے ہوئے اگر آپ کے ساتھ ظلم ہوگا تو ہمارا جیون کس کام کا ؟ مگر آپ کو کل مجھے آدھا گھنٹہ اور دینا پڑیگا کل دس بجے آپ میری کوٹھی پر آجائیں اور بس ایک کپ چائے پی لیں میں آپ کا دل ٹھنڈا کر کے بھیجوں گا اور میں چائے بالکل ایک نمبر کی پلاؤں گا۔ مولانا صاحب نے بتا یا کہ میں اگلے روز جین صاحب کی کوٹھی پر پہنچا جین صاحب نے کھتولی کے تھانہ دار کو بلارکھا تھا اور کوتوال کھتولی بھی موجود تھے، تھانہ دار کو بہت گالیاں دیں کہ تم دیوتاؤں کو نہیں پہچانتے، ان سے رشوت لے کر گل جاؤ گے، سارا دیش، دیش کو جلارہا ہے، یہ بجھانے والے دیوتا ہیں ان کی مدد نہیں کرسکتے تو ان کے ساتھ ظلم تو نہ کرو۔ جین صاحب نے کہا بس آخری بات یہ ہے کہ کل تک تیری وردی مولانا صاحب کے ہاتھ میں ہے، اگر صبح سویرے مولانا صاحب کے چرنوں میں نو ہزار روپے رکھ کر چھمایا چنا (معافی ) کریگا اور مولانا صاحب معاف کریں گے، تو تیری وردی رہے گی ورنہ پلیٹ اتار کر یہاں جمع کر دینا۔

            مولانا صاحب نے بتایا، میرے اللہ کا شکر ہے کہ وہ تھانیدار صبح پھلت آیا نو ہزار روپے میرے قد موں میں رکھ کے دیر تک معافی مانگتا رہا، میں نے اسے اٹھایا گلے لگایا اور کہا آپ اب میرے مہمان ہیں۔ اس نے موبائیل جین صاحب کو ملا کر مجھے دیا کہ صاحب سے کہہ دیجئے میں نے معاف کردیا، میں نے جین صاحب سے ان کو معاف کرنے کو کہا اور اللہ کا شکر ادا کیا اور آج تک سوچتا ہوں کہ شاید ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہوکہ داروغہ رشوت لے کر قدموں میں واپس لے کر آئے اور معافی مانگے ۔اس سے زیادہ میرے رب کے وَکَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیْباً ‘‘ترجمہ: اور حساب کیلئے تو اللہ ہی کافی ہے’ ’داعی کیساتھ وعدہ کی اور کیا مثال ہوسکتی ہے۔سوال : پھر اسکے بعد کیا ہوا ؟جواب : مولانا صاحب نے مجھے ساتھ لے کر صفدر جنگ سے چھٹی کرائی اور اپنے جاننے والے ایک ڈاکٹر صاحب کو آل انڈیا میڈیکل میں فون کیا، وہ فوراً صفدر جنگ آگئے اور مجھے آل انڈیا لے گئے اور مجھے داخل کرایا اور علاج کرا یا الحمد للہ ایک مہینہ میں زندگی کے آثار دکھائی دینے لگے، مجھے خود مولانا صاحب سے مل کر بڑا علاج مل گیا تھا، اب الحمد للہ ایک مہینہ پہلے میں اسپتال سے آگیا ہوں، اگرچہ علاج اب بھی چل رہا ہے پرانی دہلی کے ایک مدرسہ میں مولانا صاحب نے میرے رہنے کا نظم کر ادیا ہے وہاں میں انگلش پڑھا رہا ہوں اور ہر لمحہ اپنے اللہ کا شکرکرتا ہوں کہ ایسے ناقدر ے کو اسلام کی طرف کس طرح زبردستی لوٹایا، اصل میں تو یہ مولانا کے درد اور دعاؤں کا صدقہ تھا۔ سوال : اب آپ کیسا محسوس کر تے ہیں ؟جواب : میں بیان نہیں کرسکتا کہ میں اپنے کو دنیا کا کس قدر خوش قسمت انسان سمجھتا ہوں کہ اتنی کم ظرفی کے باوجود میرے اللہ نے مجھے گھیر کر اسلام پر لوٹایا، میرا رواں رواں کانپ جاتا ہے کہ اگر پھلت سے لوٹنے کے بعد مجھ پر مسائل نہ آئے ہوتے اور میں بنارس کے وکاس آشرم میں کفر پر مرگیا ہوتا مرنے کے بعد ہمیشہ کی سزا میں کس طرح برداشت کرتا، حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں اسلام وایمان کے لئے میں سب سے زیادہ نااہل انسان تھا۔سوال : ارمغان کے قارئین کے لئے آپ کچھ پیغام دینا چاہیں گیجواب :مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ وراثت میں ملے اسلام کی مسلمانوں کو کچھ قدر نہیں ہوتی، نہ ان کو خاندانی طور پر ملی اس دولت میں اس کا احساس ہے کہ اسلام سے محروم انسان کتنے خطرے میں ہیں اور وہ کیسی قابل ترس حالت میں ہے، خدارا ان پر ترس کھائیں اور ان کے دوزخ کی دردناک آگ سے نکالنے کی فکر کریں، کم از کم اس تکلیف اور درد کا احساس ہی کریں۔

٭٭٭