باپ کی دانائی

مصنف : کریم بخش

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : اکتوبر 2012

            ایک بزرگ نے بتایا کہ ان کا بیٹا محمداسلم نوجوانی میں حد سے زیادہ بگڑ گیا۔ بری محفلوں میں اٹھنا’ بیٹھنا’ اورنشہ کرنا اس کا معمول بن گیا۔ بہت سمجھایا لیکن بے سودبلکہ سمجھانے جواب دیتا کہ اباجی آج کا ماحول ایسا ہی ہے اگر کسی کو تنگ نہ کروگے تو یہ دنیا والے تمہیں کھا جائیں گے ۔ تمہاری جو عزت آج ہورہی ہے یہ میری جرآت مندی سے ہورہی ہے۔ میں بولتا بیٹا یہ جرآت مندی نہیں بدمعاشی ہے۔ میں بہت پریشان تھا کہ بیٹے کو اس انگاروں بھری محفلوں سے کیسے نکالا جائے؟ میرے پاس اللہ کا دیا سب کچھ تھا میں ہر نماز کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتا کہ اے میرے پروردگار! مجھ گنہگار میں اتنی طاقت نہیں کہ میں اپنے بچے کو کسی مشکل میں دیکھوں اور برداشت کرسکوں اے میرے پالنے والے! میری ہر پریشانی آسان کردے اور میرے بیٹے کو بچا لے۔ میں دعا مانگتے وقت بہت روتا اور فریاد کرتا۔ آخر میری فریاد اللہ تعالیٰ نے قبول کی اور میرا بیٹا سیدھی راہ پر چل پڑا۔ میں نے ایک منصوبہ بنایا اور مجھے پختہ یقین تھا اگر میرا بیٹا مان گیا تو میں انشاء اللہ اپنے بیٹے کو راہ راست پر لاسکوں گا’ بڑے انتظار کے بعد میرا بیٹا رات کو دس بجے گھر آیا میں نے اس سے بات کی کہ بیٹااگر تم پر کوئی مشکل آئے تو یہ تمہارے دوست تمہاری مشکل گھڑی میں ساتھ دینے کی بجائے تمہیں اکیلا چھوڑ کر بھاگ جائیں گے لیکن ہم ماں باپ سے یہ صدمہ برداشت نہ ہوگا۔ بیٹا بولا ابا حضور تم پرانے لوگ کتنے بھولے ہو پرانی باتوں کو یاد کرکے ہم نوجوانوں کو مثالیں سناتے رہتے ہو’ آپ کے دور کے دوست میں مانتا ہوں مخلص ہوں گے لیکن ہماری یاریاں بھی کوئی کچا دھاگہ نہیں جو کہ آسانی سے ٹوٹ جائیں۔میں بولا بیٹا اسلم تم کو اپنے دوستوں پرکتنا مان ہے تو وہ کہنے لگا کہ اباجی اگر کوئی برا وقت آیا تو مجھے پختہ یقین ہے کہ میرے سب دوست میرے لیے قربانی سے گریز نہ کریں گے ۔میں بولا کہ بیٹا ایک آزمائش ہے اگر تم اس آزمائش میں کامیاب ہوگئے تو میں تمہاری راہ میں کبھی رکاوٹ نہ بنوں گا اگر میں جیت گیا تو تم وعدہ کرو کہ تم میری ہر بات مانو گے۔یہ سن کربیٹے نے کہا کہ اباجی آزمائش بتاؤ تو میں بولا کہ میں تمہارے دوستوں کو آزمانا چاہتا ہوں اگر وہ کامیاب ہوگئے تو میں یہ سمجھوں گا کہ تمہارے دوست تمہارے ساتھ مخلص ہیں اگر پورے نہ اترے تو پھر تم یہ سمجھنا کہ تم نے جو راہ اختیار کرچکے ہو وہ بہت ہی گندی ہے ۔ ہاں تمہارے دوستوں کی آزمائش کے بعد میں بھی اپنے دوستوں کی آزمائش کراؤں گا اس کا فیصلہ بھی تم کرنا۔ میں بولا کہ تمہارے دوستوں میں سے جو تمہارا سب سے زیادہ گہرا دوست ہو وہ بتاؤ تھوڑی دیر کے بعد اسلم بولا کہ فلاں آدمی میرا بہت ہی مخلص دوست ہے تو میں بولا کہ صبح اس کے گھر چلیں گے لیکن وہاں جاکر میں تمہارے دوست سے جو کچھ بولوں تم بس سنتے رہنا وہاں پر تمہیں بولنا کچھ نہیں ہے۔ اسلم بولا ٹھیک ہے ابا جی! اگلے دن میں نے اپنے بیٹے کو ساتھ لیا اور اس کے دوست کے گھر پہنچ گئے اس کے گھر کی ایک سائیڈ پر جانوروں کا باڑا تھا وہاں چارپائی پڑی تھی ہم چارپائی پر بیٹھ گئے ۔نوکر کے ذریعے اس کے دوست کو بلایا دوست نے دعا سلام کے بعد ناشتے کا پوچھا میں نے کہا کہ ہم ناشتہ کریں گے اس نے نوکر کوناشتے کا کہا اور حیرانگی سے پوچھا کہ اتنی صبح سویرے آپ آگئے خیر تو ہے؟ میں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بولا کہ بیٹا تمہارے دوست اسلم سے ایک نقصان ہوگیا ہے تم اس کے دوست ہو اب اسے تمہاری مدد کی ضرورت ہے اس کیلئے کچھ کرو۔ وہ بولا چچا جی ہوا کیا ہے؟ میں نے جواب دیاکہ آج رات اس سے جھگڑے میں ایک بندہ قتل ہوگیا ہے ہم تمہارے پاس اس لیے آئے ہیں کہ تم اسے اس وقت تک اپنے پاس رکھو جب تک معاملہ کچھ ٹھنڈا نہ ہوجائے’مگر اس کیلئے ایک سال بھی لگ سکتا ہے اس سے زیادہ عرصہ بھی گزر سکتا ہے تم اس وقت تک میرے بیٹے کو اپنی امانت سمجھو گے ۔یہ بات سن کر اسلم کے دوست کے حواس کھوگئے اور بدحواسی میں کہنے لگا چچاجی تم جلدی سے یہاں سے نکل جاؤ اتنا بڑا وزن میں نہیں اٹھا سکتا’ کہیں پولیس کو پتہ چل جائے کہ قاتل میرے پاس ہے اس کے ساتھ ساتھ میں بھی مارا جاؤں گا۔ میں بولا بیٹا بھوک بہت سخت ہے تم ناشتہ تو کرنے دو لیکن اس نے ناشتہ کے بغیر ہی ہمیں جانے کو کہا۔ میں نے اسلم کو لیا اور وہاں سے چل پڑا۔ اب میں نے اپنے دوست کے گھرکی طرف رخ کیا اپنے دوست کے ڈیرے پر پہنچا’ ہمیں دیکھتے ہی وہ بہت خوش ہوا نوکر سے حقہ تازہ کروایااور ہمارے پاس آگیا۔ گلے شکوے کیے کہ یار تو بہت بیوفا ہے کہ کافی عرصہ سے تو نے میرا کوئی پتہ نہیں کیا میں نے اسے اپنی مجبوریاں بتائیں مجھے ایسے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے یہ میرا یار ہمارے آنے سے بہت خوش ہے۔ میں بولا یار میں آج ایک مشکل گھڑی میں تمہارے پاس آیا ہوں اس نے جواب دیا کہ تم جتنی بھی مشکل میں ہو تمہارا یارا تمہارا ساتھ نہ چھوڑے گا لیکن پہلے ناشتہ ہوگا اور بعد میں گفتگو۔ وہ گھر گیا ناشتہ لے آیا ناشتہ بہت ہی پرتکلف تھا۔ ناشتہ سے فارغ ہوئے تو یار نے مشکل کے بارے میں پوچھا۔ میں بولا یار آج رات تمہارے بھتیجے سے جھگڑے میں ایک آدمی قتل ہوگیا ہے بہت پریشان ہوں’ میرے بیٹے کو اپنے پاس پناہ دو۔ یار بولا کہ بس اتنی سی بات پر گھبرا رہے ہو’ یہ تمہارا بیٹا نہیں بلکہ میرا بیٹا ہے تم فکر نہ کرو میرے چھ بیٹے ہیں اور ساتواں یہ ہوا اگر پولیس کو پتہ چل بھی گیا کہ اسلم فلاں جگہ چھپا ہوا ہے تو فکر مت کرنا میں اسلم کی گرفتاری کی بجائے اپنے بیٹوں کو پولیس مقابلہ کراؤں گا اگر یہ قربان ہوگئے تو پھر تمہارا یار اپنی قربانی دے گا میری قربانی کے بعد پولیس اگر اسلم کو پکڑ کر لے جائے تو پھر میری مجبوری سمجھ کرمجھ پر ناراض نہ ہونا اگر تم یہاں رہنا چاہو تو یہ تمہارا گھر ہے اگر واپس جانا چاہو تو بے فکر یہاں سے چلے جاؤ۔اگر قتل ہونے والے آدمی کے وارثوں سے کوئی معاملہ طے ہوجائے تو پیسوں کی فکر نہ کرنا میرے باڑے پر ستر اسی جانور موجود ہیں اگر ضرورت پڑے تو ان کوبیچ کر اپنے بیٹے کی جان بچائیں گے۔ میں نے اجازت چاہی اور وہاں سے چل پڑا کچھ دور جاکر واپس یار کے پاس آیا تو اس نے حیرانگی سے واپس آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے اپنے یار کو تمام قصہ سنایا اور خواہش ظاہر کی کہ تم بھی اسلم کو سمجھاؤ کہ یہ غلط دوستوں اور محفلوں سے باز آجائے ۔اب اللہ کی مہربانی سے اسلم کے دل میں بھی بات سمجھ آچکی تھی اسلم نے اٹھ کرمجھ سے اور میرے دوست سے معافی مانگی اور بے اختیار کہا کہ برے دوست واقعی مشکل میں ڈالتے ہیں اور برے وقت میں کام نہیں آتے۔ اباجی آپ جیت گئے اور میں ہارگیا۔