سر درد کی وجوہات

مصنف : محمد عبداللہ بخاری

سلسلہ : طب و صحت

شمارہ : 2017 جنوری

طب و صحت
سر درد کی وجوہات
انتخاب ، محمد عبداللہ بخاری

سر میں درد بذات خود کوئی بیماری نہیں بلکہ کسی بیماری کی علامت یا پیش خیمہ ہوتا ہے یا بعض دیگروجوہ سے یا موسمی اثرات سے بھی ہوسکتا ہے۔
سر درد کے بعض اسباب درج ذیل ہو سکتے ہیں۔
پانی کی کمی:
اگر ہمارے جسم میں پانی کی کمی یعنی ’’ڈی ہائیڈریشن‘‘ ہوجائے تو اس سے بھی سر میں درد ہوسکتا ہے کیونکہ پانی ہمارے جسم کی اہم ترین ضروریات میں سے ایک ہے جس کی کمی ہماری صحت کے لیے کئی مسائل پیدا کردیتی ہے۔ بہت سے لوگ اس طرف توجہ نہیں دیتے اور صرف اسی وقت پانی پیتے ہیں جب انہیں پیاس لگتی ہے جو ایک غلط رویہ ہے۔ یاد رہے کہ ہمارے جسم کو روزانہ تقریباً 2 لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر آپ پابندی سے ورزش یا روزمرہ جسمانی مشقت کرتے ہیں تو آپ کو اس سے بھی زیادہ مقدار میں ہر روز پانی پینا چاہیے۔
کیفین میں کمی:
چائے اور کافی آج ہمارے روزمرہ مشروبات کا حصہ بن چکی ہیں اور لوگوں کی اکثریت ان کی عادی بھی ہے۔ چائے اور کافی میں ’’کیفین‘‘ شامل ہوتی ہے جو جسم میں چستی اور پھرتی پیدا کرتی ہے۔ وہ لوگ جو روزانہ چائے یا کافی پینے کے عادی ہوتے ہیں، اگر وہ ان کی مقدار میں کمی کردیں یا انہیں بالکل ہی ترک کردیں تو انہیں بھی (کیفین میں کمی وجہ سے) سر میں درد کی شکایت ہوسکتی ہے۔
دھوپ کی زیادتی:
سردیوں کی دھوپ اچھی لگتی ہے جس سے ہم خود کو ہشاش بشاش بھی محسوس کرتے ہیں۔ لیکن گرم اور معتدل موسم میں زیادہ دیر تک دھوپ میں رہنے سے جسم میں پانی کی کمی کے علاوہ سورج کی گرمی سے بھی سر میں درد ہوسکتا ہے۔
ہوا کے دباؤ میں تبدیلی:
موسم اور ماحول بدلنے کے ساتھ بعض مرتبہ ہوا کے دباؤ میں بھی تبدیلی آجاتی ہے جس کا نتیجہ سر میں درد کے طور پر ظاہر ہوسکتا ہے۔ اگرچہ یہ شکایت بہت کم لوگوں کو کبھی کبھار ہوتی ہے لیکن دردِ سر کی ایک وجہ بہرحال یہ بھی ہے۔
نشست و برخاست کا غلط انداز:
کام کے دوران اکثر لوگ اس طرح سے بیٹھتے ہیں کہ ان کی گردن اور کمر پر زیادہ زور پڑتا ہے جس کے زیادہ دیر تک برقرار رہنے کی صورت میں ہڈیوں اور پٹھوں میں اینٹھن شروع ہوجاتی ہے۔ لیکن نشست و برخاست کا یہی انداز (پوسچر) درست نہ ہونے پر سر میں بھی درد ہوسکتا ہے کیونکہ ریڑھ کی ہڈی سے اٹھنے والا درد کا احساس دماغ تک پہنچتا ہے اور سر میں درد کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔
تناؤ:
گھریلو اور کاروباری مسائل کی وجہ سے ہمارے اعصاب دیر تک تناؤ کا شکار رہ سکتے ہیں اور یہی تناؤ سر میں درد کی شدید لہر پیدا کرسکتا ہے۔ اس لیے کوشش کریں کہ کسی بھی طرح کے اعصابی تناؤ سے خود کو زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھیں کیونکہ اگر اس طرف توجہ نہ دی جائے تو یہی اعصابی تناؤ دردِ سر سے آگے بڑھ کر بہت سی بیماریوں کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔
دواؤں کے ضمنی اثرات:
شاید ہی کوئی دوا ایسی ہو جس کے ضمنی اثرات نہ ہوں۔ البتہ جب ہم کوئی دوا پہلی بار کھاتے ہیں تو ہمارا جسم اس کا عادی ہونے سے پہلے کچھ نامانوسیت کا مظاہرہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں دردِ سر ہوسکتا ہے۔ تاہم اگر کوئی دوا کھانے کے بعد خاصی دیر تک سر میں درد رہے تو ڈاکٹر کو دکھانا ضروری ہے۔
خون میں شوگر کی کمی:
شکر ہمارے جسم میں توانائی کا اہم ترین ذریعہ بھی ہے جو صرف مٹھاس والی غذاؤں ہی میں نہیں بلکہ نمکین کھانوں تک میں موجود ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر خون میں شکر کم ہوجائے تو کمزوری کے علاوہ سر میں درد کا احساس بھی ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں فوری طور پر کچھ کھا لینا چاہیے ورنہ یہ کیفیت بڑھ کر اذیت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں میں بھی بعض اوقات انسولین لینے کے بعد وقتی طور پر خون میں شوگر کم ہوجاتی ہے جس سے یہی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔
ہارمون کے توازن میں خرابی:
مخصوص دنوں اور بلوغت کے علاوہ عمر رسیدگی کے دوران بھی خواتین میں ہارمون کا توازن بگڑ جاتا ہے جس کے نتیجے میں انہیں موڈ کی خرابی سے لے کر سر میں شدید درد جیسی شکایات ہوسکتی ہے۔ اس موقعے پر بہتر ہے کہ کسی اچھی لیڈی ڈاکٹر کو دکھالیا جائے۔
غذائی الرجی:
بعض لوگوں کو کسی خاص قسم کی غذا سے الرجی ہوتی ہے مثلاً مرغی، انڈا، مچھلی اور دودھ وغیرہ سے؛ اور اسی الرجی کے باعث جہاں انہیں جلد پر خارش اور بیماری لاحق ہوسکتی ہے وہیں ان کے سر میں بھی درد کی شدید ٹیسیں پیدا ہوسکتی ہے۔ یہ صورتِ حال بھی فوری طور پر ڈاکٹری معائنے کا تقاضا کرتی ہے۔
تیزی سے اٹھنا:
بستر یا کرسی چھوڑ کر تیزی سے کھڑے ہونے کا نتیجہ بھی دردِ سر اور تیز چکر کی شکل میں ظاہر ہوسکتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے سر میں خون کا بہاؤ چند لمحوں کے لیے متاثر ہوجاتا ہے۔ البتہ یہ کیفیت کچھ دیر سر کی طرف خون کا بہاؤ نارمل ہوتے ہی ختم ہوجاتی ہے۔

مجبوری خریدنا
برسوں پہلے استاد کا کہا ہوا جملہ یاد آتا ہے۔ کہنے لگے’’بیٹا کبھی کسی کی مجبوری مت خریدنا‘‘سمجھ نہیں آیا۔ پوچھنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ ازخود اس جملے کی تشریح کرلی۔ وقت مگر بڑا صراف ہے۔ اس کی تشریح اٹل ہوتی ہے۔ استاد کے کہے کی تشریح تب تب ہوتی جب جب کوئی کہتا کہ اس چیز کی اصل قیمت بہت زیادہ ہے، مجھے بہت سستے میں مل گئی، فلاں شخص کو ضرورت تھی، مجبوری میں اونے پونے بیچ رہا تھا، خوش قسمتی سے میرے ہاتھ لگ گئی۔
بس یہی دنیا ہے۔ یہاں کسی کی بدقسمتی ہی دراصل ہماری خوش قسمتی ہوتی ہے۔ کسی کے خواب ٹوٹ کر بکھرتے ہیں تو ہمارے خوابوں کو تعبیر ملنا شروع ہوتی ہے۔ سوچتا ہوں کیا غضب کی بات استاد نے کہی تھی۔ زندہ ہوتے تو ہم پوچھتے’’مجبوری میں بیچا گیا کون سا اثاثہ مجبوری کی انتہا کی علامت ہے‘‘استاد کتاب کے آدمی تھے۔ یہی کہتے’’مجبوری کی اذیت ناک حد یہ ہے کہ انسان زیر مطالعہ کتابیں بیچنے پر مجبور ہوجائے‘‘ (فرنود عالم)