معجزہ

مصنف : ڈاکٹر حافظ محمود ترمذی

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : اکتوبر 2012

            یہ جولائی ۱۹۸۸ کی ایک گرم رات کا واقعہ ہے۔ ۸ بجے کا عمل تھا ٹرائے سیلی نے اپنی ویڈیو کی دکان کو تالا لگا دیا کیونکہ بیڈفورڈ انڈیانا کا شاپنگ سینٹر تقریباً بند ہو چکا تھا۔ چند دکانیں چھوڑ کر صرف ایک میڈیکل سٹور ہی اس وقت کھلا تھا۔ اسے حسنِ اتفاق ہی کہیے کہ اس شام سیلز مین بیمار ہونے کی وجہ سے نہیں آسکا تھا لہٰذا سیلی شام کی شفٹ میں خود ہی آگیا تھا۔ اس نے کسی دوسرے ملازم کو بلانا بھی مناسب نہ سمجھا۔ دکان کو تالا لگا کر وہ اپنی کار کا دروازہ کھول رہا تھا کہ ایک سلورسیڈان اس کے پاس آ کر رکی جس میں ۴ آدمی سوار تھے۔ ان میں سے ایک نے اسے مخاطب کیا ‘‘ہم ایک ویڈیو فلم کرائے پر لینا چاہتے ہیں؟’’ ۲۷سالہ سیلی نے کچھ دیر سوچا کیونکہ وہ دیر سے آنے والے گاہکوں کو کبھی خالی نہیں لوٹاتا تھا اسی لیے وہ ویڈیو کا ایک کامیاب تاجر تھا اور شہر میں اس کے ایسے ۳ ویڈیو سٹور تھے۔سیلی نے ان کی خاطر دوبارہ دکان کھولی اور پھر آرام سے ان کے انتخاب کا انتظار کرنے لگا جبکہ ایک شخص فلموں کے ٹائٹل دیکھنے لگا۔ ۵ منٹ بعد اس کے دوسرے ۲ ساتھی بھی سٹور میں آگئے اور اسے ایک شو کیس کے پاس بلایا جہاں وہ کھڑے تھے۔ پھر ان میں سے ایک بولا ‘‘ہم دراصل گاہک نہیں ڈاکو ہیں اگر آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں گے تو ہم آپ کو کچھ نہیں کہیں گے بصورتِ دیگر ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں۔’’سیلی کے پاس تعاون کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ اس نے اپنی تمام دن کی آمدنی سے بھرا کیش بکس ان کی طرف بڑھا دیا اور دل میں سوچا اگر اسی پر چھوٹ جاؤں تو بھی غنیمت ہے۔ تینوں نے اس کی رقم بھی لے لی اور سٹور کی چابیاں بھی۔ ان میں سے ایک نے سٹور کا دروازہ اندر سے بند کردیا اور باقی ۲ نے اْسے سٹور کے عقبی حصے کی طرف چلنے کا حکم دیا۔ اس نے بے چون و چرا ان کے حکم کی تعمیل کی۔وہاں انھوں نے اس کے دونوں ہاتھ پیچھے کی طر ف باندھ دیے اور اس کی آنکھوں پر بھی پٹی باندھ دی۔ اس کی دونوں ٹانگوں کو بھی رومال سے باندھ کر اسے بالکل بے دست و پا کردیا۔ ان کی دھمکی کے پیشِ نظر وہ ان کی ہر بات ایک مداری کے معمول کی طرح مانتا رہا یہاں تک کہ جب ان میں سے ایک نے اسے اپنا سر پیچھے کی طرف جھکانے کو کہا تو اس نے اپنا سر کرسی کی پشت پر ٹکا دیا۔اچانک اس نے اپنے گلے پر ایک تیزدھار آلے کا دباؤ محسوس کیا۔ وہ سمجھا یہ اسے مزید خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں لیکن جب اسے اپنے سینے پر گرم گرم خون کی دھار بہتی محسوس ہوئی تو اسے خطرے کا احساس ہوا اور اس نے اپنے بندھے ہوئے ہاتھ پاؤں کو رومالوں کی گرفت سے آزاد کرانے کے لیے زور لگانا شروع کردیا۔ اسی زور آزمائی میں اس کے ہاتھ کھل گئے اور اس نے بے اختیار دونوں ہاتھوں سے چاقو کو پکڑنے کی کوشش کی۔ اسی کشمکش میں اس کی ۳ انگلیاں چاقو کی تیزدھار سے زخمی ہوگئیں۔ ایک تو تقریباً کٹ ہی گئی۔ اسی اثناء میں اس کی آنکھوں پر بندھی پٹی بھی کھل گئی۔ اپنی کوششوں کو ناکام ہوتے دیکھ کر ڈاکو اور غضب ناک ہوگئے۔ان میں سے ایک نے گالیاں بکتے ہوئے سیلی کے سر پر وار کیا اور اسے فرش پر گرا دیا۔ دوسرے نے اس کے چہرے پر ٹھڈوں کی بارش کردی۔ سیلی نے اٹھنے کی کوشش کی تو چاقو بردار نے چاقو سے پے درپے اس کے سینے اور پشت پر کئی کاری وار کیے۔ زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے سیلی نے کافی کمزوری محسوس کی۔ پھر اسے ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے مزاحمت ترک کردی کہ شاید حملہ آور اْسے مردہ سمجھ کر چھوڑ کر چلے جائیں۔ یہ ترکیب کامیاب رہی۔ ڈاکوؤں نے اسے بے حس و حرکت پا کر چھوڑ دیا کہ کسی کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی وہ زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے مرجائے گا۔ جاتے جاتے وہ اس کا وی سی آر لے کر عقبی دروازے سے گلی میں نکل گئے۔تھوڑی دیر تک تو سیلی اس ڈر سے بے حس و حرکت پڑا رہا کہ کہیں ڈاکو اپنا کوئی ساتھی یہ دیکھنے کے لیے نہ چھوڑ گئے ہوں کہ وہ واقعی مر گیا ہے یا نہیں لیکن پھر اس نے سوچا کہ اگر اس نے مدد کے حصول میں دیر کی تو وہ واقعی نہ مر جائے کیونکہ وہ شدید زخمی تھا۔ بڑی مشکل سے اس نے پچھلے دروازے کی طرف بڑھنے کی کوشش کی جو خود بخود تالا بند ہوگیا تھا۔ وہ بڑی کوشش سے اسے کھولنے میں کامیاب ہوگیا لیکن پچھلی گلی سنسان پڑی تھی۔ ڈاکو بھاگ گئے تھے۔ پھر اسے خیال آیا کہ پچھلی گلی میں شاید کوئی اس کی مدد کو نہ آئے۔اب اسے دکان کے اگلے دروازے سے ہی مدد ملنے کی امید تھی جو۰ ۶ فٹ کے فاصلے پر تھا۔ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر اس نے زخموں کا اندازہ لگانے کی کوشش کی تو اسے محسوس ہوا کہ اس کے زخم گہرے ہیں اور ان سے بہت تیزی سے خون بہہ رہا ہے۔ اسے یہ سوچ کر کچھ نقاہت سی بھی محسوس ہونے لگی اور ہمت بھی جواب دینے لگی کہ دورونزدیک کوئی اس کی فوری مدد کو بھی موجود نہ تھا۔ اسے یہ سوچ کر جھرجھری سی آگئی کہ اس کے والدین اسے اس جان کنی کی حالت میں دیکھیں، تو اْن کا کیا حال ہو؟پھر اس پر طاری نقاہت میں اچانک کمی آگئی اور اسے اپنے اندر کوئی غیرمعمولی غیبی طاقت سی محسوس ہوئی۔ اسے ایسا لگا جیسے کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اس کے پاؤں پر کھڑا کر دیا ہے۔ شدید زخمی حالت میں یوں ایک دم اپنے پیروں پر کھڑا ہو جانے سے اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی معجزہ ہونے والا ہے۔ پھر اسے لگا کوئی اس کے کان میں سرگوشی کر رہا ہے ‘‘ایک وقت میں ایک قدم۔ سیلی! ایک ایک قدم اٹھا کر چلو، تم ایسا کر سکتے ہو۔’’پہلے پہلے اسے ایسا محسوس ہوا جیسے یہ الفاظ اس کے لاشعور میں گونج رہے ہوں لیکن رفتہ رفتہ اسی آواز نے ایسے غیر محسوس طور پر حوصلہ دیا جس طرح بچپن میں اس کا والد اسے گڈولنے کی مدد سے چلنا سکھاتے ہوئے کہتا تھا شاباش سیلی! تم یہ کر سکتے ہو، تم چل سکتے ہو اور اس نے واقعی ایسا کیا۔ وہ آہستہ آہستہ ایک ایک قدم چل کر اپنے کاؤنٹر تک آیا۔ ۵۴ فٹ کا یہ فاصلہ خون کی لکیر چھوڑتے ہوئے اس نے طے کیا۔ سٹور کی روشنیاں جل رہی تھیں لیکن ان روشنیوں میں اس کا چہرہ پیلا زرد لگ رہا تھا۔پھر اس نے عجیب سی طاقت اپنے اندر محسوس کی جس کی مدد سے وہ کاؤنٹر تک آگیا تھا۔ اب اسے کسی ایسی چیز کی تلاش تھی جس کی مدد سے وہ تالا بند فرنٹ دروازے کو توڑ سکے۔ پھر اس کی نظر خالی کیش بکس پر پڑ گئی، اس نے کچھ قوت مجتمع کرکے اسے اٹھایا اور شیشے پر دے مارا۔ لیکن زور سے نہ لگنے کی وجہ سے شیشہ ٹوٹا نہیں صرف اس میں دراڑیں پڑگئیں۔ سیلی نے ہمت نہیں ہاری۔ اب اسے ٹیلی فون کا خیال آیا۔ بڑی دقت سے رینگتے ہوئے وہ ٹیلی فون تک پہنچا پھر تار کو زور سے اپنی طرف کھینچا تو ٹیلی فون میز سے گر کر اس کے پاؤں میں آگرا۔ پھر اس نے زخمی اور کانپتی ہوئی انگلیوں سے ایمرجنسی پولیس کا نمبر ۹۱۱ ڈائل کرنے کی کوشش کی۔ ۲ مرتبہ غلط نمبر ملتا رہا، بالآخر وہ۱۱ ۹ ملانے میں کامیاب ہوگیا اور فوری مدد کی درخواست کی۔چند لمحوں بعد اسے سٹور کے باہر ایمرجنسی پولیس کی گاڑیوں کی بریکوں کی آوازیں آئیں۔ پھر جب پولیس نے شیشوں سے جھانک کر سیلی کی حالتِ زار دیکھی اور دروازہ اندر سے بند پایا تو میجر کین بیل کو احساس ہوگیا کہ اگر جلد ہی دروازے کے شیشے نہ توڑے گئے تو بہت دیر ہو جائے گی۔ میجر کین بیل بڑی سرعت سے اپنی گاڑی میں بیٹھا، اسے تھوڑا پیچھے لے گیا اور پھر شیشوں میں ٹکر ماری۔ پیرا میڈیکل سٹاف نے جلدی سے سیلی کو سٹریچر پر ڈالا اور ایمبولینس میں ڈال کر بیڈفورڈ کے میڈیکل سنٹر کے ناگہانی حادثات کے کمرے میں پہنچا دیا۔ راستے میں سیلی نے واردات کی پوری تفصیل پولیس کو سنائی اور اس نے کہا کہ چوتھا آدمی کار میں ہی موجود رہا۔ کار کا رنگ تک بتایا۔ اسی اثنا میں سیلی پر صرف ان چند لمحوں کے لیے غشی طاری ہوئی جب اسے ایمرجنسی روم سے آپریشن تھیٹر لے جا رہے تھے۔سرجنوں نے تمام رات سرتوڑ کوشش کی اور اس کے جسم پر لگے۵ ۲ سے زیادہ زخموں کو ٹانکے لگاتے اور حیران ہوتے رہے۔ ایک زخم تو بالکل دل کے قریب لگا تھا۔ وہ سب حیران تھے کہ سیلی اتنے خطرناک وار سہ کر بھی زندہ کیسے بچ گیا تھا۔ ڈاکٹروں کی سرتوڑ کوششیں اور سیلی کے غم سے نڈھال والدین اور بہن کی دعائیں رنگ لائیں اور اس کے مہلک زخم مندمل ہوگئے۔ اگرچہ ا ن کے نشان اس کے جسم پر باقی رہ گئے ہیں۔سیلی کے اپنے حواس قائم رکھنے اور واقعہ کی ایک ایک تفصیل سے آگاہ کرنے کے باعث مستعد پولیس نے ایک گھنٹے کے اندر اندر ویڈیو سنٹر سے۵ ۲ میل کے فاصلے پر مجرموں کو جا لیا۔ اب چاروں مجرم جیل کی کال کوٹھری میں سزا بھگت رہے ہیں۔ مائیکل جی ریگلز کو جس نے چاقو کے مہلک وار کیے، عدالت نے مجموعی طور پر ۱۲۰سال قید بامشقت، پال آرملر سینئر جس نے سیلی کے جبڑوں کو ٹھڈوں سے ضربیں لگائیں ۹۰ سال قید، کرسٹوفر سی مْلر بندوق بردار کو۰ ۴ سال، پال آرملر جونیئر جو کار چلا رہا تھا کو ۱۵سال قید کی سزا سنائی گئی۔امریکن پولیس کی اِس قابلِ رشک کارکردگی سے کاش ہماری پولیس بھی کوئی سبق سیکھے جو صرف ‘‘منتھلیاں’’ اور ‘‘عیدیاں’’ وصول کرنے اور خالی کارروائیاں ڈالنے کے لیے بدنامی کی حد تک عادی ہے۔ وہ لمحات جبکہ حملہ آور ڈاکو سیلی کو مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے تھے، سیلی کے لیے بھی حیرت کا باعث ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ‘‘میں نے صرف سْنا اور کتابوں میں پڑھا تھا کہ کبھی کبھی معجزے بھی ہوتے ہیں۔ اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ معجزے واقعی ہوتے ہیں۔ میرا زندہ بچ جانا واقعی ایک معجزہ ہی تو تھا۔