میں کیسے مسلمان ہوئی؟

مصنف : محترمہ شہناز صاحبہ

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : اگست 2012

میں جموں شہر کے ایک پڑھے لکھے ملہوترا خاندان میں پیدا ہوئی۔ میری پیدائش ۴ مئی ۱۹۷۵ کو ہوئی۔ میرے والد کلدیپ ملہوترا کامرس کے لیکچرار تھے۔ میری والدہ بہت شریف اور مصیبت زدہ خاتون تھی۔ کم عمری ہی سے وہ بیمار ہو گئی تھیں او رقسمت کی بات یہ ہے کہ شادی کے بعد بھی ان کو سکھ چین نہیں مل سکا۔میری عمر ۵ یا ۶ سال کی ہو گی کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ میرے ایک بڑے بھائی تھے سندیپ ملہوترا۔ ان کی عمر ۱۰ سال تھی۔ ایک مرتبہ میری والدہ مجھے دریا میں ڈالنے کے لیے لے گئیں۔ ایک آدمی نے ان کو دریا کے پل پر کھڑا دیکھا تو وجہ معلوم کی ، وہ بولیں: میں اپنی بچی کو دریا میں ڈالنے آئی ہوں۔ انھوں نے کہا کہ اگر میری طرح اس کا بھی مقدر خراب ہوا تو ساری زندگی مصیبت بھرے گی۔ اس سے تو اچھا ہے، ابھی مر جائے۔ اس آدمی نے ان کی خوشامد کی اور سمجھایا کہ اس بچی کی تقدیر تو بہت اچھی لگتی ہے، تم اس کی فکر نہ کرو اور اس کو دریا میں نہ ڈالو۔ اس نے نہ جانے کس ہمدردی میں یہ الفاظ کہے تھے کہ میری والدہ نے مجھے دریا میں ڈالنے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ مجھے گھر لے آئیں اور ایک سال بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ میری والدہ کے انتقال کے ۶ ماہ بعد میرے والد نے دوسری شادی کر لی۔ سوتیلی ماں (اللہ تعالیٰ ان کے احسان کا بدلہ عطا فرمائے) کا برتاؤ میرے ساتھ بڑا سخت تھا۔ مجھ پر کام کا بہت بوجھ رہتا تھا۔ سخت حالات میں، میں نے میٹرک پاس کیا۔ میرا گھر میرے لیے جیل، بلکہ جہنم کی طرح تھا۔ میں گھر کے مظالم سے اس قدر تنگ آ گئی کہ کئی بار خودکشی کی ناکام کوشش کی۔ ایک بار نیند کی بہت ساری گولیاں کھا لیں۔ کئی بار پہاڑ پر چڑھ کر گرنے کی کوشش کی، مگر میرے کریم اللہ کو مجھے نوازنا تھا، اس لیے خودکشی کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ میری سوتیلی والدہ ہمارے والد صاحب کو میرے خلاف شکایت لگا کر بھڑکاتی رہتیں۔ وہ مجھ پر ترس کھانے کے بجائے مجھے ڈانٹا کرتے۔ میں مندروں میں جاتی، مزاروں پر جاتی، اور بجائے پوجا کے میں یہ سوال کرتی کہ مجھے بتاؤ: میری اندھیری رات کی صبح کب ہو گی؟ ہو گی بھی یا نہیں؟ مگر وہ بے جان میرے سوال کاکیا جواب دیتے، کاش میں قرآن کی اس صدا کو جانتی تو ان بے جان چیزوں سے منہ نہ مارتی۔ میں آج قرآن حکیم پڑھتی ہوں تو خیال آتا ہے کہ قرآن کی یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی: اِنْ تَدْعُوْھُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآءَ کُمْ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَکُمْط وَیَوْمَ الْقِیٰـمَۃِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْط وَلَا یُنَبـِّـئُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ. (الفاطر ۳۵: ۱۴)

‘‘ اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمھاری پکار نہیں سنتے، اور اگر سنتے تو تم کو جواب نہیں دیتے، اور قیامت کے دن منکر ہوں گے تمھارے شریک ٹھہرانے کے او رکوئی خبر رکھنے والے کی طرح نہیں بتلائے گا۔’’

ایک روز میں نے ایک قبر میں مردے کو دفن ہوتے دیکھا تو میں نے اپنی سہیلی سے کہا کہ میری قبر ہی بنانا، مجھے جلانا نہیں۔ میری سوتیلی ماں روز مجھے ڈانٹنے اور والد صاحب سے ڈنٹوانے کے لیے نئی نئی باتیں نکالتی تھیں۔ انھوں نے ایک روز مجھ پر پرس سے پانچ سو روپے نکالنے کا الزام لگا دیا۔ میری برداشت کی حد ہو گئی۔ مجھے یہ بھی خیال آیا کہ انھوں نے آج مجھ پر چوری کا الزام لگایا ہے، میرا وجود ان کو گوارا نہیں، نہ جانے کل کوئی اس سے بڑا الزام مجھ پر لگا دیں۔ میرے پاس ۱۰۰ روپے تھے۔ چند جوڑی کپڑے اور وہ روپے لے کر میں نکل پڑی اور گھر ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔

میری سوتیلی ماں کا احسان ہے کہ ان کے مظالم ہی میری ہدایت کا سبب بنے۔ میرے رب کریم او رہادی رب کے قربان جس نے ظلم کے اندھیروں سے نکال کر مجھ پر رحمت اور ہدایت کی بارش فرمائی۔ میں گھر سے نکلی تو ایک کپڑے کا بیگ میرے ہاتھ میں تھا۔ ہمارا گھر تنگ گلی میں تھا۔ میں گلی سے نکل رہی تھی کہ میرے والد کالج سے آ گئے۔ وہ میرے برابر سے نکلے چلے گئے، مگر ان کی نگاہ مجھ پر نہیں پڑی۔ ورنہ وہ مجھے اس طرح سامان کے ساتھ جاتا دیکھ کر واپس لے جاتے اور نہ جانے کیا کرتے۔ میں ریلوے اسٹیشن پہنچی۔ گھر سے باہر کبھی نکلی نہیں تھی۔ میں نے دہلی کا ٹکٹ لیا اور دہلی کی ٹرین میں بیٹھ گئی۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ کس ڈبے میں بیٹھنا چاہیے۔ فوجیوں کے ڈبے میں چڑھ گئی۔ ان بے چاروں نے لڑکی سمجھ کر جگہ دے دی۔ گاڑی چلی۔ ریزرویشن ٹی ٹی آیا۔ فوجیوں کے ڈبے میں مجھے دیکھا تو ٹکٹ معلوم کرنے لگا۔ برابر بیٹھے فوجی نے کہا: یہ میری بہن ہے۔ یہ میرے اللہ کی مدد تھی۔ اس فوجی نے بہن بنانے کے بعد سارے راستے میرا بہن کی طرح خیال رکھا۔ اوپر کی برتھ خالی کر کے اس پر سونے کو کہا اور بار بار تسلی دیتا رہا کہ بہن! تم فکر نہ کرو۔

میں آرام کے ساتھ دہلی پہنچی۔ اسٹیشن سے باہر نکلی تو سامنے سٹی بس آتی دکھائی دی۔ میں اس پر چڑھ گئی۔ میری سیٹ کے آگے دو نوجوان لڑکے بیٹھے تھے، جو آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ ان کی باتوں سے مجھے شرافت کا احساس ہوا۔ میں نے ان سے کہا: بھیا! مجھے یہاں دہلی میں کوئی گرلز ہوسٹل بتا دو۔ انھوں نے مجھ سے میرا پتا معلوم کیا۔ میں نے اپنا پتا بتا دیا۔ وہ میری مشکل بھانپ گئے۔ انھوں نے کہا: گرلز ہاسٹل دور ہے۔ آپ ایسا کریں کہ ہماری بہن سے مل لیں۔ تھوڑی دیر وہاں آرام کریں۔ وہ پڑھی لکھی ہیں۔ آپ کو گرلز ہاسٹل پہنچا دیں گی۔ ان کے گھر میں کوئی مرد بھی نہیں ہے۔ مجھے ان کی شرافت کی وجہ سے اطمینان ہو گیا۔ وہ مجھے ساؤتھ ایکسٹینشن اپنی بہن کے یہاں لے گئے۔ ان کی بہن نے میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔ ناشتہ وغیرہ کرایا۔ ایک دو روز اطمینان سے رہنے کو کہا اور اطمینان دلایا کہ میں خود آپ کو اچھے ہوسٹل میں لے چلوں گی۔ ان کی بہن نے مجھے اپنے ایک عزیز عشرت صاحب سے ملنے کو کہا کہ ان سے ملنے کے بعد ہی میں ہوسٹل وغیرہ کا فیصلہ کروں۔ میں عشرت صاحب کے آفس گئی۔ انھوں نے کچھ دیر بات کر کے اپنے آفس کی ایک عورت کو بلا کر ان کے ساتھ اپنی بیوہ بہن کے پاس بھیج دیا۔ ان کے ایک عزیز عارف صاحب تھے، جوان کے یہاں آتے تھے۔ انھوں نے مجھے مورتی پوجا کے بارے میں سمجھایا۔ ان کی باتیں میری عقل کو بہت بھائیں اور مجھے مورتی پوجا بڑی حماقت لگنے لگی۔ ایک کے بعد ایک کئی مسلمانوں کے معاملات، ان کی شرافت اور ایک جوان لڑکی کے ساتھ محتاط سلوک اور کچھ کچھ اسلامی تعلیمات کے تعارف نے مجھے اسلام کی طرف راغب کیا اور ایک روز خود میں نے عارف صاحب سے مسلمان ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ انھوں نے مجھے سمجھایا کہ ایمان ہر انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے، مگر تم پریشان حال ہو، ہمارے یہاں رہ رہی ہو، کسی مجبوری یا ہماری تھوڑی سی ہمدردی کا بدلہ دینے کے لیے اسلام قبول کرنا ٹھیک نہیں، لیکن سوچ سمجھ کر اپنی سب سے بڑی ضرورت جان کر اسلام قبول کرنا چاہتی ہو تو اس سے زیادہ ہمارے لیے خوشی کی بات اور کیا ہو گی کہ ہماری ایک بہن ہمیشہ ہمیشہ کی دوزخ کی آگ سے بچ جائے۔ میں نے بہت اطمینان اور خوشی سے اسلام قبول کرنے کو کہا۔ انھوں نے مجھے کلمہ پڑھوایا۔ میں نے اسلامی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی تو انھوں نے مجھے میوات(ہریانہ) بھیج دیا۔

ابتدا میں ذرا پریشانی ہوئی، مگر بعد میں مانوس ہو گئی۔ اسلام تعلیم کے سلسلے میں میرا وہاں رہنا بہت مفید ثابت ہوا۔ نماز وغیرہ الحمد للہ، اچھی طرح یاد ہو گئی۔ نو دس مہینے میں کچھ قرآن شریف اور اردو پڑھنا بھی آ گیا۔

میوات سے دہلی آئی تو عارف صاحب نے بارہ بنکی کے ایک لڑکے سے میرا رشتہ طے کر دیا۔ وہ لڑکا دین دا رنہیں تھا۔ میرے لیے اب دین ہی سب کچھ تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے عارف صاحب سے کہا کہ میرے لیے کسی دین دار لڑکے کو تلاش کریں۔ چاہے بالکل فقیر ہی کیوں نہ ہو۔ میری خواہش پر انھوں نے وہ رشتہ رد کر دیا۔ عارف صاحب نے اپنی لڑکی کے رشتے کے لیے روزنامہ قومی آواز، نئی دہلی میں اشتہار دیا تھا۔ وہ اشتہار مولوی جاوید اشرف ندوی صاحب نے دیکھا۔ ان کے والدین کا انتقال ہو گیا تھا۔ اشتہار دیکھا تو بھائیوں کی مرضی کے بغیر عارف صاحب کے یہاں رشتے کے لیے پہنچے۔ عارف صاحب نے ان سے میرے بارے میں بتایا اور مجھ سے شادی کرنے کو کہا۔ اس دوران میں نے اپنی آپ بیتی اور قبول اسلام کی کہانی ‘‘کڑوا سچ’’ ایک کتاب کی صورت میں لکھ لی تھی۔ عارف صاحب نے مولوی صاحب کو وہ کتاب دکھائی۔ مولوی جاوید اشرف ندوی صاحب کتاب دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ ملاقات ہوئی اور نسبت طے ہو گئی۔ چند روز کے بعد ایک دن ظہر کی نماز کے بعد نکاح ہو گیا۔ مولوی صاحب مجھے اپنے گھر نہیں لے جا سکتے تھے۔ خاندان اور برادری کی مخالفت کا خوف تھا، اس لیے لکھنؤ لے گئے، پھر اپنے ایک اور ساتھی مفتی عبد الحمید صاحب کے پاس بمبئی لے گئے۔ ان کے یہاں رکھا۔ مفتی صاحب اور ان کی والدہ نے میرے ساتھ ایسا برتاؤ کیا کہ حقیقی ماں اور بھائی بھی نہیں کر سکتے۔

میرے اللہ کے کرم کی ہوا چلی کہ کرم پہ کرم ہوتا گیا۔ مولوی جاوید اشرف ندوی کا مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا۔ مولوی صاحب نے کسی طرح مجھے عمرے کے ویزے پر یہاں بلا لیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے مدینہ کی محبت عطا کی تھی۔ میرا دل واپسی کو نہ چاہا اور سالوں تک غیر قانونی طور پر وہاں رہی۔ میرے تین بچے اللہ نے مجھے مدینہ منورہ میں عطا کیے۔ مدینہ کی گلیوں میں کھو جانے کا مزہ میرے کریم اللہ نے مجھے چکھایا۔ مولوی صاحب کی شکل میں مجھے اللہ تعالیٰ نے انتہائی نرم خو، حلیم، سلیم الطبع اور کریم النفس شوہر عطا کیا۔ اس پر مدینہ منورہ کی رہائش عطا کر کے میرے سارے غم بھلا دیے۔

ہمارے شوہر مولوی اشرف جاوید ندوی میں بہت شرم ہے۔ کسی بڑے آدمی یا عالم سے ملتے ہوئے جھجکتے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے یہاں کے بڑے عالم مفتی (عاشق الٰہی) صاحب یہاں رہتے ہیں۔ میں ان کے گھر گئی اور مفتی صاحب کی بیوی سے جنھیں میں امی جان کہتی ہوں، ملی۔ پہلی ہی ملاقات میں صرف تعارف نے ان کو مجھ پر شفیق کر دیا۔ انھوں نے مفتی صاحب سے میرا ذکر کیا۔ مفتی صاحب پر غیر مسلموں میں دعوت کا بہت غلبہ ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے وہ مولوی کلیم صدیقی صاحب سے بہت تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے ہمارے شوہر کو بلوایا اور دونوں نے مجھے اپنی بیٹی بنا لیا اور واقعی ماں باپ کی طرح سرپرستی فرمائی۔ امی جان اب بھی ضعف کے باوجود میرے بچوں کے کپڑے اپنے ہاتھ سے سی کر پہناتی ہیں۔ میں کسی کی دعوت کر دوں تو کوئی چیز خود بنا کر لے آتی ہیں۔ میں بیان نہیں کر سکتی۔ مفتی صاحب میرے پورے خاندان سے حد درجہ محبت فرماتے تھے۔ الحمد للہ مفتی صاحب کے گھر والے بیٹے بیٹیاں بھی مجھ سے بالکل بہنوں جیسا سلوک کرتے ہیں، بلکہ سب بہنوں سے زیادہ میرا خیال کرتے ہیں۔

مولوی کلیم صدیقی صاحب سے میرے شوہر مولوی جاوید صاحب کے کچھ تعلقات تھے۔ ایک بار وہ والدہ کو لے کر عمرے کے لیے آئے۔ میں ان کی والدہ سے ملنے گئی اور مدینہ کا مکین ہونے کی وجہ سے کچھ ضیافت کی کوشش کی۔ ان کو مجھ سے محبت ہو گئی، میں تجربے کی بات بتائی ہوں۔ خدمت میں اللہ نے بڑی تاثیر رکھی ہے۔ آدمی اگر خدمت کا عادی ہو تو پتھر جیسے دل میں بھی جگہ بنا لیتا ہے۔ مجھے اپنے بڑوں کی خدمت کا پیدائشی شوق ہے۔ کسی بڑے کے کپڑے دھونے، اس کے سر پر مالش کرنے، یا پاؤں وغیرہ دبانے میں بہت مزہ آتا ہے۔ بوڑھی عورتوں کو تو خدمت کی ضرورت بھی ہوتی ہے اور بڑوں کا کیا، ذرا سی دیر میں کلیجے سے لگا کر دعائیں دینے لگتے ہیں۔ اگر ذرا سا آرام قربان کر کے آدمی کسی کی خدمت کر لے تو پھر ان دعاؤں سے دنیا اور آخرت بنتی ہے۔ میں نے بڑوں کی دعاؤں میں بڑی تاثیر دیکھی ہے۔

میرے اللہ نے مجھے مدینہ منورہ کی سکونت کا شرف بخشا ہے۔ یہاں کے پانی اور فضا میں اکرام ضیف اور مہمانوں کی خاطر داری رکھی ہے۔ ہم غیر اختیاری طور پر مجبور ہوتے ہیں کہ مدینہ کے مہمانوں کی خدمت اور ضیافت کا مزہ لیں۔ میرے دل میں آتا ہے کہ یہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں۔ جب یہ بات ہو تو تھکن کا کیا مطلب! اس خیال سے بھی خوشی اور مزہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمانوں کی ضیافت اور خدمت کا شرف مل رہا ہے۔ میں تو بچوں کی خدمت بھی اللہ کا حکم سمجھ کر کرتی ہوں۔ اور اپنے شریف اور مسائل کے بوجھ تلے دبے ہوئے شوہر کا بوجھ کم کرنے کے لیے ٹیوشن پڑھاتی ہوں۔ مجھے الحمد للہ، اس نیت کی وجہ سے ہر کام میں مزہ آتا ہے۔ کرنے کے بعد فرحت ہوتی ہے۔ واقعی ہمارے دین نے ہمیں نیت کو خالص کرنے کا حکم دے کر احسان کیا ہے۔ نیت ٹھیک ہو تو ہر چیز میں مزہ ہے۔

اصل میں مدینہ جس نے دیکھ لیا، وہ جنت کے علاوہ کہیں اور جانا چاہے، ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ میری خواہش اور آخری تمنا ہے کہ بقیع پاک کی خاک مجھے مل جائے۔ یہاں کے کبوتروں کو دیکھتی ہوں تو دعا کرتی ہوں کہ یا اللہ! آپ نے بقیع پاک کے دانے ان کو مقدر کر دیے، میرے لیے اپنے نبی کے قدموں کی یہ خاک مقدر فرما دیجیے۔

میرے گھر والوں نے تو مجھے تلاش نہیں کیا۔ اصل میں انھوں نے تو یقین کر لیا تھا کہ میں نے خود کشی کر لی ہے۔ گزشتہ سال سے میرے والد اور بھائی سے میرا رابطہ ہوا ہے۔ یہاں مدینہ میں جموں کے ایک طالب علم پڑھتے تھے۔ انھوں نے میرے والد کو میرا پتا دیا تھا۔ وہ بے چین ہو گئے۔ میں ویزا لگوانے ہندوستان گئی تھی۔ جب ہی جھجک کر بار بار ہاں اور نہ نہ کر کے ایک جگہ پرانی دہلی میں میری ان سے ملاقات ہو گئی۔ وہ بہت روئے اور جب میں نے سارے حالات بتائے تو وہ بہت نادم ہوئے۔ اب وہ مجھے ہر دوسرے تیسرے روز فون کرتے ہیں۔ مولوی جاوید اشرف اور میں نے ان کو اسلام کی دعوت بھی دی ہے۔ انھوں نے بت پرستی چھوڑ دی ہے۔ ہم لوگوں نے مولوی کلیم صدیقی صاحب سے درخواست کی ہے، بلکہ انھوں نے خود ہی ان کا پتا لیا ہے۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں کو لگایا ہے اور امید دلائی ہے کہ وہ ان شاء اللہ ضرور اسلام قبول کر لیں گے۔

میں نے اپنی سوتیلی والدہ سے بھی فون پر ایک بار بات کی۔ وہ بہت معافی مانگ رہی تھیں۔ مگر میں اپنی قسمت کے بننے اور غم کے اندھیرے کی صبح ہونے میں سب سے بڑا احسان ان ہی کا مانتی ہوں کہ ان کے مظالم ہی میری ہدایت کا ذریعہ بنے۔ میں نے ملتزم پر اور ہر خاص موقع پر اپنے ایک بڑے محسن کے طور پر ان کے لیے دعائیں کی ہیں۔ میرے اللہ کی عجیب شان کہ ان کے سارے مظالم مجھے آخری درجے کے احسان لگتے ہیں۔ ان کے لیے میں بلک بلک کر ہدایت کی دعائیں کرتی ہوں۔ گزشتہ حج کے موقع پر عرفات میں، میں نے سب سے زیادہ ان ہی کے لیے ہدایت کی دعا مانگی ۔

یہاں سعودی عرب میں اسکولوں کا نظم بہت عجیب ہے۔ ہمارا رادہ ہے کہ ہمارا ایک ایک بچہ داعی بنے اور دین کی خدمت کرے، اس لیے ہم لوگ مدرسے سے زیادہ گھر پر ان کی تعلیم و تربیت کی فکر میں ہیں۔ الحمد للہ میں نے بھی مفتی عاشق الٰہی کی تفسیر ‘‘انوار البیان’’ کا ہندی ترجہ ان کی حیات میں شروع کیا تھا۔ میری خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن حکیم کی یہ خدمت مجھ سے لے لے۔

میں مسلمانوں سے درخواست ہی کر سکتی ہوں کہ وہ اپنا منصب پہچانیں او رغیر مسلموں سے رابطہ قائم کریں اور ساتھ ہی اپنے کردار کو اسلام سے آراستہ کریں اور اپنے آپ کو مجسم دعوت بنائیں، اور اپنے عمل سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف کرائیں۔ اگر ہمارے نبی کا اسوہ لوگوں کے سامنے آ جائے تو لوگ ایکٹروں، لیڈروں اور کھلاڑیوں کو آئیڈیل بنانے کے بجائے صرف اور صرف ہمارے نبی کو آئیڈیل بنائیں گے۔ اس سے زیادہ پرکشش کوئی اور کردار ہو ہی نہیں سکتا۔ دوسرے یہ کہ ریڈیو، ٹی وی اور میڈیا کے واسطے سے اسلام لوگوں تک پہنچایا جائے اور اس کے لیے تحریک چلائی جائے۔

دوسری درخواست یہ ہے کہ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اپنے دین کی دعوت کے لیے قبول کر لیں او رمجھ سے کچھ کام لے لیں۔ بس میری یہی حسرت ہے کہ میں اور میری نسلیں دین کی خدمت خصوصاً دین کی دعوت کے لیے قبول ہو جائیں۔ ہمارے بعض متعلقین کہتے ہیں کہ تم لوگ اتنے دنوں سے مدینہ میں رہتے ہو، گھر بھی نہیں بنایا؟ میں اکثر ان سے کہتی ہوں کہ ہم مدینہ بقیع پاک کا پیوند بننے کے لیے پڑے ہیں۔ دنیا بسانے کے لیے تو ہم پیرس جاتے یا نیویارک جاتے۔ یہ ان کے جواب کے لیے کہتی ہوں، ورنہ میرا خیال ہے کہ دنیا کی زندگی کا مزہ او رراحت بھی مدینہ منورہ کی زندگی میں ہے۔ پیرس کے لوگوں کو اس کی خاک بھی نصیب نہ ہو گی۔

٭٭٭