متفرقات

مصنف : بی بی سی

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : جون 2012

جب موسیقی تفتیش کا ذریعہ بن گئی

             امریکی حکومت نے کبھی یہ تسلیم ہی نہیں کیا کہ موسیقی کو تشدد کے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے ہیلن بیمبا فاؤنڈیشن سے تعلق رکھنے والے مائیکل سوزنسکی ماہر نفسیات ہیں اور وہ تشدد سے متاثرہ افراد کے ساتھ دو دہائیوں سے کام کر رہے ہیں۔ امریکہ پر گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد سے ان کا واسطہ ایک نئے قسم کے تشدد سے متاثرہ افراد سے پڑا اور یہ تھے موسیقی سے متاثرہ افراد۔مائیکل سوزنسکی کا کہنا ہے کہ ‘یہ تصور کہ موسیقی کو ایک ایسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے کسی بھی فرد کو نفسیاتی طور پر تباہ کیا جائے، بہت عجیب ہے۔ لیکن اصولی طور پر موسیقی کے ذریعے کیا جانے والا تشدد روایتی تشدد کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔ یعنی زندگی کی کسی بھی عام سی چیز کو تباہی پھیلانے والے ہتھیار میں تبدیل کر دیا جائے’۔ان کے مطابق آواز ایسی چیز ہے جس کودماغ سب سے پہلے اور بہت تیزی اور شدت سے محسوس کرتا ہے۔ انسانی ارتقائی عمل میں دماغ نے جس چیز کو سب سے پہلے شدت سے محسوس کرنا شروع کیا تھا وہ آوازیں ہی تھیں۔ اور جب ہم ان افراد کے بارے میں بات کرتے ہیں جن پر موسیقی کے ذریعے تشدد کیا گیا، اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس ایسا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ جسے وہ اس تشدد سے بچنے کے لیے اپنے دفاع میں استعمال کر سکتے۔ انسان کا اعصابی نظام موسیقی سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکتا اور اس تشدد کی کثرت اعصابی نظام کو مفلوج کر دیتی ہے۔

            امریکی حکومت نے کبھی یہ تسلیم ہی نہیں کیا کہ موسیقی کو تشدد کے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے اور انٹیلی جنس ادارے اسے قومی سلامتی کا معاملہ قرار دے کر اس موضوع پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لہذاٰ اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ انہوں نے یہ طریقہ کیوں اختیار کیا لیکن گوانتانامو میں قیدیوں پر موسیقی کے ذریعے تشدد کی جڑیں انیس سو پچاس کی دہائی میں امریکی فوجیوں کے ایک تربیتی پروگرام میں پائی جاتی ہیں جسے سیئر کہا جاتا تھا۔سوزین کیوسک نیویارک یونیورسٹی میں موسیقی کی ماہر ہیں۔ انہوں نے امریکہ کی جانب سے موسیقی کو تفتیش کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے موضوع پر خاصی تحقیق کر رکھی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ‘سیئر ٹریننگ ان امریکی فوجیوں کے لیے تھی جن کا دوران جنگ دشمن کے ہاتھ لگ جانے کا خدشہ تھا۔ گوانتانامو میں ابتدائی دنوں میں جو محافظ اور تفتیش کار مقرر کیے گئے وہ اس تربیتی پروگرام سے گزر چکے تھے اور اچھی طرح سمجھتے تھے کہ موسیقی کے ذریعے تشدد کی تکنیک کتنی مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اسی طرح جب جنرل جیفری ملر عراق میں تعینات ہوئے تو وہ یہ تفتیشی تکنیک اپنے ساتھ عراق بھی لے گئے۔جنرل ملر کی عراق میں تعیناتی کے بعد ابوغریب اور دیگر امریکی قید خانوں میں بھی تشدد کی اس قسم کے اجرا کی شکایات سامنے آنے لگیں۔ جوں جوں عراق اور دیگر قید خانوں میں قیدیوں پر تشدد کے لیے موسیقی کے استعمال کی خبریں باہر آنا شروع ہوئیں تو یہ بھی پتہ چلا کہ دنیا بھر میں امریکی قید خانوں میں تشدد کے لیے چند گنے چنے گانے ہی بجائے جاتے ہیں۔ٹارچر پلے لسٹ کے نام سے مشہور ہونے والے ان گانوں میں سلائیوا کے کلک کلک بوم جیسے گانے بھی شامل تھے۔ایسے تیز موسیقی والے گانوں کے علاوہ بعض ایسے بھی گانے اس ٹارچر پلے لسٹ میں شامل تھے جن کے بارے میں اس طرح کا تصور ہی حیران کن ہے۔کرس سرف بچوں کے پروگرام سیسمی سٹریٹ کے لیے گزشتہ بیس سال سے موسیقی ترتیب دے رہے ہیں۔ ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی کے امریکی قید خانوں میں استعمال نے انہیں کئی ہزار میل دور لڑی جانے والی ایک جنگ سے جوڑ دیا ہے۔کرس کا کہنا ہے کہ انہوں نے موسیقی کے ذریعے تشدد کے بارے میں ذکر پہلی بار بی بی سی پر سنا۔ ‘میرا پہلا ردعمل تھا کہ میں مکمل طور پر حیرت میں ڈوب گیا۔ میں عراق جنگ کا حامی نہیں ہوں کیونکہ میرا خیال ہے کہ یہ ایک بہت برا فیصلہ تھا لیکن اس سے زیادہ بیہودہ بات مجھے یہ لگی کہ ایسی موسیقی جو میں نے بچوں کے لیے ترتیب دی اسے لوگوں سے تفتیش کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا’۔کرس سرف ان فنکاروں میں شامل ہیں جنہوں نے تشدد کے لیے موسیقی کے استعمال کے خلاف آواز اٹھائی۔ انہوں نے اس تشدد کے خلاف زیرو ڈی بی کے نام سے ایک باقاعدہ مہم شروع کی۔ اس مہم میں ان کے ساتھ صرف چند موسیقار یا گلوکار شامل ہوئے۔

            کون سے گانے تشدد میں استعمال ہوں گے، اس کا فیصلہ کون کرتا تھا، یہ بات واضح نہیں ہے۔ لیکن ان گانوں کو چار مختلف زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جن میں دھمکانے والی موسیقی، تکلیف دہ موسیقی، شہوت انگیز موسیقی اور مغربی بالادستی ظاہر کرنے والی موسیقی شامل ہے۔گوانتامو کے قیدی روح الاحمد ابھی تک اس موسیقی کے اثرات سے نہیں نکل سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘موسیقی تو میں اب بھی سنتا ہوں لیکن اس کی اونچی آواز میں برداشت نہیں کر سکتا۔ اونچی آواز کی موسیقی میرے ذہن میں پرانی اور خوفناک یادوں کو ابھار دیتی ہے۔ جو میں کبھی یاد کرنا نہیں چاہتا’۔احمد موسیقی سے ہونے والے تشدد کے بعد جس صورتحال سے گزر رہے ہیں اس کے بارے میں ماہر نفسیات مائیکل سوزنسکی ہر روز سنتے اور دیکھتے ہیں۔مائیکل کے مطابق ‘موسیقی کے ذریعے تشدد کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس تشدد کے اثرات دیر تک برقرار رہیں۔ اس تشدد کے لوگ جب یہاں سے جائیں تو وہ ٹوٹ چکے ہوں۔ ان کے پیارے جب ان سے پیار کی باتیں کریں یا پیار سے چھوئیں تو یہ احساس بھی انہیں واپس اسی دنیا میں لے جائیں جہاں سے وہ فرار چاہتے ہیں’۔ایسا نہیں ہے کہ اس تشدد سے صرف وہ لوگ متاثر ہوئے جو اس کا نشانہ بنے۔ وہ لوگ جو قیدیوں پر تشدد کرتے تھے، وہ بھی اس کے اثرات سے بچ نہ سکے۔ البرٹ ملیس گوانتانامو کے محافظوں میں تھے۔ ان کا کام قیدیوں کو زنجیروں سے جکڑنا اور ان پر موسیقی کے ذریعے تشدد کرنا تھا۔ موسیقی کے ذریعے تشدد کرنے کے باعث وہ خود اب تک نارمل نہیں ہو سکے ہیں۔‘میں نے شراب کے نشے میں خود کو اس اذیت سے بچانے کی خاطر ڈبو لیا لیکن اس سے بھی میری تکلیف کم نہ ہوئی تو میں نے ایک بحالی مرکز میں شمولیت اختیار کر لی۔ لیکن اب بھی جب اس وقت کی بعض باتیں یاد آتی ہیں تو میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ میں دیکھنے میں تو بہت مضبوط نظر آتا ہوں لیکن حقیقت میں ٹوٹ چکا ہوں’۔

امریکہ کی قید میں رہنے والے اور ان پر تشدد کرنے والے، دونوں فریق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ موسیقی کے ذریعے ہونے والا تشدد نہ صرف فوری طور پر آپ کو توڑ کر رکھ دیتا ہے بلکہ اس کے منفی اثرات طویل عرصے تک آپ کی شخصیت پر برقرار رہتے ہیں۔ امریکی صدر کے طور پر حلف لینے کے بعد براک اوبامہ نے دو اعلانات کیے تھے۔ جن میں سے ایک گوانتاناموبے کے قید خانے کی بندش اور دوسرا موسیقی اور پانی کے ذریعے تشدد کو ختم کرنا تھا۔ تین سال بعد بھی گوانتانامو کا قید خانہ کھلا ہے لیکن، موسیقی کے ذریعے تشدد کی اطلاعات آنا اب بند ہو گئی ہیں لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ آئندہ کبھی بھی تشدد کی یہ قسم دوبارہ آزمائی نہیں جائے گی۔

سات برس بعد ملاپ

            انڈونیشیا میں سنہ دو ہزار چار میں آنے والی سونامی میں والدین سے بچھڑ جانے والی ایک لڑکی بالآخر سات برس بعد اپنے خاندان سے جا ملی ہے۔میری یولاندا نامی یہ لڑکی سال دو ہزار چار میں سات برس کی تھی اور صوبہ آچے میں آنے والی سونامی کے بعد میری اور ان کی بڑی بہن اپنے والدین سے بچھڑ گئیں تھیں۔والدین نے کئی اضلاع میں اپنی بیٹیوں کو تلاش کرنے کی کوششیں کیں تھیں لیکن ان کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی تھی۔

میری نے بتایا کہ ان سات سالوں میں وہ ایک عورت کے ہتھے چڑھی رہی جس نے بھیک منگوانے کے لیے مجبور کیے رکھا۔میری رواں ہفتے جب فرار ہو کر اپنے والدین کی تلاش میں صوبہ آچے کے علاقے میلوبا میں واقع ایک ہوٹل میں پہنچی تو اس وقت اسے صرف اپنے دادا کا نام ‘ابراہیم’ یاد تھا۔اس ہوٹل میں ایک ایسا شخص موجود تھا جو نہ صرف میری کے دادا ابراہیم کو ان کے نام سے جانتا تھا بلکہ اس ساری داستان سے بھی واقف تھا۔

میری کی ماں نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کو اس کے پیدائشی نشان سے پہچانا ہے۔انھوں نے بتایا کہ اس عرصے کے دوران وہ اپنی بیٹی سے دوبارہ ملنے کی امید ختم کر بیٹھیں تھیں۔ میری کے مطابق جب اس نے اپنی ماں کو دیکھا تو اسے معلوم تھا کہ یہ ہی اس کی ماں ہے۔میری کی ماں کا کہنا ہے کہ بیٹی کے سات برس بعد ملنے کی خوشی الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی ہے اور وہ کتنی شکر گزار ہے۔خیال رہے کہ دو ہزار چار میں آنے والی سونامی میں انڈونیشیا کا صوبہ آچے سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔سونامی میں دو لاکھ تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے اور صرف آچے میں ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار تھی۔سونامی میں کئی ہزار افراد کی لاشیں نہیں مل سکیں تھیں اور بہت سارے خاندان یہ نہیں جان سکے کہ اس آفت میں ان کے پیاروں پر کیا بیتی۔

گوگل کے ذریعے ملاپ

            سنہ انیس سو چھیاسی میں گم ہو جانے والے ایک بھارتی بچے نے پچیس سال بعد گوگل ارتھ کی سیٹلائٹ کی تصویروں کی مدد سے اپنی والدہ کو ڈھونڈ لیا ہے۔آسٹریلیا کی ریاست ٹیزمینیا میں مقیم سارو کا کہنا ہے کہ وہ صرف پانچ برس کے تھے جب بھارت میں ایک ٹرین سٹیشن پر وہ اپنے بھائی سے بچھڑ گئے۔سارو نے بتایا کہ انہیں یاد ہے کہ وہ اپنے بھائی کی کھوج میں ایک ٹرین پر سوار ہوئے جو انہیں بھارت کے تیسرے بڑے شہر کلکتہ لے گئی۔‘میں بیحد ڈرا ہوا تھا اور مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں کہاں ہوں۔ تاہم میں نے لوگوں کو ڈھونڈنا شروع کیا اور ان سے سوالات پوچھنے شروع کر دیے۔’سارو کے بقول ‘وہ بہت ہی خطرناک جگہ تھی۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی ماں باپ اپنے پانچ سالہ بچے کو کلکتہ کے گندے محلوں اور ٹرین سٹیشنوں میں اکیلے پھرتے دیکھنا چاہیں گے۔’ایسے میں سارو نے اکیلے رہنا سیکھ لیا اور انہوں نے بھیک مانگ مانگ کر گزارہ کیا۔ ان کے بقول کچھ عرصے کے بعد انہیں ایک یتیم خانے نے اپنا لیا اور وہیں سے ان کی قسمت جاگی اور انہیں ایک آسٹریلوی جوڑی نے گود لے لیا۔‘میں یہ تسلیم کر چکا تھا کہ میں گم گیا ہوں اور میں اپنا گھر نہیں ڈھونڈ سکتا تاہم ایسے میں، میں نے سوچا کہ آسٹریلیا جانا ایک ذبردست بات ہوگی۔’

اگرچہ وقت گزرتا گیا اور سارو آسٹریلیا میں اپنے نئے گھر میں رہنے لگے لیکن انہوں نے بتایا کہ ان کے دل میں اپنے اصل خاندان کو ڈھونڈنے کی خواہش بڑھتی گئی۔ اسی طرح انہوں نے گوگل ارتھ کا استعمال کرنا شروع کر دیا اور بلاخر انہیں ان کے آبائی علاقے کھنڈوا کا نقشہ مل ہی گیا۔سارو نے بتایا کہ گوگل ارتھ کی تصاویر میں انہیں وہ جگہیں بھی مل گئیں جہاں وہ بچپن میں کھیلا کرتے تھے (جیسا کہ ایک آبشار) تاہم اس دریافت کے بعد انہوں نے یہاں جانے کا فیصلہ کیا۔سارو نے بتایا کہ ان کے پاس پچپن کی اپنی ایک تصویر تھی اور انہیں اپنے گھر والوں کے نام بھی یاد تھے اور انہی کی مدد سے وہ اپنی والدہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔سارو کے بقول ‘میں نے جب انہیں آخری مرتبہ دیکھا تھا تو ان کی عمر چونتیس برس تھی اور وہ ایک خوبصورت خاتون تھیں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ عمر کے ساتھ وہ اس قدر بدل جائیں گی۔’سارو نے بتایا ‘میرا ہاتھ تھام کر وہ مجھے اپنے گھر لے گئیں۔ وہ میرے سے کچھ نہیں کہہ پائیں۔ میرے خیال میں وہ بھی مجھے دیکھ کر اسی طرح سکتے میں چلی گئیں جیسے میں ان کو دیکھ کر دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔’سارو کا کہنا تھا کہ انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ پچیس سال بعد ان کا گمشدہ بیٹا ایک بھوت کی طرح واپس آ گیا ہے۔

کابل میں کراچی

احمد ولی مجیب کابل

            گزشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی میں ریلیز ہونے والی مشہور ہندوستانی فلم ‘کابلی والے’ کے کردار اب بھی افغانستان کے دارالحکومت کابل میں نظر آتے ہیں۔افغانستان کا دارالحکومت جتنا خوبصورت ہے اس سے کہیں زیادہ وہاں کے لوگ ذہین ہیں۔ سلیقہ مندی اورادب آداب میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ یہ بات بھی اپنی جگہ پر درست ہے کہ پرانے کابلیوں اور نئے کابلیوں میں بہت زیادہ فرق ہے مگر کابل میں جو بھی آتا ہے اس شہر کا اثر اس پر ضرور پڑتا ہے۔ایک نئی چیز جس سے مجھے اس حالیہ سفر میں واسطہ پڑا وہ یہ کہ جس بازار سے بھی گزار وہاں کراچی کی آواز ضرور سننے کوملی۔ پل خشتی مسجد کے قریب بازار میں مجھے دیکھتے ہی ایک شخص نے زور زور سے آواز لگانا شروع کردی، کراچی کو راستہ دو، کراچی کو راستہ دو۔میں فوراً سامنے سے ہٹا اور اْسے جانے دیا لیکن حیرانی اس بات پر ہوئی کہ اسے کیسے خبر ہوئی کہ میں کراچی سے آیا ہوں۔مجھے شاہ دوشمشیرا کے مزار اور مسجد کی طرف جانا تھا۔ جہاں ایک واقف کار کا گھر تھا اس لیے میں تیز قدموں سے اْس طرف جانے لگا…… ہاتھ میں کچھ سامان اورایک بیگ تھا۔ جسے دیکھ کر ایک بچہ دوڑتا ہوا آیا اور بڑی معصومیت سے کہا ‘کراچی چاہیے……بڑی مشکل سے اْس سے جان چھْڑائی۔’ مجھے اس بات کا یقین کامل ہوگیا کہ کابل والوں نے مجھے پہچان لیا اس لیے آوازیں دے رہے ہیں۔دوست کے گھر پہنچ کر میں نے اْن کو یہ ماجرا سنانا چاہا تو انہوں نے اپنے بیٹے میرویس کو آواز دی بیٹا دیکھو! اگر باہرکراچی والا آیا ہو تو اس سے سامان لیکر آنا۔ اس کی بات ختم ہونے سے پہلے میں نے غصے میں کہا کہ تم لوگوں نے اچھا مذاق شروع کیا ہے جہاں جاؤکراچی کراچی کی آوازیں آتی ہیں۔میرا پورا قصہ سننے کے بعد وہ زور زور سے ہنسنے لگا اور کہا کراچی تو ہم ٹرالی(ہاتھ والی ریڑھی )کو کہتے ہیں۔ جس میں لوگ سامان فروخت کرتے ہیں۔ اس وضاحت پر میں نے مزید تحقیق کی تو معاملہ اسی طرح تھا جس طرح میرے دوست نے بیان کیا۔ صرف کابل نہیں۔ پورے افغانستان میں لوگ ٹرالی کو کراچی کہتے ہیں۔ مگر اب میرے ذہن میں سب سے اہم سوال یہ تھا کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو لوگ کراچی کیوں کہتے ہیں؟ ہم نے بچپن سے یہی سنا اور پڑھا ہے کہ کراچی اصل میں کلاچی تھا بگڑتے بگڑتے کراچی ہوگیا۔مگر کراچی میں مقیم پشتون دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف عبدالعلی غورغشتی کا کہنا ہے کہ کراچی پشتو زبان کا لفظ ہے اور اسی کے وہی معنی ہیں جو کابل میں لیے جاتے ہیں اور جس زمانے میں اس کا نام کراچی پڑا اس زمانے میں لوگوں کے معاش کا ایک اہم ذریعہ یہی کراچی(ٹرالی)تھا۔ان کے بقول جب کراچی کی مجموعی آبادی چند ہزار لوگوں مشتمل تھی اس وقت پشتون تاجر اور مزدور اپنا سامان کراچی(ٹرالی) میں منتقل کرتے اورمقامی سطح پر فروخت کرتے تھے۔

کے ایف سی کو آٹھ ملین ہرجانہ

            آسٹریلوی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کی سپریم کورٹ نے فاسٹ فوڈ کمپنی کے ایف سی کو آٹھ ملین ڈالر حرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔عدالت نے یہ حکم مونیکا سمان نامی لڑکی کے ہرجانے کے دعوے پر کیا ہے جس میں الزام عائد کیاگیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ کے ایف سی سے کھانا کھا کر ہیضہ کا شکار ہو گئی تھیں اور جس سے وہ چلنے اور بات کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہیں۔

مونیکا سمان 2005 میں سڈنی کے ایک کے ایف سی ریسٹورنٹ سے اپنے خاندان کے ہمراہ ‘ٹویسٹر ریپ’ کھا کر سلمونیلا ہیضہ کا شکار ہوگئیں تھیں۔عدالت کو بتایا گیا تھا کہ سمان خاندان کے تمام افراد ‘ٹویسٹر ریپ’ کھانے کے بعد ہیضے کا شکار ہوگئے تھے۔ سمان خاندان کے باقی افراد صحت یاب ہوگئے لیکن مونیکا سمان چھ ماہ تک کومہ میں رہیں۔ کے ایف سی نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اس کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔مونیکا سمان کے وکیل جارج ولکھیز نے عدالتی فیصلے پر اطمینان ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مونیکا سمان کی بیماری کی وجہ سے خاندان کے محدود وسائل پہلے ہی ختم ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مونیکا سمان اب ایک بڑی لڑکی ہے اور خاندان کے لیے اب مونیکا کو اٹھانا ممکن نہیں ہے۔مونیکا سمان کے وکیل نے کہا کہ ہرجانہ سے متعلق عدالتی حکم بہت ضروری تھا کیونکہ کے ایف سی کی پوری کوشش ہے کہ مونیکا کو ایک پائی بھی نہ مل پائے۔کے ایف سی کا اصرار ہے کہ شہادتوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مونیکا کی معذوری کی وجہ کے ایف سی کا کھانا ہے۔کے ایف سی کے مینجر نے کہا کہ ہمیں مونیکا سمان سے پوری ہمدردی ہے لیکن ریسٹورنٹ کی شہرت کا دفاع کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔سمان خاندان کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ مصروف وقت میں کمپنی فرش پرگرئے ہوئے چکن کو اٹھا کر دوبارہ استعمال کرتی ہے۔

٭نورالقرآن٭

سات تراجم ’ نو تفاسیر

جلد چہار م (سورہ المائدۃ)

ان شاء اللہ ماہِ رمضان میں منظر عام پر آرہی ہے

قارئین سے دعا اور مالی تعاون کی درخواست ہے