میں (خاندانی نام بانکے رام) ضلع اعظم گڑھ (یوپی) کے قصبے میں ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوا۔ میرے والد برادری کے چودھری تھے۔ ہمارا کولکاتہ (مغربی بنگال) میں خاصا وسیع کاروبار تھا۔ میں نے مڈل تک تعلیم اپنے قصبے کے مڈل اسکول میں حاصل کی، پھر شبلی کالج اعظم گڑھ میں، جس کے ساتھ ہائی کلاسز بھی تھیں، داخلہ لیا۔ یہاں تحریک اسلامی سے متعارف اور متاثر ہوا اور زندگی کی گاڑی کا رخ ہی بدل گیا۔

۱۹۵۱ء میں میٹرک کا امتحان دینے کے بعد گھر آیا تو ایک صاحب نے مجھے سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب ‘‘دین حق’’ کا ہندی ترجمہ پڑھنے کو دی۔ کتابوں کے مطالعے سے مجھے فطری رغبت تھی، چنانچہ بڑے شوق سے کتاب پڑھی اور اس مطالعے نے میرے دل کی دنیا ہی بدل ڈالی۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں اب تک مہیب تاریکیوں میں کھویا ہوا تھا۔ وہ تہ در تہ تاریکیاں چھٹ رہی ہیں اور پہلی بار روشنی کی کرنیں دکھائی دے رہی ہیں۔ اس احساس نے میرے دل میں اس روشنی سے ہمکنار ہونے کی تڑپ پیدا کر دی۔ میں نے اس کتاب کو کئی بار پڑھا اور ہر بار گرمی شوق دو آتشہ ہوتی گئی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اس مصنف کی ہندی میں ترجمہ شدہ تمام کتابیں حاصل کر کے پڑھوں گا۔

میں نے ہندو مذہب کی باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی تھی، البتہ ایک ہندو گھرانے میں پیدایش اور اپنے گرد و پیش کے شدید مذہبی ماحول کی وجہ سے میں ہندو مذہب کے عقائد اور رسوم سے اچھی طرح متعارف بھی تھا اور بے حد متاثر بھی، بلکہ میرے دل میں ہندو مذہب کے لیے شدید عصبیت تھی۔ میں ہندو مذہب کے سوا کسی دوسرے مذہب کو برسرحق نہیں سمجھتا تھا، لیکن اسلام کا مطالعہ شروع کیا اور میرے سامنے اسلام کا یہ دعویٰ آیا کہ ‘‘ان الدین عند اللّٰہ الاسلام’’ یعنی صرف اسلام ہی دین حق ہے تو میں نے ایک بار پھر ہندو مذہب کو نئے سرے سے سمجھنے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے اپنے کالج کے سنسکرت کے لیکچرار کی طرف رجوع کیا۔ وہ گیتا اورویدوں کے بہت بڑے عالم تھے، لیکن مجھے مطمئن نہ کر سکے۔ امر واقعہ تو یہ ہے کہ ہندو مذہب کے دیو مالائی نظام عقائد اورناقابل فہم رسوم میں اطمینان قلب کے لیے سرے سے کوئی سامان ہی موجود نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں کے نوجوان طبقے میں اپنے مذہب کے دیومالائی تصورات اورعجیب و غریب رسوم کے متعلق سخت بے اطمینانی پائی جاتی ہے۔ اگر ان لوگوں سے رابطہ قائم کیا جائے اور ان کی ذہنی سطح اور مخصوص پس منظر کو پیش نظر رکھتے ہوئے لٹریچر تیار کر کے ان میں پھیلایا جائے تو ان میں دعوت اسلامی کے پھیلنے کے بڑے مواقع ہیں۔ ا س کا مجھے ذاتی طور پر تجربہ ہے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد جب میں کالج گیا تو میرا یہ معمول تھا کہ تفریح کے پیریڈ میں شیخ مودودیؒ کی ہندی میں ترجمہ شدہ کتابوں کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے دوست ہندو طلبہ کو ایک علیحدہ جگہ بٹھا کر سید مودودیؒ کی مشہور کتاب ‘‘دینیات’’ پڑھ کر سنایا کرتا۔ وہ نہ صرف یہ کہ بڑی توجہ اور دل جمعی سے سنا کرتے، بلکہ اس سلسلے میں ان کی دلچسپی اس قدر زیادہ تھی کہ اگر بوجوہ میرے مسلمان ہو جانے کا فوری انکشاف نہ ہو جاتا تو شاید وہ سب لوگ بھی میرے ساتھ ہی قبول اسلام کا اعلان کرتے۔

چھٹیوں کے بعد کالج کھلا تو میرے اندر مزید اسلامی کتب کے مطالعہ کرنے کا شوق اور فراواں ہو چکا تھا۔ خوش قسمتی یہ تھی کہ مجھے سید مودودیؒ کی ہندی میں ترجمہ شدہ کتابیں آسانی سے مل جاتیں۔ اسی مطالعے کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ سید مودودیؒ نے ۱۹۵۳ء میں پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے لیے سزائے موت کو خندہ پیشانی سے لبیک کہا تھا اور رحم کی اپیل کی پیشکش یہ کہہ کر مسترد کر دی تھی کہ میرے لیے اللہ کی راہ میں شہید ہونا ظالموں سے رحم کی اپیل کرنے کے مقابلے میں بدرجہا بہتر ہے۔ اس واقعے نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ محض رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لیے موت کو خندہ پیشانی سے لبیک کہنے والے لوگ صرف تاریخ کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ اب پتا چلا کہ اسلام میں آج بھی ایسے عظیم لوگ موجود ہیں، جو راہ حق میں ہنسی خوشی جان دے دینے کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی سعادت سمجھتے ہیں۔ اس انکشاف نے مجھے اسلام کے اور زیادہ قریب کر دیا۔

اسی دوران مجھے خواجہ حسن نظامی کا ہندی ترجمۂ قرآن پڑھنے کا موقع ملا۔ اللہ نے مزید مہربانی یہ کی کہ شبلی کالج ہی کے ایک استاد نے جو سید مودودیؒ کی فکر سے گہرے متاثر تھے اور جنھوں نے ایک ہفتہ وار حلقۂ درس قرآن بھی قائم کر رکھا تھا، اسلام کے لیے میرا ذوق و شوق دیکھ کر مجھے اپنے حلقۂ درس میں شامل ہونے کی خصوصی اجازت دے دی۔

سید مودودیؒ کی کتابوں کے مسلسل مطالعے اور حلقۂ درس قرآن میں باقاعدگی سے شمولیت نے میرے قبول اسلام کے جذبے کو دو آتشہ کر دیا، مگر بعض خدشات دل و دماغ میں ابھر ابھر کر میرے اس روحانی سفر کی راہ میں حائل ہو جاتے اور میں ٹھٹھک کرر ہ جاتا۔ سب سے زیادہ پریشانی یہ تھی کہ میں دوسرے اہل خاندان کے ساتھ کس طرح نباہ کر سکوں گا، خصوصاً چھوٹی بہنوں کے مستقبل کے متعلق بہت پریشان تھا، مگر اسی دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ مجھے نتائج کی پروا کیے بغیر فوراً اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ ہوا یہ کہ ایک دن ان ہی استاد صاحب نے جن کے حلقۂ درس میں میں بلا ناغہ شامل ہوتا تھا، سورۂ عنکبوت کا درس دیا۔ پہلے انھوں نے یہ آیت پڑھی: مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اﷲِ اَوْلِیَآءَ کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِج صلے اِتَّخَذَتْ بَیْتًاط وَ اِنَّ اَوْھَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْکَبُوْتِم لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ. (العنکبوت ۲۹: ۴۱) ‘‘جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا کار ساز بنا رکھا ہے، ان کی مثال مکڑی کی سی ہے، جو گھر بناتی ہے اور سب سے بودا گھر مکڑی کا ہوتا ہے۔ کاش لوگ (اس حقیقت سے ) باخبر ہوتے۔’’

پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسرے تمام سہارے مکڑی کے جالے کی طرح کمزور اور بے بنیاد ہیں۔ ان کی اس تشریح اور دل میں کھب جانے والے اندازِ بیان نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور میں نے بغیر کسی تاخیر کے اسلام قبول کرنے اور تمام سہاروں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کا سہارا پکڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی مجلس میں میں نے اپنے استاد سے کہا کہ میں فوری طور پر اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔ ساتھ ہی ان سے نماز سے متعلق کوئی مناسب کتاب بھی مانگی۔ انھوں نے مجھے ادارہ ‘‘الحسنات’’ رام پور (یوپی) کی آسان ہندی زبان میں شائع کردہ کتاب ‘‘نماز کیسے پڑھیں؟’’ دی، جس سے میں نے چند گھنٹوں کے اندر اندر نماز سیکھ لی۔ مغرب کے قریب دوبارہ استاد کے پاس پہنچا۔ ان کے ہاتھ پر باقاعدہ اسلام قبول کر لیا اور ان ہی کی اقتدا میں نماز مغرب کی نماز ادا کی۔ یہ میری سب سے پہلی نماز تھی اور اس کی کیفیت میں کبھی بھول نہ سکوں گا۔

قبول اسلام، انکشاف اور اعلان کے درمیان کئی ماہ کا وقفہ رہا۔ حلقہ بگوش اسلام ہونے کے فوراً بعد مجھے ایک زبردست ذہنی کشمکش سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ دراصل اس عملی کشمکش کا نقطۂ آغاز تھا، جو چند ماہ بعد میرے قبول اسلام کے انکشاف اور اعلان کے بعد شروع ہونے والی تھی۔ اس ذہنی کشمکش کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرا سلسلۂ تعلیم منقطع ہو کر رہ گیا۔ میرا سارا وقت یا تو سید مودودیؒ کی کتابوں کے مطالعے میں گزرتا یا ان کتابوں کے منتخب حصے اپنے ساتھی طلبہ کو سنانے میں۔ نماز کے وقت میں چپ چاپ گھر سے نکل جاتا اور کسی الگ تھلگ جگہ جا کر نماز ادا کرتا۔ یہ سلسلہ کوئی چار ماہ تک جاری رہا، لیکن میری یہ سرگرمیاں زیادہ مدت تک پوشیدہ نہ رہ سکیں۔ میں اعظم گڑھ میں اپنے ایک عزیز کے ہاں رہتا تھا۔ اس کا لڑکا میرا دوست اور ہم راز تھا۔ اس نے جو مجھ میں یہ تبدیلیاں دیکھیں تو پہلے خود مجھے سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ اس طرح اسلام قبول کرنے کے بعد میں اپنے والدین اور عزیز و اقارب سے کٹ جاؤں گا، لیکن جب اس نے ‘‘ناقابل اصلاح’’ پایا تو والد صاحب کو کولکاتہ خط لکھ دیا کہ فوراً اعظم گڑھ پہنچیں، ورنہ لڑکا ہاتھ سے نکل جائے گا۔ والد صاحب خط ملتے ہی پہنچ گئے اور پھر مجھے بتدریج ان حالات سے دوچار ہونا پڑا، جن کی توقع تھی اور جن کے لیے میں اپنے آپ کو ذہنی طور پر پہلے سے تیار کر چکا تھا۔

والد صاحب کولکاتہ سے اعظم گڑھ پہنچے تو انھوں نے ابتدا میں براہ راست مجھے کچھ کہنے کے بجائے میرے حالات کاجائزہ لیا، پھر یہ سمجھتے ہوئے کہ میں شاید کسی جن یا بھوت سے متاثر ہو گیا ہوں، مختلف پنڈتوں اور پروہتوں سے میرا علاج کرانے لگے، لیکن کوئی جن یا بھوت ہوتا تو شاید جھاڑ پھونک سے چلا جاتا۔ یہاں تو معاملہ ہی دوسرا تھا، چنانچہ جو چیز بھی پنڈتوں اور پروہتوں سے لا کر دیتے، میں بسم اللہ پڑھ کر کھا لیتا، بہرحال جب وہاں میرا علاج نہ ہو سکا تو والد صاحب نے مجھے اپنے ساتھ کولکاتہ لے جانے کا فیصلہ کیا، تاکہ تحریک اسلامی کے افراد سے جو ان کے نزدیک اس ‘‘بیماری’’ کی اصل جڑ تھے، رابطہ برقرار نہ رہ سکے۔ لیکن بھلا یہ رابطہ کہاں اس طرح کے حیلوں بہانوں سے ٹوٹ سکتا تھا؟ چنانچہ کولکاتہ پہنتے ہی میں نے وہاں کے تحریکی رفقا سے رابطہ قائم کیا اوراس طرح میرا سب سے بڑا یعنی نماز پڑھنے کا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ والد صاحب کو علم ہوا تو وہ بھونچکے رہ گئے۔ انھوں نے فوراً مجھے الہ آباد میں مقیم اپنے ایک عزیز کے ہاں بھیج دیا۔ یہاں اب جھاڑ پھونک کے ساتھ ساتھ مختلف پنڈتوں اور پروہتوں نے مجھے سمجھانا، بجھانا شروع کیا۔ کہنے لگے: ہندو مذہب اسلام کے مقابلے میں زیادہ مکمل مذہب ہے۔ لیکن جب میں نے ہندو مذہب کے بارے میں سوالات کیے تو وہ جواب نہ دے سکے۔ زچ ہو کر بولے: اچھا ، اگر ہندو مذہب چھوڑنا ہی ہے تو پھر مسلمان بننے کے بجائے عیسائی بن جاؤ، کیونکہ مسلمانوں کی زبوں حالی اور اس کے مقابلے میں عیسائیوں کی فارغ البالی سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ عیسائیت اسلام کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر مذہب ہے۔ میں نے جواب میں کہا: دراصل میں مسلمانوں سے نہیں، بلکہ اسلام سے متاثر ہو کر مسلمان ہوا ہوں۔

آخر کچھ عرصے کی جھاڑ پھونک اور بحث مباحثے کے بعد مجھے ناقابل علاج قرار دے دیا گیا اور والد صاحب دوبارہ گھر لے آئے۔ گھر والوں کا پہلے ہی رو رو کر برا حال ہو چکا تھا۔ مجھے مکان کے ایک کمرے میں رکھا گیا اورتحریکی رفقا سے رابطہ ممنوع قرار دے دیا گیا۔ ساتھ ہی والدہ صاحبہ، بہنوں اور دوسری رشتے دار خواتین نے مجھے اسلام سے باز رکھنے کے لیے اپنے طور پر رونے دھونے اور منت سماجت کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ادھر جھاڑ پھونک بھی جاری رہا، لیکن یہاں ہر چیز بے اثر ثابت ہو رہی تھی۔ تنگ آ کر گھر والوں نے سخت قدم اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔ مجھ پر دباؤ ڈالنے کے لیے ان سب نے بھوک ہڑتال کر دی۔ میرے لیے یہ بڑا ہی سخت اور صبر آزما مرحلہ تھا۔ والدین اور بھائی بہن کوئی بھی کھانے کی کسی چیز کو ہاتھ تک نہ لگاتے۔ وہ میری نظروں کے سامنے بھوک سے نڈھال پڑے سسکتے رہتے، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے استقامت بخشی اور اسلام سے باز رکھنے کا یہ حربہ بھی کارگر نہ ہوا۔

اس کوشش ناکام کے بعد گھر والوں نے ایک اور حربہ آزمایا۔ ایک مولوی صاحب کو لے آئے جنھوں نے مجھے بتایا کہ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شخص اپنے والدین کی زندگی میں ان کی مرضی اور اجازت کے بغیر اسلام قبول کرنے کا اعلان یا کوئی بھی ایسا کام کرے، جس سے اس کے قبول اسلام کا اظہار ہوتا ہو، اس لیے جب تک آپ کے والدین زندہ ہیں، آپ اپنے اسلام کو دل میں رکھیں اور نماز اور دوسرے اسلامی احکام پر عمل درآمد سے سختی سے اجتناب کریں۔ مولوی صاحب کی یہ بات مجھے کچھ عجیب سی لگی، لیکن اس وقت تک مجھے اس سلسلے میں مزید کچھ زیادہ معلومات نہیں تھیں، اس لیے میں نے مولوی صاحب کے اس مشورے کو واقعی اسلام کا ایک حکم سمجھتے ہوئے سر تسلم خم کر دیا۔ اس پر گھر اور برادری میں خوب خوب خوشیاں منائی گئیں۔ چند دن بعد ہی انکشاف ہوا کہ ان مولوی صاحب کا تعلق ایک ایسے فرقے سے ہے، جو خود اپنے آپ کو مسلمانوں کے سواد اعظم سے علیحدہ سمجھتا ہے اور یہ کہ ان کے اس فتوے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ پتا چلتے ہی میں نے اپنے معمولات کو دوبارہ اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کا فیصلہ کر لیا۔ اور دوبارہ باقاعدگی سے پانچوں وقت کی نماز پڑھنے لگا۔ ساتھ ہی ہندو مذہب سے کھلے بندوں اظہار برأت شروع کر دیا۔ چند دن بعد میں ایک مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا کہ مقامی ہندوؤں کے ایک گروہ نے مسجد میں گھس کر نمازیوں پر حملہ کر دیا۔ میں نے یہ صورت حال دیکھی تو فیصلہ کر لیا کہ اب قبول اسلام کے باقاعدہ اعلان کا وقت آ چکا ہے، چنانچہ میں نے مسجد ہی میں سر عام اپنے قبول اسلام کا اعلان کر دیا اور واضح کیا کہ اب میرا ہندو مت یا ہندوؤں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ یہ ہندوؤں کے لیے ایک کھلا چیلنج تھا اور مجھے ان کی طرف سے اس چیلنج کا جواب دینے کے متعلق کوئی غلط فہمی نہ تھی۔

گھر پہنچا تو گھر والوں کا رنگ ہی بدلا ہوا تھا۔ ان کی وہ خوشیاں جو چند دن پہلے میرے اسلام کو پوشیدہ رکھنے کے فیصلے سے پیدا ہوئی تھیں، کافور ہو چکی تھیں اور سب کے چہرے غم سے نڈھال ہو چکے تھے، لیکن بحمد اللہ ایسی کسی بھی چیز سے میرے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔ ادھر والد صاحب نے یہ سمجھ کر کہ اب مجھے اسلام سے باز رکھنا ان کے بس کا روگ نہیں، میرا معاملہ ایک ہندو تنظیم کے سپرد کر دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ تنظیم اپنی انتہا پسندی اور اسلام دشمنی کے لیے بری طرح بدنام ہے۔ اب ابتلا اور مصائب کا ایک نیا اور نہ ختم ہونے والا بہت سخت اور صبر آزما سلسلہ شروع ہو گیا اور اگر اللہ مجھے استقامت نہ دیتا تو شاید میں ان حالات کا مقابلہ نہ کر سکتا۔

مجھے ہندوؤں کی جس تنظیم کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، وہ مذہب کے معاملے میں انتہا پسند ہی نہیں، تشدد پسند بھی ہے۔ اس تنظیم کے مقاصد میں دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی شامل ہے کہ ان مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہر ممکن طریقے سے دوبارہ ہندو بننے پر مجبور کیا جائے، جن کے آباؤ اجداد ہندو تھے۔ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کی انتہا پسندی کا یہ عالم ہو، وہ ایک ہندو نوجوان کے قبول اسلام کو کس طرح ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر سکتے تھے۔ ان کے ہتھے چڑھنے کے بعد کسی شخص کے سامنے صرف دو ہی راستے کھلے رہ جاتے ہیں: ارتداد یا موت۔ تیسرے کسی راستے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے مجھے بالکل معجزانہ طور پر اس آزمائش سے بچا لیا، لیکن جن دوسری آزمائشوں سے گزرنا پڑا، وہ بھی کچھ کم صبر آزما نہ تھیں۔

بعض مخلص دوستوں کے پرزور اصرار پر جو مجھے اس انتہا پسند تنظیم کے حوالے کر دینے کے منصوبے سے آگاہ تھے، مجھے شہر سے باہر واقع ایک دوست کے گھر ایک ایسے کمرے میں پناہ گزیں ہونا پڑا، جہاں مویشی باندھے جاتے تھے۔ مذکورہ انتہا پسند تنظیم کو میری یوں اچانک گمشدگی کی اطلاع ملی تو اس کے کارکن میری تلاش میں پورے شہر میں پھیل گئے۔ شہر کی کوئی مسجد ، کسی معروف مسلمان کا مکان، کوئی راستہ اور کوئی اڈہ ایسا نہ تھا، جہاں پر پہرے نہ بٹھا دیے گئے ہوں۔ مجھے اس ناکا بندی کی برابر اطلاع ملتی رہی۔ یہ سلسلہ کئی دن تک جاری رہا۔ یہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ تھا۔ سحری و افطار اور نماز کی ادائیگی کا اہتمام بھی اسی مویشی خانے میں ہوتا۔ تقریباً ایک ہفتہ اس پناہ گاہ میں اسی حال میں گزرا، پھر اس تنظیم کے کارکنوں نے وہاں سے مایوس ہو کر اپنی تلاش کا رخ دوسرے شہروں کی طرف پھیر دیا، چنانچہ ایک روز رات کے پچھلے پہر بھیس بدل کر ایک ساتھی کے ہمراہ ریلوے اسٹیشن پہنچا اور ایک دوسرے بڑے شہر میں پہنچ گیا۔ وہاں کے تحریکی رفقا کو میرے قبول اسلام کے بارے میں پہلے سے پتا تھا۔ دراصل میں ان ہی کی دعوت پر وہاں گیا تھا۔ مجھے ان لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور میری خواہش پر ایک دینی درس گاہ میں داخل کروا دیا۔ لیکن ابھی وہاں تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ اس ہندو تنظیم کے کارکن آ وارد ہوئے اور وہاں رہنا ممکن نہ رہا، چنانچہ ان رفقا نے مجھے بدایوں کے ایک دور افتادہ قصبے کی ایک درس گاہ میں بھیج دیا۔ اس درس گاہ کا انتخاب اس اعتبار سے مناسب تھا کہ یہ علاقہ اس ہندو تنظیم کی رسائی سے باہر معلوم ہوتا تھا۔ وہاں میں نے دینی تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ اردو زبان بھی سیکھنا شروع کر دی ، کیونکہ اس کے بغیر محض ہندی کے بل بوتے پر اردو زبان میں موجود وسیع اسلامی لٹریچر پر حاوی ہونا ممکن نہ تھا۔ ابھی اس مدرسے میں بمشکل ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرا ہو گا کہ اس تنظیم کے کارکن میری تلاش میں وہاں بھی پہنچ گئے۔ یہ محض ایک معجزہ تھا کہ ان کے آنے کی اطلاع مجھے پہلے مل گئی اور وہاں سے نکل جانے میں آسانی رہی۔

اب میری منزل جنوبی بھارت کا حصہ تامل ناڈو تھا۔ وہاں کی مشہور درس گاہ دار السلام عمر آباد ضلع ویلور کے ارباب حل و عقد میرے بارے میں پہلے سے جانتے تھے۔ انھوں نے مجھے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہاں تقریباً چھ سال تک مجھے پوری یک سوئی اور دل جمعی سے دینی تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔ یہاں تقریباً پانچ سال گزارنے کے بعد میں نے کچھ عرصے کے لیے اپنے آبائی قصبے میں جانے کا فیصلہ کیا۔ وہاں میں نے اپنے ان ہی محسن کے ہاں قیام کیا، جنھوں نے مجھے سب سے پہلے سید مودودیؒ کی ایک چھوٹی سی کتاب دین حق کے ذریعے سے روشناس کرایا تھا۔ لوگوں کو میری آمد کی خبر ہوئی تو وہ جوق در جوق مجھ سے ملنے کے لیے ٹوٹ پڑے۔ حیران کن بات یہ تھی کہ ان میں ہندو بھی تھے۔ اس کی وجہ مجھے بعد میں معلوم ہوئی ۔ وہ یہ کہ انھوں نے جب دیکھا کہ اس قدر مصائب اور شدائد کے باوجود میں نے اسلام پر استقامت دکھائی ہے اور مجھے کوئی لالچ اور خوف راہ حق سے منحرف نہیں کر سکا تو ان کی نفرت عقیدت میں بدل گئی۔ اسی دوران عید الفطر آ گئی۔ مسلمانوں نے اعلان کر دیا کہ عید کی نماز بھی میں ہی پڑھاؤں گا اور خطبہ بھی میں ہی دوں گا۔ اس اعلان کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ قرب و جوار کے ہزاروں مسلمان بڑے بڑے جلوسوں کی شکل میں عید گاہ میں جمع ہونے لگے، بلکہ عید گاہ کے چاروں طرف ہزاروں ہندو بھی میری تقریر سننے کے لیے پہنچ گئے۔ وہ اس بات پر بے حد حیران تھے کہ مسلمانوں نے ایک ایسے شخص کو جو ابھی چند سال پہلے ہندو تھا، اپنی مذہبی پیشوائی اور امامت کے منصب پر کس طرح فائز کر لیا۔ وہ اسلام کے اس پہلو اور پھر میری تقریر سے حد درجہ متاثر ہوئے۔

اللہ کا شکر ہے کہ والدین کے رویے میں بھی خاصی تبدیلی آ چکی تھی، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر انھیں مجھ جیسے حالات سے دوچار ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو بعید نہ تھا کہ معمولی توجہ سے وہ بھی حلقہ بگوش اسلام ہو جاتے۔

دار السلام عمر آباد سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد میں نے مزید تعلیم کے لیے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا، جو بآسانی مل گیا۔ چار سال کے بعد وہاں سے فارغ التحصیل ہوا تو جامعۃ الملک عبد العزیز، مکہ مکرمہ میں ایم اے میں داخلہ لیا۔ ایم اے میں میرا تحقیقی مقالہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث کی نوعیت اور حیثیت سے متعلق تھا اور اس کا عنوان تھا ‘‘ابو ہریرۃ فی ضوء مرویاتہ فی جمال شواہدہ وانفرادہ’’یہ امتحان بھی امتیاز کے ساتھ پاس کیا اور رابطۂ عالم اسلامی، مکہ مکرمہ سے منسلک ہو گیا، چنانچہ اب رابطۂ عالم اسلامی میں ایک ذمہ دار منصب پر فائز ہوں۔ رابطہ میں رہتے ہوئے بھی میں نے اپنی تعلیم جاری رکھی۔ حال ہی میں جامعہ ازہر قاہرہ (مصر) سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ پی ایچ ڈی میں میں نے اپنے تھیسس (Thesis) میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے عدالتی پہلو پر تحقیق کی ہے اور اس کا عنوان ہے: ‘‘اقضیۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم’’ ۔ یہ دونوں تحقیقی مقالے عنقریب کتابی صورت میں شائع کیے جا رہے ہیں۔

اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میں بھیانک اندھیروں سے نکل کر روشنی میں اور اتھاہ گہرائیوں سے اٹھ کر بلندیوں میں پہنچ گیا ہوں۔ مجھے اپنے مقصد زندگی کا پہلی بار صحیح شعور حاصل ہوا۔ میں نے یہ بات بھی بڑی شدت سے محسوس کی کہ اسلام اور موجودہ مسلمان معاشرے میں بہت بڑا فرق ہے اور غالباً یہی بات غیر مسلموں کے قبول اسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر ہم دعوت دین کا دائرہ غیر مسلموں تک وسیع کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس فرق کو ختم کرنا ہو گا، ورنہ غیر مسلموں میں توسیع دعوت کا کام ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔یوں تو اسلامی نظام حیات کے ہر پہلو کی کیفیت کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جاست کی سی ہے، لیکن پھر بھی میں کہہ سکتا ہوں کہ مجھے اسلام کے رشتہ اخوت و مؤاسات نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ آج اس گئے گزرے دور میں بھی اسلام کے ان تابناک اصولوں کی برکت سے مسلمان معاشرے میں ‘انما المومنون اخوۃ’ (الحجرات ۴۹: ۱۰) کا جذبہ جاری و ساری ہے، اسی طرح آج بھی مسلمان معاشرے میں معاشرتی مساوات کی جو روح کار فرما ہے، اس کی نظیر کسی اور معاشرے میں نہیں ملتی۔ ‘ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم’ (الحجرات ۴۹: ۱۳) کے جس ارشاد ربانی نے دور رسالت مآب میں عربی نخوت کے بت کو پاش پاش کر دیا تھا اور بلال حبشی اور سلمان فارسی کو ابو بکر صدیق اور عمر فاروق (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) کا ہم پلہ بنا دیا تھا، اس کے اثرات اس گئے گزرے دور میں بھی مسلمان معاشرے پر بڑے صاف اور واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔

تحریک اسلامی میں مجھے سب سے زیادہ تحریک کے داعی سید مودودیؒ کے ذاتی کردار نے متاثر کیا۔ راہ حق میں عزیمت و استقامت کی جو نیظر سید مودودیؒ نے قائم کی، اس کی مثال ماضی قریب میں بمشکل ہی ملے گی۔ محض دعویٰ کرنا اور بات ہے، لیکن پھانسی کی سزا ملنے پر بھی پائے استقامت میں لغزش نہ آنے دینا اور باطل کے ساتھ سمجھوتے کی پیشکش کو پائے استحقار سے ٹھکرا دینا کوئی معمولی بات نہیں۔

 اسلام کسی انسان کا نہیں، بلکہ اللہ کا اتارا ہوا دین ہے اور خود ساختہ افکار و نظریات اس کے مقابلے میں زیادہ عرصے تک ٹھہر نہیں سکتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ارباب فکر و نظر اس چیلنج سے اسلام کی روشنی میں عہدہ برآ ہونے کے لیے میدان میں آ جائیں اور ان گمراہ اور ان گمراہ کن افکار و نظریات کے مقابلے میں اسلام کو پیش کریں۔ اگر ایسا ہو جائے تو مجھے یقین ہے کہ یہ ملحدانہ افکار ونظریات اسلام کے مقابلے میں ریت کی دیوار کی طرح بے بنیاد ثابت ہوں گے۔ میں اس سلسلے میں مفکر اسلام سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اورتحریک اسلامی سے وابستہ دوسرے مفکری کے تخلیق کردہ لٹریچر کے حوالے سے یہ کہوں گا کہ بلاشبہ یہ لٹریچر اپنے اندر اس چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے دانشور اور اہل قلم ان کتابوں میں دیے گئے رہنما خطوط کی روشنی میں مزید لٹریچر تیار کریں، تاکہ ہمارے لیے زندگی کے ہر میدان میں اسلام کی روشنی میں مکمل رہنمائی کا سامان موجود رہے۔

اب تک اردو، ہندی ، عربی میں میری چھ تصانیف مکمل ہو چکی ہیں۔ پہلی کتاب ‘‘گنگا سے زمزم تک’’ اردو زبان میں ہے۔ اس کے علاوہ میں ہندی زبان میں اسلام کے بنیادی عقائد اور اسلامی نظام حیات کے مختلف پہلوؤں کو ایک دائرۃ المعارف (انسائیکلوپیڈیا) کی صورت میں خالص علمی انداز میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ انھی پہلوؤں سے ہندو مت، بدھ مت، جین مت اور سکھ مت کا تقابلی مطالعہ بھی کروں گا، کیوں کہ میرے نزدیک ہندوؤں کی اسلام سے دوری کا، دوسری بہت سی باتوں کے علاوہ ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان کے سامنے اسلام کو خود ان کی اپنی زبان میں اور ان کی مخصوص ذہنی افتاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے پیش کرنیکی بہت کم کوشش کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی ہند کے شائع کردہ لٹریچر کے علاوہ کوئی اور قابل ذکر چیز بمشکل ہی ملتی ہے۔ یہ لٹریچر خاصی مقدار میں ہونے کے باوجود کافی نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہندوؤں کے سامنے ان کی مخصوص ذہنی افتاد کو سامنے رکھتے ہوء خود ان کی اپنی زبان میں اسلام وسیع پیمانے پر پیش کیا جائے تو ہندوؤں میں اسلام کی اشاعت کے خاصے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔

تقریباً دس سال بعد میں دوبارہ ہندوستان گیا تومیں نے ہندوستان کو کئی پہلوؤں سے مختلف پایا۔ سب سے اہم پہلو ہندو مسلم تعلقات کا ہے، کیونکہ ہندوؤں میں اسلام کی نشرو اشاعت کے سلسلے میں اس چیز کو بنیادی کردار ادا کرنا ہے۔ ہندوؤں میں اسلام سے دوری کا سب سے بڑا سبب مسلمانوں سے ان کی نفرت اور دوری رہا ہے۔ جس کے باعث کچھ تو ان کا اپنا تعصب تھا اور کسی حد تک خود مسلمانوں کا طرز عمل بھی۔ مسلمانوں سے اپنی شدید نفرت کی وجہ سے وہ اسلام کے زندگی بخش نظام کو قریب سے دیکھ ہی نہیں سکے اور ہمیں یہ بات بھی تسلیم کرنا ہو گی کہ خود مسلمان بھی انھیں پوری طرح متاثر نہ کر سکے۔ وہ نہ تو انھیں اسلام کی دعوت صحیح طور پر پیش کر سکے اور نہ اپنے طرز عمل سے اس بات کی شہادت دے سکے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو ذلت کی کن پستیوں سے اٹھا کر عظمت کی کن بلندیوں پر فائز کر سکتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوؤں میں کئی انتہا پسند تنظیمیں مثلاً ہندو مہاسبھ، جن سنگھ، راشٹریہ سیوک سنگھ وغیرہ پیدا ہو گئیں، جو اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد سمجھتی ہیں۔ گزشتہ نصف صدی میں ان تنظیموں نے ہندوستان سے اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ انھوں نے یہ سب کچھ اعلانیہ کیا۔ کانگریس کی طرح دوستی کے پردے میں نہیں، لیکن اب میں ہندوستان گیا تویہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اب ان میں بعض کے رویے اور طرز عمل میں ایک خوش گوار تبدیلی آ چکی ہے۔ خصوصاً جن سنگھ ایسی متعصب اور راشٹریہ سیوک سنگھ جیسی انتہا پسند تنظیموں کا رویہ بہت حد تک بدل چکا ہے۔ دریافت کرنے پر پتا چلا کہ جب بھارت کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنے مخالفین کو ظلم اور جبر و تشدد کا نشانہ بنا کر جیلوں میں ٹھونسنا شروع کر دیا تو اکثر ایسا ہوا کہ جن سنگھ اور آر ایس ایس کے لیڈر اور کارکن اور تحریک اسلامی کے قائدین اورکارکن ایک ہی جیل، بلکہ ایک ہی کمرے میں ٹھونس دیے گئے۔ یوں جن سنگھ اور آر ایس ایس کے لیڈروں کو ایک عرصے تک تحریک اسلامی قائدین اور کارکنوں کو قریب سے دیکھنے اور ان کی وساطت سے اسلام کو اس کے صحیح رنگ میں سمجھنے کا موقع ملا۔ اسلام کی دعوت ان کے سامنے اصل رنگ میں پیش کی گئی اور ساتھ ہی اپنے طرز عمل سے اس کی شہادت بھی دی گئی تو اس نے اپنا اثر دکھایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جن سنگھ اور آر ایس ایس کی اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی اب روا داری میں بدل چکی ہے۔ اب کا رویہ معاندانہ ہونے کے بجائے خیرخواہانہ ہو چکا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے، جو ان جماعتوں کے رویے اور طرز عمل میں آئی ہے۔

اب تو یہاں تک دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض اوقات ان لوگوں کی طرف سے تحریک اسلامی کے رہنماؤں کودعوت دی جاتی ہے کہ وہ ان کے مندروں میں آ کر ان کے اجتماعات سے خطاب کریں اور ان کے سامنے اسلام کو اس کے اصل رنگ میں پیش کریں، چنانچہ ان ہی دنوں کی بات ہے کہ امیر جماعت اسلامی ہند محترم محمد یوسف صاحب مرحوم، نے جن سنگھی رہنماؤں کی دعوت پر احمد آباد جا کر ان کے مندر میں درس قرآن بھی دیا اور اسلامی نظام زندگی کے مختلف پہلوؤں پر خطاب بھی کیا، اسی دوران نماز کا وقت آیا تو انھوں نے مندر کے احاطے ہی میں اذان دے کر اپنے احباب اور رفقا کے ساتھ نماز با جماعت ادا کی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اسلام کے سلسلے میں افہام و تفہیم کی یہ کوششیں جاری رہیں تو ان شاءاللہ یہ لوگ اسلام کے قریب سے قریب تر آتے جائیں گے اور کعبے کو صنم خانے سے کتنے ہی پاس بان مل جائیں گے۔

میرا یہ دورہ انتہائی کامیاب رہا۔ بھارت میں میں پچیس دن ٹھہرا اور یہ عرصہ شمالی ہندوستان سے جنوبی ہندوستان تک مسلسل سفر میں گزرا۔ جہاں بھی گیا، میرا بڑا پر تپاک خیر مقدم کیا گیا۔ مسلمانوں کی مختلف تنظیموں کے زیر اہتمام منعقدہ جلسوں، طلبہ کے اجتماعات اور مسجدوں میں عامۃ المسلمین سے اکثر خطاب کرنے کا موقع ملا۔ میں نے ہر جگہ مسلمانوں کو یہ بات ذہن نشین کرانے کی کوشش کی کہ ہندوستان کے بدلتے ہوئے حالات میں اسلام کی نشر و اشاعت کے سلسلے میں ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور وہ ان ذمہ داریوں سے کس طرح عہدہ برآ ہو سکتے ہیں۔

میں اپنے والدین سے بھی ملا تھا۔ وہ بھی میری شخصیت کے اندر اسلام کی برکت سے پیدا ہونے والی عظیم تبدیلی نیز میرے رابطہ عالم اسلامی میں ایک اہم منصب پر فائز ہو جانے کی وجہ سے بے حد متاثر تھے۔ انھیں مزید متاثر میرے طرز عمل نے کیا، جو میں نے پانچ چھ سال سے ان کے بارے میں اختیار کر رکھا ہے۔ میں نے ان کی کفالت کی ساری ذمہ داریاں سنبھال رکھی ہیں اور یہ بات ان پر واضح کر دی ہے کہ میرا ان کے ساتھ یہ طرز عمل اسلام کے واضح احکامات اور تعلیمات کی بنا پر ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کسی کے والدین اسلام نہ قبول کریں، تب بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔ اس بات نے انھیں اسلام کے بہت قریب کر دیا ہے، جب میں نے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم اسلام کو دل کی گہرائیوں سے پسند کرتے ہیں، لیکن سردست ہم اپنے اندر قبول اسلام کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں پاتے۔ میں نے بھی اصرار کرنے کے بجائے یہی مناسب سمجھا کہ ان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہو ں اور اس دن کا انتظار کروں، جب اللہ کے فضل سے ان کے دل میں اسلام کے لیے شیفتگی خود بخود ایک تڑپ میں تبدیل ہو جائے۔ وہ کسی خارجی دباؤ کے بجائے خود اپنے داخلی دباؤ سے حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں۔ اللہ نے چاہا تو وہ دن دور نہیں ہے۔

٭٭٭