سوال ، جواب (نفل نمازیں)

مصنف : مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : مارچ 2012

ج- سنتِ غیرموکدہ اور نفل قریب قریب ہیں، ان میں کوئی زیادہ فرق نہیں، البتہ یہ فرق ہے کہ سننِ غیرموکدہ منقول ہیں، اس لئے ان کا درجہ بطورِ خاص مستحب ہے، اور دْوسرے نوافل منقول نہیں، اس لئے ان کا درجہ عام نفلی عبادت کا ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- رات کی سنتوں اور نفلوں میں اختیار ہے کہ خواہ آہستہ پڑھے یا جہراً پڑھے، اس لئے رات کی سنتوں اور نفلوں میں جہراً پڑھنے سے سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا، دن کی سنتوں اور نفلوں میں جہراً پڑھنا دْرست نہیں، بلکہ آہستہ پڑھنا واجب ہے۔ اور اگر بھول کر تین آیتیں یا اس سے زیادہ پڑھ لیں تو سجدہ سہو لازم ہوگا یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے، قواعد کا تقاضا یہ ہے کہ سجدہ سہو واجب ہونا چاہئے اور یہی احتیاط کا مقتضا ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- آپ کی خالہ اور نانی غلط کہتی ہیں، یہ لوگوں کی اپنی ایجاد ہے کہ تمام نمازوں میں وہ پوری نماز کھڑے ہوکر پڑھتے ہیں، مگر نفل بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔ نفل بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ضرور ہے، لیکن بیٹھ کر نفل پڑھنے سے ثواب آدھا ملتا ہے، اس لئے نفل کھڑے ہوکر پڑھنا افضل ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- یہ حدیث جس کا آپ کے بھائی جان نے حوالہ دیا ہے، صحیح ہے، اور اس حدیث شریف کی بنا پر سنن و نوافل کا گھر پر ادا کرنا افضل ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ گھر کا ماحول پْرسکون ہو اور آدمی گھر پر اطمینان کے ساتھ سنن و نوافل ادا کرسکے، لیکن گھر کا ماحول پْرسکون نہ ہو، جیسا کہ عام طور پر آج کل ہمارے گھروں میں مشاہدہ کیا جاتا ہے، تو سنن و نوافل کا مسجد میں ادا کرلینا ہی بہتر ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- صبحِ صادق کے بعد سنتِ فجر کے علاوہ نوافل مکروہ ہیں، سنتوں سے پہلے بھی اور بعد بھی، اور جن صاحب نے یہ کہا کہ: ’’تہجد کے بعد اور فجر کی سنتوں سے قبل سجدہ ہی حرام ہے‘‘ یہ مسئلہ قطعاً غلط ہے، سنتِ فجر سے پہلے سجدہ تلاوت کرسکتے ہیں اور قضا نمازیں بھی پڑھ سکتے ہیں، ہاں! صبحِ صادق کے بعد سنتِ فجر کے علاوہ اور نوافل جائز نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- بہت سی احادیث میں فجر اور عصر کے بعد نوافل کی ممانعت آئی ہے، امام ابوحنیفہ کے نزدیک ان احادیث کی بنا پر حرم شریف میں بھی فجر و عصر کے بعد نوافل جائز نہیں، جو شخص ان اوقات میں طواف کرے، اسے دوگانہ طواف سورج کے طلوع اور غروب کے بعد ادا کرنا چاہئے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج-آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تہجد کی نماز فرض تھی یا نہیں؟ اس میں دو قول ہیں، اور اختلاف کا منشاء یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں جب پنج گانہ نماز فرض نہیں ہوئی تھی، اس وقت تہجد کی نماز سب پر فرض تھی، بعد میں اْمت کے حق میں فرضیت منسوخ ہوگئی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بھی فرضیت منسوخ ہوگئی یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہوا۔ امام قرطبی اور علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے اس کو ترجیح دی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بھی فرضیت باقی نہیں رہی، اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی پابندی فرماتے تھے، سفر و حضر میں تہجد فوت نہیں ہوتی تھی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- تہجد پڑھنے کے لئے کسی عمر کی تخصیص نہیں، اللہ تعالیٰ توفیق دے ہر مسلمان کو پڑھنی چاہئے، اپنی طرف سے تو اہتمام یہی ہونا چاہئے کہ تہجد کبھی چھوٹنے نہ پائے، لیکن اگر کبھی نہ پڑھ سکے تب بھی کوئی گناہ نہیں، ہاں! جان بوجھ کر بے ہمتی سے نہ چھوڑے اس سے بے برکتی ہوتی ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- سوکر اْٹھنے کے بعد رات کو جو نماز پڑھی جائے وہ تہجد کہلاتی ہے، رکعتیں خواہ زیادہ ہوں یا کم، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چار سے بارہ تک رکعتیں منقول ہیں، اور اگر آدمی رات بھر نہ سوئے، ساری رات عبادت میں مشغول رہے تو کوئی حرج نہیں، اس کو قیامِ لیل اور تہجد کا ثواب ملے گا، مگر یہ عام لوگوں کے بس کی بات نہیں، اس لئے جن اکابر سے رات بھر جاگنے اور ذکر اور عبادت میں مشغول رہنے کا معمول منقول ہے، ان پر اعتراض تو نہ کیا جائے، اور خود اپنا معمول، اپنی ہمت و استطاعت کے مطابق رکھا جائے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- تہجد کی نماز میں چار سے لے کر بارہ رکعتیں ہوتی ہیں، ان کے ادا کرنے کا کوئی الگ طریقہ نہیں، عام نفل کی طرح ادا کی جاتی ہیں۔ ہر رکعت میں تین بار سورہ اِخلاص پڑھنا جائز ہے، مگر لازم نہیں۔ جن لوگوں کے ذمہ قضا نمازیں ہوں، میں ان کو مشورہ دیا کرتا ہوں کہ وہ تہجد کے وقت بھی نفل کے بجائے اپنی قضا نمازیں پڑھا کریں، ان کو انشاءاللہ تہجد کا ثواب بھی ملے گا اور سر سے فرض بھی اْترے گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- جو شخص آخرِ شب میں نہ اْٹھ سکتا ہو، وہ وتر سے پہلے کم از کم چار رکعتیں تہجد کی نیت سے پڑھ لیا کرے، انشاءاللہ اس کو ثواب مل جائے گا، تاہم آخرِ شب میں اْٹھنے کا ثواب بہت زیادہ ہے، اس کی کوشش بھی کرنی چاہئے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد دو رکعتیں، اور مغرب و عشاء کے بعد دو دو رکعتیں تو سنتِ موکدہ ہیں، ان کو نہیں چھوڑنا چاہئے، اور عشاء کے بعد وتر کی رکعتیں واجب ہیں، ان کو بھی ترک کرنے کی اجازت نہیں۔ باقی رکعتیں نوافل ہیں، اگر کوئی پڑھے تو بڑا ثواب ہے، اور نہ پڑھے تو کوئی حرج نہیں، ان کو ضروری سمجھنا صحیح نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- چونکہ مغرب کی نماز جلدی پڑھنے کا حکم ہے، اس لئے حنفیہ کے نزدیک مغرب سے پہلے نفل پڑھنا مناسب نہیں، گو جائز ہے، اس لئے خود تو نہ پڑھیں، مگر جو حضرات پڑھتے ہیں انہیں منع نہ کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- عشاء کی ضروری رکعتیں تو اتنی ہیں جتنی آپ نے لکھی ہیں، یعنی ۴ فرض، ۲ سنت اور تین وتر واجب، کل ۹ رکعتیں۔ عشاء سے پہلے سنتیں اگر پڑھ لے تو بڑا ثواب ہے، نہ پڑھے تو کچھ حرج نہیں، اور وتر سے پہلے دو، چار رکعت تہجد کی نیت سے بھی پڑھ لے تو اچھا ہے، لیکن نوافل کو ایسا ضروری سمجھنا کہ ان کی وجہ سے فرائض و واجبات بھی ترک کردئیے جائیں، بہت غلط بات ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- اگر جاگنے کا بھروسا ہو تو وتر، تہجد کی نماز کے بعد پڑھنا افضل ہے، اس لئے اگر صبحِ صادق سے پہلے وقت میں اتنی گنجائش نہ ہو کہ نوافل کے بعد وتر پڑھ سکے گا تو پہلے تہجد کے نفل پڑھے، اس کے بعد وتر پڑھے، اور اگر کسی دن آنکھ دیر سے کھلے اور یہ اندیشہ ہو کہ اگر نوافل میں مشغول ہوا تو کہیں وتر قضا نہ ہوجائیں تو ایسی صورت میں پہلے وتر کی تین رکعتیں پڑھ لے، پھر اگر صبحِ صادق میں کچھ وقت باقی ہو تو نفل بھی پڑھ لے، تہجد کی نماز کا ایک معمول تو مقرّر کرلینا چاہئے کہ اتنی رکعتیں پڑھا کریں گے، پھر اگر وقت کی وجہ سے کمی بیشی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صلوٰۃ الحاجت کا طریقہ یہ بتایا ہے کہ آدمی خوب اچھی طرح وضو کرے اس کے بعد دو رکعت نفل پڑھے، نماز سے فارغ ہوکر حق تعالیٰ شانہ کی حمد و ثنا کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دْرود شریف پڑھے، مسلمانوں کے لئے دْعائے مغفرت کرے اور خوب توبہ، اِستغفار کے بعد یہ دْعا پڑھے:

لا الٰہ الا اللہ الحلیم الکریم سبحان اللہ رب العرش العظیم الحمد للہ رب العالمین، اسلک موجبات رحمتک ومنجیات امرک وعزائم مغفرتک والغنیمۃ من کل بر والسلامۃ من کل اثم لا تدع لی ذنبًا الا غفرتہ ولا ھمًّا الا فرجتہ ولا حاجۃ ھی لک رضًا الا قضیتھا یا ارحم الراحمین۔

اس کے بعد اپنی حاجت کے لئے خوب گڑگڑاکر دْعا مانگے، اگر صحیح شرائط کے ساتھ دْعا کی تو انشاء اللہ ضرور قبول ہوگی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- نہ وقت مقرّر ہے، نہ تعداد، البتہ مکروہ وقت نہیں ہونا چاہئے، اور تعداد دو رکعت سے کم نہیں ہونی چاہئے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- یہ نمازیں ظہر اور عصر سے پہلے پڑھنے میں تو کوئی اِشکال نہیں، البتہ فجر سے پہلے اور صبحِ صادق کے بعد سوائے فجر کی دو سنتوں کے اور نوافل پڑھنا دْرست نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- کوئی کام درپیش ہو، اس کی آسانی کی دْعا کرنے کے لئے شریعت نے ’’صلوٰۃ الحاجۃ‘‘ بتائی ہے، اور کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس سے توبہ کرنے کے لئے ’’صلوٰۃ التوبہ‘‘ فرمائی ہے، اور یہ نفلی نمازیں ہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- ظہر، عصر اور عشاسے پہلے پڑھ سکتی ہے، صبحِ صادق کے بعد سے نمازِ فجر تک صرف فجر کی سنتیں پڑھی جاتی ہیں، دْوسرے نوافل دْرست نہیں، سنتوں میں تحیۃ الوضو کی نیت کرلینے سے وہ بھی ادا ہوجائے گا، اور مغرب سے پہلے پڑھنا اچھا نہیں، کیونکہ اس سے نمازِ مغرب میں تاخیر ہوجائے گی، اس لئے نمازِ مغرب سے پہلے بھی تحیۃ الوضو کی نماز نہ پڑھی جائے، بہرحال اس مسئلے میں مرد و عورت کا ایک ہی حکم ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س- اگر کوئی شخص مسجد میں جاتا ہے اور جماعت ہونے میں دو تین منٹ باقی ہیں، کیا وہ نفل تحیۃ الوضو پڑھے یا تحیۃ المسجد پڑھے؟

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- امام ابوحنیفہ کے نزدیک سورج غروب ہونے کے بعد مغرب کی فرض نماز ادا کرنے سے قبل نوافل پڑھنا اس وجہ سے مکروہ ہے کہ اس سے مغرب کی نماز میں تاخیر ہوتی ہے، ورنہ بذاتِ خود وقت میں کوئی کراہت نہیں، آپ کے یہاں چونکہ مغرب سے پہلے نوافل کا معمول ہے اور جماعت میں تاخیر کی جاتی ہے، اس لئے تحیۃ المسجد پڑھ لینے میں مضائقہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- شبِ برات میں اجتماعی نوافل ادا کرنا بدعت ہے، امام صاحب نے مشکوٰۃ شریف کا جو حوالہ دیا ہے، وہ ان کی غلط فہمی ہے، مشکوٰۃ شریف میں ایسی کوئی روایت نہیں جس میں شبِ برات میں نوافل باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہو۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج - شرعاً جائز ہے، اور کوئی خاص رْکاوٹ نہ ہو تو لڑکے لڑکی کے جوان ہوجانے کے بعد اسی میں مصلحت بھی ہے، ورنہ بگڑے ہوئے معاشرے میں غلط کاریوں کے نتائج اور بھی تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ حلال کے لئے ‘‘تباہ کن نتائج’’ (جو محض فرضی ہیں) پر نظر کرنا اور حرام کے ‘‘تباہ کن نتائج’’ (جو واقعی اور حقیقی ہیں) پر نظر نہ کرنا، فکر و نظر کی غلطی ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)