مثالی خاتون

مصنف : ایس امین الحسن (انڈیا)

سلسلہ : چھوٹے نام بڑے لوگ

شمارہ : مارچ 2012

            ڈاکٹر عذرا بتول 1959ء میں پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ لاہور سے میڈیکل پاس کیا۔ طالب علمی ہی کے زمانے سے اسلام کے لیے متحرک و فعال تھیں۔ 1977میں 18برس کی عمر میں پولیٹیکل ایجیٹیشن میں حصہ لیا۔ پولس کا گھیرا توڑ کر اسمبلی ہال تک پہنچ گئیں۔ آخر کار Arrestبھی ہوگئیں۔مولانا مودودی نے پولیس کے ذمہ داروں کو انتباہ کردیا تھا کہ ‘‘ہماری یہ لڑکی اور دیگرخواتین شام ہونے سے قبل اپنے اپنے گھر پہنچائی جائیں’’ الحمدللہ رہاہوگئیں۔منصورہ سے تفہیم القرآن کا کورس مکمل کیا۔ دعاؤں کاالتزام کرتیں اور دوسروں کو بھی مسنون دعائیں سکھاتیں۔

            جمعیت الطالبات کی ناظمہ صوبہ پنجاب بھی ہوئیں اور مرکزی شوریٰ کی رکن بھی تھیں۔ ہاؤس جاب کے دوران گھر آکر واپس جاتیں تو ابو سے پیسے مانگتیں۔ والد صاحب پوچھتے کہ کیا سرکاری وظیفے کا کیا ہوا؟ کہتیں کہ ضرورت مند کو دے دیا۔ یہ ان کی زندگی کا معمول تھا۔

            85 میں شادی ہوئی، سسرالی خاندان بڑا تھا۔ شوہر لیاقت بھی ڈاکٹر تھے۔ ان کے دو بڑے بھائیوں نے بڑی قربانیاں دے کر انہیں پڑھایا تھا۔ عذرا، نے ہمیشہ ان کا یہ احسان یاد رکھا اور ہمیشہ ان کے حقوق ادا کرتیں۔ گوشت، کھانا، کپڑا ہی نہیں اپنی کمائی سے حاصل شدہ زمین بھی ان کے نام لکھ دی۔

            شادی کی رات کا واقعہ ڈاکٹر لیاقت لکھتے ہیں کہ عذرا نے پوچھا کہ کیا آپ نے شکرانے کی نفل نماز پڑھ لی۔ ڈاکٹر لیاقت نے جواب دیا کہ آج مصروفیات میں مغرب اور عشا بھی چھوٹ گئی۔ کل پڑھ لوں گا۔ عذرا نے کہا کہ نئی زندگی کاآغاز بے برکتی سے نہیں ہونا چاہیے’’۔ لہٰذا وہ اٹھے، وضو کیا، نماز ادا کی، پھر بیوی سے بات چیت کی۔

            دونوں نے ایک کلینک کھولا، پھر رفتہ رفتہ گاؤں کا سب سے بڑا اور خوبصورت ہسپتال بن گیا۔ مریضوں سے حسن سلوک کرنا، دین کی تلقین کرنا، کبھی فیس معاف کردینا یہ سب ان کا شعار رہا۔

            گھریلو زندگی بھی مکمل رہی۔ 10بچوں کو جنم دیا۔ ایک بچی کا انتقال ہوگیا۔ بڑا لڑکا 17سال کا تھا، چھوٹی بیٹی 10ماہ کی تھی۔ ساتھ میں جیٹھ کے 5بچوں کوبھی پاس رکھ لیا تھا۔ شوہر کے کپڑے خود تیار کرتیں، جوتے خود پالش کرتیں۔ بلکہ کبھی کبھار جیٹھ صاحب گھر آجاتے تو ان کے جوتے بھی پالش کردیتیں۔ گھر سے باہر جانا ہوتا تو شوہر سے اجازت لیتیں۔ خود ماہانہ لاکھوں روپیہ کماتی تھیں مگر شوہر سے پوچھ کر خرچ کرتیں۔، بڑی مہمان نواز تھیں۔ اکثر جماعت کے اجلاس گھر میں ہوتے۔ اس وقت وہ خود باورچی خانہ جاکر کھانا پکاتیں۔ بیٹے کوبلاکر سورہ ےٰسین پڑھاکر دم کرتیں اور کہتیں کہ بیٹے ابو تو 15آدمی کا کھانا کہہ کر گئے ہیں، ہوسکتا ہے 25-30 لوگ آجائیں، اس لیے کھانا کم نہیں پڑنا چاہیے۔

            گاؤں میں غریب عورتوں میں، مزدور خواتین میں زیادہ کام کرتی تھیں۔ وہ ہیر پھیر کی باتوں کو حکمت نہیں منافقت سمجھتی تھیں۔ 44سال کی عمر میں ایک کا ر حادثہ کا شکار ہوکر شہید ہوگئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون، ان کی موت کے بعد ان کے شوہر جو جماعت کی کئی ذمہ داریوں پر فائز ہیں۔ مرکزی شوریٰ کے بھی رکن ہیں، انہوں نے درد و سوز میں ڈوبی ہوئی رقت آمیز تحریر رقم کی:

            ‘‘عذرا، 18سال قبل اس گھر میں بہو بن کر چوتھے نمبر پر آئی تھی۔ آج گئی تو صرف اس خاندان کی شفیق ماں نہ گئی بلکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے سر سے بھی شفقت کا سایہ اٹھ گیا۔ آج سات ماہ سے اوپر ہونے کو آئے ہیں۔ عذرا تو مر کر ایسا لگتا ہے جیسے زندہ و جاوید ہوگئی۔ وہ اپنی نیکیوں کی وجہ سے زندہ ہے اور اپنے بچوں کی شکل میں زندہ ہے۔ اپنی بے پناہ خوبصورت یادوں میں زندہ ہے۔ بے شمار مریضوں اور لوگوں کی دعاؤں میں زندہ ہے۔ وہ تو ہر وقت ہر جگہ اپنی حسنات میں زندہ ہے۔ اگر نہیں اب ملتا تو لوگوں کو وہ لیاقت نہیں ملتا جو کبھی عذرا بتول کا شوہر ہوا کرتا تھا۔ بچوں کو گلہ ہے کہ ان کا باپ بدل گیا ہے۔ مریضوں کو شکایت ہے کہ ان کا طبیب وہ نہیں رہا اور جماعت کے کارکنوں کو یہ گلہ ہے کہ ان کے امیر کو نہ جانے کیا ہوگیا ہے، خود مجھے یوں لگتا ہے کہ وہ لیاقت مر گیا ہے جو کبھی عذرا کا جیون ساتھی ہوا کرتا تھا۔میں اس کے لیے کوئی تاج محل تو شاید کبھی نہ بناسکوں، مگر خدا کے فضل سے اس کے لیے میں اور میری اولاد نیکیوں کا تاج محل ضرور بنائیں گے’’۔

            کسی نے ان کے شوہر سے پوچھا کہ عذرا کی سب سے بڑی نیکی کون سی تھی جو اللہ کے یہاں مقبول ہوئی ہوگی۔ جواب میں کہا کہ نیکیاں تو اس کی بے شمار ہیں، مگر ایک نیکی اس کی ایسی تھی جو لازماً سب سے زیادہ درجہ لے گئی ہوگی کہ ‘‘اس کی زبان سے پوری زندگی کسی کا دل نہ دکھا’’۔

            اس نیک مثالی خاتون کے بارے میں پروفیسر غفور صاحب پرنم آنکھوں کے ساتھ تعزیت ادا کرتے ہوئے کہنے لگے ‘‘ڈاکٹر صاحب انہوں نے زیادہ عرصہ زندہ رہ لیا،ایسے لوگ تو اتنے عرصہ تک زندہ نہیں رہا کرتے’’۔لمبی زندگی اور کم عمل کے بہ نسبت یہ بہتر ہے کہ زندگی چھوٹی ہو مگر عمل کا دفتر بڑا ہو اور خیر سے بھرا ہو۔

٭٭٭