آپ تو نائب خد ا ہیں

مصنف : وسعت اللہ خان

سلسلہ : حالاتِ حاضرہ

شمارہ : مارچ 2012

ٹی وی چینلز اور میڈیا کی بے لگام آزادی بلکہ بد اخلاقی پر ایک خوبصورت طنزیہ تحریر

            مسائل کے حل کے لیے اب بس ایک شے درکار ہے یعنی لائیو ٹی وی کیمرہ۔ کام لگ بھگ پورا ہوچکا۔ اب قتل کرنے یا ہونے کے لیے کسی خنجر کی، گھر اور دفتر کی چار دیواری کی پامالی کے لیے کسی روایتی نقب زن یا لوگوں کے اخلاق و عصمت کے تحفظ کے لیے کسی شرطے یا مذہبی پولیس کی حاجت نہیں۔الزام کو جرم ثابت کرنے کے لیے کوئی عدالت نہیں چاہیے۔ لوگوں کے کردار اور عادات سنوارنے کے لیے کسی ڈنڈہ بردار بریگیڈ کی ضرورت نہیں۔ان مسائل کے حل کے لیے اب بس ایک شے درکار ہے یعنی لائیو ٹی وی کیمرہ۔ ایسا نجات دھندہ ٹی وی کیمرہ جو بنیادی انسانی آزادیوں اور ان کے تحفظ کے قوانین سے نابلد کروڑوں لوگوں کو جہاں چاہے ہانک سکے۔بھلے آپ کے ٹی وی چینل کے دفتر میں کوئی پرندہ بھی تلاشی دیے بغیر پر نہ مار سکے لیکن آپ کو پورا پورا آسمانی حق ہے کہ کیمرے اور ڈی ایس این جی سے مسلح سولہ سترہ خواتین و حضرات پر مشتمل پروڈکشن ٹیم کے ساتھ صبح صبح کسی بھی پارک میں گھس کر اطمینان سے بیٹھے جوڑوں کا تعاقب کرسکیں۔ان سے اپنے چینل کا تعارف چھپا کر اور ایک کرائم سروے ٹیم کا روپ دھار کر نکاح نامہ طلب کرسکیں۔ کسی بھی برقعہ پوش لڑکی کو فاحشہ قرار دے سکیں۔ اس سے پوچھ سکیں کہ دن دہاڑے پارک میں اس لڑکے کے ساتھ بیٹھی کیا کررہی ہو۔اگر آپ کے ہاتھ میں کسی چینل کا کیمرا ہے تو آپ زمین پر خدا کے نائب ہیں۔ دن میں لوگوں کے اخلاق سنوارنے پر قادر ہیں تو رات کے ان اوقات میں قتل، ریپ، جنوں بھوتوں کے کمالات اور ہیجان انگیز زومعنی گفتگو پر مبنی رپورٹیں اور پروگرام دکھانے کے مجاز ہیں جب پورا خاندان جاگ رہا ہو۔ آپ کو کسی بھی پروگرام کے بارے میں یہ پیشگی وارننگ دینے کی بھی ضرورت نہیں کہ کس عمر تک کے بچوں کے لیے نامناسب یا مناسب ہے۔اگر وہ کہے کہ آپ کیمروں سے مسلح ہوکر اسے کیوں ہراساں کررہے ہیں تو آپ الٹا اس سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا وہ اپنے والدین سے پوچھ کر اس غیر مرد کے ساتھ یہاں گھوم رہی ہے۔ کیا یہ تمہارا بھائی ہے، شوہر ہے یا پھر عاشق ہے۔

            اگر وہ چیخنا شروع کردے کہ آپ کیمرا بند کر کے بات کریں ہوسکتا ہے میرے گھر والے بھی یہ پروگرام دیکھ رہے ہوں تو آپ جھوٹ بول سکتے ہیں کہ کیمرا بند ہو گیا ہے۔ اور پھر آپ ان سے اسی طرح تفتیش جاری رکھ سکتے ہیں جیسے کسی بھی پولیس لاک اپ میں ہوتی ہے۔اگر وہ یہ کہیں کہ ہم میاں بیوی ہیں تو آپ کھسیانے ہو کر دور جا سکتے ہیں مگر جاتے جاتے بھی فیصلہ سنا سکتے ہیں کہ اگر یہ میاں بیوی تھے تو کیمرے سے اتنا کیوں ڈر رہے تھے۔ یقیناً یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ ورنہ گھر کے بجائے پارک میں ملنے کی کیا ضرورت ہے۔آپ کسی بھی سرکاری و نجی دفتر میں کام کے اوقات کے دوران بلا اجازت کیمرے سمیت زبردستی گھس سکتے ہیں۔ کسی بھی گھر کو مشکوک قرار دے کر اس میں کود سکتے ہیں اور ہکا بکا عورتوں اور بچوں کے خوفزدہ اور متضاد جوابات سے ایک سکینڈل تخلیق کرسکتے ہیں۔

            کسی بھی فرقے کے خلاف لائیو فتوٰی لے کر اس کے ماننے والوں کی ہلاکت کا سامان بن سکتے ہیں۔ کسی کے منہ میں بھی اپنے الفاظ ٹھونس کر اسے کسی جنونی کے ہاتھوں مروا سکتے ہیں۔ کسی بھی تھانے میں بند کسی بھی انڈر ٹرائل ملزم سے پوچھ سکتے ہیں کہ تمہیں شرم نہیں آئی، تمہیں خدا کے عذاب کا کوئی خوف نہیں تھا ؟ تم اتنے سفاک درندے کیسے بن گئے ؟آپ اگر جوابدہ ہیں تو خود کو، پروگرام ریٹنگ کے بھوکے مالکان کو اور اپنے بزنس مینجر کو۔آپ کو اختیار ہے کہ کسی بھی خاندان کی تمام خواتین اور مردوں کو اپنے سٹوڈیوز کے رومن اکھاڑے میں دھکیل کر آپس میں بھڑوا دیں اور پھر لائیو کالز لے کر اس گھریلو جھگڑے کو ایک قومی مسئلہ بنا دیں۔اٹھارہ کروڑ لوگ تو آپ کے پروگرام آئڈیاز کے کمیلے میں بند ہیں۔ بھیڑ بکریوں سے بھلا کیا مشورہ لینا !! انہیں تو شکر گزار ہونا چاہیے کہ آپ روز تازہ بتازہ اطلاعاتی و اخلاقی چارہ فراہم کررہے ہیں۔ ایک آپ ہی تو ان کے چارہ گر ہیں۔

 (بشکریہ بی بی سی ڈاٹ کام)

٭٭٭