میری پیدائش ۷ نومبر ۱۹۵۴ء کو ایک مشہور ملہوترا خاندان میں ہوئی۔ ہمارا خاندان ۱۹۴۷ء میں پاکستان سے ہندوستان آیا تھا۔ سرگودھا ہمارا آبائی وطن تھا۔ تبادلۂ آبادی میں سخت مراحل سے گزرنے کی وجہ سے ہمارے خاندان میں بڑا تعصب پایا جاتا ہے۔ ہمارے خاندان کے اکثر لوگ (مجھے چھوڑ کر) آر ایس ایس اور بی جے پی سے جڑے ہوئے ہیں۔ میرے چچا زاد بھائی بی جے پی کے ایک بڑے لیڈر ہیں۔ دہلی میں قرول باغ میں ہمارا گھر ہے۔ ابتدائی تعلیم مقامی اسکول میں حاصل کرنے کے بعد میرا داخلہ سینٹ اسٹیفن کالج میں ہو گیا۔ وہیں سے میں نے بی ایس سی کیا اور پھر کیمسٹری میں ایم ایس سی کیا۔ مجھے ہمیشہ تعلیمی لائن پسند تھی۔ میرے والد تو زندگی بھر ٹیچنگ لائن سے وابستہ رہے، اس کے بعد میرا سلیکشن آکس فورڈ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے ہو گیا۔ وہاں پر مجھے ملازمت بھی مل گئی۔ ۶ سالہ دوران ملازمت میں میں نے ایجوکیشن میں ڈاکٹریٹ بھی مکمل کر لیا۔ والدین کی بیماری اور ان کے اصرار پر مجھے ہندوستان آنا پڑا۔ مجھے انگلینڈ میں دنیوی زندگی کے لیے بڑے اچھے مواقع تھے، مگر شاید اللہ کو مجھے ہدایت سے نوازنا تھا، اس لیے میں نہ چاہتے ہوئے بھی ہندوستان آ گیا۔ میں تقریباً دو سال والدین کی بیماری کی وجہ سے اسپتالوں میں رہا۔ آخری درجے کے علاج کی کوششوں کے باوجود موت نے اپنی سچائی منوائی اور ۳۱ اکتوبر ۱۹۸۹ء میں میرے والد کا انتقال ہوا اور ان کے ۹ روز بعد میری ماں بھی مجھے چھوڑ کر ان کے پاس چلی گئیں۔

آج کل نئے معاشرے میں بوڑھے والدین کو بوجھ سمجھنے کا عام رواج ہے اور ہمارے یہاں تو شاید یورپ سے بھی برا حال ہے۔ بوڑھے والدین کے لیے دنیا ہی دوزخ بن جاتی ہے۔ میرے اللہ کاشکر ہے کہ مجھے اپنے والدین سے حد درجہ محبت تھی اور مجھے ان کی خدمت کا موقع ملا۔ آخری بیماری میں تو میرا حال دیکھ کر لوگ حیرت کرتے تھے۔ اس تعلق کی وجہ سے مجھے انتقال کا بہت صدمہ ہوا اور میں نے سنیاس لینے کی سوچی۔ میں دو سال اسی خیال سے ہر دوار اور رشی کیش کے آشرموں میں رہا۔ ایک کے بعد آیک آشرم بدلتا رہا اور شانتی اور سکون کی تلاش کرتا رہا۔ مگر مجھے یہ محسوس ہوا کہ یہاں پر بس دھرم (مذہب) کے نام پر دھندے کا ایک بازار ہے۔ ان لوگوں کو چھوڑ کر جو دنیا کی بے چینی سے تنگ آ کر اور سب کچھ چھوڑ کر شانتی اور سکون کی تلاش میں یہاں بھٹک رہے ہیں۔ ہر آدمی اور ہر گرو (مذہبی رہنما) کا کچھ نشان ہے، اور وہ صرف لوگوں کو اپنا معتقد بنانا اور ان سے اپنا الو سیدھا کرتاہے۔ مجھے خیال ہوا کہ یہاں سے اچھا یہ ہے کہ میں سماجی دنیا میں جا کر اپنی صلاحیت سے لوگوں کو فائدہ پہنچاؤں۔ دو سال کی اس مدت میں مجھے مذہب سے بڑی مایوسی ہوئی۔ میں دہلی آ گیا۔

میں ایک روز ایک سیمینار میں شریک ہوا، جو ‘‘ہندوستانی سماج کی تعلیمی پسماندگی اور اس کا حل’’ کے عنوان سے وزارت فلاح و بہبود انسانی کے تحت کیا جا رہا تھا، جہاں پر جناب سوامی کلیان دیو جی مہمان خصوصی کے طور پر مدعو تھے۔ میرے ایک دوست نے ان سے میرا تعارف کرایا، اور تعلیم کے میدان میں میری بعض خدمات کا ذکر کیا۔ سوامی اور ان کے ٹرسٹ کی تعلیمی خدمات کا بھی انھوں نے مجھ سے تعارف کرایا۔ اگلے روز صبح کو پنڈارہ پارک میں ایک وزیر کی کوٹھی پر ہماری ملاقات طے ہو گئی اور دو گھنٹے کی ملاقات کے بعد میں نے سوامی جی اور ان کے ٹرسٹ سے وابستہ ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کے ساتھ جڑ کر میں ان کی ذاتی زندگی اور اصول پسندی سے بہت متاثر ہوا اور سماج میں رہ کر اس کی فکر کرنا اور تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لیے سلسلے میں فکر مندی میرے مزاج کے بہت قریب لگی۔ مگر ٹرسٹ میں ان کے کارندوں کی آپسی سیاست میرے لیے وہاں بھی گھٹن کا باعث رہی، اس کے علاوہ جب میں تنہائی میں بیٹھ کر ان سے مذہب اور خدا کے بارے میں بات کرتا تومجھے ایسا لگتا تھا کہ اتنے بڑے گرو (مذہبی رہنما) ہونے کے باوجود جیسے خود بھی کسی سچ کی تلاش میں ابھی غیر مطمئن اور پیاسے ہیں۔ جب بھی ان سے خدا او رمذہب کے بارے میں بات ہوتی،مجھے اس بات کا احساس اور زیادہ ہو جاتا۔ ان کے ٹرسٹ کے ایک ذمہ دار سے مجھے بالکل مناسبت نہیں ہو پائی۔ اس کی ان کے یہاں بہت زیادہ اہمیت تھی۔ اس خیال سے کہ مجھے ان کے کام میں انتشار کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے، میں نے وہ ٹرسٹ چھوڑ دیا۔ اور ۱۹۹۸ء میں دلی پبلک اسکول سے وابستہ ہو گیا۔ پہلے میں ایک برانچ میں پرنسپل رہا، پھر اس کے بعد مجھے ایڈوائزر کی پوسٹ پر اصرار کر کے مقرر کیا گیا۔ اس دوران اللہ کی رحمت نے مجھ پر ترس کھایا اور میرے مشرف باسلام ہونے کا واقعہ پیش آیا۔ اور مجھے مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب نے کچھ روز کے لیے GULF (خلیج) جانے کا مشورہ دیا۔ میں تین سال کے معاہدے کے تحت مسقط چلا گیا۔ وہاں سے میں اپنا معاہدہ الحمد للہ عزت اور خوش اسلوبی کے ساتھ مکمل کر کے آیا ہوں، اور جلد ہی واپس جا رہا ہوں۔

سچی بات یہ ہے کہ مجھے اسلام کی طرف کسی مسلمان یا کسی انسان نے دعوت نہیں دی، بلکہ مذہب حق اسلام نے خود مجھے دعوت دی۔ ہوا یہ کہ میں دلی پبلک اسکول کی ایک برانچ کے قیام کے لیے احمد آباد گیا۔ ایک ہفتے کے قیام کے بعد احمد آباد میل سے واپس لوٹا۔ گاڑی سات گھنٹے لیٹ تھی۔ دوپہر کے شاید ڈیڑھ دو بج رہے ہوں گے۔ میں گاڑی سے اترا تو میں نے دیکھا کہ قلی اکٹھے ہو کر ایک طرف کو جا رہے ہیں۔ مجھے غریبوں اور مزدوروں کے حقوق سے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے۔ مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید کوئی ایجی ٹیشن کرنے جا رہے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ہدایت مجھے بلا رہی تھی، ورنہ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ دس بیس قلی آنے والی گاڑی کی طرف اس طرح جاتے ہی ہیں، مگر اس وقت میرے خیال میں آیا کہ انھوں نے پلیٹ فارم پر ایک جگہ سے لوٹے اٹھائے، پانی بھرا اور پلیٹ فارم پر وضو کرنے لگے۔ مجھے دوپہر کو سب لوگوں کے اس طرح لوٹے اٹھانے اور پھر منہ ہاتھ دھونے سے حیرت ہوئی اور خیال ہوا کہ دیکھنا چاہیے کہ دوپہر کو ہاتھ منہ دھو کر یہ کیا کرتے ہیں؟ خوب اچھی طرح مسواک وغیرہ کر کے، انھوں نے رسیاں باندھ کر نماز کے لیے جگہ بنائی ہوئی تھی، وہاں چٹائیاں بچھائیں اور سب لائن میں کھڑے ہو گئے۔ ایک آدمی آگے کھڑا ہوا، باقی سب بالکل سیدھی صف بنا کر کھڑے ہو گئے اور اس طرح صف کو سیدھا کیا کہ ایک انچ کوئی آگے پیچھے ہوتا تو برابر والا اس کو ٹھیک کھڑا ہونے کو کہتا۔ ایک کے اللہ اکبر کہنے سے سب ہاتھ میں ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے۔ اب مجھے سمجھ میں آیا کہ یہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔ بوجھ ڈھونے والی قوم کو میں دیر تک جماعت پوری ہونے تک دیکھتا رہا۔ مجھے خیال ہوا کہ ایسی جاہل قوم میں ایسا نظم اور ڈسپلن جس مذہب نے پیدا کیا، مجھے ضرور اس کو پڑھنا چاہیے۔

میں اس جذبے سے اردو بازار پہنچا ۔ میرے علم میں تھا کہ اردو بازار اردو اور اسلامی کتابوں کا بازار ہے۔ ایک کتب خانے پر گیا تو انھوں نے مجھے کتب خانہ انجمن ترقی اردو جانے کا مشورہ دیا۔ وہاں پہنچا تو انھوں نے مجھے منظور نعمانی صاحب کی کتاب ‘‘اسلام کیا ہے؟’’ کا انگریزی ترجمہ "What Islam is?" اور سید سلمان ندویؒ کی "The Prophet Mohammad" پڑھنے کا مشورہ دیا۔ میں خرید کر لے آیا۔ مجھے ان دونوں کتابوں نے اسلام سے بالکل قریب کر دیا، بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ ان دونوں کتابوں نے مجھے ایک حد تک مسلمان بنا دیا تو شاید یہ بات بھی صحیح ہو، اس کے بعد مجھے یہ خیال ہوا کہ مجھے اسلام کواس کی اصل سے پڑھنا چاہیے۔ میں قرآن پاک کے ہندی اور انگریزی ترجمے اردو بازار سے لے کر آیا۔ قرآن پاک کو پڑھ کر مجھے احساس ہونے لگا کہ اسلام میری کھوئی ہوئی مایا (پونجی) ہے اور جیسے جیسے میں قرآن پاک کو پڑھتا گیا، میرے اندر کی اندھیری دنیا جگمگانے لگی، اور مجھے ایسا لگا کہ By Nautre (فطرتاً) میں مسلمان ہی پیداکیا گیا ہوں۔ جنت دوزخ کے حالات پڑھ کر مجھے یہ بھی خیال ہوا کہ مجھے فیصلہ کرنے میں جلدی کرنا چاہیے۔ اگر اسلام اورایمان کے بغیر میری موت آ گئی تو میرے لیے ہلاکت ہے۔ میں نے اس کے لیے تلاش شروع کی، میں دہلی کی شاہی جامع مسجد امام بخاری کے پاس گیا، مگر انھوں نے میرے ساتھ بہت بے رخی کا معاملہ کیا۔ میرے مالک کا مجھ پر کرم تھا کہ میرے لیے خود اسلام نے اپنا دروازہ کھولا۔ کوئی مسلمان اس کا ذریعہ نہیں بنا تھا۔ اب میرے لیے قرآنی اسلام اور مسلمانوں کے اسلام میں فرق کرنا مشکل کام نہیں تھا۔ اگر میں مسلمانوں کے اسلام سے متاثر ہو کر اسلام کی طرف آتا تو اما م صاحب کے پاس حاضری ہی میرے لیے رکاوٹ بننے کے لیے کافی تھی۔ مگر میں نے تلاش جا ری رکھی، میں جماعت اسلامی ہند کے دفتر بھی گیا۔ وہ میرا تعارف سن کر شاید شک میں پڑ گئے اور میرے بڑے بھائی جو وزیر ہیں، ان کی رشتے داری ان کے لیے جھجک کا باعث ہوئی۔ میں ۶ ماہ تک شاید پچاس لوگوں کے پاس گیا کہ کوئی مجھے مسلمان کر لے، مگر نہ جانے کیوں کوئی مجھے کلمہ نہ پڑھوا سکا۔ اس دوران میرا مطالعہ جاری رہا اور مجھے روز بروز یہ فکر اور خوف بڑھتا گیا کہ کہیں میں اس حال میں نہ مر جاؤں، ور شاید میں اس نعمت کا اہل نہیں ہوں۔ بار بار میں تنہائی میں اپنے مالک سے فریاد بھی کرتا : میرے مالک! آپ ہی مجھے مسلمان کر لیجیے۔ اس دوران میری بڑی بہن کا انتقال ہو گیا۔ مجھے کریا کرم (آخری رسوم) میں شریک ہونا پڑا۔ میں نے مسلمان ہو کر پہلی بار اپنی بہن کو جلتے دیکھا تو میں بیان نہیں کر سکتا کہ مجھ پر کیا گزری۔ میرے والدین کے بعد میری بڑی بہن دوزخ کی آگ کی طرف چلی گئی، اب اس کے بعد عمر کے لحاظ سے میرا نمبر تھا۔ میری ہمت ٹوٹنے لگی۔ ساری رات مجھے بے چینی میں نیند نہیں آئی۔ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ بڑی آہ و زاری سے دعا کرتا رہا۔ میرے مالک! مجھے ایمان کے بغیر موت نہ آئے۔

اگلی صبح کو مجھے خیال آیا کہ کتب خانہ انجمن ترقی اردو والوں سے بھی مشورہ کرنا چاہیے۔ شاید وہ کچھ راہ نکالیں۔ ان کے پاس گیا اور اپنی پوری کہانی سنائی۔ انھوں نے کہا: آپ فوراً پھلت چلے جائیں اور مولوی کلیم صدیقی صاحب سے ملیں۔ انھوں نے پھلت کا پتا بتایا۔ میں فوراً کتب خانے سے اپنی گاڑی سے پھلت پہنچا۔ ۲۴ مئی ۲۰۰۱ کو تقریباً گیارہ بجے میں پھلت پہنچا۔ مولوی کلیم صاحب گھر کے اندر خود ہی کسی سفر کے لیے نکل رہے تھے۔ گاڑی تیار تھی۔ بیٹھک میں ان سے ملاقات ہوئی۔ کھڑے کھڑے میں نے ان سے چڑچڑے پن سے کہا: میں مسلمان ہونے آیا ہوں، اگر آپ کر سکتے ہوں تو بتائیں ورنہ جواب دیں۔ مولوی صاحب اس جملے سے پوری داستان سمجھ گئے۔ انھوں نے کہا: اگر آپ کھڑے کھڑے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونا چاہتے ہیں تو کھڑے کھڑے پڑھ لیں اور اگر کرسی پر بیٹھ کر پڑھنا چاہتے ہیں تو بیٹھ جائیں۔ میں بیٹھ گیا۔ انھوں نے مجھے کلمہ پڑھوایا اور میرا نام میرے نام کی نسبت سے سعید رکھا۔ مولوی صاحب نے مجھے دلی مبارک باد دی اور گلے لگایا۔ پانی منگوایا اورکہنے لگے: اگر آپ برا نہ مانیں تو اپنا تعارف کرا دیں اور یہ بتائیں کہ آپ کو اسلام کی کس نے دعوت دی ہے؟ میں نے تعارف کرایا اوربتایا کہ مجھے اسلام نے خود دعوت دی ہے۔ مولوی صاحب نے پورا حال سن کر میری تسلی کے لیے گویا انھوں نے میرا مذاق اڑایا اور کہا: ڈاکٹر صاحب آپ سائنس دان ہیں۔ مذہب اسلام کو پڑھ کر آپ نے یہ فیصلہ کیا۔ آپ نے اچھی طرح سمجھا ہو گا کہ اسلام رسموں کا مذہب نہیں ہے۔ ایمان اللہ اور بندے کے درمیان سچے رشتے کا نام ہے۔ جب حق سمجھ کر آپ نے اس کو مان لیا، دل کی گہرائی سے تسلیم کیا اور باپ دادا کی بت پرستی اور شرک کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تو آپ اللہ کے نزدیک مسلمان ہو گئے۔ میں نے جو کلمہ آپ کو پڑھوایا ، محض آپ کی تسلی اور آپ جیسے سچے اور گناہوں سے پاک مسلمان کے ساتھ کلمہ پڑھنے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے پڑھوایا ہے، ورنہ مسلمان تو آپ چھ ماہ پہلے ہو گئے تھے۔ انھوں نے میرا اس طرح مذاق اڑایا کہ میرے سارے جگہ جگہ دھکے کھانے کے زخموں کا علاج ہو گیا اور اب میں ان لوگوں کے بجائے جو مجھے کلمہ پڑھوانے سے کتراتے رہے تھے، اپنی حماقت پر خود ہی ہنسا۔ مولوی صاحب کے یہاں پرتکلف ناشتہ ہوا۔ انھوں نے اپنے سفر کو ایک گھنٹہ مؤخر کیا اور جن لوگوں نے مجھے کلمہ پڑھوانے سے جھجک محسوس کی تھی، حالات کا تقاضا بتا کر ان کی صفائی کرتے رہے، او رمجھے اس پر آمادہ کرتے رہے کہ مسلمانوں کا اسلام پیاسی اور دکھیاری انسانیت کے قول حق کے راستے میں رکاوٹ و حجاب ہے۔ ایسے میں اب زیادہ ضرورت ہے کہ قرآنی اسلام کو سمجھنے اور ماننے والے آپ جیسے قرآنی مسلمان ، لوگوں کو حقیقی اسلام کا اپنے قول اور عمل سے تعارف کرائیں۔ انھوں نے مجھے درد مندی سے دعوت دی اور چلتے چلتے مجھ سے وعدہ ، بلکہ عہد لیا کہ دنیا کی ہدایت کے لیے میں کام کروں گا۔ مولوی صاحب نے اصرار کیا کہ میں کھانا کھا کر جاؤں، اگرچہ مولوی صاحب کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کو میرا دل چاہ رہا تھا، میں نے ان کے سفر کی وجہ سے ان سے اجازت لی اور خوشی خوشی واپس لوٹا۔

میں اپنی اس خوشی اور سفر کی کامیابی کے مزے کی حالت بتا نہیں سکتا۔ مجھے ایسا لگا کہ جیسے آج ہی میں پیدا ہوا ہوں۔ میں راستے بھر سوچتا رہا کہ اگر پوری دنیا کو ایک ملک بنا کر مجھے اس کا بادشاہ بنا دیا جاتا توشاید میرے لیے اتنی خوشی کی بات نہ ہوتی، اس لیے کہ میں آج اپنے مالک کو گویا راضی کر کے لوٹا تھا۔

دہلی واپس لوٹا تو میں نے اپنی بیوی کو صاف صاف بتا دیا۔انھوں نے گھر والوں کو بتا دیا او رمیرے گھر میں کہرام مچ گیا۔ میرے بڑے بھائی نے جو وزارت کی کرسی پر تھے، بڑے لالچ دیے اور فیصلہ بدلنے پر زور دیا اور فیصلہ نہ بدلنے پر سخت وارننگ بھی دی۔ میں نے دو ٹوک ان کو اپنا فیصلہ سنا دیا۔ انھوں نے مجھے پارٹی اور ملک کے دو بڑے ذمہ داروں بلکہ وقت کے سب سے بڑے ذمہ داروں سے ملوایا۔ انھوں نے مجھے ملک کی وزارت کی آفر دی۔ میں نے وہاں بھی اپنا دوٹوک فیصلہ سنا دیا اور جب وہ زور دیتے رہے او رمجھے چھوڑنے کو تیار نہ ہوئے تو میں سوچنے کو کہہ کر جان چھڑا کر چلا آیا۔ ظاہر ہے کہ ا س مبارک فیصلے کے خلاف کچھ سوچنے کے تصور سے بھی کانپ جاتا ہوں۔ میں نے مولوی کلیم صدیقی صاحب کو ان ملاقاتوں کی اطلاع دی۔ انھوں نے ایک دو روز غور و فکر کے بعد یہ مشورہ دیا کہ میں دلی پبلک اسکول کو چھوڑ کر کچھ روز کے لیے سعودی عرب یا گلف کے کسی ملک میں جا کر رہوں۔ میں نے بھی اس رائے کو بہتر سمجھا۔ ایک انگلینڈ کے اسکول میں انٹرنیٹ پراپلائی کر دیا اور نیٹ پر ہی انٹرویو ہوا اور ایک مہینے میں ہی مسقط تین سال کے لیے چلا گیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ میرا یہ وقت بہت اچھا گزرا۔

میں نے تین سال مسقط میں گزارے۔ صرف اور صرف دعوت کو مقصد بنا کر کام کیا۔ عرب نوجوانوں کو میں نے زندگی کا مقصد سمجھ کر جینے کے لیے تیار کیا اور اپنے ساتھیوں اورر فقا میں کام کیا۔ میرے کالج کے پرنسپل نے جو فرانس کے رہنے والے تھے، الحمد للہ اسلام قبول کیا اور انھوں نے پیرس میں جا کر ایک دعوتی ادارہ قائم کیا۔ ہمارے کالج کے چھ استاد اور تین ملازمین نے اسلام قبول کیا، جن میں تین ہندوستانی، تین امریکی اور تین لوگ لندن کے تھے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ مع خاندن کے مسلمان ہوئے۔ تعداد تو زیادہ بڑی نہیں ہوئی، مگر اس بات پر میں اللہ کا حد درجہ شکر ادا کرتا ہوں کہ یہ سب لوگ شعوری طور پر قرآنی مسلمان ہیں اور جس کالج میں میں رہا، وہاں پر ایسی دعوتی فضا بن گئی کہ ہفتہ واری پروگراموں میں میرا دعوتی لیکچر بڑے شوق سے سنا جاتا رہا۔ میرے کالج کے پچاسوں شاگردوں کی الحمد للہ ایسی ذہن سازی ہو گئی ہے کہ وہ ان شاء اللہ جب تک زندہ رہیں گے، دعوت کو مقصد بنا کر جئیں گے۔ ان میں اکثر برطانیہ او رمغربی ملکوں میں ہیں۔ دو جاپان اور دو اٹلی میں دعوتی کام کر ہے ہیں۔ اصل میں میرے ساتھ بھی مسئلہ تھا کہ میں نے اس وقت خود بھی پڑھنے کی کوشش کی۔ الحمد للہ قرآن شریف پڑھا اور اردو تعلیم بھی اب میری اچھی خاصی ہو گئی ہے۔

مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب فجی، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں دعوت کے لیے بڑے فکر مند ہیں اور وہاں کے حالات سے بہت پرامید ہیں۔ وہاں پر ان سے وابستہ کچھ لوگ کام کر رہے ہیں۔ مولوی صاحب کا خیال ہے کہ مغربی ملکوں خصوصاً امریکا کی دادا گیری اور ظالمانہ رویے سے مشتعل نوجوان مسلمانوں کی جہادی تحریکوں سے اسلام کی رحم دلانہ اور سو فی صد رحمت بھری تصویر مسخ ہو کر رہ گئی ہے، اس لیے کہ جذبات میں یہ نوجوان اسلامی اصولوں کونظر انداز کر کے ، مغرب کی دیوالیہ ہو چکی انسانیت کے اسلام کی طرف آنے میں رکاوٹ اور حجاب بن رہے ہیں، اس لیے ان ملکوں میں دعوت کی ضرورت بھی زیادہ ہے اور یہاں امیدیں بھی زیادہ ہیں۔ اللہ کرے میں مولوی صاحب کی امیدوں کو پورا کرنے کا ذریعہ بن سکوں۔

میری زندگی خود مسلمانوں کے لیے پیغام اور سامان عبرت ہے۔ میری یہ بات یقینا بڑی کڑوی سچائی ہو گی کہ اگر مسلمان سچائی اور حق سے دیوالیہ انسانیت کو دعوت کاحق ادا نہیں کر سکتے توکم از کم قرآنی اسلام او ردنیا کے درمیان رکاوٹ او رحجاب نہ بنیں اور اسلام اور انسانیت کے درمیان سے ہٹ جائیں۔

غیر مسلموں کو عام طور سے جن مسلمانوں سے واسطہ پڑتا ہے، ان میں سے اکثر وہ ہیں جو قرآنی اسلام کے لیے حجاب ہیں۔

٭٭٭