منکر خدا سے مکالمہ

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : فروری 2012

ہشام بن حکم،حضرت جعفر صادقؒ کے بہترین شاگرد تھے۔ایک دن ایک منکر خدا نے ان سے ملاقات کی اور پوچھا: ‘‘کیا تمہارا خدا ہے’’۔ہشام: ‘‘ہاں’’۔

عبداللہ: ‘‘آیا تمہارا خدا قادر ہے ؟ ’’

ہشام: ‘‘ہاں میرا خدا قادر ہے اور تمام چیزوں پر قابض بھی ہے’’۔

عبد اللہ: ‘‘کیا تمہارا خدا ساری دنیا کو ایک انڈے میں سمو سکتا ہے جب کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ ہی انڈا بڑا ہوا۔؟ ’’

ہشام: ‘‘اس سوال کے جواب کے لئے مجھے مہلت دو’’۔

عبداللہ: ‘‘میں تمہیں ایک سال کی مہلت دیتا ہوں’’۔

ہشام یہ سوال سن کر جعفرؒ صادق کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا: ‘‘اے فرزند رسول !،عبد اللہ دیصانی نے مجھ سے ایک ایسا سوال کیا جس کے جواب کے لئے صرف اللہ تعالٰی اور آپ کا سہارا لیا جا سکتا ہے’’۔

جعفر صادقؒ ‘‘اس نے کیا سوال کیا ہے ؟ ’’

ہشام: ‘‘اس نے کہا کہ کیا تمہارا خدا اس بات پر قادر ہے کہ اس وسیع دنیا کو ایک انڈے کے اندر سمودے جب کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ انڈا بڑا ہو ؟ ’’

جعفر صادقؒ : ‘‘اے ہشام! تمہارے پاس کتنے حواس ہیں ؟ ’’

ہشام: ‘‘میرے پانچ حواس ہیں’’۔(سامعہ ،باصرہ، ذائقہ ،لامسہ اور شامہ )

جعفرؒ : ‘‘ان میں سب سے چھوٹی حس کون سی ہے ؟ ’’ہشام: ‘‘باصرہ’’۔

جعفرؒ : ‘‘آنکھوں کا وہ ڈھیلا جس سے دیکھتے ہو، کتنا بڑا ہے ؟ ’’ہشام: ‘‘ایک چنے کے دانے کے برابر یا اس سے بھی چھوٹا ہے’’۔

جعفرؒ : ‘‘اے ہشام ! ذرا اوپر اور سامنے دیکھ کر مجھے بتاؤ کہ کیا دیکھتے ہو ؟’’

ہشام نے دیکھا اور کہا: ‘‘زمین، آسمان ،گھر، محل ،بیابان ،پہاڑ اور نہروں کو دیکھ رہا ہوں’’۔

جعفرؒ : ‘‘جو خدا اس بات پر قادر ہے کہ اس پوری دنیا کو تمہاری چھو ٹی سے آنکھ میں سمو دے وہی اس بات پر بھی قادر ہے کہ اس دنیا کو ایک انڈے کے اندر سمودے اور نہ دنیا چھوٹی ہو نہ انڈہ بڑا ہو۔ہشام نے جھک کر جعفر صادقؒ کے ہاتھ اور پیروں کا بوسہ دیتے ہوئے کہا: ‘‘اے فرزند رسول ! بس یہی جواب میرے لئے کافی ہے’’۔

(اس بات پر توجہ رہنی چاہئے کہ خدا کی قدرت محال چیزوں سے تعلق نہیں رکھتی۔اس جواب میں ان کا مقصد در اصل عوام کو قانع کرنا تھا جیسے اگر کسی سے پوچھا جائے کہ کیا انسان اڑسکتا ہے ؟اور وہ اس کے جواب میں کہے: ‘‘ہاں اڑ سکتا ہے وہ ایک ہوائی جہاز بنائے اور اس میں بیٹھ کر فضا میں پرواز کر سکتا ہے’’۔جعفرؒ ،آنکھ کے ڈھیلے کی مثال سے یہ بتانا چاہتے تھے کہ اگر تم قدرت خدا سمجھنا چاہتے ہو تو اس طرح سمجھو نہ کہ غیر معقول مثال کے ذریعہ کہ کیا خدا انڈہ میں پوری دنیا سمو سکتا ہے جب کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ انڈہ بڑاہو یا یہ بھی کوئی محال کام نہیں ہے اور خدا اس بات پر قادر ہے اس کے علاوہ کوئی دوسری صورت محال ہے اور خدا محالات عقلیہ پر قدرت نہیں رکھتا یہ توایسا ہی ہوگا کہ ہم سوال کریں کہ کیا خدا اس بات پر قادر ہے کہ وہ دو اور دو چار کے بجائے پانچ کر دے۔اس طرح کا سوال سراسر غلط ہے، اس مسئلہ کی مکمل تحقیق اور یہ کہ خدا کی قدرت محال چیزوں سے متعلق ہوتی ہے یا نہیں اس سلسلہ میں مختلف کلامی اور فلسفی بحثوں پر مشتمل کتابوں کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔ )

ہشام اپنے گھر آئے اور دوسرے ہی دن عبد اللہ ان سے جاکر کہنے لگا:’’۔میں سلام عرض کرنے آیا ہوں نہ کہ اپنے سوال کے جواب کے لئے’’۔

ہشام نے کہا: ‘‘تم اگر اپنے کل کے سوال کا جواب چاہتے ہو تو اس کا جواب یہ ہے، اس کے بعد آپ نے جعفرؒ کا جواب اسے سنا دیا۔

عبداللہ دیصانی نے فیصلہ کیا کہ خود ہی جعفرؒ کی خدمت میں پہنچ کر اپنے سوالات پیش کرے۔

وہ ان کے گھر کی طرف چل پڑا، دروازے پر پہنچ کر اس نے اجازت طلب کی اور اجازت ملنے کے بعد گھر کے اندر داخل ہوگیا۔اندر جانے کے بعد وہ آپ کے قریب آکر بیٹھ گیا اورا پنی بات شروع کرتے ہوئے کہنے لگا:

‘‘اے جعفر بن محمد مجھے میرے معبود کی طرف جانے کا راستہ بتا دو’’۔

جعفرؒ نے پوچھا:‘‘تمہارا نام کیا ہے ؟ ’’

عبداللہ باہر نکل گیا اور اس نے نام نہیں بتایا۔ اس کے دوستوں نے اس سے کہا:

تم نے اپنا نام کیوں نہیں بتایا؟’’

اس نے جواب دیا:‘‘میں اگر اپنا نام عبد اللہ (خدا بندہ) بتاتا تو وہ مجھ سے پوچھتے کہ تم جس کے بندہ ہو ، وہ کون ہے ؟

عبد للہ کے دوستوں نے کہا:

‘‘جعفرؒ کے پاس واپس جاؤاور ان سے یہ کہو آپ مجھے میرے معبود کا پتہ بتائیں اور میرا نام نہ پوچھیں’’۔عبد اللہ واپس گیا اور جا کر آپ سے عرض کیا:‘آپ مجھے خدا کی طرف ہدایت کریں مگر میرا نام نہ پوچھیں’’۔

جعفرؒ نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے فرمایا:‘‘وہاں بیٹھ جاؤ’’۔

عبداللہ بیٹھ گیا۔ اسی وقت ایک بچہ ہاتھ میں ایک انڈا لئے کھیلتا ہوا وہاں پہنچ گیا ، جعفرؒ نے بچے سے فرمایا:لاؤ انڈہ مجھے دے دو’’۔

آپ نے انڈے کو ہاتھ میں لے کر عبد اللہ کی طرف دیکھا اور فرمایا: ‘‘اے دیصانی !اس انڈے کی طرف دیکھ جو ایک چھلکے سے ڈھکا ہوا ہے اور چند جھلیوں میں مقید ہے۔

۱۔ موٹی جھلی۔

۲۔ موٹی جھلی کے نیچے نازک اور پتلی جھلی پائی جاتی ہے۔

۳۔ اور نازک اور پتلی جھلی کے نیچے پگھلی ہوئی چاند ی(انڈہ کی سفیدی) ہے۔

۴۔ اس کے بعد پگھلا ہوا سونا (انڈے کی زردی) ہے مگر نہ یہ اس پگھلی ہوئی چاندی سے ملتا ہے اور نہ وہ پگھلی ہوئی چاندی اس سونے میں ملی ہوتی ہے بلکہ یہ اپنی اسی حالت پر باقی ہے نہ کوئی اس انڈے سے باہر آیا ہے جو یہ کہے کہ میں نے اسے بنایا ہے اور نہ ہی باہر سے کوئی اندر ہی گیا ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ میں نے اسے تباہ کیا ہے ،نہ یہ معلوم کہ یہ نر کے لئے ہے یامادہ کے لئے ۔اچانک کچھ مدت کے بعد یہ شگافتہ ہوتا ہے اور اس میں سے ایک پرندہ مور کی طرح رنگ برنگ پروں کے ساتھ باہر آجاتا ہے کیا تیری نظر میں اس طرح کی ظریف وباریک تخلیقات کے لئے کوئی مدبر و خالق موجود نہیں ہے ؟ ’’

عبداللہ دیصانی نے یہ سوال سن کر تھوڑی دیر تک سر جھکائے رکھا (اس کے قلب میں ایمان روشن ہو چکا تھا) اور پھر اس نے بلند آواز میں کہا: ‘‘ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی دوسرا معبود نہیں ہے وہ وحدہ لاشریک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے رسول ہیں اور، میں اپنے باطل عقیدہ سے توبہ کرتا ہوں اور پشیمان ہوں۔

٭٭٭