رباط اور ریاض

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : دنیائے اسلام

شمارہ : فروری 2012

رباط

            رباط مراکش کا دارالحکومت ہے اور یہ ایک اہم اور بڑی بندرگاہ ہے اور ایک تسلیم شدہ انڈسٹری ہے۔ جس میں شامل کپڑے تیار کرنا۔ کھانے پینے کی اشیا اور بلڈنگ میٹریل وغیرہ تیار کرنے کے کارخانے ہیں۔

محمد V یونیورسٹی اسی شہر میں ہے جو 1957ء میں قائم کی گئی۔ اس یونیورسٹی میں قومی، موسیقی، ڈانس، فنون لطیفہ، زرعی تعلیم اور Applied Economics اور پبلک اینڈمنسٹریشن کے علاوہ ایک آثار قدیمہ کا عجائب گھر بھی ہے۔ جسے لوگ دور دور سے دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔

اس علاقہ میں جو پرکشش ترین چیز ہے وہ ہے بارھویں صدی کا حسن ٹاور، اس مینار کی بلندی 180 فٹ ہے۔مسجد یعقوب المنصور کے کئی حصے1160-99ء سے اب تک موجود ہیں۔ جن میں بہت سے خاصے خستہ حالت میں موجود ہیں اور تقریباً ختم ہونے والے ہیں۔ اس کا بندوبست اور انتظام سنبھالنے کے لیے بارھویں صدی سے فوجی انتظامیہ بنائی

گئی۔ جس کا نام عربی رباط رکھا گیا۔

 مراکش 1956ء میں آزاد ہوا تو رباط کو مراکو کا دارالخلافہ بنا دیا گیا۔ مراکش ایک مسلم ملک ہے۔ یہاں کی سرکاری زبان عربی ہے اور اس کے علاوہ فرنچ اور ہسپانوی بھی بولی جاتی ہے۔مراکش کی نیشنل لائبریری رباط ہی میں ہے جو 1920ء میں قائم ہوئی تھی۔

گندم اور جو مراکو کی بڑی فصلیں ہیں۔ کھجوریں اور انگور پھلوں میں اہم پیدوار کا درجہ رکھتے ہیں۔یہاں کی کرنسی کا نام درہم ہے جو11.30 امریکن ایک ڈالر کے برابر ہے۔

ریاض

            ریاض سعودی عرب کا بڑا اور مشہور شہر نجف کے خطے میں واقع ہے۔ یہ سعودی عرب کا دارالحکومت بھی ہے اور اپنے ہی ہم نام صوبے کا ایک شہر ہے۔ سطح سمندر سے بلندی پر وادی آسان کے قریب واقع ہے۔ ریاض کو 1932ء میں باقاعدہ سعودیہ کا دارالحکومت قرار دے دیا گیا؂جب 1930ء میں یہاں پر تیل کے وسیع ذخائر برآمد ہوئے تو یہ چھوٹا سا گاؤں جیسا قصبہ ایک خوبصورت اور جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور شہر بن گیا۔ نئے ہوٹلوں، ہسپتالوں، عمارتوں اور اسکولوں نے اس کچی آبادی جیسے شہر کو ایک نئی جدت بخش دی۔ریاض ریل کے ذریعے سے خلیج فارس کے ساحلی علاقہ سے جْڑا ہوا ہے اور ہائی وے کے ذریعے ملک کے دوسرے علاقوں سے مربوط ہے۔1940ء کے آغاز میں ملکی تیل کی پیدوار سے جو زرمبادلہ اکھٹا ہوتا تھا اْس سے اپنی بیشتر ضروریات کو پوری کرتا تھا۔ بعد میں مزید ذرائع بھی تلاش کیے گئے اور ملکی ترقی میں تیزی پیدا کی جس میں ریاض کافی حد تک حصہ دار ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ شہر ریگستان میں ایک سرسبز مقام اور زندگی سے بھرپور حیثیت رکھتا ہے۔ریاض کا شمار آبادی کے ریشو بڑھانے کے حوالے سے دنیا کے چند ایک شہرو ں میں ہوتا ہے۔ یہاں کی اقتصادیات کا دارومدار زیادہ تر تعمیرات، فوڈ پراسیسنگ اور پیٹرولیم کی پیداوار پر ہے۔مقامی گورنمنٹ نے بیسویں صدی کی بیشتر مٹی سے بنی ہوئی عمارتوں کی جگہ نئی عمارتیں تعمیر کروائی ہیں اور کئی تاریخی جگہوں اور عمارتوں کو نئے سرے سے مرمت کرکے اپنی روایات کو زندہ رکھا ہے۔ اس میں انیسویں صدی کا Musmak Fort خاص طور پر قابل ذکر ہے۔

1902ء میں جب Musmak Fort پر عبدالعزیز بن سعد نے حملہ کیا تو ریاض کو اپنے قبضے میں لے کر سعودیہ کے حلقے میں داخل کردیا ، اْس کی اس فتح کے نتیجے میں سعودیہ میں 1932ء میں بادشاہت قائم ہوئی تو ریاض کو بادشاہت کا دارالحکومت قرار دیا گیا۔ اس کی مخالفت بھی ہوئی کیونکہ یہ جدہ کے مقابلہ میں نہ تو ترقی یافتہ تھا اور نہ ہی اہم۔ مگر اب یہ سعودی عرب کاسب سے بڑا ، جدید اور اہم شہر ہے۔ یہاں تیل صاف کرنے کی ریفائنری اور پیٹرولیم اور پلاسٹک کی اہم صنعتیں ہیں۔ ایک انٹرنیشنل ائیر پورٹ ہے۔ ریاض یونیورسٹی 1957ء میں قائم کی گئی۔ اس کے علاوہ 1974ء میں بننے والی اسلامک یونیورسٹی بھی یہیں ہے جسے امام محمد ابن سعود کا نام دیا گیا۔ اس شہر میں پاک و ہند سے بہت سے لوگ کاروباری اور ملازمتوں کے سلسلہ میں جاتے ہیں اور اپنے اپنے ملکوں کے لیے زرمبادلہ بھجواتے ہیں ۔