نظم


مضامین

  موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں تب کہیں جا کر سکوں تھوڑا سا پا جاتی ہے ماں   فکر میں بچوں کی کچھ اس طرح گھل جاتی ہے ماں نوجواں ہوتے ہوئے بھی بوڑھی نظر آتی ہے ماں   اوڑھتی ہے خود تو غربتوں کا بوسیدہ کفن چاہتوں کا ...


  اَحوالِ واقعی کی وضاحت نہ کر سکے اپنے ہی دوستوں کی شکایت نہ کر سکے   تبدیل ہو نہ جائے مُرادِ سخن وَراں اس ڈر سے کوئی بات روایت نہ کر سکے   دیکھا ہے سرفرازؔ و سلیمؔ و امینؔؒ کو بَشّارِؔ دل رُبا کی زیارت نہ کر سکے   ا...


  سر بزم اپنی عداوتیں تمہیں یاد ہوں کہ نہ یاد ہوں وہ دبی دبی سی شکایتیں تمہیں یاد ہوں کہ نہ یاد ہوں   وہ ٹکے ٹکے پہ لڑائیاں ، وہ مزے مزے کی دہائیاں وہی بچپنے کی شرارتیں تمہیں یاد ہوں کہ نہ یاد ہوں   مرے انتظار میں ر ات بھر کھا...


  اے موجِ کرم مجھ کو پھر سوئے حرم لے چل درد و غمِ فرقت سے آنکھیں ہوئیں نم، لے چل   مشتاقِ حضوری کو شایانِ حضوری کر ایک عاجز و خاطی پر ہو جائے کرم، لے چل   ہر لحظہ برستی ہے رحمت کی گھٹاجس پر بہتا ہے جہاں ہر دم دریائے نعیم، ل...


  سوچاں میں سوچوں اور کچھ لکھوں یہ اکثر سوچتی ہوں میں اِسی سوچ میں الفاظ کی تلاش میں کسی مدد کی آس میں نہ جانے کب سے میں خاموش سوچتی ہوں  اور پھر لوٹتی ہوں کہ سوچوں اور کچھ لکھوں ٭٭٭ مجبوریاں حالات نے مینوں م...


  تمہیں سے اے مجاہدو جہان کا ثبات ہے  تمہاری مشعل وفا فروغ شش جہات ہے  تمہاری ضو سے پرضیا جبین کائنات ہے  کواکب بقا ہو تم جہاں اندھیری رات ہے  شہید کی جو موت ہے ، وہ قوم کی حیات ہے  یہ نکتہ بینظیر ہے معارف و نکات میں  کہ فرق ہ...


  آنی جانی چیز ہیں خوشیاں چلتی پھرتی چھانو ہے ارماں   منگنی بیاہ برات اور رخصت میل ملاپ سہاگ اور سنگت   ہیں دو دن کے سب بہلاوے آگے چل کر ہیں پچھتاوے   ریت کی ایک دیوار تھی دنیا اوچھے کا سا پیار تھی دنیا   ہار...


  جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے اگتے ہیں تہ سایہ گل خار غضب کے  یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی اس کے تن خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں   محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے جمہور سے سلطانی ...


  اور نہ در بہ در پھرا، اور نہ آزما مجھے بس میرے پردہ دار بس ،اب نہیں حوصلہ مجھے   صبر کرو محاسبو ، وقت تمہیں بتائے گا دہر کو میں نے کیا دیا،دہر سے کیا ملا مجھے   ذات و حیات و کائنات،بے سرو پا و بے ثبات بے سروپا وبے ثبات شے...


  سنا ہے سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھرجائے تو وہ حملہ نہیں کرتا سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسی مان لیتی ہیں ہوا...


  تم جب آؤ گی تو کھویا ہوا پاؤ گی مجھے میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں   میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں   ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر ان میں اک رمز ہے جس رمز ک...


  یہ دل ہے مرا یا کسی کٹیا کا دیا ہے بجھتا ہے دم صبح تو جلتا ہے سر شام   اک درد سا پہلو میں مچلتا ہے سرشام آکاش پہ جب چاند نکلتا ہے سر شام   کچھ دیر شفق پھولتی ہے جیسے افق پر ایسے ہی مرا حال سنبھلتا ہے سرشام   چھٹ جات...