فیض احمد فیضؔ


مضامین

  مری چشم تن آساں کو بسیرت مل گئی جب سے بہت جانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی   کئی بار اس کا دامن بھر دیا حسن دو عالم سے مگر دِل ہے کہ اس کی خانہ ِویرانی نہیں جاتی   کئی بار اسکی خاطر ذرّے ذرّے کا جگر چیرا مگر یہ چشم حیر...


  اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے؟  ہر طرف خلق نے کیوں مچا رکھا ہے؟    روشنی دن کی وہی، تاروں بھروں رات وہی  آج ہم کو نظر آتی ہے ہر اک بات وہی    آسماں بدلا ہے افسوس نہ بدلی ہے زمیں  ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں...


  نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں  چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے    جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے  نظر چرا کے چلے ، جسم و جاں بچا کے چلے    ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد  کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ ...


  تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن  جو ترے عارضِ بے رنگ کو گلنار کریں    کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہو گا  کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گلزار کریں    تیرے ایوانوں میں پُرزے ہوئے پیماں کتنے  کتنے وعدے جو نہ آسودہ اقرار ہوئے...


  نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں  چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے    جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے  نظر چرا کے چلے ، جسم و جاں بچا کے چلے    ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد  کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ ...


مت رو بچے رو رو کے ابھی تیری امی کی آنکھ لگی ہے مت رو بچے کچھ ہی پہلے تیرے ابا نے اپنے غم سے رخصت لی ہے مت رو بچے تیرے آنگن میں مردہ سورج نہلا کے گئے ہیں چندر ما دفنا کے گئے ہیں  


  وے پردیسیا تیریاں کاگ اڈاواں شگن مناواں   وگدی وا دے ترلے پاواں تری یاد پوے تے روواں   ترا ذکر کراں تاں ہساں کدھرے نہ پیندیاں دساں


چاند دیکھا تری آنکھوں میں نہ ہونٹوں پہ شفق ملتی جلتی ہے شب غم سے تری دید اب کے پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں جو ہوا تیز چلی لا کے رکھو سر محفل کوئی خورشید اب کے ٭٭٭ پھر کوئی آیا دل زار نہیں، کوئی نہیں راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا ڈھل...