احمد فراز


مضامین

سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے ورنہ اتنے تو مراسم تھے، کہ آتے جاتے   شکوہ ظلمتِ شب سے، تو کہیں بہتر تھا اپنے حِصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے   کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں پھر بھی اک عمر لگی، جان سے جاتے جاتے   جشنِ مقتل ہی ن...


  سلسلے توڑ گیا وہ سبھی آتے جاتے ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے    شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا  اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے   اس کی وہ جانے اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا  تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے


  مِرے رسول کہ نسبت تجھے اجالوں سے میں تیرا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے   نہ میری نعت کی محتاج ذات ہے تیری نہ تیری مدح ہے ممکن میرے خیالوں سے   تو روشنی کا پیمبر ہے اور میری تاریخ بھری پڑی ہے شبِ ظلم کی مثالوں سے   تیرا...


  تم نے دھرتی کے ماتھے پہ افشاں چنی خود اندھیری فضاؤں میں پلتے رہے   تم نے دنیاکے خوابوں کی جنت بنی خود فلاکت کے دوزخ میں جلتے رہے    تم نے انسان کے دل کی دھڑکن سنی اور خود عمر بھر خوں اگلتے رہے   جنگ کی آگ دنیا میں ج...