عزم اورمحنت کا صلہ

مصنف : اکبر حسین

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : اگست 2013

یہ ایک چھوٹی سی لڑکی کی سچی کہانی ہے جس کا نام زہرا تھا۔ وہ بڑی ہو کر ٹیچر بننا چاہتی تھی۔

زہرا میر پور خاص کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئی جب وہ پانچ سال کی ہوئی تو اس نے اسکول جانا شروع کیا اس کے ساتھ اس کا چھوٹا بھائی متین بھی اسکول جاتا تھا۔ وہ اپنے اسکول سے بہت پیار کرتی تھی اس نے لکھنا پڑھنا سیکھا اس نے کتابوں سے سورج اور اس کی روشنی اور حرارت کے بارے میں پڑھا اس نے جانوروں، تتلیوں، پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کے بارے میں پڑھا لیکن وہ اور زیادہ اور زیادہ پڑھنا چاہتی تھی۔

ایک دن اس کی ٹیچر نے دو مشہور خواتین کے بارے میں بتایا ایک محترمہ رفیدہ اور دوسری خاتون فلورینس نائٹ اینجل تھی زہرا نے ان کے بارے میں سن کر دل میں عہد کیا کہ وہ بھی اسی طرح لوگوں کی مدد کرے گی۔ زہرا ایک محنتی لڑکی تھی وہ پانچویں کلاس تک بہت اچھا پڑھتی تھی لیکن اس کے گاؤں میں صرف ایک پرائمری اسکول تھا اور پانچویں کلاس کے بعد تمام لڑکے، لڑکوں کے مڈل اسکول میں جاتے تھے جو گاؤں کے قریب تھا لیکن لڑکیوں کے لیے وہاں کوئی مڈل اسکول نہیں تھا۔

زہرا نے اپنی ماں سے کہا کہ وہ بھی مڈل اسکول جانا چاہتی ہے اور بہت زیادہ پڑھنا چاہتی ہے وہ ٹیچر بننا چاہتی ہے وہ بچوں کی پڑھائی میں انکی مدد کرنا چاہتی ہے۔

زہرا کے والد اور والدہ مڈل اسکول گئے اور ہیڈماسٹر سے کہا کہ زہرا ایک اچھی لڑکی ہے اور پڑھائی میں بھی بہت اچھی ہے براہ مہربانی آپ سے اپنے اسکول میں پڑھنے کی اجازت دے دیجیے۔

ہیڈماسٹر ایک شفیق انسان تھے انہوں نے کہا ٹھیک ہے زہرا متین کے ساتھ پڑھنے کے لیے اسکول آ سکتی ہے۔ اب تو زہرا بہت خوش ہوئی اب زہرا ہر روز 3 کلو میٹر دور اپنے بھائی کے ساتھ مڈل اسکول جانے لگی۔ گاؤں کے لوگوں کو زہرا کا لڑکوں کے اسکول جانا اچھا نہیں لگا وہ لوگ کہنے لگے۔

زہرا کو گھر میں ہی رہ کر اپنی ماں کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔ لیکن زہرا کے ماں اور باپ نے جواب دیا ،نہیں وہ اسکول ہی جائے گی کیونکہ وہ ایک استانی بننا چاہتی ہے۔ گاؤں کے لوگ بہت ناراض ہوئے وہ کہنے لگے اب وہ ہمارے گاؤں کی گلیوں سے نہیں جائے گی کیونکہ جب وہ اسکول جانے کے لیے ہمارے گھروں کے سامنے سے گزرتی ہے اور ہماری بیٹیاں اس کو اسکول جاتے ہوئے دیکھتی ہیں تو کل وہ بھی اسکول جانے کی ضد کریں گی۔

بے چاری زہرا اور متین! اب وہ ایک لمبے راستے سے مڈل اسکول جانے لگے اب وہ گاؤں کے لوگوں کی ناراضگی سے بچنے کے لیے 5 کلو میٹر پیدل چل کر جاتے۔ زہرا لڑکوں کے اسکول میں اکیلی تھی وہ کوئی کھیل نہ کھیلتی نہ ہی کسی سے بات کرتی بلکہ اپنا تمام وقت پڑھائی میں گزارتی حالانکہ وہ پڑھائی میں پہلے سے ہی بہت اچھی تھی۔

اساتذہ اس سے بہت محبت سے پیش آتے۔ وہ بہت محنت کرتی تھی سال اسی طرح گزرتے گئے اور وہ پڑھتی گئی اور آگے بڑھنے لگی اور اس نے سیکنڈری اسکول سرٹیفیکٹ یعنی میٹرک کا امتحان A گریڈ میں پاس کیا۔ اب زہرا نے اپنی کالج کی پڑھائی بھی پوری کر لی ہے اور وہ جلد ہی ایک ٹیچر بھی بن جائے گی۔ یہ ناممکن کام اس کے پکے ارادے سے ممکن ہوا۔ ارادے اور مسلسل کوشش سے ہی کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ جو زہرا کو حاصل ہوئی۔