ایک فرانسیسی لڑکی کے ایمان کی کہانی

مصنف : ام قانت

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : جون 2013

Click here to read in English

            ایک باپردہ عورت نے فرانس کی ایک سپرمارکیٹ سے خریداری کی اور اس کے بعد وہ عورت پیسوں کی ادائیگی کیلئے لائن میں کھڑی ہو گئی۔ اپنی باری آنے پر وہ چیک آؤٹ کاؤنٹرپرآئی، جہاں اسے رقم ادا کرنا تھی، وہاں اس نے اپنا سامان ایک ایک کر کے کاؤنٹر پر رکھ دیا۔ چیک آؤٹ پر کھڑی ایک بے پردہ مسلم لڑکی نے اس خاتون کی چیزیں ایک ایک کر کے اٹھائیں، اور ان کی قیمتوں کا جائزہ لینے لگی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے نقاب والی خاتون گاہک کی طرف ناراضی سے دیکھا اور کہنے لگی! ہمیں اس ملک میں کئی مسائل کا سامنا ہے، ان مسائل میں ایک مسئلہ تمہارا نقاب ہے۔ ہم یہاں تجارت کرنے کے لئے آئے ہیں نہ کہ اپنا دین اور تاریخ دکھانے کے لئے۔ وہ مسلم عرب عورت جو نام نہاد روشن خیال تھی اپنی بے ہودہ تقریر جھاڑے جا رہی تھی کہ اگر تم اپنے دین پر عمل کرنا چاہتی ہو اور نقاب پہننا ضروری سمجھتی ہو تو اپنے ملک واپس چلی جاؤ، جہاں جو تمہارا دل چاہے کر سکتی ہو۔ وہاں نقاب پہنو، برقع پہنو، ٹوپی والا برقع پہنو، جو چاہے کرو مگر یہاں رہ کر ہم لوگوں کے لئے مسائل مت پیدا کرو۔

            نقاب پہننے والی خاتون ایک مسلم عورت کے منہ سے نکلنے والے الفاظ پر دم بخود ہو کر رہ گئی۔ اپنے سامان کو بیگ میں رکھتے ہوئے اس کے ہاتھ رک گئے اور اچانک اس نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دیا، کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی اس کا چہرہ دیکھ کر حیران رہ گئی کیونکہ نقاب والی لڑکی کے بال سنہری اور آنکھیں نیلی تھیں، اس نے کاؤنٹر والی سے کہا ‘‘میں فرانسیسی لڑکی ہو نہ کہ عرب مہاجر، یہ میرا ملک ہے، میں مسلمان ہوں…… اسلام میرا دین ہے۔ یہ نسلی دین نہیں ہے کہ تم اس کی مالک ہو۔ یہ میرا دین ہے اور میرا اسلام مجھے یہی سبق دیتا ہے جو میں کر رہی ہو۔ تم نسلی مسلمان ہو کر یہاں کے غیر مسلموں سے مر عوب ہو، دنیا کی خاطر خوف میں مبتلا ہو، مجھے کسی کا خوف نہیں ہے۔ اس فرانسیسی نو مسلم عورت کے یہ لفظ تو بے پردہ مسلم عورتوں کے منہ پر طمانچہ تھے کہ تم پیدائشی مسلمانوں نے اپنا دین بیچ دیا ہے اور ہم نے تم سے خرید لیا ہے۔

            ایک نجی اخبار میں جب میں نے اس نومسلم فرانسیسی لڑکی کے بارے میں پڑھا تو روشن خیال اور اسلام کو بیک ورڈ یعنی پرانا اور فرسودہ نظام کہنے والیوں پر افسوس ہوا جن کی جھولیوں میں جدی پشتی اسلام جیسی نعمت آ گری، انہوں نے اس کی قدر نہ جانی اور حجاب کو فرسودہ روایت کہہ کر اتار پھینکا وہ حجاب جو اس کے لئے ایک حفاظتی قلعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ مجھے ایک اور مغربی اداکارہ کا واقعہ یاد آیا وہ ساحل سمندر پر نہانے کے لئے گئی اب اسے اپنا لباس اتارنا تھا اور اس لباس میں جو کہ برائے نام ہے نیم برہنہ ہو کر ساحل پر اسے نہانا تھا۔ یکدم اس کے اندر کی عورت جاگی، حیا جو کہ عورت کی فطرت ہے، بیدار ہو گئی، اس کے ہاتھ رک گئے، ایک مسلمان باپردہ عورت کا سراپا اس کی نظروں میں گھوم گیا۔ اس نے اسلام کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا، کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئی۔ حجاب اوڑھنا شروع کر دیا۔ اب اس نو مسلم کا کہنا ہے کہ برقعہ یا چادر عورت کا حفاظتی قلعہ ہے جو اسے شیطان اور برے انسانوں کی پرہوس اور بری نظروں سے محفوظ رکھتا ہے۔

            میں ان نومسلم عورتوں کے احساسات اور جذبات کو داد دے رہی تھی کہ یا اللہ تیری یہ فرمانبردار بندیاں، یورپین معاشرے کی پیداوار ہیں، انہوں نے دین اسلام کو سینے سے لگایا تو اس کے ایک ایک حکم کا حق ادا کر دیا۔ پابندی حجاب کے باوجود استقامت اختیار کی، (اللہ ان کی مدد فرمائے، آمین) اور ادھر میری مسلم بہنوں اور بچیوں کا حال دیکھو، ابھی کچھ دن پہلے میں سودا سلف خریدنے کے لئے ایک سپر اسٹور پر گئی، ابھی سامان ٹرالی میں رکھ رہی تھی کہ تنگ پینٹ اور مختصر شرٹ پہنے ہوئی لڑکی میرے سامنے آئی، میک اپ سے چہرہ لتھڑا ہوا، کہنے لگی کہ کون سا ٹوتھ پیسٹ استعمال کرتی ہیں، ابھی میں کچھ بولی نہیں اس نے ہاتھ میں پکڑی ٹوتھ پیسٹ کی تعریفیں شروع کر دیں، میں نے کہا کہ یہ تو میں بعد میں لوں گی پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ کیا تم مسلمان ہو؟ بڑے فخر سے گویا ہوئی: ‘‘جی آنٹی۔’’ میں نے کہا :‘‘تم نے جو لباس پہن رکھا ہے کیا وہ ایک مسلم عورت ہونے کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے،’’ کہتی ہے: ‘‘نہیں آنٹی یہ تو کمپنی والوں کا لباس ہے، جو مجبوراً پہننا پڑتا ہے۔’’ بی اے پاس لڑکی غربت کے ہاتھوں ماری ہوئی ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے اور یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی چیزوں کو متعارف کروانے کے لئے جوان خوبصورت لڑکیو ں کو تھوڑی تھوڑی تنخواہوں پر بڑے بڑے اسٹوروں اور پوش علاقوں میں ڈور ٹو ڈور بھیجتے ہیں اور پھر خدا کی مار لباس بھی کافروں کا چنا ہوا۔ بہرحال! میرے سمجھانے پر مذکورہ لڑکی کی حمیت جاگی اور اس نے وعدہ کیا وہ جلد ہی اس بے ہودہ لباس سے جان چھڑائے گی اور اپنے لئے کوئی معزز راستہ تلاش کرے گی۔

            حقیقت یہ ہے کہ میں مسلم بیٹی کو کفار کی چالوں کا نشانہ بنتے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں اور کڑھ رہی ہوں کہ دینی تربیت کا فقدان ہے اور میری نوجوان نسل کفار کے بنے ہوئے جال میں پھنستی جا رہی ہے اور نیم برہنہ حالت میں اسٹوروں، چوکوں اور مشہوری کے لئے لگائے گئے پوسٹروں کی زینت بنتی جا رہی ہیں۔ یہی نیم برہنہ پھرنے والیاں جب اللہ کے گھر سے بلاوا آ جائے، حج و عمرہ کی ادائیگی کیلئے جائیں تو اپنے آپ کو سیاہ عبایا میں چھپا لیتی ہیں۔ یہ حکومت سعودیہ کا حکم ہے، کاش! وہ قرآن کا مطالعہ کریں کہ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا بھی حکم ہے۔ سورۂ الاحزاب میں اللہ فرماتے ہیں: ‘‘اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں، یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں (کہ شریف زادیاں ہیں) تو انہیں تکلیف نہ پہنچائی جائے اور اللہ بے حد بخشنے والا مہربان ہے’’

            یاد رہے! اللہ تبارک وتعالیٰ عورت کو سیپ میں بند موتی کی طرح چھپا کر رکھنا چاہتے ہیں تاکہ موتی کی خوبصورتی برقرار رہے۔ بری نظروں کے تیروں سے داغدار نہ ہو، لیکن عورت اپنی کم علمی کی وجہ سے دین سے دور ہونے کی بنا پر بے پردگی کرتی ہے اور رب کے حکم کی نافرمانی کرتی ہے۔

            میں نے اپنی بہت ساری بہنوں اور بیٹیوں کو دیکھا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کا مذاق اڑاتی ہیں، حج و عمرہ کی ادائیگی کیلئے گئیں، عبایا اور چادر اوڑھ لی، ادائیگی کر کے واپس آئیں تو عبایا اور چادر کو الماری کی زینت بنا دیا، کہ دوبارہ جب اللہ کے گھر جائیں گی تب پہن لیں گی۔ یا پھر جہاں عورتوں کا دینی درس ہوتا ہے، وہاں باجی بے پردہ جانے کی وجہ سے شرمندہ کرتی ہیں تو اس لئے پہن لیا۔ خدارا ایسا کرنے والی میری بہنیں ذرا اس بات پر غور کریں کہ کیا وہ سعودی حکومت سے ڈرتی ہیں یا درس والی باجی سے؟ اگر اللہ کا حکم مان کر کرتی ہیں تو اللہ کا حکم تو ہر جگہ ہے اورہر وقت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ صحابیات کو رول ماڈل بنائیں اور ان یورپ کی نو مسلم عورتوں کے کردار دیکھیں جنہوں نے اسلام کا مطالعہ کیا اور مسلمان عورت بن کر دکھایا۔ اللہ صحیح معنوں میں مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

(بشکریہ www.ownislam.com)

٭٭٭