سوال ، جواب

مصنف : مولانا طالب محسن

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : مئی 2013

جواب: مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے تو اس کی تخصیص کی طرف نہیں ہے۔ جہاد سے یہاں ان کے نزدیک وہ مشقتیں اور تکالیف ہیں جو دین کی خاطر اٹھائی جارہی تھیں۔سبل سے مراد دنیا اورآخرت کی کامیابی کی راہوں کا کھلنا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ معاملہ صحابہ ہی کا زیر بحث ہے۔ لیکن جو بات اس میں بیان ہوئی ہے وہ عام ہے۔ یہ توفیق ایزدی کا مژدہ ہے جس کا خدا کی رضا کا ہر طالب مستحق ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ بات زیر بحث آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ دعواے ایمان کو آزمایشوں سے گزارتے ہیں تاکہ دل کا کھوٹ یا ایمان کی کمزوری واضح ہو جائے اور کسی عذر کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔ یہ آزمایشیں جسمانی بھی ہوتی ہیں اور نفسیاتی بھی معاشی بھی ہوتی اور معاشرتی بھی۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوطائف کے سفرمیں بھی ایک ابتلا پیش آئی تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاپر جب تہمت لگی تو وہ بھی ایک ابتلا تھی۔ اگر آزمایش کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو دونوں ایک ہی درجے کی ہیں۔ اسی طرح وہ آدمی جس کو غربت کی آزمایش نے ایمان کی بازی ہرا دی اور جہنم میں چلا گیا اور وہ آدمی جس کی دولت نے ایمان کی بازی ہر ادی اور وہ دوزخ میں چلا گیا آخرت کے نقطہ نظر سے دیکھیں دونوں بڑی آزمایش سے گزرے۔ ہاں دنیا میں ہمیں دھوکا ہوتا ہے کہ دولت والے پر کوئی آزمایش نہیں آئی۔

حدیث میں جو بات بیان ہوئی ہے وہ قرآن مجید کے بیان کردہ اصول آزمایش کا بیان ہے۔ جب اللہ تعالی ایمان کو پرکھتے ہیں تو اسی سطح پر پرکھتے ہیں جس سطح کا دعویٰ ہے۔ ظاہر ہے انبیاء جس سطح پر اللہ تعالی کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں اسی سطح کے مطابق ان پر امتحان بھی آتے ہیں اور وہ ان امتحانات سے سرخرو نکلتے ہیں۔ یہی معاملہ دوسرے نیک لوگوں کا بھی ہے۔ جو ان امتحانات میں کامیاب ہو جاتے ہیں انھیں یقینا اللہ تعالی کا تقرب حاصل ہوگا۔ لیکن یہ بات قیامت کے دن ظاہر ہو گی۔ دنیا میں بڑی تکلیف کا آنا لازماً بلند مرتبہ ہونے کی دلیل نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: آزمایش کے دو پہلو ہیں۔ ایک آزمایش یہ کہ ہم جس ایمان کے مدعی ہیں اس کی حقیقت اچھی طرح متعین ہو جائے۔دوسرا یہ کہ دین پر عمل کرتے ہوئے تزکیہ نفس کا جو سفر ہم نے شروع کیا ہے وہ بھی تکمیل کو پہنچے۔ ہمارے اخلاق اور دین وایمان پر استقامت ہر لمحے معرض امتحان میں رہتے ہیں۔جب جب آزمایش آتی ہے اور یہ صبر اور شکر دونوں پہلوؤں سے ہوتی ہے اور ہم اس میں کامیاب ہوتے رہتے ہیں تو یہ ہمارے ایمان میں ترقی کا زینہ بنتی چلی جاتی ہے۔ اس پہلو سے آپ کی بات درست ہے کہ موـمن کے لیے بلند درجے کے حصول کا ذریعہ ہے۔ آپ کی یہ بات بھی درست ہے کہ بعض تکلیفیں غفلت سے بیداری کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اس اعتبار سے یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت کا اظہار بھی ہیں کہ انھوں نے گرتے ہوئے شخص کو سنبھلنے کا ایک موقع فراہم کر دیا ہے۔ لیکن آزمایش کے کچھ اور پہلو بھی ہیں جن میں ایک دو امور کی طرف اشارہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر کے واقعات میں بھی ہوا ہے۔ بہر حال یہ بات واضح ہے کہ یہ دنیا آزمایش کے لیے ہے۔ اس میں امتحان اور اس کے لوازم کی حیثیت سے ترغیب وترہیب کے مراحل بھی پیش آتے ہیں۔ لیکن ہر واقعے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ ہمارے ادراک کے لیے ممکن نہیں ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر سے ایک یہ بات بھی واضح ہوتی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: پہلی دونوں چیزوں کا ماخذ سنت متواترہ ہے۔ وضو میں اختلاف کی وجہ آیت قرآنی کی تاویل میں اختلاف سے پیدا ہوا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ساری امت اس بات پر متفق ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وضو میں پاؤں دھوتے تھے۔

معجزات اور تقدیر اللہ پر ایمان کے لوازم میں سے ہیں۔ حدیث میں جو معجزات بیان ہوئے ہیں ان پر اگر سنداً کوئی اعتراض نہیں ہے تو ماننے میں کوئی استحالہ نہیں ہے۔ تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہماری زندگی، موت، والدین، بہن بھائی اور اس طرح متعدد چیزیں جن میں ہماری سعی کا کوئی تعلق نہیں ہے خود مقرر کر رکھی ہیں۔ اسے ماننا اللہ تعالی کو خالق ومالک ماننے کا نتیجہ ہے۔ یہی بات احادیث میں بھی بیان ہوئی ہے ۔ جن حدیثوں سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا نیک وبد ہونا بھی مقدر ہے تو وہ راویوں کے سوئے فہم کا نتیجہ ہے۔ قرآن مجید میں بیان کیا گیا قانون آزمایش اس تصور کی نفی کرنے کے لیے کافی ہے۔

ارضی قبر کو عالم برزخ قرار دینے کی وجہ حدیث نہیں ہے حدیث کا فہم ہے۔ قبر کی تعبیر عالم برزخ کے لیے اختیار کرنا زبان کے عمومی استعمالات میں بالکل درست ہے۔اس سے یہ سمجھنا کہ قبر ہی عالم برزخ ہے سخن نا شناسی ہے۔

مجھے نہیں ـ ـمعلوم کس روایت میں تجسیم باری تعالی بیان ہوئی ہے۔ جس طرح قرآن مجید میں اللہ تعالی کے ہاتھ اور چہرے کے الفاظ ہیں۔ اسی طرح عرش پر استوا کی تعبیر اختیار کی گئی ہے ، اسی طرح کی تعبیرات احادیث میں بھی ہیں۔ ان سے تجسیم کا نتیجہ نکالا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ الفاظ معنوی پہلو سے استعمال ہوئے ہیں۔ خود قرآن مجید ہی میں یہ بات بیان ہوگئی ہے کہ اللہ تعالی کے مثل کوئی چیز نہیں ہے۔ اس ارشاد سے واضح ہے کہ اوپر مذکور تعبیرات ابلاغ مدعا کے لیے ہیں۔ان کا لفظی اطلاق درست نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: ہر گز جائز نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا ایمان کی نفی کی علامت ہے اور حبط اعمال کا باعث ہوگا۔ اگر کوئی شخص روایت ودرایت کے اصول پر کسی بات کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کو درست نہیں مانتا تو یہ دراصل کسی محدث سے اختلاف ہے حضورسے نہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ قرآن مجید پیغمبرانہ انذار کی کتاب ہے اور اس کا اصل موضوع خدا کی سکیم سے آگاہی اور اس کی بندگی کے اصول وضوابط کی تلقین ہے۔ اس میں اس کائنات اور انسان کے وجود میں خدا کی تخلیق کے بعض پہلوؤں کا ذکر ضرور ہے لیکن اس کا ہدف بھی اصل میں بندوں کو ان کے پروردگار کی طرف متوجہ کرنا اور ان کے دلوں میں اس کی عظمت کا ادراک پیدا کرنا ہے۔سائنسی اکتشافات قرآن کا موضوع نہیں ہیں۔

سائنسی اکتشافات کے حوالے سے دو رویے پیدا ہوئے ہیں۔ ایک رویہ یہ ہے کہ سائنس دان جو کچھ بھی دریافت کریں اس کا کوئی نہ کوئی سراغ قرآن مجید سے نکال لیا جائے۔ اس کے لیے بعض لوگ قرآن کے الفاظ اور سیاق وسباق کو نظر انداز کرکے من مانی تاویل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے یہ رویہ صریح طور پر غلط ہے۔ اس لیے کہ کچھ معلوم نہیں کہ کل سائنس کا کو ئی قانون یا نظریہ کسی نئی دریافت کے نتیجے میں تبدیل ہو کر رہ جائے اور ہم نے جس بات کو اپنی نادانی سے خدا کی بات بنا دیا تھا وہ غلط ثابت ہو جائے۔دوسرا رویہ وہ ہے جسے آپ نے بھی بیان کیا ہے۔ قرآن مجید میں زمین وآسمان اور انسان کی تخلیق یا ساخت کے بارے میں کچھ بیانات ہیں ۔ یہ بیانات انھی الفاظ اور تعبیرات میں ہیں جن میں نزول قرآن کے زمانے کا عرب انھیں سمجھ سکتا تھا اور اس کا کچھ نہ کچھ شعور بھی رکھتا تھا۔یہ درست ہے کہ یہ بیانات کبھی غلط نہیں ہو سکتے اور نئی سائنسی دریافتیں اگر ان کی تائید کرتی ہیں تو اس سے ان کے خدا کا کلام ہونے کا پہلو مزید نمایاں ہوتا ہے۔ لیکن یہاں بھی یہ خطرہ موجود ہے کہ ہم قرآن کے الفاظ میں وہ معنی داخل کردیں جو ان کا حصہ نہیں تھے اور کل کی کوئی نئی دریافت ہمیں اپنی بات واپس لینے پر مجبور کردے۔

اصل یہ ہے کہ سائنس کی دریافتیں قرآن کی تائید کریں یا نہ کریں قرآن اپنی جگہ پر اٹل ہے۔ ہمیں اس کی حقانیت انھی دلائل سے ثابت کرنی چاہیے جو ہمیشہ کار آمد ہیں اور جن پر بوسیدگی طاری نہیں ہوتی۔ ہاں محتاط طریقے سے اگر سائنسی دریافتوں کو قرآن کے مقدمات کے حق میں استعمال کیا جائے تو اس کے مفید ہونے میں شبہ نہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: شفاعت کے عقیدے کی بنیاد بعض روایات پر ہے۔ قرآن مجید نے شفاعت کے بارے میں بالکل واضح طور پر کہا ہے کہ کوئی شفاعت اللہ کے اذن کے بغیر نہیں ہو گی اور دوسرے یہ کہ وہاں جو بھی کوئی بات کہے گا وہ صحیح بات کہے گا۔ اسی طرح قرآن مجید نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ قیامت کامل عدل کا دن ہے وہاں نہ کوئی فدیہ کام آنے والا ہے اور نہ کوئی مدد وسفارش۔ ان ساری باتوں سے واضح ہے کہ شفاعت ان ہستیوں کے لیے ایک اعزاز ہے جنھیں اللہ تعالی کے ہاں تقرب حاصل ہوگا۔ یہ انھی لوگوں کے کرنے کی اجازت دی جائے گی جو اللہ تعالی کے نزدیک گناہوں کے باوجود رعایت کے مستحق ہوں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر یہ بیان بھی کیا ہے کہ جہنم میں وہی لوگ رہ جائیں گے جنھیں قرآن نے روک رکھا ہے۔ مراد یہ ہے کہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: پردے کا لفظ قرآن مجید کے احکام کو پوری طرح بیان نہیں کرتا۔ صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے سورہ نور میں مرد وعورت دونوں کو گھر ہو یا کوئی دوسری جگہ جب یہ ایک دوسرے کے سامنے آئیں تو کچھ آداب واحکام کا پابند کیا ہے۔

 دو حکموں میں مردوعورت مشترک ہیں اور دو حکم عورت کے لیے اضافی ہیں۔

۱۔ دونوں اپنی نظریں بچا کر رکھیں۔

۲۔ دونوں شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔

۳۔ عورتیں اپنی زیب وزینت اپنے قریبی اعزہ اور متعلقین کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ ہونے دیں۔

۴۔ عورتیں اپنے سینے کو ڈھانپ کر رکھیں۔

نظریں بچانے سے مراد یہ ہے کہ مردو عورت ایک دوسرے کے حسن وجمال سے آنکھیں سینکنے، خط وخال کا جائزہ لینے اور ایک دوسرے کو گھورنے سے پرہیز کریں۔

شرم گاہوں کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ مرد وعورت ایک جگہ موجود ہوں تو چھپانے کی جگہوں کو اور بھی زیادہ اہتمام سے چھپائیں۔ اس میں ظاہر ہے بڑا دخل اس بات کا ہے کہ لباس با قرینہ ہو۔ عورتیں اور مرد دونوں ایسا لباس پہنیں جو زینت کے ساتھ ساتھ صنفی اعضا کو بھی پوری طرح چھپانے والا ہو۔ پھر اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اٹھنے بیٹھنے میں کوئی شخص برہنہ نہ ہونے پائے۔

لباس کے حوالے عورتوں کو مزید ہدایت سینے سے متعلق ہے کہ وہ اسے اپنے دوپٹوں سے ڈھانپ کر رکھیں۔

اس ہدایت پر عمل کرنے میں تشدد اور نرمی دونوں طرح کے رویے پیدا ہوئے ہیں۔ جو خواتین زیادہ سے زیادہ ڈھانپنے کی طرف مائل ہیں وہ بھی اور جو احکام کے تقاضا پورا کر دیتی ہیں دونوں ہمیشہ سے معاشرے میں موجود رہی ہیں۔ اس کا انحصار ذوق اور حالات پر ہوتا ہے کہ کوئی عورت کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔ہم کسی رویے کو اس وقت ہی غلط قرار دے سکتے جب وہ حکم کے الفاظ ہی سے متجاوز ہو۔

سورہ احزاب میں بڑی چادر لینے کا حکم فتنہ پردازوں سے بچنے کے لیے ایک تدبیر تھا۔ یہ کوئی مستقل حکم نہیں تھا۔ لیکن ہمارے فقہا نے اسے ایک ابدی حکم سمجھا ہے۔ لہذا وہ اسے اب بھی لازم قرار دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اصل اور ابدی حکم سورہ نور کا ہے اور باحیا اور باوقار لباس جو عورت کی زیب و زینت اور جسم کو نمایاں کرنے والا نہ ہوحکم کا تقاضا پورا کر دیتا ہے۔سر ڈھانپنے کے حوالے سے کوئی حکم قرآن مجید میں موجود نہیں ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد بھی نہیں ہے جس میں آپ نے سر ڈھانکنے کی ہدایت کی ہو۔یہ بات معلوم ہے کہ عرب میں سر ڈھانکنے کا رواج تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں اور اصحاب کی ازواج نے اس کو جاری رکھا۔ اس اعتبار سے اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تائید حاصل ہے اور قرآن مجید کے احکام بھی اس طرز معاشرت کو سامنے رکھ کر دیے گئے ہیں۔ ایک روایت سے یہ تائید مزید محکم ہوتی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے بالغ عورتیں اگر اوڑھنی لیے بغیر نماز پڑھیں تو اللہ اسے قبول نہیں کرتے۔معلوم ہے کہ نماز میں قاعدے کا لباس پہننا چاہیے۔ عورت کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لیے قاعدے کے لباس میں اوڑھنی شامل ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: بطور انسان سب برابر ہیں۔ جس طرح معاشرے میں صلاحیت ، تعلیم اور حیثیت سے حقوق وفرائض میں فرق واقع ہو جاتا ہے اسی طرح خاندان میں بھی یہ فرق واقع ہوتا ہے۔ بطور انسان اولاد اور والدین بھی برابر ہیں لیکن حیثیت اور مرتبے میں اولاد پر والدین کو فوقیت حاصل ہے اور دین میں بھی یہ فوقیت قائم رکھی گئی ہے۔بطور انسان عوام اور حکمران بھی برابر ہیں لیکن حکمرانوں کو عوام پر ایک فوقیت حاصل ہے اور دین میں بھی یہ فوقیت قائم رکھی گئی ہے۔ اسی طرح جب دو مرد وعورت میاں بیوی بن کر رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان میں سے مرد کو برتر حیثیت حاصل ہے۔ دین میں بھی یہ حیثیت مرد کو دی گئی ہے اور اس کی وجہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ یہ ایک انتظامی حیثیت ہے۔ اس کو سمجھنے اور ماننے میں گھر کی زندگی کی ترقی اور سکون کا راز مضمر ہے۔

(مولانا طالب محسن)