صدقہ

مصنف : س۔م۔سلیمان

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : مئی 2013

صدقہ و خیرات کے اثرات کی حیرت انگیز سچی داستان

            ۱۹۷۰ء میں ریبا کی برائین سے شادی ہوئی۔ اس وقت ریبا کی عمر اٹھارہ برس اور برائین کی بیس برس تھی۔ دونوں ہائی اسکول میں کلاس فیلو تھے اور اسی دوران انہوں نے ایک دوسرے کو اپنا جیون ساتھی چن لیا تھا۔ نوشادی شدہ جوڑا بڑی خوش و خرم زندگی بسر کرتا رہا۔ وقت پر لگا کر اڑتا رہا۔ وہ دونوں اپنی چھوٹی سی دنیا میں مگن تھے۔ برائین اپنی بیوی سے بڑی محبت کرتا تھا اور کام کے بعد جو وقت بچتا’وہ دونوں اکٹھے گزارتے تھے۔

            آخر کار ۱۹۷۴ء میں خدا نے انہیں اولاد کی نعمت سے نوازا۔ اس گول مٹول فٹ بال جیسے بچے کا نام انہوں نے رینڈی تجویز کیا۔ رینڈی بڑا پیارا اور سمجھ دار بچہ تھا۔ وہ شرارتیں ضرور کرتا’لیکن ایسی نہیں جو بد تمیزی کی حدود میں داخل ہو جائیں۔ ابھی رینڈی تین برس کا تھاکہ خدا نے انہیں ایک بچی دی۔ میاں بیوی اس گڑیا کو پا کر پھولے نہ سماتے تھے۔ اس کا نام لارین تجویز کیا گیا۔ اب ان کے نقطہ نظر سے ان کا خاندان پورا ہو چکا تھا...ایک بیٹا اور ایک بیٹی!!

            برائین اب ایک ذمہ دار شوہر اور باپ بن چکا تھا۔وہ طباعت کے ہر شعبے کا ماہر تھا۔ اس نے اپنے گھر کے گیراج میں ایک چھوٹا سا چھاپہ خانہ لگا کر ذاتی کاروبار شروع کر دیا۔چھاپہ خانہ خریدنے کے لیے اس نے بینک سے رقم قرض لی تھی۔ آدمی محنتی اور کاری گر تھا’ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ بے حد خوش اخلاق بھی تھا’چنانچہ چندہی ماہ میں کاروبار چل نکلا اور ملازمت سے کہیں زیادہ آمدنی ہونے لگی۔ لیکن ابھی وہ اس قابل نہیں تھا کہ کوئی ملازم رکھ سکے۔اس نے اپنے مستقبل کے لیے بڑے بڑے منصوبے بنا رکھے تھے اور اسے یقین تھا کہ محنت کے ذریعے وہ کچھ عرصے میں اپنا خاص مقام بنا لے گا اور آخر کار ایک بہت بڑا پرنٹنگ ہاؤس قائم کر لے گا۔

            ۱۹ ستمبر ۱۹۸۰ء کو ان کے ہاں تیسرے بچے کی پیدائش ہوئی۔ پیدائش کے وقت بچہ بے حد صحت مند تھا۔ اس کا وزن آٹھ پونڈ اور نو اونس تھا۔ ماں باپ نے خوب سوچ سوچ کر اس کے لیے فلپس کا نام تجویز کیا ۔ ریبا کا کہنا تھا کہ فلپس ہمارے گھر کی روشنی اور آنکھوں کا نور ہے۔رینڈی اور لارین بھی اپنے نئے بھائی کی آمد پر بے انتہا خوش تھے۔

            ابھی ریبا اسپتال سے رخصت نہیں ہونے پائی تھی کہ ایک صبح ڈاکٹر اس کے کمرے میں آئی۔ لیکن آج اس کے چہرے سے پریشانی عیاں تھی۔ یہ خبر ریبا پر بجلی بن کر گری کہ فلپس سانس کے مرض میں مبتلا ہو چکا ہے اور اس کے پھیپھڑے صحیح طور پر کام نہیں کر رہے۔

            ریبا کے منہ سے بے اختیار نکلا:‘‘یا خدا! میری مدد کر! میرے بچے کو بچالے۔’’

            بچے کی حالت نازک تھی۔ اسپتال میں بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔ فوراً برائین کو اطلاع دی گئی۔ وہ کام چھوڑ کر اسپتال پہنچ گیا۔ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم فلپس کی دیکھ بھال کر رہی تھی۔ انہوں نے برائین کو بتایا کہ فلپس کے بچنے کے امکانات کم ہیں۔

            ریبا کی حالت بڑی خراب تھی۔ وہ مسلسل رو رہی تھی اور خدا سے اپنے بچے کی زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی۔ ‘‘اے خدا! تو ہی زندگی اور موت پر قادر ہے! خداوند! میرے بچے کو زندگی دے دے۔’’

            برائین اسے طفل تسلیاں دیتا رہا.اور شام تک اسپتال میں رہا۔ فلپس کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اسے مصنوعی نظام تنفس کے ذریعے سانس بہم پہنچایا جارہا تھا’ لیکن ریبا کے اصرار پر برائین کو گھر واپس آنا پڑا۔ رینڈی اور لارین کی دیکھ بھال بھی اب اس کے ذمے تھی۔

            میامی کے اس اسپتال میں ایک پاکستانی لیڈی ڈاکٹر غزالہ بھی شعبہ اطفال میں کام کرتی تھی۔ اس نے نرسری کے شیشے سے لگی ایک خاتون کو روتے اور دعائیں مانگتے دیکھا تو وہ اس سے بہت متاثر ہوئی۔ ریبا نے غزالہ کو اپنی درد بھری داستان سنائی۔ غزالہ نے کہا: ‘‘مسز برائین! ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اگر آپ کے بچے کی زندگی ہے تو دنیا کی کوئی بیماری فلپس کو آپ سے جدا نہیں کر سکے گی۔ آپ بھی خدا کو ماننے والی ہیں۔ خدا سے دعائیں جاری رکھیے اور ہاں’ ایسے مواقع پر ہم مسلمان ‘‘صدقہ’’ دیتے ہیں’ یعنی کسی ضرورت مند کو اس کی ضرورت کی اشیا مہیا کر دیتے ہیں۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو فلپس کے لیے صدقہ بھی دے دیں۔’’

            ‘‘میں ایسا ضرور کروں گی بلکہ میں ابھی برائین کو فون کرتی ہوں۔ وہ پڑوس میں رہنے والے بوڑھے ٹام کو دس ڈالر دے دے۔’’

            ریبا تمام رات شیشے کے ساتھ لگی کھڑی خدا سے دعائیں مانگتی رہی۔ صبح کاذب سے ذرا قبل ڈاکٹر غزالہ پھر آئی اور زبردستی ریبا کو اپنے کمرے میں لے گئی۔ وہاں اسے سکون آور دوائی کھلا کر سلا دیا۔

            صبح کے وقت جب ریبا کی آنکھ کھلی تو اس کا دل ایک لمحے کے لیے دھڑکنا بھول گیا۔‘‘فلپس!’’ اس کے دل سے آواز اٹھی اور وہ باہر کی جانب بھاگی۔ دروازے میں اس کی ٹکر نرس سے ہوئی۔ نرس نے گود میں فلپس کو اٹھا رکھا تھا۔ وہ پیارا سا بچہ قدرتی انداز میں سانس لے رہا اور ہاتھ پاؤں ماررہا تھا۔

            اور پھر کمرے میں ڈاکٹروں کی بھیڑ لگ گئی۔ سب لوگ حیران تھے کہ فلپس راتوں رات کس طرح مکمل طور پر صحت یاب ہو گیا۔

            ‘‘یہ تو میڈیکل ہسٹری میں ایک نئی مثال ہے۔’’ایک ڈاکٹر نے کہا:‘‘اول تو ایسے مریض بچتے نہیں اور بچ بھی جائیں تو صحت یاب ہونے میں انہیں مہینے لگ جاتے ہیں۔ یہ راز میری سمجھ سے باہر ہے کہ راتوں رات...’’اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ ‘‘ڈاکٹر !’’ ریبا نے کہا تمہیں خالقِ کائنات پر یقین ہے یا نہیں؟ وہ چاہے تو کیا نہیں ہو سکتا؟ اور ہاں’ ایک پاکستانی ڈاکٹر ہے... گزالہ...وہ کہاں ہے؟’’

            ‘‘گزالہ؟...وہ رات کو ڈیوٹی پر ہوتی ہے۔’’ ریبا مسکرائی۔‘‘اس سے پوچھ لینا فلپس راتوں رات کیسے تندرست ہوگیا۔ اس نے اس سلسلے میں میری راہنمائی کی تھی۔’’ پھر وہ زیر لب بڑبڑائی۔ ‘‘سدکہ!!’’اور پھر دس دن بعد سارا خاندان ہنستا کھیلتا’ خوشیوں اور مسرتوں سے معمور اپنی اسٹیٹ کار میں اسپتال سے گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔ برائین کار ڈرائیو کر رہا تھا اور اس کے ساتھ ریبا گود میں فلپس کو لیے بیٹھی تھی۔ رینڈی اور لارین عقبی نشست پر اچھل کود کر رہے تھے۔ ان سب کی خوشیاں لوٹ آئی تھیں۔گھر واپس آنے کے چند روز بعد زندگی اپنے معمولات پر آگئی۔ فلپس کی پیدائش اور صحت یابی کی خوشی میں پڑوسیوں’عزیزواقارب وغیرہ کی شاندار ضیافت کی گئی۔ چند ماہ میں برائین کا چھاپہ خانہ پہلے سے بھی زیادہ چل نکلا۔ اب ان کے گھر میں کچھ خوشحالی آتی جارہی تھی اور یہ خاندان محبت و یگانگت کی مثالی زندگی گزار رہا تھا۔

            لیکن ابھی کئی آزمائشیں باقی تھیں۔ چھ ماہ بعد ان کی پرسکون زندگی میں پھر تلاطم پیدا ہوا۔ صبح کا وقت تھا۔ مارچ میں میامی کا موسم انتہائی رومان پرور ہوتا ہے۔ ریبا نے بچوں کو ناشتا کرانے کے بعد اسکول روانہ کیا اور برائین اپنے کام پر چلا گیا۔ فلپس معمول کے بر خلاف ابھی تک بیدار نہیں ہواتھا۔ ریبا گھر کے کام کاج میں مصروف ہوگئی۔ تھوڑی دیر بعد اسے فلپس کے رونے کی آواز سنائی دی۔ وہ کام چھوڑ کر اس کی طرف بھاگی۔ فلپس کا بدن بخار سے جل رہا تھا اور وہ مسلسل روئے چلا جارہا تھا۔اسے چپ کرانے کی ہرکوشش رائیگاں گئی۔آخرکارریبانے فون پرشوہرسے مشورہ کیااور روتے ہوئے فلپس کوکمبل میں لپیٹ کر چائلڈاسپیشلسٹ کے ہاں پہنچی۔

            ڈاکٹر نے فلپس کا معاینہ کیا۔ بچے کو خاصا تیز بخار تھا۔ ڈاکٹر کی تشخیص یہ تھی کہ بچے کے کان میں انفیکشن ہے’ معمولی بات ہے’ لہٰذا گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس نے اینٹی بائیوٹکس دوائیں لکھ دیں۔ ریبا نے گھر واپسی پر میڈیکل اسٹور سے ادویہ خریدیں اور بچے کو گھر لا کر بڑی تندہی سے اس کی دیکھ بھال میں جت گئی۔ اس کا بخار ٹوٹ گیا اور وہ تین چار دن میں رفتہ رفتہ ٹھیک ہو تا گیا۔

            اب فلپس معمول کے مطابق سوتا جاگتا اور دودھ پیتا تھا’ لیکن چھٹے روز وہ پھر بیمار تھا۔ اس مرتبہ اس کے منہ اوررانوں کے اندر سرخ وسفید دھاپڑ نکل آئے تھے۔ چھوٹا سا بچہ منہ کی تکلیف کی بنا پر رو بھی نہیں سکتا تھا۔ ڈاکٹر نے اس کا علاج شروع کر دیا۔

            اگلے دو تین ماہ خاندان بھر کے لیے عذاب ِجان سے کم نہ تھے۔ فلپس کو نت نئی بیماری آن گھیرتی۔ یوں ریبا کو روزانہ ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ۔ گھر کا سارا نظام تلپٹ ہو گیاتھا۔ وہ ہر وقت جھنجھلائی رہتی۔ رینڈی اور لارین سہمے سہمے رہتے اور برائین اپنے کام پر پوری توجہ مبذول کرنے سے قاصر تھا۔ اس طرح اس کی آمدنی روز بروز گھٹنے لگی۔ خاندان کی خوشیوں کی ڈور جیسے ٹوٹ کے رہ گئی تھی۔ اور ایک بیزاری’افسردگی اور نامعلوم سے خوف نے انھیں گھیر لیا تھا۔ دوسری طرف فلپس کی بیماری پر اٹھنے والے اخراجات میں روز افزوں اضافہ ہوتا جارہاتھا۔ ڈاکٹر کا بل’ مختلف مہنگے مہنگے ٹیسٹ’ نت نئی بیش قیمت دوائیں۔ برائین خاصا چڑ چڑا ہو چکا تھا۔

            ازدواجی زندگی میں پہلی بار ایک رات ان دونوں میں شدید تکرار ہوئی۔ قصور کسی کا بھی نہ تھا لیکن بے بسی’ عدم تحفظ اور ایک ان جانے خوف نے انہیں کئی ماہ سے گھیر رکھا تھا’ یہ اس رد عمل کا نکاس تھا اگرچہ بظاہر جھگڑے کی وجہ بڑھتے ہوئے اخراجات اور گھٹتی ہوئی آمدنی تھی۔

            ‘‘میں نے یہ پریس چالیس ہزار ڈالر قرض لے کر لگایا تھا۔’’ برائین پوری قوت سے دھاڑا۔ ‘‘اور اب میں گھر کی ضروریات ایک طرف رہیں’ سود کی ماہوار قسط بھی ادا نہیں کرسکتا۔ زندگی جہنم کا نمونہ بن کر رہ گئی ہے۔’’ صبح جب دونوں کا موڈ نارمل ہوا تو ریبا نے تجویز پیش کی: ‘‘برائین! یہ ہمارا خون ہے۔ ہمیں اس کی زندگی کے لیے آخری سانس تک جدوجہد کرنی ہے۔ ہمیں خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اگر تم اجازت دو تو میں آمدنی میں کچھ اضافے کے لیے اسکول میں ملازمت کر لوں۔’’

            برائین نے اسے ملازمت کی اجازت دے دی اور خود بھی اپنے اوقات کار میں اضافہ کر دیا۔ وہ بے چارہ علی الصبح کام میں جت جاتا اور اکثر رات گئے تک کام کرتا رہتا۔ سر توڑ محنت کے سبب وہ بے حدکمزور ہو گیا’ لیکن میاں بیوی کی جدو جہد کے باوجود ان کے اخراجات آمدنی سے بڑھتے ہی چلے گئے۔ فلپس کو روز ایک نئی بیماری گھیر لیتی اور اس کے لیے مہنگی سے مہنگی ادویات خریدنی پڑتیں جو اگلی صبح تک بیکار ہو جاتیں۔ کیونکہ نیا سورج فلپس کے لیے ایک نئی بیماری لے کر طلوع ہوتا۔

            اپنے علاقے کے ڈاکٹروں سے مایوس ہو کر ریبا نے کسی ایسے ڈاکٹر کی تلاش شروع کر دی جو بچے کے اصل مرض کی تشخیص کر کے اس کا باقاعدگی سے علاج کر سکے۔ اس نے دور دراز کا سفر کیا اور بڑے بڑے نامور ڈاکٹروں سے مشورہ کیا۔ انہوں نے فلپس کا خوب ٹھونک بجا کر معاینہ کیا’ منہ مانگی فیسیں وصول کیں’ مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات! پھر ستم ظریفی یہ کہ ہر ڈاکٹر کی تشخیص دوسرے سے یکسر مختلف تھی’ چنانچہ ہر ایک مختلف دواؤں کا مشورہ دیتا۔ ریبا نے ہر ڈاکٹر کی بتائی ہوئی دوا استعمال کی اور تمام تر ہدایات پر عمل کیا لیکن فلپس کی بیماری بڑھتی ہی چلی گئی۔ وہ گول مٹول سا بچہ ہڈیوں کا ڈھانچا بن کر رہ گیا تھا۔ رینڈی اور لارین معلوم نہیں کیوں اس سے خوف کھانے لگے۔ وہ اس کے نزدیک جانے سے بھی کتراتے تھے۔ صرف ریبا کی مامتا تھی جس نے بچے کو سہارا دے رکھا تھا۔ بعض اوقات اسے یہ خوف دامن گیر ہوجاتا کہ اگر فلپس کو کچھ ہوگیا تو... لیکن وہ ایسے خیالات فوراً دماغ سے جھٹک دیتی اور خدا سے اس کی درازی عمر اور صحت یابی کے لیے خشوع و خضوع سے دعائیں مانگنے لگتی۔

            ایک دن وہ گھریلو سودا سلف خریدنے اسٹور پر گئی ۔ وہاں اچانک ڈاکٹر غزالہ کو دیکھ کراسے بڑی خوشی ہوئی۔ڈاکٹر غزالہ اس سے بڑی محبت سے ملی تھی۔ اسے ریبا اور فلپس اب تک یاد تھے’ حالانکہ روزانہ اس کا سابقہ کتنے ہی مریضوں سے پڑتا ہوگا۔ اس نے بچے کا حال دریافت کیا تو ریبا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ڈاکٹر غزالہ اسے بڑی محبت سے برابر والے کیفے میں لے گئی اور اس کی دردناک داستان سنی۔ وہ تھوڑی دیر کچھ سوچتی رہی’ پھر بولی:‘‘ریبا! پہلے تو آپ کچھ صدقہ دیں.....’’

            ریبا کے ذہن کو جھٹکا لگا۔ یہ بات تو اس نے بالکل ہی فراموش کر دی تھی۔ اسے پہلے ہی اس طرف توجہ دینی چاہیے تھی۔ غزالہ کہہ رہی تھی:‘‘ہمارے پیارے نبیؐ کی حدیث ہے کہ سب سے بہتر صدقہ یہ ہے کہ آپ کسی بھوکے کو کھانا کھلائیں’ چنانچہ اگر آپ میری بات مانیں تو کسی بے کس اور لاچار انسان کو دو وقت کھانا کھلا دیا کریں۔’’

            ‘‘لیکن گزالہ!’’ ریبا نے حیرانی سے کہا۔ ‘‘ہمارے ملک میں بھوکا کہاں سے ملے گا؟ ‘‘ریبا!’’ غزالہ سنجیدگی سے بولی۔ ‘‘اپنے گھر کے ماحول سے باہر نکل کر دیکھو۔ تمھیں کتنے ہی ننگے بھوکے انسان مل جائیں گے۔ ان میں سے کسی کو دو وقت کھانا کھلادیا کرو۔ اور ہاں’میں ایک ڈاکٹر کا نام اور پتا لکھ دیتی ہوں۔ کل فلپس کو اپنے ساتھ لے جانا اور اس ڈاکٹر سے بھی مشورہ کر لینا۔’’

            غزالہ نے ایک کاغذ پر اسے ایک نام اور میامی کی میڈیکل یونیورسٹی کا پتا لکھ دیا۔ گھر واپس آتے ہی ریبا سب سے پہلے بوڑھے ٹام کے گھر گئی۔ یہ سیاہ فام بوڑھا ان کے مکان کی عقبی کوٹھڑی میں رہتا تھا۔ ستر برس کے لگ بھگ عمر تھی اور وہ کام کاج کرنے کے قابل نہ تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کا آگے پیچھے کوئی نہ تھا۔

            ٹام سے اسے پتہ چلا کہ امریکہ جنت نہیں جہاں کوئی بھوکا نہ ہو۔ وہ اکثر اوقات بھوکا رہتا تھا۔ کون تھا جو اس کی پروا کرتا’ اس کو کھانا دیتا۔

            ریبا نے ٹام سے کہا:‘‘انکل! آپ روز ہمارے گھر آکر کھانا کھا لیا کریں۔’’ اور ٹام کے چہرے پر ممنوعیت کے تاثرات ابھر آئے۔ اسے یقین تھا برائین ایک بوڑھے کے کھانے پر اعتراض نہیں کرے گا۔

            اگلے روز وہ فلپس کو میڈیکل یونیورسٹی لے گئی۔ یہاں اسے ماہر امراض اطفال ڈاکٹر اسکاٹ سے ملنا تھا۔ ڈاکٹر خوش اخلاق عمر رسیدہ شخص تھا۔ اس نے بڑی شفقت سے فلپس کا حال احوال سنا’ ضروری سوالات کیے اور پھر اس کی پرانی رپورٹیں دیکھیں۔ اس کے بعد اس نے تمام ٹیسٹ از سر نو کرائے۔

            ان ٹیسٹوں کے نتائج چھ ہفتے بعد موصول ہوئے۔ اس دوران ٹام روزانہ اس کے گھر آکر کھانا کھاتا اور اسے ڈھیروں دعائیں دے کر رخصت ہو جاتا۔ ایسے میں ریبا کو ایک انوکھی اور انجانی سی خوشی محسوس ہوتی۔ اس کی توقع کے عین مطابق برائین نے ٹام کے کھانے پر اعتراض کرنے کے بجائے خوشی کا اظہار کیا تھا۔

            ٹیسٹ کی رپورٹیں موصول ہونے کے بعد ڈاکٹر اسکاٹ نے ریبا اور برائین دونوں کو بلوایا۔ وہ انہیں اپنی تشخیص سے آگاہ کرنا چاہتا تھا۔ جو کچھ اس نے بتایا اس کا لب لباب یہ تھا کہ خدا نے انسانی جسم میں ایسے عناصر پیدا کر رکھے ہیں جو امراض کا مقابلہ کرتے ہیں اور چھوٹی موٹی بیماریوں کو بڑھنے سے قبل کنٹرول کر لیتے ہیں۔ یہی عناصر اس وقت بھی کام کرتے ہیں جب انسان شدید بیمار ہو۔ اس صورت میں کچھ کام ادویات کرتی ہیں’ باقی کام یہ عناصر ازخود انجام سر انجام دے لیتے ہیں اور انسان کو صحت مند و توانا رکھتے ہیں۔یہ عناصر مل کر انسان کا مدافعتی نظام تشکیل کرتے ہیں ۔ لیکن فلپس پیدائشی طور پر اس نظام کے دو اہم اجزا سے محروم تھا۔ طبی اصطلاح میں اس بیماری کو قلت مدافعت (immune Deficiency) کہا جاتا ہے۔ اس کے باعث انسان ہر قسم کے جراثیم سے فوراً متاثر ہو جاتا ہے اور پھر کوئی بھی مرض مہلک صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اس مرض کا مختصراً احوال بتا کر ڈاکٹر اسکاٹ نے فلپس کے بارے میں بتایا کہ اس کی ہڈیوں کا گودا وہ خلیے نہیں بنا رہا جن سے مدافعتی گلوبین بنتا ہے اورپھر اس گلوبین سے وہ اجزا بنتے ہیں جو انسانی جسم کو امراض سے محفوظ رکھتے ہیں۔

            ریبا اور برائین یہ سن کر سناٹے میں آ گئے۔ ‘‘ڈاکٹر! کیا یہ مرض ایڈز ہے؟’’ برائین نے پوچھا۔ ‘‘ایڈز نہیں’ لیکن اس کا بھائی سمجھ لو۔’’

            ‘‘تو پھر اس کا علاج بھی ناممکن ہوگا؟’’ برائین بے حد مایوس تھا۔ڈاکٹر مسکرایا...‘‘خدا کی رحمت سے مایوس مت ہو۔ اس کا علاج موجود ہے’ لیکن بڑا ٹیڑھا ہے۔بہر حال کل سے علاج شروع کرتے ہیں۔’’ اگلے روز ڈاکٹر اسکاٹ نے فلپس کو ایسے خون کے انجکشن دینے شروع کیے جس میں امراض کے خلاف مزاحمت کی قوت بدرجہ اتم موجود تھی۔ اس علاج نے اثر دکھایا اور فلپس ٹھیک ہونے لگا۔ چند ماہ اسی حالت میں گزرے اور فلپس کی صحت پہلے سے بہت بہتر ہو گئی۔

            ادھر بوڑھا ٹام ہر روز کھانا کھانے کے بعد ریبا کو دعائیں دیتا رخصت ہوتا۔ خاتون کی درخواست پر وہ فلپس کی درازی عمر کی دعائیں بھی کرتا...!

            فلپس کی حالت بہتر ہو رہی تھی کہ اچانک ایک دن اسے نمونیا ہو گیا۔ جب اس کو مقامی اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں پہنچایا گیا تو اسے ۱۰۵ درجے کا بخار تھا۔ ریبا اس کی زندگی سے مایوس ہوچکی تھی۔ فلپس ایک علیحدہ کمرے میں بند تھا اوروہ استقبالیہ

میں کرسی پر بیٹھی رورو کر خدا سے دعا کر رہی تھی‘‘اے کائنات کے خالق! اے خدا! میرے معصوم بچے کی زندگی کی بھیک دے دے!’’

            کئی دنوں کے مسلسل علاج سے فلپس تندرست ہو کر گھر واپس آگیا’لیکن اب اس کا وزن محض پندرہ پونڈ باقی رہ گیا تھا وہ کھا پی سکتا تھا نہ ہاتھ ہلا سکتا تھا۔ ریبا کا کلیجہ کٹ کر رہ گیا’ بہر حال جب تک سانس تب تک آس۔

            سالگرہ سے ایک ماہ قبل فلپس پھر شدید بیمار پڑ گیا۔سارا دن اسے قے آتی رہی اور شام کو جب اسے ایمرجنسی روم میں پہنچایا گیا تو وہ بالکل مردہ نظر آرہا تھا۔ دس گھنٹے تک ریبا اور برائین ایمرجنسی روم کے باہر بے چینی سے ٹہلتے رہے اور وہ نہ معلوم کیا کیا دعائیں مانگتی رہی۔ بہرحال صبح کے قریب انھیں اطلاع ملی کہ بچہ اس بحران سے بھی زندہ سلامت نکل آیا ہے اور اب وہ روبہ صحت ہے۔

            ریبا اور برائین نے اسپتال کے کیفے ٹیریا میں ہلکا سا ناشتا کیااور پھر ڈاکٹر اسکاٹ سے ملنے روانہ ہو گئے۔ ڈاکٹر نے تمام حالات سن کر کہا:‘‘دراصل فلپس کے مرض کا ایک ہی حل ہے۔’’

            ‘‘وہ کیا ڈاکٹر؟’’ دونوں بے تابی سے بولے۔ ‘‘بچے کی ہڈیوں میں صحت مند گودے کی پیوند کاری کی جائے ’ لیکن یہ گودا ایسے انسان کی ہڈی کا ہونا چاہیے جو جسمانی طور پر فلپس سے ملتا جلتا ہو’ میرا مطلب ہے خون کے گروپ کے سلسلے ہی میں نہیں بلکہ اور کئی چیزوں میں بھی۔ یہ فیصلہ تمام ٹیسٹ لینے کے بعد کیا جاسکتا ہے۔’’

            ‘‘اس پیوند کاری سے کیا فائدہ ہوگا؟’’ برائین نے پوچھا۔‘‘کیا فلپس تندرست ہوجائے گا؟’’

            ‘‘ضروری نہیں’ لیکن یہ آخری امید ہے۔ اگر ہمیں کوئی موزوں شخص مل جائے جس کا گودا فلپس کی ہڈیوں میں داخل کیا جاسکے تو امید کی جاسکتی ہے کہ جسم اسے قبول کر لے گا اور یہ گودا ان ضروری اجزا کی پیداوار شروع کردے گا جو جسم کا مدافعتی نظام کہلاتی ہیں۔ ہم اپنی کوشش کریں گے’ آپ خدا سے دعا کریں۔ ماں باپ کی دعاؤں میں بہت اثر ہوتا ہے اور خدا یہ دعائیں قبول کرتا ہے۔’’

چنانچہ ریبا اور برائین نے فوراً اس آپریشن کی منظوری دے دی۔ سب سے پہلے ماں باپ کے ٹیسٹ لیے گئے۔ لیکن ان کا گودا فلپس کے لیے مناسب نہیں تھا۔ بہرحال فلپس کی بہن لارین’ جس کی عمر اس وقت محض پانچ برس تھی’اس مقصد کے لیے مناسب پائی گئی۔

            ڈاکٹر نے ابتدائی تیاریاں مکمل کرنے کے بعد نیویارک کے میموریل سلوان کینسر سینٹر سے رابطہ قائم کیا۔ امریکہ میں ایسے آپریشن صرف معدودے چند اسپتالوں میں ہوتے ہیں جن میں یہ اسپتال ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں بھی ایسے آپریشن کے لیے صرف سات بستر ہیں۔ فلپس کو ایک ماہ بعد داخلے کی تاریخ دی گئی۔

            اس دوران فلپس کی سالگرہ بڑی دھوم دھام سے منائی گئی۔ ریبا نے اس کے لیے بڑا اہتمام کیا تھا اور ڈاکٹر غزالہ کے ساتھ ساتھ ٹام کو بھی مدعو کیا گیاتھا۔ ٹام کی زندگی میں ایسی دعوت میں شرکت کا یہ پہلا موقع تھا۔ وہ بے حد خوش تھا اور ریبا کو مسلسل دعائیں دیے جارہا تھا۔

            پارٹی کے اختتام پر ریبا نے ڈاکٹر غزالہ سے پوچھا:‘‘مجھے کوئی اور طریقہ بھی بتاؤ۔‘‘ سدکہ’’ تو میں مسلسل دے رہی ہوں۔’’

            غزالہ نے کہا:‘‘ ہر وقت خدا کو یاد کرتی رہو اور اس سے مدد مانگتی رہو۔ ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ خدا رحمان و رحیم ہے۔’’اور ریبا نے غزالہ کی یہ نصیحت گرہ سے باندھ لی۔

            آخر کار فلپس کو نیویارک کے اسپتال میں داخل کر دیا گیا۔فلپس کے کمرے کا روزانہ کرایہ ۱۵۰۰ ڈالر تھا۔ اس میں کرائے کے علاوہ دیگر سہولتیں بھی شامل تھیں جیسے جراثیم سے پاک فضا’پانی’خوراک وغیرہ’ حتی کہ اسے کھلونے تک ایسے فراہم کیے جاتے تھے جو جراثیم سے پاک ہوتے۔

            ریبا نے اپنی رہائش کے لیے اپنی کزن کا گھر منتخب کیا جو اسپتال سے ۸۰ میل دور تھا۔ وہ روز صبح اپنی کار میں وہاں آتی اور شام کو واپس چلی جاتی۔

            ادھر برائین کو لارین کے بارے میں فکر لاحق ہو گئی کہ ہڈی کے گودے کا عطیہ دینے سے کہیں بچی کو کوئی نقصان نہ پہنچے’ چنانچہ اس نے کئی ماہرین سے رابطہ کیا’ تاہم سب نے ایک ہی جواب دیاـ‘‘گودے کا عطیہ دینے والے کو کوئی نقصان نہیں ہو سکتا۔

 اس کا جسمانی نظام از خود یہ کمی پوری کر لیتا ہے۔’’

            اسپتال میں ریبا’ فلپس کے کمرے میں داخل نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ شیشے کی دیوار کے پار کھڑی اسے دیکھتی اور انٹر کام پر اس سے باتیں کرتی رہتی اور زیر لب خدا سے اس کے لیے دعائیں کرتی ۔ نیو یارک میں اس نے بعض بے حد غریب و نادار افراد بھی دیکھے اور وہ حتی الامکان ‘‘سدکہ’’ کے خیال سے ان کی مدد کرتی رہی۔ اسے برائین کا بھی خیال تھا جو دن رات محنت کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کی دیکھ بھال بھی کر رہا تھا۔ اندازہ تھا کہ اس آپریشن پر تیس سے چالیس ہزار ڈالر تک صرف ہوں گے۔ گو ان میں سے ۸۰ فیصد میڈیکل انشورنس سے مل جانے تھے’ تاہم دیگر اخراجات بھی تو تھے۔

            پھرایک اور مسئلہ آن کھڑا ہوا۔ نیو یارک کے اسپتال میں لارین کے ٹیسٹ سے پتا چلا کہ اس کا گودا فلپس کے لیے قابل قبول نہیں اور میامی کے اسپتال میں غلط نتائج اخذ کیے گئے تھے۔ ریبا تمام رات روتی اور خدا سے رحمت کی دعائیں کرتی رہی۔

            اگلے روز ڈاکٹروں نے بتایا کہ فلپس کے بڑے بھائی رینڈی کا گودا بالکل مناسب رہے گا۔ ریبا یہ خوش خبری سنتے ہی بے اختیار گھٹنوں کے بل جھک گئی۔ اس کے منہ سے یہ الفاظ نکل رہے تھے:‘‘اے غزالہ کے خدا! میں تیرا کس منہ سے شکر ادا کروں۔ تو واقعی رحمان و رحیم ہے۔’’

            جب رینڈی کو گودے کا عطیہ دینے کے متعلق کیا گیا تو اس نے بڑے یقین سے کہا: ‘‘امی! بھیا کے لیے میرے جسم کا جو حصہ چاہیے’ لے لیں۔’’

            ۲۴ نومبر ۱۹۸۱ء کو صبح آٹھ بجے نرس نے رینڈی کو وہیل چیئر پر بٹھایا اور آپریشن تھیٹر کی طرف لے گئی۔ رینڈی نے بڑی بہادری دکھانے کی کوشش کی’ لیکن اس کے چہرے سے خوف اور پریشانی عیاں تھی۔ ریبا کا دل کٹ کر رہ گیا ۔ اس کا بڑا بیٹا بھی خطرے کے منہ میں تو نہیں جا رہا؟ وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ پھر تھوڑی دیر بعد اسے غزالہ کے الفاظ یاد آئے اور وہ ایک کرسی پر بیٹھ کر لفظ ‘‘گاڈ’’ کا ورد کرنے لگی۔ اب وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر آنکھیں بند کیے خدا کویاد کر رہی تھی۔ اس کی تمام پریشانی ہو اہوچکی تھی۔

ادھر آپریشن تھیٹر میں ڈاکٹروں نے فلپس اور رینڈی کو بے ہوش کر رکھا تھا۔ رینڈی کے کولہے کی ہڈی میں سے ایک سرنج کے ذریعے گودا نکالاگیا اور پھر یہ نرم لجلجلا گودافلپس کی چھاتی کی ایک شریان میں داخل کردیا گیا۔ ریبا کے لیے یہ دن بے حد صبر آزما ثابت ہوا۔ وہ کبھی ایک بیٹے کے کمرے کی طرف بھاگتی اور کبھی دوسرے بیٹے کے کمرے کی طرف۔ اس کے ہونٹ مسلسل ہل رہے تھے اور وہ خدا کو یاد کیے جارہے تھے۔

            آپریشن کے تیسرے دن فلپس کو ۱۰۵ درجے کا بخار ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ ہو سکتا ہے کہ اس کے جسم نے پیوند کاری قبول نہ کی ہو’ اور اگر ایسا ہوا تو اس کا نتیجہ موت کی صورت میں برآمدہو سکتا ہے۔ بات اب ان کے اختیار سے باہر تھی۔

            ریبا نے جلدی جلدی ڈاکٹر غزالہ کے نمبر ڈائل کیے۔ اتفاق سے وہ مل گئی۔ریبا نے جملہ صورت حال بتا کر اس سے پوچھا کہ ان حالات میں وہ خدا کی خوشنودی کے لیے کیا کرے؟ڈاکٹر غزالہ نے جواب دیا کہ میں اگرچہ آپ کے مذہبی عقائد میں دخل انداز نہیں ہونا چاہتی’ لیکن اتنی درخواست کروں گی کہ آپ مزید صدقہ دیں اور مسلسل یہ الفاظ دہراتی جائیں:‘‘ اے خدا! زندگی ’موت تیرے ہاتھ میں ہے ۔ میرے بچے کو زندگی کی بھیک دے دے۔’’

            ریبا نے غزالہ کے مشورے پر پوری طرح خلوص دل سے عمل کیا۔ وہ مسلسل دو دن اور دو راتیں یہ ہی الفاظ دہراتی رہی۔ اسے اردگرد کی کوئی خبر نہ تھی۔ نرسیں بڑی مشکل سے اسے کچھ کھلا پلا دیتیں اور وہ اسقبالیہ کمرے میں ایک کرسی پر گم صم بیٹھی یہ ہی الفاظ دہراتی رہتی۔

            اور پھر اچانک جیسے اس کے ذہن میں ایک اجنبی آواز گونجی....فلپس ٹھیک ہوگیا ہے...!

            وہ چونک کر اٹھی۔ شام کا وقت تھا۔ استقبالیہ کلرک نے حیرت زدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا لیکن وہ تیزی سے باہر بھاگی۔ سامنے ہی ایک غریب سا بوڑھا لڑکھڑاتا ہوا جارہا تھا۔ وہ دس ڈالر کا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھماتی ہوئی بولی:‘‘فلپس کا سدکہ!’’ اب اسے خود بھی بھوک محسوس ہورہی تھی۔

کھانا کھا کر جب وہ اسپتال واپس آئی تو نرس اس کا انتظار کر رہی تھی۔ فلپس کا بخار ٹوٹ گیا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کی حالت درست ہوتی گئی۔ اس کی ہڈیوں نے گودے کا عطیہ قبول کر لیاتھا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ وہ جان پکڑتا جارہا تھا۔ آخر کار ۳۰ دسمبر ۱۹۸۱ء کو وہ دن آ پہنچا جب اسے رخصت ہونا تھا۔ اسپتال کی نرسوں نے رینڈی’فلپس اور ریبا کے اعزاز میں ایک پارٹی کا اہتمام کیا۔ پارٹی میں فلپس نے خوب کھایا اور شور مچایا۔

            جب وہ اسپتال سے رخصت ہونے لگے تو ایک نرس’ جس نے فلپس کی دیکھ بھال کی تھی’ ریبا سے بولی:‘‘مسز برائین! یہ بچہ بڑا خوش قسمت ہے جو بچ گیا’ ورنہ ایسے مریض زندہ نہیں رہتے۔’’

            ریبا نے جواب دیا:‘‘فلپس کی زندگی کی دو وجوہات ہیں۔ خدا’ جو بہت رحمان و رحیم ہے اور دوسرا سدکہ...! ’’اور وہ فلپس کو گود میں اٹھائے’ رینڈی کا ہاتھ پکڑے کار کی طرف چل دی۔ کار میں برائین اور لارین ان کے منتظر بیٹھے تھے۔ اس خاندان کی خوشیاں پھر لوٹ آئی تھیں! ریبا نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ ڈاکٹر غزالہ سے مل کر اسے مذہب کے بارے میں معلومات حاصل کرے گی اور اگر اس مذہب پر کوئی کتاب مل سکی تو اس کا مطالعہ کرے گی۔ (بشکریہ ارد و ڈائجسٹ)

٭٭٭