مکافاتِ عمل

مصنف : محمد اکرم رانجھا

سلسلہ : مکافات عمل

شمارہ : مئی 2013

اللہ کے رضا چاہنے والوں اور عیش پرستوں کی عبرتناک سچی داستان

            میرا تعلق بنیادی طورپر سرگودھا کے دیہی علاقے سے ہے۔ میں جب کبھی لاہور آتا، سید اسعد گیلانی مرحوم یہ کہہ کر مجھے ہجرت پر اکساتے کہ سرگودھے والے باسی اخبارات پڑھتے ہیں، باسی پھل کھاتے ہیں اور مجھے قائل کیا کرتے کہ چھوٹے شہر سے ہجرت کرکے بڑے شہر میں آبسنا سنتِ رسولﷺ عربی ہے۔ ہجرت مکہ کے بعد نبی کریم ؐ اور آپ ؐ کے ساتھی کسی ویرانے میں جابستے تو وہی ویرانہ رشک صد فردوس بن جاتا لیکن یثرب کو شرف ہجرت بخشا جانا یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ بڑے شہر اعصابی مراکز اور کسی تحریک سے وابستہ افراد کی کامیابی کا اولین زینہ ہوتے ہیں۔

            بہرحال کچھ گیلانی صاحب کی ترغیب سے اور کچھ دنیاوی اغراض کی خاطر ۱۹۷۹ء میں لاہور آبسا۔ یہاں آکر مجھے دو ہزار ماہانہ پر کرائے کے مکان میں رہنا پڑا۔ میرے مالک مکان وہ پہلا کردار تھے جومجھے باور کرا گئے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کی مخلوق ایک سے ایک بڑھ کر ہے، نیز اللہ کے بندے اس کی زمین پر عاجزانہ چال چلنے والے ہیں، وہ راتوں کو مصلوں کی زینت ہوتے ہیں اور دن کے دوران دیانت و امانت کے ساتھ رزق حلال کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔میرے مالک مکان نے ۱۹۸۲میں وطن چھوڑا اور کاروبار اور ملازمت کے سلسلے میں حرمین شریفین والی متبرک زمین کو وطن ثانی بنالیا۔

            میں ان کے مکان میں ۱۹۸۴ سے ۱۹۹۴ء تک مقیم رہا۔مکان کا سالانہ کرایہ ۲۴۰۰۰ روپے سے شروع ہوکر ۶۰۰۰۰ روپے تک پہنچا۔میں گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے کبھی کرایہ وصول نہیں کیا۔دس برسوں کا تمام کرایہ میرے ہاتھوں مختلف خیراتی اداروں کو دیا گیا۔ میں رسیدیں حاصل کرکے اپنے مالک مکان کے حوالے کر دیتا تھا۔ ہر شعبان میں ان کاخط بلکہ حکم نامہ مجھے موصول ہوجاتا: ‘‘ دس ہزار جہاد کشمیر فنڈ اوردس ہزار جہاد افغانستان فنڈ میں جمع کرا دیں۔بقایا چار ہزار جمعیت طلبہ عربیہ کے شہید فلاں نوجوان کی والدہ کو وہاڑی کے پتے پر منی آرڈر کردیں۔’’ عطیات بھیجتے بھیجتے مجھے اسلامی تعلیمی مراکز کے پتے ازبر ہو گئے ۔بعض اوقات وہ اپنے قریبی اعزہ و اقارب کو بھی یادرکھتے اور تاثر دیتے کہ یہ قرض حسنہ کی مد سے ہیں۔ ان کا ایک ہی تقاضا ہوتا کہ تقسیم عطیات کاسارا کام رمضان کے مقدس مہینے میں تکمیل پذیر ہوجائے تاکہ وہ کم ازکم ستر گنا اجرو ثواب کے مستحق ٹھہریں ۔

            میں اپنے مالک مکان کے جذبۂ انفاق پر حیران بھی تھا اور خوش بھی کہ دنیا میں ایسے مخیر لوگ بھی ہیں۔ یہ خیال بھی آتا کہ میرے ممدوح مالک مکان سعودیہ میں کاروبار کر رہے ہیں، وہاں ریال کماتے ہیں، اس لیے تیس چالیس ہزار روپے فی سبیل اللہ خرچ کر ڈالنا ان کے لیے کوئی بڑی بات نہیں۔

            میں ۱۹۸۵ء میں عمرے کے لیے مکہ مکرمہ ان کے مکان پر پہنچا۔ انہوں نے انتہائی خندہ پیشانی سے میرا استقبال کیا اور کچھ پوچھے بغیر میرا سامان خود اٹھا کر بالائی منزل پر لے گئے ۔ میں دس روز ان کا مہمان رہا غالبا ًدسمبر کے آخری ایام تھے۔ وہ صبح ناشتا ، دو بجے ظہرانہ اور آٹھ نو بجے رات کا کھاناکھاتے ، لیکن میرے لیے بھاری ناشتا پر اٹھا وغیرہ تیار کراتے اور رات کا کھانا مغرب کی نماز کے فوراً بعد میرے کمرے میں پہنچا دیا جاتا۔انہوں نے نہ صرف خود مجھے بے حد عزت و اکرام سے نوازا بلکہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں نے بھی میری خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ میری جدہ روانگی کے وقت میرا بھاری سامان خود اٹھا کر ٹیکسی اڈے پر لے گئے اور مجھے محبت کے ساتھ روانہ کیا۔

            قیام حرم کے دوران انہوں نے مجھے منیٰ ، مزدلفہ ، عرفات ، جبل نور اور جبل ثور کی زیارت کرائی۔ خود کا ر ڈرائیو کرتے رہے۔ میں نے پوچھا وطن واپسی کب ہوگی ۔مجھے یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ مکان خالی کرنا ہوگا اور مضافات لاہور میں ان کی جو پچاس ایکڑ زمین مزارعت پر لے رکھی ہے، وہ بھی چھوڑنی ہوگی۔ وہ مسکرائے اور فرمایا: ‘‘خاطر جمع رکھو، واپسی کا ابھی کوئی ارادہ نہیں ۔بھلے آدمی ، یہاں سے کوئی مسلمان از خود واپسی کا سوچ سکتا ہے؟ جب تک ممکن ہوا حرم پاک کی نمازوں اور سعادتوں سے فیض یاب ہوتارہوں گا۔جب ممکن نہ رہا تو یہاں کی پاکیزہ یادیں سینے سے لگائے آپ لوگوں کی خدمت میں آحاضر ہوں گا۔’’

            سعودیہ میں برسوں قیام کے باوجود ان کا ساز و سامان معمولی حیثیت کا تھا۔ غیر ملکی اشیاء کی چک دمک ان کے گھر میں نہیں تھی۔ وہ بہت کچھ کماتے لیکن راہ خدا میں خرچ کر ڈالتے تھے۔ میرے دس روزہ قیام کے دوران تین چار مہمان اور آئے اور میری طرح بے تکلفی سے اپنا گھر سمجھ کر ڈیرے ڈال دیے۔بعد میں پاکستان کے دوستوں نے بتایا کہ تمہارے مالک مکان کا گھر تو حج کے دنوں میں مدینتہ الحجاج کا منظر پیش کرتاہے۔مہمانوں کی خوراک و رہائش کا اہتمام تو درکنار ، مالکہ مکان حاجیوں کے کپڑے دھونے اوراستری کرنے کا فریضہ بھی خود انجام دیتی ہیں اور ایام حج میں ان کے ہاں کبھی پچاس سے کم پاکستانی مہمان نہیں ہوتے۔ تب مجھے یاد آیا کہ قیامِ عمرہ کے دوران روزانہ دھلے دھلائے کپڑے میرے تکیے پر کون رکھ دیتا تھا۔میرا مالک مکان میری نگاہ میں ایک مثالی انسان ہے۔ اب وہ سال بھر سے پاکستان واپس آگیاہے اور اس کے اس کے بعد بھی دو تین عمرے کر چکا ہے کیونکہ اس کا دل انہی پر نور فضاؤں میں اٹکا ہواہے۔اس کی عمدہ صحت، نورانی چہرہ، اس کی متقیانہ زندگی اور امانت و دیانت ، اس کی اس دنیا میں بھلائی اور آخرت کی یقینی بھلائی ، کس چیز کا تذکرہ کیا جائے اور کس چیز کا تذکرہ چھوڑا جائے۔ اس عظیم اورانمول کردار کی عظمت کایہ عالم ہے کہ میں اس کا نام اور پتہ ظاہر نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اجر عظیم کی خاطر اللہ تعالیٰ کے ہاں گم نام محسنوں کی صف میں شامل ہوکر حاضر ہونا چاہتاہے ،تاہم یہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ ملت مسلم کا ایک گراں قدر ہیرا ہے اور اس ملت کا عظیم وجود انہی جیسے ہیروں اور موتیوں کا مرہون منت ہے۔

            اپنے اس بے لوث محسن کی عظیم داستان کے ساتھ ساتھ اپنے ایک بد نصیب دوست کی دکھی کہانی سنانے کو بھی جی چاہتا ہے تاکہ نگاہ عبرت کچھ تودیکھ سکے۔ یہ صاحب میرے آبائی گاؤں سے ملحق ایک بڑے گاؤں کے باسی اوربہت بڑے قبیلے کے فرد ہیں۔ اگست ۹۲ء ۹۱ء کی بات ہے۔ ایک دوپہر وہ میرے پاس منصورے تشریف لائے۔ان کے پاس ایک ایف آئی آر کی نقل تھی ۔ وہ ہوائی فائرنگ کے الزام میں ضمانت قبل از گرفتاری چاہتے تھے جو بڑی ہی آسان بات تھی۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ براہ راست ہائی کورٹ اس لیے آئے ہیں تاکہ ناکامی کی صورت میں گرفتاری کا خطرہ نہ رہے۔ میں نے بھاری فیس مانگی۔ انہوں نے بے پروائی سے نیلے سبز نوٹ میرے سامنے رکھ دیے اور فرمایا : ‘‘میں نے پانچ سال سعودی عرب میں خوب دولت کمائی ہے، اس لیے فیس ویس کوئی مسئلہ نہیں۔ضمانت لازمی طور پر ہونی چائیے ۔’’

            میں نے اس نوجوان کودیکھا تودیکھتا ہی رہ گیا۔ درمیانہ قد، چھریرا بلکہ پھر یتلا بدن، گورا چٹا رنگ، خوبصورت آنکھیں ، ستواں ناک ، خوبصورت چمکیلے دانت ، سفید لٹھے کا کلف لگا تہمندجو زمین پر ٹخنوں سے نیچے گھسٹ رہ تھا،دو گھوڑا بوسکی کا کڑھائی والا کرتہ، سونے کے بٹن اور اسٹڈ ، گلے میں طلائی زنجیر اورانگلیوں میں سونے کی مختلف نگوں سے مزین دوانگوٹھیاں، اس پر مستزاد ہاتھ میں نفیس رولڈ گولڈ لائٹر اورغیر ملکی سگریٹوں کا پیکٹ تھا۔وہ سگریٹ کاکش بڑی دل جمعی سے لگاتا اورنیم وا آنکھوں کے ساتھ بڑے لا ابالی انداز سے دھویں کے مرغولے فضا میں بکھیرتا۔مجھے بھاری فیس کے علاوہ بھی اس نوجوان سے دلچسپی ہوگئی کیونکہ میں اس کے نام اور خاندان کو غائبانہ طورپر جانتا تھا۔دور پار کی رشتہ داری بھی تھی۔

            میں نے بات بڑھائی اور سعودی عرب کے حوالے سے پوچھا: ‘‘پھر آپ تو بڑے خوش قسمت ہیں کہ دولت دنیا بھی حرمین شریفین کے جوار میں رہ کر کمائی ۔ دوتین حج اور دو تین عمرے تو کہیں گئے نہیں۔ ہوسکتا ہے اس سے زیادہ بھی سعادت ملی ہو۔ پھر حرمین شریفین میں نماز پنجگانہ کا عظیم ثواب جو کسی نصیب والے کی قسمت میں ہوتا ہے! ’’نوجوان نے بے خیالی سے میری گفتگو سنی اور ناگوار ساتاثراس کے چہرے پر نمودار ہوا۔ اس نے سگریٹ سلگایا ، جھٹکے سے لائٹر بند کیا اور دیر تک دھواں منہ میں بند رکھا اور پھر مختصر سا جواب دیا: ‘‘میں نے کوئی حج وج کیا نہ کوئی عمرہ بلکہ میں نے نماز بھی شاید ہی کبھی پڑھی ہوا! میں تو دولت کمانے گیا تھا وہ ڈٹ کر کمائی اور بڑھ چڑھ کر خرچ کی ! ’’ میں اس کے منہ سے یہ جواب سے کر ہکابکا رہ گیا۔ زیادہ بات کو بڑھانا میں نے مناسب نہ سمجھا، تاہم اسے گوجرانوالہ کے خواجہ عبدالعزیز کی بدنصیبی کی داستان زبردستی سنا ڈالی:

            ‘‘خواجہ صاحب ساٹھ برس کی عمر میں عمر قید کی سزا پاکر نیو سنٹرل جیل ملتان میں وارد ہوئے۔ امیرو کبیر،موٹا تازہ انسان اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔اب وہ ایک طرح سے نفسیاتی مریض تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ۵۶۔۱۹۵۵ء میں حج پر گئے ۔ حج سے فارغ ہوتے ہی وہ اپنی عیاشانہ زندگی کی طرف لوٹ گئے۔ وطن واپسی کا انتظار بھی نہ کرسکے، وہیں جوار کعبہ کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں شباب وشراب کی محفلیں جم گئیں۔ وطن واپس آئے تو بدقسمتی کے اندھیرے سایوں نے آگھیرا ۔نوجوان دوسری بیوی اور اس کے آشنا کو طیش میں آکر قتل کر ڈالا اور اس پر انہیں عمر قید کی سزا ہوگئی۔ پہلی بیوی سے جوان لڑکوں نے عیاش اور بدقماش باپ کی دولت اور جائداد پر قبضہ تو کر لیا مگر اس کی خبر لینی مناسب نہ سمجھی ۔

            ‘‘اب کروڑ پتی خواجہ صاحب لاوارث قیدی تھے اور اپنی سزا کے خلاف اپیل کے لیے وکیل بھی مقرر نہ کر سکتے تھے۔ میں نے بحیثیت قیدی منشی جیل سے ان کی اپیل دائرکی ۔لیکن خواجہ صاحب اپیل کے فیصلے کا انتظار نہ کر سکے۔پہلے انہیں پاگل پن کے دورے پڑے۔انہیں دماغی امراض کے اسپتال منتقل ہونا پڑا جہاں ان کو ریڑھی کے آگے بطور بیل جوتا گیا۔وہ ناز ونعم سے پلے ہوئے تھے۔یہ مشقت برادشت نہ کر سکے اور ایک سال کے اندر انہیں دل کاجان لیوا دورہ پڑا اور وہ راہی ملک عدم ہوگئے۔عبرت کی بات یہ ہوئی کہ جوان اولاد اوران کی پہلی بیوی نے ان کی لاش وصول کرنے سے انکار کر دیا اور وہ لاوارث قرار پاکر کسی گم نام قبر میں دبا دیے گئے ۔نیم پاگل خواجہ صاحب نیوسنٹرل جیل ملتان کی پارک نمبر ۷ میں اونچی آواز سے کہا کرتے تھے کہ انہیں کعبے کی بے حرمتی کی سزا ملی ہے۔

حذر اے چرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

            نوجوان کہانی سن کر مسکرایا اور اس نے پھرسے بے پروائی کے ساتھ سگریٹ سلگایا اور دھویں کے مرغولے فضا میں چھوڑتے ہوئے کہا: ‘‘آپ میری ضمانت کی فکر کریں۔ایسی داستانیں سنانے والے دنیا میں اور بہت لوگ موجود ہیں۔ آج دنیا بھر کے ایک ارب مسلمانوں میں سے شاید ہی ایک لاکھ نمازی ہوں گے۔تو کیا باقی ایک لاکھ کم ایک ارب جیل میں چلے گئے ہیں یا پاگل ہوگئے ہیں۔یہ قسمت کے سودے ہیں۔مجھے دیکھیں میں سعودی عرب پانچ سال من مانی زندگی بسرکرکے آیا ہوں اور اتنی دولت کما لایا ہوں کہ میرے اقربا اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے ، حالانکہ وہ حاجی بھی ہیں اور نمازی بھی۔آپ مہربانی فرما کر میری پکی ضمانت کروا دیں کیونکہ مجھے آیندہ بلدیاتی الیکشن لڑناہے اور میرا منصوبہ یہ ہے کہ چیئرمین بلدیہ منتخب ہوجاؤں۔یہ اخلاقی درس آپ کسی اور کو دیں۔’’

            بات آئی گئی ہو گئی ۔ میں نے ڈٹ کر فیس وصول کی ، اور خرچہ درخواست اورعملے اوراہلکاروں کے نام پر مزید بہت کچھ لیا جو ملا کر فیس سے بھی زیادہ تھا، تاہم ضمانت پختہ کروا دی کیونکہ معمولی جرم تھا اور ضمانت ہوہی جانی تھی۔

            بلدیاتی انتخابات ہوئے اور وہ نوجوان بھاری اکثریت سے جیت گیا کیونکہ سعودیہ سے کمائی ہوئی دولت کے سامنے مدمقابل کی سب پیش بندیاں ریت کی طرح بہہ گئیں ، تاہم برادری میں ایک مستقل مناقشت کا آغاز ہو گیا اور چند روز بعد ہمارے نوجوان منتخب نمایندے کومخالفین نے سربازار جوتوں سے پیٹا، اس کے کپڑے پھاڑ دیے اور بال نوچ ڈالے ۔ ایک ہفتہ بعد اس بھپرے نوجوان نے اسی بازار میں اپنے مدمقابل کو بندوق کے فائر سے قتل کر دیا، اس پر مقدمہ چلااور اسے عمر قید کی سزا ہوگئی ۔ اب وہ غالباً اسی بارک نمبر ۷ بی کلاس وارڈ ، نیوسنٹرل جیل ملتا ن میں ہے اور اس کے مخالفین نے اس کے باپ ، بھائی اور چچیرے بھائی کو انتقاماً قتل کر ڈالا ہے۔ دونوں خاندان مکمل طورپر تباہ برباد ہو گئے ہیں۔

            چند روزقبل مجھے نوجوان کا پیغام پہنچا کہ اس کی اپیل نہیں لگ رہی ، لہذا میں ضمانت کے لیے کوشش کروں ۔پیغام بر سے پتہ چلا کر سعودی ریال ختم ہوچکے ہیں، اب فیس کی بات پاکستانی سکے کے مطابق ہو گی ۔ اگرچہ قانون یہ ہے کہ دو سال تک اگر اپیل کی سماعت نہ ہو تو اپیل کنندہ کوضمانت پہ رہا ہونے کا حق ہے، لیکن مجھے یقین تھا کہ اس کی ضمانت نہیں ہوگی کیونکہ خواجہ عبدالعزیز کی ضمانت بھی نہیں ہوئی تھی ، حالانکہ وہ گوجرانوالہ کا کروڑ پتی بزاز تھا، اس لیے میں نے معذرت کر لی۔

            آج بھی میں اپنے مالک مکان کے خوبصورت بنگلے کے سامنے سے گزرتا ہوں تو ہائی کورٹ پہنچنے تک میرے سامنے خوش بختی اور بدبختی کے متضاد مناظر کی فلم چلتی رہتی ہے۔ میرا مالک مکان اپنے محکمے سے ہینڈ شیک کرکے خطیر رقم وصول کر چکا ہے ۔ بیوی بچے اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ اس کی بھر پور صحت اور اس کی دلکش زندگی قابل رشک ہے۔ ہر گھڑی نیکیوں اور بھلائیوں کی تلاش میں رہنا اسے برگزیدہ انسان کے مقام بلند کے قریب سے قریب کر رہا ہے۔اس کی زرعی زمین لاہورکے مضافات میں شامل ہونے سے پانچ چھ سو گنا زیادہ قیمتی ہوگئی ہے۔وہ دین کے پیچھے دوڑرہا ہے اور دنیا اس کے پیچھے دوڑ رہی ہے ۔ یہ وہ فضل ہے اللہ جسے چاہتا ہے عطا کرتاہے۔

            دوسرے لمحے میرے سامنے ایک عبرتناک منظر آموجود ہوتاہے …… خواجہ عبدالعزیز کی لاوارث لاش، غیروں کے ہاتھوں تدفین اور گمنام قبر اور تیسرے لمحے نوجوان خوبصورت اور بانکا نوجوان میری نظروں میں گھوم جاتاہے جس کے ریال ختم ہو چکے ہیں اور وہ جیل کی کال کوکھڑی میں شاید عمر تمام کر دے، لیکن اس کے سامنے ابھی توبہ کا دروازہ چوپٹ کھلا ہے اور اسے اپنا معاملہ اس رب غفور سے طے کرنا ہے جس کی رحیمی اور کریمی کا نقشہ میاں محمد نے یوں کھینچاہے۔

اک گناہ میرا ماں پیو دیکھے، دیوے دیس نکالا
لکھ گناہ میرا مولا دیکھے پردے دیون والا

            (میرے ماں باپ میری ایک لغزش دیکھ کر مجھے گھر سے نکال دیتے ہیں ، مگر میرا اللہ لاکھوں گناہ دیکھ کر بھی میری پردہ پوشی کرتاہے۔)

            تاہم توبہ کی توفیق بھی انہی کو ملتی ہے جومقبول بارگاہ ہوں ورنہ آخری ہچکی تک آدمی گورکھ دھندوں میں پھنسا بے ٹکٹ موت کی گاڑی میں سوار ہوجاتا ہے، حالانکہ شاعر انتباہ کر چکاہے۔

بے ٹکٹیاں گڈی مول نہ چڑھنا
 اس گڈی جانا دیس بیگانے

            (ٹکٹ کے بغیر گاڑی پر ہرگز سوار نہ ہونا کہ یہ گاڑی اجنبی دیس جانے والی ہے!)

…………٭…………