آتا ہے سکوں دل کو میسّر ترے گھر میں 
سب اعلےٰ و ادنےٰ ہیں برابر ترے گھر میں 
 
رہتی نہیں غربت کی شکایت اسے ہر گز 
ہوجاتا ہے آباد جو بے گھر ترے گھر میں 
 
لیتے ہیں اسے تھام وہیں بڑھ کے فرشتے 
کھاتا ہے جو معمولی سی ٹھوکر ترے گھر میں 
 
رکھتے ہیں جو پہچان بقا اور فنا کی !
چمکاتے ہیں وہ آکے مقّدر ترے گھر میں 
 
کچھ دیر تو شیطان کی چالوں سے بچیں گے
یہ سوچ کے آ جاتے ہیں اکثر ترے گھر میں 
 
صدیوں سے اُسے چومنے آتا ہے زمانہ 
ہے قابل صد رشک جو پتھر ترے گھر میں
 
ہوجائیں جو پُورے بشَریّت کے تقاضے 
کافر ہے جو لَوٹے کبھی جا کر ترے گھر میں