محبت رسولﷺ کے تقاضے

مصنف : سید احمد محمدی (کویت)

سلسلہ : گوشہ سیرتﷺ

شمارہ : جنوری 2013

محبت ایک پاکیزہ لفظ ہے جو دل کے صحیح میلان کا نام ہے۔اگر محبت میں صداقت ہو تو اس میں احترام ، اتباع اور پائداری کا عنصرپایا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ وہ اپنی بیمار اورپریشان حال ماں جو دواؤں اور خدمت کی محتاج ہو’ سے بہت محبت کرتا ہے، حالانکہ وہ اسکی ضروریات ا ور تقاضے کو نظر اندازکر رہا ہے، تو کیا کوئی اسکی محبت کے دعوی کو تسلیم کرے گا۔ ہرگز نہیں! محبت محبوب کے تقاضے سے مشروط ہوتی ہے ،اگر تقاضے کی تکمیل نہ ہو تو دعوی بے بنیاد اور کھوکھلا ثابت ہوتا ہے۔

بعینہ اگرہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت ہے تواس کے تقاضے سامنے آنے چاہئیں ،زیر نظر مضمون میں محبت رسول کے چند تقاضوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے:

1. سنتِ رسول کا علم

 محبت رسول کے لیے سنت رسول کا علم ضروری ہے تاکہ مقام سنت کی صحیح معرفت حاصل ہوسکے،کیونکہ صحابہ کرام شرسے اجتناب اور خیر میں سبقت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے تھے۔ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ کے اس قول پر غور کریں تو دونوں باتیں واضح ہوجاتی ہیں: ‘‘صحابہ کرام آپ سے خیر کے بارے میں دریافت کرتے تھے اورمیں شر کے بارے میں دریافت کرتا تھا مباداکہ اس میں واقع ہوجاوں۔’’ (مسند احمد : حدیث نمبر: 23390)

2. اطاعت

 بغیر اطاعت کے محبت کا دعوی جھوٹا مانا جاتا ہے۔ محمود بن حسن وراق نے کیا خوب کہا ہے:

 لوکان حبک صادقا لاطعتہ
 ان المحب لمن یحب مطیع

اگر تمہاری محبت سچی ہوتی توتم اسکی اطاعت کرتے کیونکہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کامطیع و فرمانبردار ہوتا ہے۔

اگرکسی مسلمان سے یہ سوال کیا جائے کہ تم سب سے زیادہ کس سے محبت کرتے ہو؟ تویقینا امت مسلمہ کے ہر فرد کی زبان پر بلا تردد یہ الفاظ ہوں گے کہ اللہ اور اسکے رسول سے،لیکن کیا واقعی ہم اپنے دعو ی محبت میں سچے ہیں؟ کیا ہماری زندگی حقیقی معنوں میں حب اللہ اور حب رسولﷺ کا مظہر ہے ؟ کیا اللہ کے اس فرمان کو ہم نے صحیح طریقہ سے سمجھا ہے؟ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ویغفر لکم ذنوبکم واللہ غفور رحیم۔ ( آل عمران: 31) ترجمہ: ‘‘کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تم سے محبت کریگا اور تمہارے گناہ معاف فرما دیگا، اور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ ’’

چنانچہ اللہ اور اسکے رسول سے محبت اسی وقت ثابت ہوگی جبکہ اسکے تقاضے کی تکمیل ہو یعنی ہم اتباع رسول کا عملی جامہ پہن لیں۔ اللہ نے نبی اکرم کی اطاعت کوعین اپنی اطاعت قرار دیا ہے: من یطع الرسول فقد اطاع اللہ۔ (سورۃ النساء: 80) ‘‘جو رسول کی اطاعت کرتا ہے تو اس نے میری فرمانبرداری کی’’۔ نیز فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: من اطاعنی فقد اطاع اللہ ومن عصانی فقد عصی اللہ ( صحیحین) ‘‘جس نے میری اتباع کی، اس نے اللہ کی اتباع کی اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی’’۔ (بخاری 7137 مسلم 32)

اللہ اور اسکے رسولﷺ سے انکی اطاعت کے بغیر محبت تسلیم نہیں کی جاتی گرچہ انسان دل سے محبت کیوں نہ کرتا ہو۔ کیونکہ ابو طالب جو رسول اکرم کے چچا تھے وہ بھی نبی اکرم سے محبت کرتے تھے۔ ابو طالب نے اپنے بھتیجے کی محبت میں سارے مکہ والوں سے دشمنی مول لی اور انکی پرورش کے لیے ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں، ان کی ہر ابتلاء اور آزمائش میں قدم بقدم آپکا ساتھ دیا ،یہی وجہ تھی کہ ان کے انتقال پر نبی اکرم بہت زیادہ غمزدہ ہوئے تھے۔ محبت رسولؐ اور دفاع رسول میں اس قدررول اداکرنے کے باوجود اللہ نے ان کا ٹھکانہ جنت میں نہیں بنایا کیونکہ ایمان اور اطاعت رسول سے ان کا دامن خالی تھا۔ جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے،رسول نے فرمایا: ‘‘ جہنم کے عذابوں میں سب سے خفیف عذاب ابوطالب کو دیا جائے گا اور وہ یہ کہ جہنم میں اسے آگ کے دو جوتے پہنائے جائیں گے جسکی وجہ سے ان کا دماغ پک رہا ہوگا’’۔(صحیح مسلم: 367)

 اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حمزہ کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ لگاؤ تھا ، جب انہیں علم ہوا کہ ابوجہل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بدسلوکی اور بدزبانی کی، تو بھتیجے کی محبت امنڈ پڑتی ہے اور بلا توقف ابو جہل کا رخ کرتے ہیں، ابو جہل کو ذلت آمیز الفاظ سے مخاطب کرتے ہوئے اس پر اپنی کمان سے حملہ آور ہوتے ہیں اور انتقام لینے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ بھتیجے خوش ہوجا ، میں نے تمہارے دشمن سے تمہارا بدلہ لے لیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں۔ مجھے ان دنیوی محبتوں سے کبھی خوشی نہیں ملتی جب تک کہ آپ اللہ پر ایمان نہ لے آئیں اور میری اتباع نہ کریں۔ یہ سن کر حمزہ رضی اللہ عنہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔

 اللہ تعالی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو فرض قرار دیا ہے۔ اور جو شخص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتاہے گویا کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :- 85. ومن عصانی فقد عصی اللہ۔ ‘‘ اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی’’ (بخاری: حدیث نمبر: : 7137 مسلم،حدیث نمبر: 32)

3. ہر قول وفعل پر عمل اور ہر نواہی سے اجتناب

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول وفعل پر عمل کرنا اور ہر نواہی سے رک جانامحبت رسول کابنیادی تقاضاہے ، ارشاد ربانی ہے: وما آتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا۔ ( سورۃ الحشر:7) ‘‘اور رسول جو کچھ دے ،لے لو اور جس سے روکے رک جاؤ ’’۔

رسولﷺ کی اتباع اور ان کے ہر قول و فعل کو حرزجان بنانے ہی میں ایک مسلم کی فلاح و بہبود مضمر ہے اور محبت رسولﷺ کا دعوی بھی اسی وقت قابل قبول ہے جب حقیقی اطاعت پائی جائے۔آج اگرامت مسلمہ کے بیشمار افراد کے دعوی محبت کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ان کا دعویٰ کس قدر کمزور ہے ، جسے کسی فرمان رسول اللہ کا پاس و لحاظ نہیں، اور نہ ہی تقاضہ رسالت کا شعور ہے۔ امت کا ایک بڑا طبقہ اتباع ہوائے نفس میں غرق ہے تو دوسرا سنت رسول اللہ کی جگہ بدعات کے دلدل اور دن بدن نت نئی خرافات کا شکار ہے۔ مقام رسالت کی صحیح معرفت نہ ہونے کی وجہ سے شرک بالرسالت کا ارتکاب کررہا ہے ، اللہ تعالی نے رسول صلی للہ علیہ وسلم کی اقتداء و اتباع کوواجب قرار دیاہے جبکہ ہم نے بے شمار شخصیتوں کواتباع واقتداء کے قابل مانا، اللہ نے قرآن و اقوال رسول کو شریعت قرار دیاہے جبکہ ہم نے بے شمار ہستیوں کے اقوال و آرا کو شریعت تسلیم کیاہوا ہے۔ اللہ نے اپنے اور نبی کے قول کو قول فیصل کہا ہے۔ لیکن ہم نے بیشمار شخصیتوں اور بزرگان دین کے اقوال کو قول فیصل مان رکھا ہے۔

4. رسول اللہﷺ کی نافرمانی باعث ہلاکت وآزمائش

رسولﷺ کی نافرمانی بڑے گناہوں میں سے ہے جس کے مرتکب کو اللہ تعالی نے عذاب سے ڈرایا ہے۔: ‘‘آپ کہہ دیجیے : اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں ، تو تم اللہ کے حکم سے عذاب کے آنے کا انتظار کرو۔’’ (التوبہ:24)

 دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے: فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبھم فتنۃ او یصیبھم عذاب الیم۔ (سورۃ النور: 15) ترجمہ: ‘‘غور سے سنو! جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں ،انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب(نہ) پہنچے’’۔ بلکہ اللہ نے صراحتاً فرمادیا کہ ہر مسلم اختلاف کی صورت میں اللہ اور اسکے رسول کے فرمان کو حرف آخر تسلیم کرے ، کسی کی صالحیت اوربزرگی کی بنا پر اس کے اقوال وآراء کو قول فیصل ماننا ضلالت ہے۔ اللہ کا یہی فرمان ہے: فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللہ والرسول ( سورہ النساء: 8 ) ‘‘پھر اگر کسی چیزمیں اختلاف کرو تو اسے اللہ اور اسکے کی طرف لوٹاؤ ’’ کیونکہ مقام رسالت’ محمدﷺ کو حاصل ہے، کسی اور کو نہیں۔