نبی رحمتﷺ اور بچے

مصنف : مبصر الرحمن قاسمی (کویت)

سلسلہ : گوشہ سیرتﷺ

شمارہ : جنوری 2013

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچوں کے ساتھ تعلق تربیت’ علم، تجربہ،کشادہ دلی، صبر اور برداشت پر مشتمل تھا، بچپن کے مرحلے کی اہمیت کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے ساتھ ایسا تربیتی اور تعلیمی اسلوب اختیار کیا، جس کے نتیجے میں کامیاب شخصیات، بے نظیر قائدین، اور نابغۂ روزگار افراد پیدا ہوئے۔

 بچوں سے لطف ومحبت

بچے ہر وقت اس شخص سے محبت کرتے ہیں ، جو ان کے ساتھ محبت و سادگی سے پیش آئے، اور ان کے ساتھ اس طرح رہے گویا کہ وہ خود بھی بچہ ہی ہے۔بچے ایسے شخص سے نفرت کرتے ہیں جو غصہ والا،ترش رو اور بے صبرا ہو۔ بچے محترم اورسنجیدہ انسان کو پسند کرتے ہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کی طبیعت سے بخوبی واقف تھے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ ویسا ہی معاملہ فرماتے تھے جیسی ان کی پسند ہوتی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم انکے ساتھ اپنی سادگی،ان سے مذاق، دل لگی اور ان کی شفقت کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق اوران کی شخصیت سنوارنے اورانہیں کامیاب انسان بنانے کی کوشش بھی کرتے تھے۔حضرت ابوہریرہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں: ‘‘ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نے سجدہ فرمایا تو حسن اور حسین آپ کے پیٹ مبارک پر چڑھ گئے، جب آپ نے اپنے سر کو اٹھایا توان دونوں کو آہستہ سے پیچھے سے پکڑا اور محبت سے اتار دیا، جب آپ نے نماز ختم فرمائی تو ان دونوں کو اپنی گود میں لے لیا ’’۔بچہ، واجبات، حقوق، اصول ومبادی اور اخلاق ومعانی کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے، یہ باتیں اسے اس کی زندگی کے کئی سالوں میں قدم قدم پر حاصل ہوتی ہیں، وہ شخص غلطی پر ہے جو بچوں کے ساتھ بڑوں جیسا سلوک کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ بچہ اصول وضوابط کو جانے، لیکن بہت سے لوگوں کو بچوں کے ساتھ اسی طرح کا براسلوک کرتے ہوئے دیکھا گیا، ایسے لوگوں کا بچوں سے مطالبہ ہے کہ وہ پرسکون، وقار وچین کے ساتھ اور خاموش رہیں، حالانکہ ان باتوں پر بچے عمل نہیں کرسکتے۔ام خالد جو خالد بن سعید کی بیٹی تھیں’ وہ کہتی تھیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے باپ کے ساتھ آئی، میں نے ایک زرد قمیض پہن رکھی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو دیکھ کر فر مایا: واہ واہ کیا کہنا ‘‘سنہ سنہ’’ یہ حبشی زبان کا لفظ ہے ام خالد کہتی ہیں: (میں کم سن بچی تو تھی ہی )میں جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر مہر نبوّت سے کھیلنے لگی میرے باپ نے مجھ کو جھڑکایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: اس کو کھیلنے دے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو یوں دعا دی:‘ یہ کپڑ ا پرا نا کر پھاڑ، پرانا کر پھاڑ’ تین بار یہی فر مایا۔ عبد اللہ کہتے ہیں وہ کرتہ تبرک کے طور پر رکھارہا یہاں تک کہ کالا پڑگیا۔( رواہ البخاری 3071).یہ ایک عبرت آموز واقعہ ہے کہ ایک باپ اپنی بیٹی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتا ہے، جسے یہ بھی پتہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے بہت محبت فرماتے اور آپ بچوں سے ملنے میں اکتاتے نہیں ہیں بلکہ خوشی محسوس کرتے ہیں، اور باپ کے سامنے بچی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک سے لٹکتی اور کھیلتی ہے اور آپ ہنستے ہیں اور اسے اپنے ساتھ کھیلنے کے لیے بلاتے ہیں۔کبھی ایسا بھی ہوا کہ چھوٹے بچے کو آپ نے گود میں لیا، اور اس نے آپ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا، تو آپ نے پانی منگوایا اور اپنے کپڑوں پر چھڑک دیا، دھویا نہیں۔ آپ کی بچوں کے ساتھ کثرت محبت اور انہیں لینے کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں اور آپ کے حجروں میں چھوٹے بچوں کے پیشاب کرنے کے کثرت سے واقعات ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکوں کو ہی اپنی گود میں نہیں اٹھایا بلکہ لڑکیوں کو بھی آپ پیار سے گودمیں لیتے تھے۔حضرت ابوموسی اشعری فرماتے ہیں: ‘‘مجھے بیٹا ہوا، میں اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ابراہیم رکھا، پھر کھجورچباکراسے چٹایا اور اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی’’۔(متفق علیہ )آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ راستے میں بھی کھیلا کرتے تھے:یعلی بن مرہؓ کہتے ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانے پر نکلا، تو حسین بن علیؓ راستے میں کھیل رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان سے جلدی آگے بڑھے، پھر اپنے ہاتھوں کو بڑھایا، تاکہ حسین کو لیں، لیکن حسین ادھر ادھر بھاگنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا پیچھا کرتے اور انہیں ہنساتے، آپ نے اسامہ بن زید اور حسن بن علی کو لیا اور اپنی گود میں دونوں کو بٹھایا، پھر ان کو گلے سے لگاتے ہوئے ارشاد فرمایا :‘‘اے اللہ ان دونوں پر رحم فرما کیونکہ میں ان پر شفقت کرتا ہوں’’۔(بخاری ۶۰۰۳) ایک حدیث میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ کے کاندھوں پر امامہ بنت ابوالعاص تھیں، پھر آپ نے نماز پڑھی، جب رکوع کیا تو امامہ کو نیچے اتاردیا، پھر جب رکوع سے اٹھے تو امامہ کو اٹھالیا۔(بخاری ومسلم)محمود بن ربیع کہتے ہیں: ‘‘مجھے ابھی تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کْلی یاد ہے جو آپ نے ایک ڈول سے لے کر میرے منہ پر کی تھی اس وقت میں پانچ سال کا تھا۔’’جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو اپنی نماز کو ہلکی کردیتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے: ‘‘میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز کو طویل کروں، (لیکن جب) بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز کو مختصر کردیتا ہوں، اس خیال سے کہ بچے کی ماں کو مشقت میں نہ ڈالوں۔’’ (بخاری )

آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے اور ان کے خصوصی معاملات کے سلسلے میں ان سے گفتگو فرمایا کرتے تھے، گوکہ بچوں کے معاملات معمولی ہوتے ۔ حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں :‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق کے مالک تھے، میرا ایک بھائی تھا، جسے ابوعمیر کہا جاتا تھا، (راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے اس کا دودھ چھٹ چکا تھا ) جب وہ آتا تو آپ فرماتے تھے: اے ابوعمیر تمہاری نغیر تو بخیر ہے۔(نغیرایک چڑیا تھی جس سے ابوعمیر کھیلا کرتے تھے)۔(بخاری ومسلم)

بچوں کا احترام اور ان کی قدر کرنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ معاملات میں ان کے درمیان اپنے احترام کو باقی رکھتے ہوئے انہیں آسان اور ٹھوس وسائل کے ذریعے افضل ترین مفاہیم کو سمجھادیا کرتے تھے۔ آپ بچوں کے ساتھ سختی سے پیش نہیں آتے تھے۔ نبوی دور کا ایک بچہ عبداللہ بن عامر نبی کریم ؐ کے اس موقف کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: میری والدہ نے مجھے ایک دن بلایا،اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے، وہ کہنے لگی:

 آؤ میں تمہیں کچھ دیتی ہوں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری والدہ سے کہا: تم انہیں کیا دو گی؟ فرمانے لگی: میں انہیں کھجور دینا چاہتی ہوں، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم انہیں کوئی چیز نہ دیتی تو تم پر ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا۔ ( رواہ ابو داود (4991) وحسنہ الالبانی)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ واقعہ میں جھوٹ بول کر بچوں کے احساسات سے کھیلنے سے خبردار فرمایا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو دیکھتے تو ان کے ساتھ نرمی سے پیش آتے اور ڈانٹ ڈپٹ نہیں فرما تے تھے۔ عمر ؓبن ابو سلمہ کہتے ہیں: ‘‘میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں ایک بچہ تھا، اور میرے ہاتھ برتن میں بے جگہ پڑتے تھے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: اے بچے: اللہ کا نام لو اور اپنے سیدھے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔’’ (متفق علیہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اخلاق کریمانہ اور پاکیزہ تعلیمات کے ذریعہ بچوں کے اندر بچپن ہی سے رجولت اوربہادری کے مفاہیم پیداکرنے کی کوشش کی ،آپ مختلف اسالیب میں بچوں کو اعلی معانی ومفاہیم کے تدریجی گھونٹ پلاتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی بعض بچوں کو جیسے عبداللہ بن عباسؓ اور عبداللہ بن عمرؓ کو اپنی مجلس میں اپنے صحابہ کے ساتھ بٹھاتے تھے تاکہ وہ سیکھیں اور ان میں پختگی آئے۔عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں:‘‘ایک مرتبہ کا ذکرہے ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کجھور کا ایک گچھا لایا گیا، (جسے دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: درختوں میں ایک ایسا درخت ہے جس کی مثال مسلمان کی سی ہے، بتاؤ! وہ کون سا درخت ہے؟ میرے دل میں آیا کہ میں کہہ دوں وہ کھجور کا درخت ہے لیکن کم سنی کی وجہ سے شرما گیا اور خاموش رہا، آخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کجھور کا درخت ہے۔’’(متفق علیہ )ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس جوکم سن تھے، وہ آپ کے ساتھ سواری پر آپ کے پیچھے سوار ہوئے، تو آپ نے انہیں سادہ مفہوم پر مشتمل لیکن پراثر کلمات کی تعلیم دی، آپ نے فرمایا:‘‘اے بچے: میں تمہیں چند کلمات کی تعلیم دیتا ہوں: اللہ کو یاد رکھو، وہ تمہاری حفاظت کرے گا-85.’’(رواہ التّرمذی 2516 وصححہ الالبانی)آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے احترام اور ان کی قدر کے سلسلے میں اس قدر اہتمام فرماتے تھے کہ کبھی بڑوں کی مجلس میں بچے شامل ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑوں کے مقابلے بچوں کو ترجیح دیتے: حضرت سہل بن سعد الساعدی کہتے ہیں:‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے طرف ایک لڑکا تھا (ابن عباس) اور بائیں طرف سن رسیدہ لوگ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے سے پوچھا: میاں ! تم اس کی اجازت دیتے ہو کہ پہلے میں یہ پیالہ بوڑھوں کو دوں؟ اس نے کہا: وَاللّٰہِ یَا رَسْوْلَ اللّٰہِ ! لاَ أْوْثِرْ بِنَصِیْبِیْ مِنْکَ أَحَدًا اللہ کی قسم یارسول اللہ! میں آپ کی طرف سے ملے ہوئے اپنے حصے پر کسی اور کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ آخرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ اسی کے ہاتھ میں دے دیا۔’’(متفق علیہ )آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ساتھ دو امر کا خیال رکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے حق کاخیال رکھا اور اس سے اجازت طلب کی، نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑوں کے حق کا بھی خیال رکھا اور بچے سے مطالبہ فرمایا کہ وہ بڑوں کے لیے اپنے حق سے بری ہوجائے۔ جب بچہ اپنے موقف پر ڈٹا رہا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو نہ ڈانٹا اور نہ اس کے ساتھ سختی فرمائی بلکہ اسے اس کا حق دے دیا۔

بچوں کے خاندانی اور اجتماعی حقوق کی حفاظت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نومولود کے نسب،اور زواج صحیح سے اس کی پیدائش، نیز شرعی تعلقات کے بغیر بچوں کی عدم پیدائش جیسے حقوق کی حفاظت کا اہتمام فرمایا، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے مستقبل کی حفاظت فرمائی نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے کی پاکیزگی کو رذائل، فساد اور اختلاط انساب سے محفوظ فرمادیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے حقوق کے سلسلے میں ہدایت دی کہ بچہ کا باپ بچے کے لیے اخلاق حمیدہ کی حامل ماں کا انتخاب کرے، اسی طرح باپ اس کا ایسا اچھا نام رکھے جس میں کسی قسم کا نقص نہ ہو،اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کی فطری رضاعت اور بہترین ایمانی ماحول میں اسکی تربیت کا حکم دیا نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے حقوق کے سلسلے میں یہ بتایا کہ والدین انہیں جنسی بے راہ روی اور بے دینی کے ماحول سے محفوظ رکھیں۔اسی طرح نبی کریم کے پیغام کے مطابق بچہ میراث اور وصیت کا حقدارہے،نیز شریعت محمدی نے یتیم بچے کی کفالت اور اس کی مکمل تربیت کی خوب تاکید کی ہے،اور یتیم بچے کے مال کی حفاظت پر زور دیا ہے نیز یتیم بچوں کی مدد کی ترغیب دی گئی ہے۔