شمائل نبی مکرمﷺ

مصنف : عبدالسمییع

سلسلہ : گوشہ سیرتﷺ

شمارہ : جنوری 2013

قسط۔۱
1۔ حسن مجسم
ظاہری حْسن کا بے مثال نمونہ

حضرت حسن بن علی بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں حضرت ہند بن ابی ھالہ سے آنحضرت کا حلیہ پوچھا کیونکہ وہ آنحضرت کاحلیہ بیان کر نے میں بڑے ماہر تھے اور میں چاہتا تھا کہ وہ میرے پاس حضور کے حلیہ کے متعلق ایسی باتیں بیان کریں جنہیں میں پلے باندھ لوں۔ حضرت حسن فرماتے ہیں کہ میرے ماموں نے حضورؐ کا حلیہ مجھ سے کچھ یوں بیان فرمایا آنحضرتؐ کی آنکھوں اور آپؐ کے سینہ میں ایسی کشش تھی اور ایسا حسن تھا کہ جو دیکھنے والوں کو مرعوب کرلیتا تھا۔ آپؐ کا چہرہ مبارک بھرا ہواتھا۔ شرافت اور عظمت کے آثار اس پر نمایاں تھے اور رعب و وجاہت اس سے ٹپکی پڑتی تھی۔ وہ چاند کی طرح چمکتا تھا اور حسن اس میں موجیں مارتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ آپ ؐ نہ تو کوتا ہ قد تھے نہ حد سے زیادہ لمبے بلکہ آپؐ کا قد بہت مناسب اور درمیانہ تھا۔ سربڑا تھا بال گھنے تھے جو کانوں کی لو تک پہنچتے تھے لیکن اس سے نیچے نہیں گرتے تھے۔ ان میں قدرتی طور پر ایسا سنوار پایا جاتا تھا کہ وہ کبھی بھی بکھرتے یا پراگندہ نہیں ہوتے تھے اور انہیں کنگھی کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ بعض دفعہ آپؐ کے بالوں میں خود بخود مانگ پڑ جاتی تھی جو نمایاں ہوتی تھی ورنہ حضورؐ خود عام طور پر بالوں میں مانگ نہیں نکالتے تھے۔آپؐ کا رنگ سفید اور کھلتا ہوا تھا۔ پیشانی کشادہ تھی۔ اَبرو باریک لیکن بھرے ہوئے لمبے ہلالی تھے۔ دونوں اَبروؤں کے درمیان فاصلہ تھا۔ غصہ کی حالت میں اَبروؤں کے اس درمیانی فاصلہ میں ماتھے پر ایک رگ ابھر کر نمایاں ہوجاتی تھی۔ ناک پتلی اور کھڑی ہوئی تھی جو سرسری نظر سے دیکھنے والوں کو اصل سے زیادہ اٹھی ہوئی نظر آتی تھی۔ اس پر نور چھلکتا تھا۔ داڑھی گھنی تھی ،رخسار نرم اور ملائم تھے۔ دہانہ کشادہ تھا۔ دانت خوب چمکتے تھے وہ ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے نہیں تھے بلکہ ان میں ایک قدرتی فاصلہ تھا جو بہت بھلا معلوم ہوتا تھا۔ اور آپؐ کی لمبی گردن بس اس کا حْسن نہ پوچھو، اسے تو خدا نے اپنے ہاتھ سے گھڑا تھا اور وہ چاند کی طرح چمکتی تھی۔جسم کی عمومی بناوٹ بہت موزوں تھی۔ وہ بھرابھرا لیکن بہت متناسب تھا۔ پیٹ کمر کے ساتھ لگا ہوا تھا اور سینہ پیٹ کے ساتھ ہموار تھا۔ آپ کا سینہ چوڑا اور فراخ تھا۔ آپؐ کے جوڑ مضبوط بھرے ہوئے اور نمایاں تھے۔جلد چمکتی ہوئی نازک اور ملائم تھی۔ چھاتی اور پیٹ پر بال نہیں تھے ہاں بالوں کی ایک باریک دھاری سینے کے نیچے سے ناف تک چلی گئی تھی۔ سینہ کے اوپر کے حصہ اور کاندھوں پر اسی طرح کلائی سے کہنیوں تک ہاتھوں پر خوب بال تھے۔ ہاتھ(یعنی کلائی سے کہنیوں تک بازوؤں کے حصے) لمبے تھے دست چوڑے تھے انگلیاں لمبی تھیں ہاتھ اور پاؤں نرم اور گوشت سے خوب بھرے ہوئے تھے۔ تلوے زمین کے ساتھ ہموار نہیں تھے بلکہ درمیان سے ان میں خم تھا۔ پیر ایسے چکنے اور ملائم تھے کہ جب ان پر پانی پڑتا تھا تو ٹھہرتا نہیں تھا فوری بہہ جاتاتھا۔ چال ایسی سبک تھی جیسے ڈھلوان پر سے اتررہے ہوں لیکن بڑی ہی پروقار۔ اور باوجود تیز ی کے قدم زمین پر ٹھہراؤ سے پڑتا تھا۔چہرہ اٹھا کر نہیں چلتے تھے ، قدموں پر نگاہ رکھ کر چلتے تھے ’اکڑ کر اور گھسٹتے نہیں تھے۔ قدم اٹھا کر چلتے تھے۔ جب کسی طرف رخ پھیرتے تھے تو پورا رخ پھیرتے تھے۔ نظر ہمیشہ نیچی رکھتے تھے یوں لگتا جیسے فضا کی نسبت زمین پر نظر زیادہ پڑتی تھی۔ عادتاً نیم وانظروں سے نگاہ ڈالتے اور جب صحابہ کے ساتھ چل رہے ہوں تو ہمیشہ انہیں اپنے سے آگے رکھتے تھے۔ جب کسی سے آمنا سامنا ہوتا تو ہمیشہ آپ ہی سلام میں پہل کیا کرتے تھے۔ (شمائل الترمذی باب فی خلق رسول اللہ )

دوسری روایتوں میں آتا ہے کہ آپؐ کی آنکھیں بہت خوبصورت اور سیاہ تھیں۔ سرمہ نہ بھی لگائے ہوئے ہوں تو لگتا یہی تھا کہ سرمہ آنکھوں میں پڑا ہوا ہے۔ آنکھوں کی سفیدی میں ہلکی سی سرخی بھی جھلکتی تھی۔ چہرہ مبارک پر ہمیشہ بشاشت ہوتی تھی اور مسکراہٹ بکھری رہتی تھی۔ فرفر کرکے کلام نہیں کرتے تھے بلکہ ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے تھے۔ گفتگو میں سمجھانے کا انداز نمایاں ہوتا تھااور بات کو اکثر دہرایا کرتے تھے تا کہ دوسرے کے ذہن نشین ہوجائے۔کوہِ وقار تھے کسی ایسی حرکت کا سرزد ہونا ناممکن تھا جو دوسروں میں کراہت پیدا کرے۔ ہر ادا دل کو موہ لینے والی تھی۔ ہر انداز میں حسن ٹپکتا تھا۔آپ نہایت پْرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہ تھا جس میں حسن نے اپنا کمال نہ دکھایا ہو۔ چہرہ حسین تھا جسم مرقع حسن تھا۔ انداز بیاں سحرکن تھا۔ نگاہ مبارک اٹھتی تھی تو فضا میں حسن بکھر جاتا تھا۔ اٹھنا بیٹھنا سونا ،آپ کی مجلس آپ کی خلوت سب کچھ ہی تو حسن میں ڈوبا ہوا تھا۔ یہ تو ایسی داستان ہے جس کا بیان ختم نہیں ہوسکتا۔

چاند سے زیادہ حسین

حضرت جابرؓ بن سمرہ کہتے ہیں کہ ہم باہر کھلے میدان میں بیٹھے تھے حضورؐ ہمارے درمیان تشریف فرما تھے اور ایک سرخ لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔ چاندنی رات تھی چودھویں کا چاند تھا۔ خوب روشن بڑا حسین، لیکن میری نگاہ بار بار حضورؐ کے چہرہ کی طرف اٹھتی تھی۔ حضور آج بہت ہی پیارے لگ رہے تھے۔ حضوؐرکا حسن تو ہمیں ہمیشہ ہی گھائل کئے رکھتا تھا لیکن آج تو یہ کچھ اور ہی رنگ دکھا رہا تھا۔ میں سوچتا تھا کیا اس چہرہ سے زیادہ اور کوئی چیز حسین ہوسکتی ہے۔ پھر میری نگاہ چاند پر پڑی پھر میں نے حضورکے چہرہ کو دیکھا پھر چاند کو دوبارہ دیکھاپھر حضورؐ کے رخ پر نگاہ گڑ گئی۔ اف!آپ کتنے حسین لگ رہے تھے میں نے کہا نہیں اے چاند تیرا حسن اس حسن کے آگے ماند پڑگیا ہے۔ (شمائل الترمذی باب خلق رسول اللہ)

2۔ آغازِ وحی

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ سب سے پہلے حضورؐ کوسچی خوابیں آنے لگیں جو خواب بھی آتی وہ نمود صبح کی طرح روشن اور صحیح نکلتی۔ حضورؐ کو خلوت پسند تھی اور غارحرا میں جا کر عبادت کرتے تھے۔ آپ کچھ سامان اپنے ہمراہ لے جاتے جب ختم ہوجاتا تو دوبارہ گھر آکرکھانے پینے کا سامان لے جاتے۔ اسی اثناء میں آپؐ کے پاس ایک فرشتہ آیا اور کہا پڑھو آپنے کہا میں نہیں پڑھ سکتا۔ فرشتے نے آپؐ کو زور سے بھینچا پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھو۔ حضورؐ نے کہا میں نہیں پڑھ سکتا۔ فرشتہ نے دوسری مرتبہ پھربھینچا اور پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھو۔ حضورؐ نے کہا میں نہیں پڑھ سکتا۔ فرشتہ نے تیسری مرتبہ پھر دبایا’اور چھوڑ دیا اور کہااپنے اس پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے انسان کوپیدا کیا۔ پڑھو دراں حا لیکہ تیرا رب عزت والا اور کرم والا ہے۔ اس کے بعدحضور گھر واپس آئے آپ کادل لرز رہاتھا۔ اپنی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہؓ کے پاس آکر کہا مجھے کمبل اوڑھا دو چنانچہ انہوں نے کمبل اوڑھا دیا۔ جب آپ ؐکی یہ گھبراہٹ جاتی رہی توحضرت خدیجہ کو سارا واقعہ بتایا اور اس خیال کااظہار کیا کہ میں اپنے متعلق ڈرتا ہوں (کہ میں یہ اہم کام کر بھی سکوں گا یانہیں ) اس پر حضرت خدیجہ ؓنے کہا کہ خدا کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں ہونے دے گا۔ آپ ؐصلہ رحمی کرتے ہیں ، کمزوروں کو اٹھاتے ہیں۔ جو خوبیاں معدوم ہوچکی ہیں ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، مہمان نواز ہیں ، ضرورت میں امداد کرتے ہیں۔ پھرحضرت خدیجہ ان کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں یہ حضرت خدیجہؓ کے چچازادبھائی تھے۔اور زمانہ جاہلیت میں عیسائی ہوگئے تھے۔ عبرانی جانتے تھے اور عبرانی اناجیل لکھ پڑھ سکتے تھے وہ بہت بوڑھے ہوچکے تھے بینائی بھی جاتی رہی تھی۔ حضرت خدیجہ نے ورقہ سے کہا اپنے بھتیجے کی بات سنو۔ چنانچہ ورقہ نے کہا میرے بھتیجے تم نے کیا دیکھاہے۔ حضورؐنے سارا واقعہ بیان فرمایا۔ اس پر ورقہ نے کہا یہ وہی روح القدس ہے جو حضرت موسیٰ پر نازل ہوا۔ کاش، جس وقت تیری قوم تجھے نکالے گی اس وقت میں مضبوط جوان ہوتا یا زندہ رہتا تو میں پوری طاقت سے آپ کی مدد کرتا۔ اس پر آنحضرت ؐ نے حیران ہو کر پوچھا کیا یہ مجھے نکال دیں گے؟ انہوں نے کہا جس آدمی کو بھی یہ مقام ملا ہے جو آپ کو دیا گیا ہے۔ اس سے ضرور دشمنی کی گئی۔ اگر مجھے وہ دن دیکھنانصیب ہوا تو میں پوری مستعدی سے آپ کی مدد کروں گا، لیکن افسوس کہ ورقہ اس کے بعد جلد ہی فوت ہوگئے۔ (صحیح بخاری باب کیف کان بدء الوحی)

3۔ خدا تعالیٰ کی محبت اور اطاعت
محامد الٰہیہ کا مور

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اپنے محامد اور ثناء کے معارف اس طور پر کھولے ہیں کہ مجھ سے قبل کسی اور شخص پراس طرح نہیں کھولے گئے۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورہ بنی اسرائیل )

استغفار اور حمد کی کثرت

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ سورہ نصر نازل ہونے کے بعد جب بھی آپ نماز پڑھتے تو اس میں بکثرت یہ دعا مانگتے۔ اے ہمارے پروردگار!تو پاک ہے ہم تیری حمد کرتے ہیں ، اے میرے اللہ ! تو مجھے بخش دے۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورہ نصر)

جوش توحید

حضرت عبداللہ ؓبن عمر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے یہ آیت پڑھی :۔‘‘ آسمان لپٹے ہوئے ہیں اس کے داہنے ہاتھ میں۔ وہ پاک ہے اور بہت بلند ان شریکوں سے جو لوگ اس کے مقابل میں ٹھہراتے ہیں۔’’

حضورؐ نے کہا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ‘‘میں بڑی طاقتوں والا اور نقصان کی تلافی کرنے والاہوں۔ میرے لئے ہی بڑائی ہے۔ میں بادشاہ ہوں میں بلند شان والا ہوں۔’’

اللہ تعالیٰ اس طرح اپنی ذات کی مجد اور بزرگی بیان کرتا ہے۔آنحضرت ؐان کلمات کو بار بار بڑے جوش سے دہرا رہے تھے یہاں تک کہ منبر لرزنے لگا اور ہمیں خیال ہوا کہ کہیں منبر گر ہی نہ جائے۔ (مسند احمدبن جنبل جلد2ص88)

غیرت توحید

حضرت براء کہتے ہیں کہ رسول کریم ؐ نے پیادہ فوج کے پچاس آدمیوں پر احد کے دن حضرت عبداللہؓ بن جبیر کو مقررکیا ور فرمایا کہ اگر تم یہ بھی دیکھ لو کہ ہمیں جانور نوچ رہے ہیں تب بھی اپنی اس جگہ سے نہ ہلنا جب تک تم کو میں کہلا نہ بھیجوں۔ اور اگر تم یہ معلوم کرلو کہ ہم نے دشمن کو شکست دے دی ہے اور ان کو مسل دیا ہے تب بھی اس وقت تک کہ تمہیں کہلا نہ بھیجا جائے اپنی جگہ نہ چھوڑنا۔ اس کے بعد جنگ ہوئی اور مسلمانوں نے کفار کو شکست دے دی۔ اس بات کو دیکھ کر حضرت عبد اللہ بن جبیر کے ساتھیوں نے کہا کہ اے قوم غنیمت کا وقت ہے ، غنیمت کا وقت ہے تمہارے ساتھی غالب آگئے پھر تم کیا انتظار کر رہے ہو اس پر عبداللہ بن جبیر نے انہیں کہا کہ کیا تم رسول کریم ؐکا حکم بھول گئے ہو۔ انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم ہم بھی ساری فوج سے مل کر غنیمت حاصل کریں گے۔ جب لشکر سے آکر مل گئے تو ان کے منہ پھیرے گئے اور شکست کھا کر بھاگے اسی کے بارہ میں قرآن شریف کی یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ ‘‘یاد کرو جب رسولؐ تم کو پیچھے کی طرف بلا رہا تھا’’اور رسول کریم ؐکے ساتھ سوائے بارہ آدمیوں کے اور کوئی نہ رہا اس وقت کفار نے ہمارے ستر آدمیوں کا نقصان کیااور رسولؐ کریم اور آپ کے اصحاب نے جنگ بدر میں کفار کے ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیا تھا۔ ستر قتل ہوئے تھے اور ستر قید کئے گئے تھے۔

غرضیکہ جب لشکر پراگندہ ہوگیا اور رسولؐ کریم کے گرد صرف ایک قلیل جماعت ہی رہ گئی تو ابوسفیان نے پکار کر کہا کہ کیا تم میں محمد ہے اور اس بات کو تین بار دہرایا لیکن رسول کریمؐ نے صحابہ کو منع کردیا کہ وہ جواب دیں۔اس کے بعد ابوسفیان نے تین دفعہ بآواز بلند کہا کہ کیا تم میں ابن ابی قحافہ(حضرت ابوبکر ) ہے۔ اس کا جواب بھی نہ دیا گیا تو اس نے پھر تین دفعہ پکار کرکہا کہ کیا تم میں ابن الخطاب(حضرت عمر ) ہے۔ پھر بھی جب جواب نہ ملا تو اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ یہ لوگ مارے گئے ہیں۔ اس بات کو سن کر حضرت عمرؓبرداشت نہ کرسکے اور فرمایا کہ اے خدا کے دشمن تو نے جھوٹ کہا ہے جن کا تو نے نام لیا ہے وہ سب زندہ ہیں اور وہ چیز جسے تو ناپسند کرتا ہے ابھی باقی ہے۔ اس جواب کو سن کر ابوسفیان نے کہاکہ آج کا دن بدر کا بدلہ ہوگیا۔ اور لڑائیوں کا حال ڈول کا سا ہوتا ہے تم اپنے مقتولوں میں بعض ایسے پاؤگے کہ جن کے ناک کان کٹے ہوئے ہوں گے۔ میں نے اس بات کا حکم نہیں دیا تھالیکن میں اس بات کو ناپسند بھی نہیں کرتا۔ پھر فخریہ کلمات بآواز بلند کہنے لگا اْعلْ ھْبَلَ اْعلْ ھْبَل یعنی اے ہبل(بت) تیرا درجہ بلند ہو، اے ہبل تیرا درجہ بلند ہو۔ اس پر رسول کریم ؐ نے فرمایا کہ تم اس کو جواب کیوں نہیں دیتے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ہم کیاکہیں ؟ آپنے فرمایا کہو :۔اللہ اعلیٰ و اجل‘‘خداتعالیٰ ہی سب سے بلند رتبہ اور سب سے زیادہ شان والا ہے۔’’

ابوسفیان نے یہ سن کر کہا‘‘ہمارا تو ایک بت عزّیٰ ہے اور تمہارا کوئی عزّیٰ نہیں ’’۔ جب صحابہ خاموش رہے تو رسول کریمؐ نے فرمایا کہ کیا تم جواب نہیں دیتے۔ صحابہؓ نے عرض کیایا رسول اللہؐ ہم کیا کہیں ؟ آپنے فرمایا انہیں کہو کہ اللہ مولانا ولا مولیٰ لکم ‘‘خدا ہمارا دوست و کارساز ہے اور تمہارا کوئی دوست نہیں۔’’ (صحیح بخاری کتاب الجہاد )

اطاعت خداوندی

آپ اس وقت تک مکہ سے نہیں نکلے جب تک کہ خدا کی طرف سے حکم نہ ہوا۔ حضرت عائشہؓؓ فرماتی ہیں ہم ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ عین دوپہر کے وقت رسول کریمؐ تشریف لائے اور سرلپیٹا ہواتھا۔ آپ اس وقت کبھی نہیں آیا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا میرے ماں باپ آپ پر فداہوں آپ اس وقت کسی بڑے کام کے لئے آئے ہوں گے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول کریمؐ نے اجازت مانگی اور اجازت ملنے پر گھر میں آئے اور فرمایا کہ جو لوگ بیٹھے ہیں ان کو اٹھا دو۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ، واللہ وہ آپ کے اہل ہی تو ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اچھا مجھے ہجرت کا حکم ہوا ہے۔ حضرت ابوبکرؓنے عرض کیایا رسول اللہؐ کیا مجھے آپ کی مصاحبت نصیب ہوسکتی ہے۔ آپ نے ان کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے فرمایا ‘ہاں ’۔ (بخاری کتاب المناقب باب ھجر النبی)

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ اس وقت تک مکہ سے نہیں نکلے جب تک حکم نہ ہوا اور آخر وقت تک اس بات پر قائم رہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی کام نہیں کرنا۔

4۔ خشیت الٰہی
بدر میں تضرع

بدر کے دوران جب کہ دشمن کے مقابلہ میں آپؐ اپنے جاں نثاربہادروں کو لے کر کھڑے ہوئے تھے۔ تائید الٰہی کے آثار ظاہرتھے۔کفار نے اپناقدم جمانے کے لئے پختہ زمین پر ڈیرے لگائے تھے اور مسلمانوں کے لئے ریت کی جگہ چھوڑ دی تھی لیکن خدا نے بارش بھیج کر کفار کے خیمہ گاہ میں کیچڑ ہی کیچڑ کردیااور مسلمانوں کی جائے قیام مضبوط ہوگئی۔ اسی طرح اور بھی تائیدات سماویہ ظاہرہورہی تھیں۔ لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کا خوف ایسا آنحضرتؐ پرغالب تھاکہ سب وعدوں اور نشانات کے باوجود اس کے غنا کو دیکھ کر گھبراتے تھے اور بے تاب ہو کر اس کے حضور میں دعا کرتے تھے کہ مسلمانوں کو فتح دے۔ آپؐ یہ دعا کر رہے تھے اور اس الحاح کی کیفیت میں آپؐ کی چادر بار بارکندھوں سے گر جاتی تھی۔

الَلّٰھمّ اِنّی اَنشْدْ عَھدَکَ وَ وَعدَکَ اللّٰھْمَّ انَتھلِک ھٰذِہِ العِصاَبَْ مِن اَھلِ الَاِسلَامِ لَاْ تْعبَدْ فِی الارض۔ (تاریخ طبری)

اے میرے خدا اپنے وعدہ کو اپنی مدد کو پورا فرما۔ اے میرے اللہ اگر مسلمانوں کی یہ جماعت آج ہلاک ہوگئی تو دنیا میں تجھے پوجنے والا کوئی نہیں رہے گا۔

اس وقت آپ اس قدر کرب کی حالت میں تھے کہ کبھی آپ سجدہ میں گرجاتے اور کبھی کھڑے ہو کر خدا کو پکارتے تھے اور آپ کی چادر آپ کے کندھوں سے گر پڑتی تھی۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں مجھے لڑتے لڑتے آنحضرتؐ کاخیال آتا اور میں دوڑ کے آپ کے پاس پہنچ جاتاتو دیکھتا کہ آپ سجدہ میں ہیں اور آپ کی زبان پر یاحی یا قیوم کے الفاظ جاری ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ جوش فدائیت میں آپ کی اس حالت کو دیکھ کر بے چین ہوجاتے اور عرض کرتے یا رسولؐ اللہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ گھبرائیں نہیں۔ اللہ ضرور اپنے وعدے پورے کرے گا مگر اس مقولہ کے مطابق کہ ‘‘ہرکہ عارف تراست ترساں تر’’۔

برابر دعا و گریہ و زاری میں مصروف رہے۔ آپؐ کے دل میں خشیت الٰہی کایہ گہرا احساس مضمر تھا کہیں خداکے وعدوں میں کوئی ایسا پہلو مخفی نہ ہو جس کے عدم علم سے تقدیر بدل جائے۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد۔ باب فی درع النبی)

5۔ نمازباجماعت
دل بایار

حضرت اسود بن یزید بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دن حضرت عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا کہ آنحضرت ؐگھر میں کیا کیا کرتے تھے؟ حضرت عائشہؓ نے کہا۔ آپ کام کاج میں گھروالوں کا ہاتھ بٹاتے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو باہر نماز کے لئے چلے جاتے۔ (بخاری کتاب الاذان باب ماکان فی حاج اھلہ)

قیام نماز

حضرت مغیرہؓ بن شعبہ کہتے ہیں کہ ایک شام مجھے نبی ؐکریم کا مہمان ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضورؐ نے میرے لئے گوشت کا ایک ٹکڑا بھنوایا پھر حضورؐ چھری کے ساتھ گوشت کے ٹکڑے کاٹ کر مجھے دینے لگے۔ ہم کھانا کھا رہے تھے کہ حضرت بلال نے آکر نماز کی اطلاع دی۔ حضورؐ نے چھری ہاتھ سے رکھ دی اور فرمایااللہ بلال کا بھلا کرے اس کو کیا جلدی ہے(کچھ انتظار کیا ہوتا) اور نماز کے لئے تشریف لے گئے۔ (ابوداؤد کتاب الطہارۃ باب ترک الوضوء)

آنکھوں کی ٹھنڈک

حضرت علی نے حضور کی طبیعت کے بارہ میں سوال کیا تو حضور نے انہیں ایک لمبا جواب دیا جس میں اللہ سے اپنی محبت کی کیفیات کاذکر تھا اور جواب کے آخر میں فرمایا:۔ وَقْرۃَّْ عَینِی فِی الصَّلَاۃِ میرا حال کیا پوچھتے ہومیرا حال یہ ہے کہ میری آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے میری رْوح کو سکون ملتا ہے تو اْن لمحات میں جن میں مَیں اپنے مولیٰ کے حضور نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں۔ (الشفاء قاضی عیاض)ہر لمحہ نماز کا انتظار رہتا تھا۔ ہر وقت طبیعت نماز کے لئے بے چین رہتی تھی۔ دل مسجد میں ہی اٹکا رہتا تھا۔ حضرت بلال کو فرمایا کر تے تھے ‘‘یَا بِلَالْ ارِحنَا بِالصَّلوٰۃ’’اے بلال نماز کی اطلاع کر کے ہمیں خوشی پہنچاؤ۔ (مسند احمدبن حنبل جلداوّل حدیث نمبر364)

نماز کا منظر

حضرت عبداللہ بن شخیر سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت ؐکو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ دوران نماز گریہ و زاری کی وجہ سے آپ کے سینہ سے ایسی آواز نکلتی تھی جیسے چکی چلنے سے آتی ہے۔ (سنن ابی داؤدکتاب الصلوٰۃ باب البکاء فی الصلوۃ)

نماز کی تڑپ

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب آپ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو بوجہ سخت ضعف کے نمازپڑھانے پر قادر نہ تھے اس لئے آپ نے حضرت ابوبکر ؓکو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔ جب ابوبکرؓ نے نماز پڑھانی شروع کی تو آپنے کچھ آرام محسو س کیا اور نماز کے لئے نکلے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر کونماز پڑھانے کا حکم دینے کے بعد جب نماز شروع ہوگئی تو آپؐ نے مرض میں کچھ کمی محسوس کی پس آپؐ حجرے سے مسجد کی طرف نکلے اور دو آدمی آپؐ کو سہارا دے کر لے جارہے تھے اور اس وقت میری آنکھوں کے سامنے وہ نظارہ ہے کہ شدت درد کی وجہ سے آپ کے قدم زمین سے گھسٹتے جاتے تھے۔ آپکو دیکھ کر حضرت ابوبکرؓ نے ارادہ کیا کہ پیچھے ہٹ آئیں۔ اس ارادہ کو معلوم کرکے رسول کریم نے ابوبکر کی طرف اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو۔ پھر آپ کو وہاں لایا گیا اور آپؐ حضرت ابوبکر کے پاس بیٹھ گئے اس کے بعد رسول کریمؐ نے نماز پڑھنی شروع کی اور حضرت ابوبکرنے آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کی اور باقی لوگ حضرت ابوبکر کی نماز کی اتباع کرنے لگے۔ (صحیح بخاری کتاب الاذان باب حد المریض)

آخری وصیت

حضرت علیؓ اور حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ کی آخری وصیت اور آخری پیغام جبکہ آپ جان کنی کے عالم میں تھے اور سانس اکھڑ رہا تھا یہ تھا کہ ’’الَصَّلٰوۃَ وَمَا مَلَکَت اَیمَانْکْم ‘‘نماز اور غلاموں کے حقوق کاخیال رکھنا’’۔یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بہترین خلاصہ ہے جو رسول اللہؐ نے اپنی امت کے لئے تجویز فرمایا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الوصایا باب ھل اوصیٰ رسول اللہ )

6۔ تہجدو نوافل
پاؤں سوج جات

نماز باجماعت کے علاوہ آنحضور باقاعدگی سے نوافل اور نماز تہجد کا التزام فرمایا کرتے تھے۔ جب سب دنیا سورہی ہوتی آپ اپنے بستر کو چھوڑ کر بے قرار دل کے ساتھ اپنے خالق و مالک اور محبوب ازلی کے حضور حاضر ہو جاتے۔ اور اپنی مناجات پیش کرتے۔گویا دربار خاص لگ جاتا جس میں آپؐ ہوتے اور سامنے آپؐ کا رب ہوتا۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ ہمارا رب جو بڑی برکت اور بڑی شان والا ہے ہر رات جب اس کا ایک تہائی حصہ باقی رہتا ہے اس دنیاوی آسمان پر نازل ہوتا ہے اور یہ اعلان کرتا ہے۔

’’کون ہے جو مجھے پکارے کہ میں اسے جواب دوں۔ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تاکہ میں اسے عطا کروں ، اور کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تا میں اسے بخش دوں۔ (صحیح مسلم کتاب صلوۃ المسافرین باب الترغیب فی الدعا والذکر فی آخراللیل)

آنحضرتؐ رات کے وقت اس قدر دعائیں کرتے اور اس قدر لمبی نماز پڑھتے کہ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ بعض دفعہ کھڑے کھڑے آپؐ کے پاؤں متورم ہوجاتے اور پھٹنے لگتے۔ (بخاری کتاب التہجدباب قیام النبی)

ان کی شان تو اور ہے

رات کا وقت ہے۔ حضرت عائشہؓ کی آنکھ کھلتی ہے وہ آپؐ کو اپنے بستر پر نہیں پاتیں۔ وہ کہتی ہیں ‘‘ایک رات (میری آنکھ کھلی) تو میں نے حضورؐ کو اپنے بستر پر نہ پایا۔ مجھے خیال آیا کہ حضورؐ مجھے چھوڑ کر کسی اور بیوی کے پاس چلے گئے ہیں۔ پھر میں حضورؐ کو تلاش کرنے لگی تو کیادیکھتی ہوں کہ حضور (نماز میں ) رکوع میں ہیں (یاشاید) آپ ا س وقت سجدہ کر رہے تھے اور یہ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ تو اپنی تمام تعریفوں کے ساتھ ہر قسم کی بزرگی کاحامل ہے( تو میرا رب ہے) تیرے سوا اور کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اے اللہ جو کچھ میں لوگوں سے چھپ کر کرتاہوں اور جو کچھ میں ان کے سامنے کرتا ہوں ان میں سے ہر عمل کو اپنی رحمت اور مغفرت سے ڈھانپ لے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ مَیں نے حضور کو جب (نماز میں ) اس طرح اپنے مولیٰ کے حضور دعا کرتے دیکھا تو مجھے اپنی حالت پر افسوس ہوا اور میں نے دل ہی دل میں کہا تم کیاسمجھ بیٹھیں خدارا ان کی توشان ہی کچھ اور ہے۔ (نسائی کتاب عشر ا لنساء باب ا لغیرکتاب ا لصلوٰۃ باب ا لدعا ء-04 فی السجود)

عجیب بات

حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ آپ مجھے آنحضورؐ کی کوئی ایسی بات بتائیں جو آپ کوبہت ہی عجیب معلوم ہوتی ہو۔ اس پر حضرت عائشہؓ رو پڑیں اور ایک لمبے عرصہ تک روتی رہیں اور جواب نہ دے سکیں پھر فرمایا کہ آپؐ کی تو ہر بات ہی عجیب تھی کس کاذکر کروں اور کس کا نہ کروں۔ایک رات میرے ہاں باری تھی حضورؐ میرے پاس تشریف لائے بستر میں داخل ہوئے اور فرمایا اے عائشہ کیا مجھے اِس بات کی اجازت دیں گی کہ مَیں اپنے رب کی عبادت میں یہ رات گزاروں۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یقینا مجھے تو آپ کا قْرب پسند ہے اور آپ کی خوشنودی مقصود ہے میں آپکو خوشی سے اجازت دیتی ہوں۔ اس پر حضور اٹھے اور گھر میں لٹکے ہوئے ایک مشکیزہ کی طرف گئے اور وضو کیا پھر آپ نماز پڑھنے لگے اور قرآن کا کچھ حصہ تلاوت فرمایا۔ آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی پھر آپ بیٹھ گئے اور خدا کی حمد اور تعریف کی اور پھر رونا شروع کردیا پھر آپؐ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور پھر رونے لگے یہاں تک میں نے دیکھا کہ آپ کے آنسوؤں سے زمین تر ہوگئی اور اسی حال میں وہ رات گزر گئی اور جب صبح کے وقت حضرت بلالؓ نماز کے لئے آپؐ کو بْلانے آئے تو اس وقت بھی آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ رو رہے ہیں کیا آپؐ کے متعلق اللہ نے یہ خوشخبری نہیں دی وَقَدغَفَرَاللہ لَکَ مَاتَقدَّم مِن ذَنبِکَ وَمَا تَاَخّرَ پھر آپ کیوں روتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اے بلال کیامیں خداتعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ (تفسیرکشاف زیرِآیت ان فی خلق السمٰوٰت )

حسن و طوالت کا نہ پوچھ

حضرت ابو سلمہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ رسول کریم ؐ رمضان میں رات کو کتنی رکعات پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے فرمایا ‘‘رسول کریمؐ رمضان اور اس کے علاوہ بھی رات کو گیارہ رکعات سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ پہلے چار رکعات پڑھتے اور ان کے حسن اور طوالت کے بارے میں نہ پوچھ۔ پھر چار رکعات پڑھتے اور ان کے حسن اور طوالت کا بھی کیا کہنا’’۔

حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں۔ فرمایا ‘‘اے عائشہ میری آنکھیں بظاہر سوتی ہیں مگر میرا دل نہیں سوتا’’۔(بخاری کتاب التہجد باب قیام النبی با لیل)

7۔ رمضان اور نفلی روزے
تیز ہوائیں

حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت لوگوں میں سب سے زیادہ نیکیاں بجالاتے تھے مگر رمضان میں تو یہ سلسلہ اور بھی زیادہ ہوجاتاتھا۔ جبریل رمضان کی ہر رات آپ کے پاس آتے تھے اور رسول کریم ؐ جبریل کے ساتھ مل کر قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ اور ان دنوں رسول اللہ ؐ تیز ہواؤں سے بھی زیادہ نیکیوں میں بڑھ جاتے تھے۔ (صحیح بخاری کتاب بدء الوحی)

آخری عشرہ

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو آنحضرت اپنی کمر ہمت کس لیتے۔ اپنی راتوں کو زندہ کرتے اور اپنے اہلِ و عیال کو خصوصیت سے عبادت کے لئے جگاتے تھے۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم باب العمل فی العشرالاخر)

اعتکاف

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ؐ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیاکرتے تھے۔ اور وفات تک آپ کا یہی معمول رہا۔ اس کے بعد آپ کی ازواج بھی انہی دنوں میں اعتکاف کیا کرتی تھیں۔ (صحیح بخاری کتاب الاعتکاف باب الاعتکاف فی العشرالاواخر)

نفلی روزے

آنحضرت ؐ رمضان کے علاوہ کثرت سے نفلی روزے رکھتے تھے۔ شعبان کا تقریباً پورا مہینہ روزے سے گزارتے۔ رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھتے۔ ہر ماہ کے آغاز میں تین روزے، مہینہ کے نصف اول میں اکثر روزے ، چاند کی 15,14,13 کو روزہ، ہر سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھتے اور فرماتے کہ ان دنوں میں اعمال خدا کے حضور پیش ہوتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال اس حالت میں پیش ہوں کہ میں روزہ دار ہوں اتفاقی روزے اس کے علاوہ ہوتے تھے۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم و سنن ترمذی کتاب الصوم)

8۔ محبت قرآن
مجھے قرآن سناؤ

حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے مجھے فرمایا ‘‘ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ’’میں نے حیران ہو کر عرض کیا حضور میں آپ کو قرآن سناؤں جبکہ قرآن آپ پر نازل کیا گیا ہے۔فرمایا:۔ مجھے دوسرے سے قرآن سننا بہت اچھا لگتا ہے۔تب میں نے سورۃ النساء کی تلاوت شروع کی۔ جب میں اس آیت پر پہنچافَکَیفَ اِذَاجِئنَا مِن کْلِّ اْمَّۃٍ بِشَھِیدٍ وجِئنَا بِکَ عَلیٰ ھٰوْلَاءِ شِھِیدًا۔تو فرمایا:بس کرو، تلاوت ختم کرنے کے بعد جب میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے۔

(صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب قول المقری)

قرآن پڑھنے کا طریقہ

حضرت حذیفہ بن یمانؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک رات میں نے آنحضرتؐ کے ساتھ تہجد پڑھی۔ حضورؐ نے قیام میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ بقرہ شروع کی تو میں نے سوچا کہ سو آیات کے بعد رکوع کریں گے لیکن حضور (سوآیات پر رْکے نہیں بلکہ) پڑھتے ہی رہے پھر مجھے خیال آیا کہ شاید حضور سورۃ بقرہ کی تلاوت کے بعد رکوع کریں گے لیکن بقرہ ختم کرنے کے بعد حضورؐ نے سورہ آل عمران کی تلاوت شروع کردی اس کے بعد سورہ نسا شروع کی اور اس کو آخر تک پڑھا۔ حضورؐآرام سے ٹھہرٹھہر کر تلاوت فرماتے تھے جلدی جلدی نہیں پڑھتے تھے۔ جب حضور کسی ایسی آیت پر سے گذرتے جس میں تسبیح کاذکر ہو تو اللہ تعالیٰ کی تسبیح فرماتے۔ جب کسی ایسی آیت پر سے گذرتے جس میں مومنوں کوسوال کی تحریص کی گئی ہو تو اللہ سے مانگتے اور جب کسی آیت میں اللہ سے پنا ہ مانگنے کا ذکر ہوتا تو بھی رْک جاتے اور خدا کی پناہ مانگتے۔ حضرت عوف بن مالک کہتے ہیں جب بھی کسی رحمت کی آیت پر سے گذرتے تو رْک جاتے اور رحمت طلب کرتے اور جب عذاب کی آیت پر سے گذرتے تو رْک جاتے اور عذاب سے خدا کی پناہ مانگتے۔ حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ آپ رکوع میں یہ دعا کرتے تھے۔ سْبحَانَ رَبِّیَ العَظِیمَ عوف بن مالک کہتے ہیں آپ رکوع میں یہ دعا کرتے تھے میں اْس خدا کی تسبیح اور پاکیزگی کرتا ہوں جس کو ہر قسم کی طاقت اور حکومت ہر قسم کی عظمت اور کبریائی اور بڑائی حاصل ہے۔ آپ کے قیام کی طرح آپ کا رکوع بھی لمبا تھا۔ پھر آپ رکوع سے سَمِعَ اللہ لِمَن حَمِدَہْ کہتے ہوئے کھڑے ہوئے پھر لمبا قیام فرمایا اور آپ جتنی دیر رکوع میں رہے تھے اتنی ہی دیر رکوع کے بعد قیام کیا پھر آپ سجدہ میں گئے اور سبحان ربی الاعلی پڑھا اور آپ کا سجدہ بھی آپ کے رکوع جتنا لمبا تھا۔ (صحیح مسلم کتاب صلوۃ المسافرین باب استحباب تطویل القراء)

(جاری ہے )