مولانا عبدالرحمان مبارک پوری

مصنف : صاحبزادہ ڈاکٹر انوار احمد بُگوی

سلسلہ : مشاہیرِ ملت

شمارہ : مارچ 2018

نوٹ: ہرصاحب علم کے فضل وکمال میں اُس کے اساتذہ کا گہرااثرہوتاہے۔مولاناامین احسن اصلاحی نے قرآن کوسمجھنے میں جس قدر محنت اور عرق ریزی کی ہے اور جتنے معارف وحکم اس میں تلاش کئے ہیں اُن میں اُن کے اُستاد مولانا حمیدالدینؒ فراہی کابہت بڑاحصہ ہے۔اسی طرح حدیث کی تفہیم وتشریح ،تحقیق سند و متن اور استدلال و اجتہاد میں مولانا اصلاحی نے جو بیش بہاخدمات سرانجام دی ہیں ان کااندازہ ،اُن کی تصانیف اُصول تدبر حدیث، شرح بخاری (جلد اول ودوئم) اور شرح موطاامام مالک کے مطالعہ سے لگایا جاسکتاہے۔مولانا اصلاحی کامطالعہ حدیث کا اعلیٰ ذوق اورشوقِ تحقیق برصیغر کے معروف شیخ الحدیث مولانا ابوالعلی عبدالرحمن مبارک پوری ؒ کافیضان ہے۔
محدث مبارک پوریؒ 1867 ع میں ضلع اعظم گڑھ (یوپی) میں پیداہوئے۔اُن کاقصبہ، مبارک پورمولانااصلاحی کے گاؤں بمہور سے دومیل کے فاصلے پرواقع ہے۔اُن کے اساتذہ میں شیخ الحدیث میاں نذیر حسین دہلویؒ ،مولانا محمدفاروق چڑیاکو ٹی(مولانا شبلیؒ کے استاد) اور حافظ عبیداللہ غازیؒ شامل ہیں۔محدث مبارکپوری حصول علم کے بعد مختلف مدارس میں حدیث کی تعلیم دیتے رہے۔اس دوران میں انہوں نے حدیث اوردیگرموضوعات پر 20کتابیں لکھیں جن میں11 مطبوعہ اور9 غیر مطبوعہ ہیں۔مطبوعہ کتب میں 3عربی زبان میں اور8 اُردو زبان میں ہیں۔مقدمہ اورتحفت الاحوذی (4جلدیں)جامع ترمذی کی تشریح وتوسیع ہے۔جوعالم اسلام خصوصاً بلاد عربیہ میں بہت معروف ہے۔مورخ قافلہ اہل حدیث اور ممتاز اہل حدیث صحافی مولانامحمد اسحاق بھٹی مرحوم نے اپنی کتاب" دبستان حدیث " میں محدث مبارکپوریؒ کوبرصغیر کے اولین اہل حدیث عالم مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ کے گیارہ ممتاز شاگردوں میں شمار کیا گیاہے۔محدث مبارکپوری ؒ کے بارے میں اُن کے شاگرد اورندوۃ کے اُستاد شیخ تقی الدین ہلالی(مراکشی) کابیان ہے۔" اپنے رب کوشاہد بناکر کہتاہوں کہ ہمارے شیخ عبدالرحمن بن عبدالرحیم مبارک پوریؒ ؒ اگر تیسری صدی کی شخصیت ہوتے آپ کی وہ تمام حدیثیں جنہیںآپ نبی کریمﷺ سے یاآپ کے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ سے روایت کرتے(وہ )صحیح ترین احادیث ہوتیں اورہروہ چیزجسے آپ روایت کرتے،حجت بنتی اوراس بات میں دوآدمیوں کااختلاف نہ ہوتا" ۔
محدث مبارک پوریؒ نے1935 ع میں وفات پائی۔
محدث مبارک پوریؒ کے شاگردوں میں مولانا امین احسن اصلاحی، ڈاکٹر تقی الدین ہلالی،مولانا عبدالسلام مبارکپوری،مولانا عبیداللہ رحمانی،مولانامحمد امین اثری،رقیہ بنت خلیل عرب اوردیگر سینکڑوں اکابرعلمائے احناف اورعلمائے حدیث شامل ہیں۔مولانا اصلاحی نے اپنے جلیل القدر اُستاد کے بارے میں جوتاثرات قلم بندکئے ہیں بلاشبہ وہ ایک عظیم شاگرد کا ایک عظیم اُستاد کے حضورعقیدت ومحبت کا نادرنمونہ ہے۔ (انواربگوی)
مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہونے کی سعادت غالباً مجھے ۱۹۳۱ء یا۱۹۳۲ء میں حاصل ہوئی۔مولاناحمید الدین فراہی رحمتہ اللہ علیہ کی۱۹۳۰ء میں وفات کے بعد میرے دل میں یہ خواہش پیداہوئی کہ جس طرح علوم قرآن کی تحصیل ایک کامل الفن سے کی ہے اسی طرح علم حدیث کی تحصیل بھی کسی صاحب فن سے کرنی چاہیے۔یہ اللہ تعالیٰ کا میرے حال پر خاص فضل تھا کہ جس طرح مولانافراہی کی صحبت مجھے بغیر کسی تلاش اورزحمت کے حاصل ہوئی اسی طرح مولانامبارک پوری کی صحبت مجھے بغیر کسی خاص اہتمام اورکسی ادنیٰ صعوبت سفر کے حاصل ہوئی۔مولانا بالکل میرے پڑوس کے رہنے والے تھے۔میرے گاؤں اور اُن کے قصبہ میں بمشکل دو میل کافاصلہ ہوگا۔ اگرچہ اس قرب کے باوجود مجھے اُن کی خدمت میں حاضرہونے کاموقع کبھی نہیں ملاتھا۔لیکن اُن کے علم وفضل اوراُن کے زہدوتقوی کاذکراکثرمیرے کانوں میں پڑتارہتاتھا۔ میرے والد مرحوم اگرچہ پیروتوحنفی طریقہ کے تھے۔لیکن مولانا کی ذات سے اُن کواہل حدیث ہونے کے باوجود نہایت گہری عقیدت تھی۔میں جب گھرپرہوتا تو وہ اکثر مجھ سے یادوسرے پاس بیٹھنے والوں سے مولانا کی خوبیوں کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کرتے۔ میرے گاؤں کے دوسرے نیک دل مسلمان بھی بلالحاظ حنفیت ووہابیت مولانا سے محبت رکھتے تھے۔ایک روز مجھے یکایک خیال آیاکہ اگرعلم حدیث کی تحصیل کاشوق ہی ہے توکیوں نہ مولانا کی خدمت میں حاضری دی جائے۔ اُن کے صاحب کمال ہونے میں ہرکسی کااجماع ہے،اوراپنے پاس پڑوس کے بھی ہیں۔کسی شدرحال کی زحمت بھی نہیں اٹھانی ہے۔اپنی اس خواہش کا ذکرمیں نے اپنے والد سے کیا۔اس کوسنتے ہی اُن کادل باغ باغ ہوگیا۔مجھے ایسامحسوس ہواکہ اس چیز کی بڑی گہری خواہش وہ پہلے سے خود اپنے دل میں دبائے ہوئے تھے۔لیکن اس خیال سے انہوں نے اُس کامجھ سے ذکرنہیں کیا کہ ممکن ہے میں اس کو پسند نہ کروں لیکن جب اس کااظہار خود میری جانب سے ہواتو وہ اس قدرخوش ہوئے کہ شایدہی وہ کبھی مجھ سے کسی بات پر اس سے زیادہ خوش ہوئے ہوں۔فرمایا" تم صبح چلو میں تم کوخود مولانا سے ملاؤں گا۔وہ تمہیں بڑی محبت سے پڑھائیں گے وہ تمھارا حال اکثرمجھ سے پوچھتے رہتے ہیں،تمہیں دیکھ کروہ بہت خوش ہوں گے۔"والد کی اس خوشی سے مجھے بڑی خوشی ہوئی اورساتھ ہی وہ ذہنی بیگانگی بھی والد کی ان باتوں سے ایک حد تک دور ہوگئی، جو کبھی ملاقات کا موقعہ میسر نہ آنے کے سبب سے مولانا مرحوم سے تھی۔
شام کوذکرہوااورصبح کووالد مجھے ساتھ لے کر مولانا کی خدمت میں پہنچ گئے۔سردیوں کا زمانہ تھا۔مولانا مکان کے اندرایک دالان میں ایک تخت پر بیٹھے ہوئے تھے۔سامنے کتابیں بکھری ہوئی تھیں اورچند شاگرد اور معتقد بھی پاس بیٹھے ہوئے تھے۔مولانا اس وقت آنکھوں سے تقریباً معذورہوچکے تھے۔ لیکن والد کی حاضری کو محسوس کرتے ہی بہت خوش ہوئے۔والد نے میراذکرکیااورساتھ ہی اپنے سادہ دیہاتی انداز میں حاضری کامقصد بھی بیان کردیا۔وہ ایک غیرمعمولی مصروف آدمی تھے،مصروفیت کاعذرکرسکتے تھے۔آنکھوں سے معذورتھے اس کابہانہ پیش کرسکتے تھے۔ اپنے بڑھاپے اورخرابی صحت کاذکرکرسکتے تھے مگر انہوں نے ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نہ کی۔فرمایا،" بہت اچھا،مجھے جس خدمت کے لائق سمجھومیں حاضرہوں،میرے پاس علم ہے میں چاہتاہوں کہ اس کاوارث میرے پڑوس کاکوئی شخص بنے،(میری جانب اشارہ کرتے فرمایا)اگریہ اس کے لئے تیارہوجائیں تو اس سے اچھی بات اورکیا ہوسکتی ہے۔" مولانا کی ان باتوں سے میری حوصلہ افزائی ہوئی۔میں دوسرے دن سے درس شروع کرنے کافیصلہ کرکے مولانا سے رخصت ہوا اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اسی وقت سے میرے دل میں مولانا کی ایک گہری محبت جاگزیں ہوگئی۔اس طرح کی محبت میں نے اس سے پہلے صرف دو ہستیوں کے لیے محسوس کی تھی۔ایک اپنے استاد مولانا عبدالرحمن نگرامی مرحوم کے لیے،دوسرے اپنے استاد اورمرشد(یہ لفظ عام معنی میں نہیں استعمال کررہاہوں)مولانا فراہی رحمۃااللہ علیہ کے لیے ،ان دو کے بعد مولانا تیسرے شخص ہیں جنہوں نے میرے دل میں احترام اورمحبت کی وہ جگہ حاصل کی جو اُن کے بعد کوئی چوتھاحاصل نہ کرسکا۔دوسرے روز جب میں مولاناکی خدمت میں حاضر ہوا اوریہ سوال سامنے آیاکہ کیاکام کرناہے اورکس طرح کرنا ہے تومجھے تھوڑی ہی دیر گفتگو کرنے کے بعد یہ محسوس ہوگیاکہ مولانا کومیری نسبت ایک غلط فہمی ہے۔وہ یہ خیال کررہے ہیں جس طرح دوسرے سندحدیث کے طالب آیاکرتے ہیں اسی طرح میں بھی اُن کی خدمت میں سند کا ایک طالب علم بن کرآیاہوں۔چنانچہ انہوں نے بڑی فیاضی کے ساتھ یہ چاہا کہ اپنی نہایت قریب ترین سندیں عطا فرما کرمجھے اپنے شاگردوں میں شمار کئے جانے کی عزت سے سرفرازفرمادیں۔لیکن میں ان کی خدمت میں نہایت ادب سے یہ عرض کی کہ حضرت یہ بندہ کمینہ اس لائق نہیں ہے کہ یہ شاہوں کا تاج اپنے سرپررکھے اورمیں ہرگز اس قسم کی کوئی خواہش لے کر آپ کی خدمت میں نہیں حاضرہواہوں۔میری حاضری کامقصد تو یہ ہے کہ میں آپ سے حدیث سمجھنے کاطریقہ سیکھوں۔مولانامیری جانب سے یہ غالباً بالکل غیر متوقع جواب پاکر کچھ حیران سے ہوئے۔انہوں نے میرا حوصلہ بڑھاتے ہوئے فرمایا،آپ نے علوم عربیہ کی تحصیل کی ہے اورحدیث بھی پڑھی ہے۔ اب کسی مزید درس وتعلیم کی حاجت نہیں ہے۔لیکن میں بدستور اپنی بات پراڑارہا۔جب مولانا نے لکھا کہ میں اپنی بات سے کسی طرح ہٹنے کے لیے تیارنہیں ہوں توفرمایا ،ہرچند اب کسی مزید رسمی تعلیم کی حاجت تو نہیں تھی، لیکن اگرتم بضد ہی ہوتومیں تیارہوں،جو کتاب منتخب کرو گے اس کا درس شروع کرا دوں گا۔میں نے بخاری شریف کے درس کی خواہش کی۔لیکن مولانا نے بخاری سے پہلے ترمذی کے درس کامشورہ دیا۔
مولانا ان دنوں اپنی ترمذی کی مشہورشرح کی تکمیل میں مشغول تھے۔مجھے اس اعتبار سے مولاناکایہ انتخاب بہت پسندآیا کہ اس طرح مجھے مصنف کی سب سے بڑی تصنیف خود مصنف سے پڑھنے کا موقع ہاتھ آرہاتھا۔ چنانچہ دوسرے ہی روز جب درس شروع ہوا تو اس اہتمام اور تیاری کے ساتھ شروع ہواکہ مجھے یقین ہوگیاکہ مولانا نے سندوالی بات جو فرمائی تھی وہ محض میرے امتحان کے لئے تھی۔ وہ دیکھناچاہتے ہوں گے کہ میں اُن کی خدمت میں جوحاضر ہواہوں توعلم کاشوق لے کرحاضر ہواہوںیامحض ان کے ساتھ نسبت تلمذ حاصل کرنے کامتمنی ہوں۔اگر وہ دیکھتے کہ میں محض سند کابھوکاہوں توغالباًعام طریقہ کے مطابق وہ مجھے سندپکڑادیتے،لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ محض رسمی نسبت کا طالب نہیں ہوں بلکہ علم حدیث کاطالب ہوں تو بڑے شوق کے ساتھ باقاعدہ درس دینے پر آمادہ ہوگئے اور باوجود یہ کہ اس زمانے میں ان کی مشغولیت حددرجہ بڑھی ہوئی تھی،شرح ترمذی تکمیل کے آخری مراحل سے گذررہی تھی لیکن مجھے اتنی فیاضی کے ساتھ وقت دیاکہ میں ان کے جیسے مشغول اوروقت کے معاملے میں محتاط آدمی کی طرف سے اتنی فیاضی کاتصوربھی نہیں کرسکتاتھا۔
درس کا طریقہ:
مولاناکاطریقہ درس حدیث جو انہوں نے میرے لیے اختیارفرمایا نہایت مفید اورنہایت حکیمانہ تھا۔اُن کی سب سے بڑی تاکید تویہ تھی کہ روزجتنادرس ہومیں اس کاباہتمام اور بالتزام پہلے سے مطالعہ کرلیاکروں۔اس چیز کی تاکید مولانا بھی نہ کرتے۔جب بھی میں اُس کااہتمام کرتا لیکن مولانا کی اس تاکید کے بعد تو اس کام میں کسی کوتاہی کی گنجائش باقی نہیں رہ گئی۔چنانچہ رمضان کی راتیں ہونے کے باوجود میں روزانہ شب میں شرح ترمذی کے کم ازکم پچاس صفحے مطالعہ کرتا۔پھرصبح کودو میل پیدل چل کرمولانا کی خدمت میں حاضر ہوتا۔تقریباً تین گھنٹے روزانہ ترمذی کادرس دیتے۔اس کے بعد ایک گھنٹہ رجال ترمذی کی تحقیق میں وہ مجھ سے کام لیتے۔اس محنت شاقہ کے بعد میں تو تھک کے چور ہوجاتا اوراُن کے پاس سے بھاگنے کی کوشش کرتا لیکن میں نے خود ان کوکبھی تھکان یا کام کی زیادتی کی شکایت کرتے نہیں پایا۔ان کاموں کے علاوہ انہوں نے اصول حدیث کے مشہور رسالہ نخبتہ الفکر کے ترجمہ کاکام بھی مجھے دے رکھاتھا اور تاکید یہ تھی کہ ترجمہ با محاورہ اور شستہ ہو لیکن الفاظ اصل کے مقابل میں بہت زیادہ نہ ہوں۔مجھے یہ کتاب مالکل معمہ معلوم ہوئی اورمولاناکی عائد کردہ پابندیوں کے ساتھ اس کا ترجمہ کرنا ایک کٹھن کام تھا۔لیکن میں نے یہ خدمت انجام دی اورمولانا نے جب ترجمہ دیکھا تو اس کی تحسین فرمائی۔رجال ترمذی کی تحقیق اورنخبتہ الفکرکے ترجمہ کاکام، اپنی ذات سے خوش گمانی کے سبب سے میں یہ خیال کرتاتھاکہ مولانا اپنے تصنیفی کاموں میں یہ مجھ سے مددلے رہے ہیں۔مولانانے اظہار بھی کچھ اسی طرح کاکیاتھا۔لیکن زیادہ عرصہ نہیں گذرا کہ مجھ پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ درحقیقت یہ سارے کام میرے تعلیم ہی کے اجزاء تھے۔اس طرح انہوں نے بیک وقت حدیث کے متن سند اوراصول تینوں میں مجھے لگادیا اوراپنی رہنمائی میں کام کاسارابوجھ میرے اوپرڈال دیاتاکہ میں جلدی سے جلدی فن حدیث میں اس کے مختلف راستوں سے گھسنے کاتجربہ خودکرلوں ۔چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں مجھے ایسامحسوس ہونے لگاکہ یہ فن میرے قابو میںآرہاہے لیکن افسوس ہے کہ کام کی زیادتی کے سبب سے میری صحت اس قدر گرگئی کہ میں اس مبارک سلسلہ کوزیادہ عرصہ تک جاری نہ رکھ سکا۔
مہارت فن:
مولانا فی الواقع اپنے فن میں ماہرتھے۔میں جس وقت اُن کی خدمت میں حاضرہواہوں نہ صرف عام عربی علوم کی تحصیل سے فارغ ہوچکاتھا۔بلکہ ادب عربی اورقرآن میں تو مجھے اپنے اوپرپورااعتماد پیداہوچکاتھا۔حدیث کی بھی بہت سی چیزیں نگاہوں سے گذرچکی تھیں۔کچھ عام درس میں،کچھ مطالعہ کے سلسلہ میں اس وجہ سے مجھے اپنے اوپر اچھا خاصااعتماد تھا۔بلکہ سچ پوچھیے تو دل ہی دل میں مجھے یہ گمان تھا کہ جب مولانا مجھے پڑھانا شروع کریں گے تو انہیں اندازہ ہوگاکہ میں کن صلاحیتوں کامالک ہوں لیکن ترمذی کے پہلے ہی سبق میں مجھے محسوس ہواکہ اور چاہے میں کچھ جانتاہوں یا نہ جانتاہوں۔لیکن حدیث سے تومیں بالکل نابلدہوں۔سب سے پہلاتلخ تجربہ مجھے راویوں کے ناموں کے پڑھنے میں ہوا۔مولانا نے جب ایک ایک نام پرٹوکناشروع کیا تو اُن کے ٹوکنے کا انداز لاکھ مشفقانہ سہی لیکن واقعہ یہ ہے کہ مجھ پرطیش ،شرمندگی اورگھبراہٹ کی ایسی ملی جلی کیفیت طاری ہوئی کہ مجھے سر سے پاؤں تک پسینہ آگیا۔وہ ایک ایک نام کی صحت کا اس قدر اہتمام کرتے اورایک ہی طرح کے ناموں میں ایسے ایسے باریک فرق بتاتے کہ شروع شروع میں تومجھے گمان ہواکہ میں اس چیزپر کبھی قابو پاہی نہیں سکوں گا۔لیکن مولانا نے مجھے مایوسی کے صدمے سے بچایا۔انہوں نے فرمایا کہ تمہیں اس چیز سے بالکل پہلی مرتبہ سابقہ پیش آیاہے۔اس میں شبہ نہیں کہ یہ چیزہے مشکل اوراساتذہ حدیث اس کا بڑا اہتمام کرتے ہیں لیکن یہ سمجھنا صحیح نہیں ہے کہ اس پرقابو نہیں پایاجاسکتا۔کچھ عرصہ کی مزاولت کے بعد تمہارے ۔۔۔چنانچہ مولانا کی یہ بات بالکل سچ ثابت ہوئی ہفتہ دوہفتہ سے زیادہ کی مدت نہیں گذری ہوگی کہ کم ازکم ترمذی کے رجال کاتومیں ماہربن گیا یاتواس چیز سے وحشت ہوتی تھی یایہ حال ہواکہ ناموں کی تحقیق کرنا میرے لیے ایک دلچسپ مشغلہ بن گیا۔ ناموں کے ساتھ ساتھ مولانامتن کی صحت کابھی بڑاخیال کرتے تھے۔ممکن نہیں تھا کہ قرآت کے وقت کوئی لفظ زبان سے غلط نکلے اوروہ اس غلطی کانوٹس نہ لیں۔ایک مرتبہ میں عَرَ فَ کے لفظ کو باب سمع سے پڑھ دیا۔مولانا نے فوراً ٹوکا انالااحراف عَرِفَ (میں عَرِفَ سے واقف نہیں ہوں)مجھے معلوم نہیں کیوں یہ یقین تھا کہ میں نے صحیح پڑھا ہے۔چنانچہ میں نے بڑے زعم کے ساتھ جواب دیاکہ انافلااعرف عَرَفَ (اور یہ خاکسار آپ کے عَرَف سے واقف نہیں ہے) اس گستاخانہ فقرہ پر کوئی اورہوتا توغالباً آپے سے باہرہوجاتالیکن مولانا نے اگر کہاتو یہ کہاکہ فراجع اللغہ (اگر تمہیں اس قدر اصرار ہے تولغت دیکھ لو)سامنے قاموس پڑی ہوئی تھی۔میں نے بڑے غرہ کے ساتھ اس کی متعلقہ جلد گھسیٹی اورعرف کا پورا کالم پڑھ ڈالا۔لیکن عرف باب سمع سے اپنے معروف معنی میں میرے ذہن کے سوااور کہیں وجودرکھتاہوتب تو ملے مولانا نے تاڑ لیاکہ مجھے اپنے خیال میں سخت ناکامی ہوئی ہے اور قدرتی طورپر اس کارد عمل مجھ پرایک سخت قسم کی کھسیاہٹ کی شکل میں ہوگا۔لیکن اُن کی شفقت نے یہ گوارہ نہ کیا کہ وہ میری گستاخی کا مجھ سے انتقام لیں اور مجھے شرمندہ ہونے کے لئے چھوڑ دیں ۔فوراً میری تسلی کے لیے عربی میں فرمایا،کوئی بات نہیں کبھی اصیل گھوڑا بھی ٹھوکرکھاجاتاہے۔اس کے بعد میں نے کان پکڑے کہ اب میں کبھی بھی مولانا کے سامنے عربی دانی کے زعم میں اس قسم کا کوئی فقرہ زبان سے نہیں نکالوں گا۔
متن حدیث کی حفاظت کا بحثییت ایک شیخ حدیث کے مولانا کو جواہتمام تھا اس کااندازہ بھی ایک واقعہ سے ہوسکتاہے۔ایک مرتبہ میں نے قرآت کرتے ہوئے ایک حدیث کی عبارت ایک خاص تالیف کے ساتھ پڑھی۔ مولانانے اس پرٹوکا اورایک دوسرے نہج سے اس کو پڑھا۔میں نے اپنی قرات کی صحت پراصرارکیا اورنحو کے اصولوں کے مطابق اس کی ترکیب بیان کردی۔مولانا نے جواب میں فرمایا کہ نحو کے اعتبار سے توتمہاراپڑھناغلط نہیں ہے لیکن میں نے شیخ سے یوں ہی سناہے۔مولاناکی آنکھوں کے سامنے متن حدیث کی عظمت کی ایک تصویر کھینچ گئی اوردل میں یہ آرزو پیداہوئی کہ کاش مجھے بھی حدیث کے پڑھانے کامرتبہ حاصل ہو اورمیں بھی اپنے شاگردوں سے یہ کہوں کہ میں نے اس حدیث کی روایت اپنے شیخ سے اس طرح سنی ہے۔ اسماء اورالفاظ کے بعد معانی وحقائق کی باری آتی ہے۔لیکن اس کے بارے میں مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔مولاناکی عظیم الشان کتاب تحفتہ الاحوذی ان کے فضل وکمال کی ایک لازوال شہادت موجود ہے۔اہل علم اس سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ مشکلات حدیث کے حل کرنے میں مولانا کاپایہ کتنابلند ہے۔ اس میں متعدد مقامات ایسے ہیں جہاں مولانا کی تحقیق اورکاوش ہرصاحب علم سے زبردستی خراج تحسین حاصل کرلیتی ہے۔ہر باب میں انہوں نے استقصااورجامعیت کے ساتھ بحث کی ہے کہ اس سے زیادہ کاتصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔متاخرین نے عام طور پر حدیث کی جو شرحیں لکھی ہیں ان میں انہوں نے اپنے اپنے مسلک فقہی کی حمایت کاایسارنگ اختیار کیاہے کہ یہ کتابیں مناظرہ کی کتابیں بن گئی ہیں۔لیکن مولانا کاانداز بحث ہرجگہ علمی اور تحقیقی ہے۔انہوں نے جگہ جگہ اہل حدیث کے مسلک کو مدلل کرنے کی ضرورکوشش کی ہے۔لیکن ان کا انداز بحث کہیں بھی مجادلانہ نہیں ہے۔میں نے یہ کتاب مولانا سے سبقاً سبقاً پڑھی ہے۔اس وجہ سے مجھے یہ اندازہ کرنے کااچھی طرح موقع ملا ہے کہ انہوں نے یہ کتاب کس تیاری اورکس اہتمام سے لکھی ہے۔اس میں شبہ نہیں ہے کہ آنکھوں سے معذور ہوجانے کے سبب سے اس کتاب کاغالباً بیشتر حصہ انہوں نے املاکرایاہے۔لیکن فن کی تمام مستند کتابوں پرمولانا کی نظر اتنی وسیع تھی اوراُن کاحافظہ اتنااچھاتھاکہ آنکھوں کی معذوری ان کے لیے کوئی بڑی رکاوٹ نہیں بن سکتی تھی۔مجھے بارہا ایساموقعہ پیش آیا کہ کسی ضرورت کے لیے انہوں نے کوئی کتاب نکلوائی اوربڑی آسانی کے ساتھ محض اپنے حافظہ اوراپنے اندازہ کے بل بوتے پر مطلوبہ حدیث یامطلوبہ عبارت تلاش کروالی۔بعض اوقات وہ یہ تک بتادیتے کہ فلاں عبارت یا فلاں حدیث صفحہ کے کس جانب یا کس حصہ میں ہوگی۔ان کایہ استحضار میرے لیے اکثر حیرت کاباعث بنتا۔
بے تعصبی:
مولانا اہل حدیث تھے۔تعصب اُن میں نام کوبھی نہیں تھا۔لوگ فتویٰ پوچھنے آتے اوروہ ہرایک کو اس کے اختیارکردہ فقہ کے مطابق فتویٰ بتادیتے۔میں اُن کے پاس جتنا عرصہ رہااپنے اختیارکردہ فقہی طریقہ پرعامل رہا۔ لیکن کسی تصریح تودرکنار کسی اشارہ کنایہ تک سے میں نے یہ محسوس نہیں کیاکہ اگرمیں اپنے طریقہ کوچھوڑ کر اُن کے طریقہ کواختیارکرلوں تووہ اس بات کوزیادہ پسندکریں گے۔دوران درس میں میرے زیادہ تراعتراضات انہیں باتوں پرہوتے جوخصوصیت کے مسلک اہل حدیث سے تعلق رکھنے والی ہوتیں اورمیرے اعتراض کا اندازبھی تبقاضائے عمرکچھ نا تراشیدہ ہی ساہوتا لیکن مولانا اپنی کریم النفسی کی وجہ سے نہ توبرامانتے ،نہ جواب میں مجھ پردھونس جمانے کی کوشش کرتے نہ کبھی الزامی قسم کاجواب دیتے،ان کے جواب کا انداز ہمیشہ نہایت متین اورعالمانہ ہوتااوراگر وہ محسوس کرتے کہ میں ان کے جواب سے مطمئن نہیں ہورہاہوں تو یہ کہہ کرگفتگوختم کردیتے کہ میری تحقیق یہی ہے،جومیں نے بیان کی ہے۔اگرتمہارا اس سے اطمینان نہیں ہوتا توجس بات پرتمہارادل مطمئن ہواس کواختیارکرو۔صرف ایک مرتبہ مجھے یادہے کہ میری جانب سے کچھ زیادہ ضدکا اظہار ہوا تو مولانانے فرمایا کہ" بھئی تمہارے امام صاحب بھی تو یہی کہتے ہیں"۔میں نے عرض کی ،میں اس معنی میں حنفی کب ہوں جس معنی میں لوگ حنفی ہواکرتے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ اس کے بعدمولانا نے کبھی میرے جواب میں اس قسم کی کوئی بات نہیں کہی۔
ایک مرتبہ بخاری شریف کی کسی حدیث سے متعلق میرے ذہن میں سخت تشویش پیدا ہوئی۔میں نے اپنی اس تشویش کااظہارمولانا کے سامنے کیا ۔اتفاق سے اس وقت مولانا کے پاس متعدد اہل حدیث علماء بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک بزرگ نے ایک اخبار کاحوالہ دیا کہ اس میں اس حدیث پربحث کی گئی ہے اور اس سوال کاجواب دیاگیاہے جومیں نے پوچھاہے۔میں نے ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کی۔انہوں نے پھر مداخلت کی اوراپنی اس رہنمائی پر کچھ دادوتحسین کے متوقع ہوئے تومیں نے تیزہوکرجواب دیاکہ اس قسم کے مسائل پر بحث کرنا ہراخبارنویس اورہر مناظرکاکام نہیں ہے۔زیادہ سے زیادہ وہ بات نقل کردی ہوگی جوابن حجرنے لکھی ہے اگر مجھے ابن حجر کی تحقیق سے اطمینان ہوجاتا تومیں اس مسئلہ کو مولانا کے سامنے کیوں چھیڑتا؟اس پروہ بزرگ کچھ برہم سے ہوگئے۔مولانا نے ان کومخاطب کرتے ہوئے فرمایایہ ٹھیک کہتے ہیں۔اس میں ابن حجر کی بات نقل کی دی گئی ہے اور اس سے اصلی اعتراض رفع نہیں ہوتا۔ یہ فرماتے ہوئے میرے درس کے لیے اٹھ گئے اورحاضرین سے مخاطب ہوکرفرمایا کہ آپ لوگ ان کی بات کابرانہ مانیں،یہ بھی صاحب علم ہیں اوربخاری اورابن حجر سب کا احترام کرتے ہیں۔پھرمیری پیش کردہ مشکل کے بارے میں فرمایا کہ اس پر کسی اوروقت غور کروں گا میں نے اس کے بعد اس کے لیے ایک آدھا باریاددہانی کی لیکن مولانا دوسرے کاموں سے غالباً فرصت نہ نکال سکے۔
اخلاق:
مولانا حقیقی معنوں میں ایک زاہد تھے۔انہوں نے مدت العمردنیا کمانے کی کوئی فکر نہیں کی۔ آخر عمر میں تو واقعی تمام ترغیبات کو نظرانداز کرکے صرف فن حدیث کو لے کر اپنے حجرہ میں معتکف ہوگئے تھے۔ان کی زندگی نہایت درویشانہ اورغریبانہ تھی،حالانکہ اگروہ چاہتے توبڑے عیش وآرام کی زندگی بسرکرسکتے تھے۔ وہ پشاور سے لے کر کلکتہ تک کے اہل حدیث علمااورعوام کے مرکزتھے اورسعودی حکومت بھی ایک زمانہ میں ان کی خدمات حاصل کرنے کرنے کی متمنی تھی،لیکن مولانا شرح ترمذی کاکام لے کر اس طرح تمام دنیا سے منقطع ہوکربیٹھ گئے کہ پھرموت کے سوا ان کے زاویہ سے ان کوکوئی دوسرا نہ ہٹاسکا۔ان کی گفتگو ہمیشہ اہل علم سے زیادہ تر مشکلات حدیث سے متعلق ہوتی۔میں نے کبھی ان کی زبان سے کسی شخص کی غیبت یاہجونہیں سنی ۔خرابی صحت، آنکھوں کی معذوری،کام کی کثرت اور رفقائے کار کی قلت کاشکوہ بھی کبھی ان کی زبان سے نہیں سنا۔حالانکہ یہ ساری تکلیفیں فی الواقع ان کوتھیں اوراگر نہ بھی ہوتیں توبھی اگروہ ان کاذکر کرتے تولوگ نہایت عقیدت سے اس کو سنتے۔مگروہ مجسمہ صبروشکرتھے۔کبھی حرف شکایت زبان پہ نہ لاتے۔ ان کا چہرہ نہایت معصوم تھا۔بچوں کے سوا ان سے زیادہ معصوم چہرہ میں نے کسی کانہیں دیکھا۔ان کو دیکھ کر ان سے بے ساختہ محبت کرنے کوجی چاہتاتھا۔ان کی صورت گواہی دیتی تھی کہ ان کے اندر کبر،فساد،انانیت اورخود پرستی کاکوئی شائبہ نہیں ہے۔میں نے ان کی زبان سے کبھی ایک لفظ ایسا نہیں سنا جس سے کم ازکم یہی ظاہرہوتاہوکہ وہ اپنے آپ کوایک عالم ہی سمجھتے ہوں۔ وہ کسی سے بے تکلف بھی ہوتے تو غایت بے تکلفی میں بھی ہرپہلو سے شریعت کاخاص لحاظ رکھتے۔میرے زمانہ تلمذ میں ایک صاحب ان کے پاس آیاکرتے تھے۔میں نے ان سے زیادہ مولانا کے سامنے کسی کو شوخ اور بے تکلف نہیں پایا وہ آتے ہی مولاناپراپنے فقروں ،اپنی پھبتیوں اوراپنے چٹکلوں کی بارش شروع کردیتے۔مولانا بھی ان کو دیکھتے ہی باغ باغ ہوجاتے اور سارے کام چھوڑکر ان کے لیے فارغ ہوبیٹھتے اورجب تک وہ بندہ خدا خود نہ اٹھتے مولانا ان کی ساری باتیں سنتے رہتے اورحسب گنجائش خود بھی اس میں حصہ لیتے۔میرااندازہ یہ تھا کہ یہ بالکل بے پڑھے لکھے آدمی تھے لیکن بچپنے کی ساتھی ہونے کے سبب مولانا نے ان کو بڑی رعایتیں دے رکھی تھیں۔میری شامت یہ تھی کہ یہ عموماً میرے درس کے وقت آدھمکتے اورپھراس وقت تک سرکنے کانام نہیں لیتے جب تک میراپوراوقت ضائع نہ کرلیتے۔میں دل ہی دل میں کڑھتا لیکن ان کے ساتھ مولاناکی دلچسپی دیکھ کرچپ رہتا۔یہ شخص پورے قصبہ کی پالیٹکس کا ماہر تھااورسارے مسائل وہ مولانا کے سامنے بھی زیربحث لاتا۔لیکن مولانا کا کمال تھاکہ اس کی ساری باتیں سنتے بھی اور اس کو موقع بہ موقع مفید نصیحتیں بھی کرتے جاتے اور اپنے آپ کوہرآلودگی سے بچائے بھی رکھتے۔میں نے ان کودیکھ کراکثر اس بات پررشک کرتاکہ کسی بڑے آدمی کے بچپنے کا ساتھی ہونابھی ایک آدمی کے لیے کتنابڑااعزاز ہے۔لیکن اس رشک کے باوجود میں کبھی ان سے یا کسی اور سے اُن کانام یا اُن کے حالات معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں اس بات کے سبب سے ان سے برابر ناراض رہا کہ یہ میرا وقت ضائع کرتے ہیں۔اس تمام سرگذشت پراب ایک چوتھائی صدی گذر چکی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے اورجنت میں اُن کو مولانا کی صحبت نصیب کرے۔آخر مولانا کو اُن کے ساتھ یہ تعلق قلب بغیر کسی اچھی صلاحیت کے توہو نہیں سکتاتھا اورنہ مولانا جیسے گوشہ نشین یہ دلچسپی بلاوجہ ہوسکتی تھی۔اللھم اغفرلھما

بشکریہ : حضرت مولانا امین احسن اصلاحیؒ