دو سالوں کے سنگم پر

مصنف : اذکار ازہر خان درانی

سلسلہ : نظم

شمارہ : دسمبر 2014

دوسالوں کے سنگم پر میں
جانے کیا کیا سوچ رہا ہوں
پچھلے سال بھی ایسی ہی اک
سرد دسمبر کی شب تھی جب
دو سالوں کے سنگم پر میں
جانے کیا کیا سوچ رہا تھا
سوچ رہا تھا وقت کا پنچھی
ماہ وسال کے پنکھ لگا کر
اپنی ایک مخصوص ڈگر پراڑتا ہے
دو سالوں کے سنگم پر میں
بیتی باتیں یاد کروں توڈرتا ہوں
ڈرتا ہوں کہ جانے والے سال کا سورج
آنے والے سال کے پہلے سورج کو
اپنے تن کی ساری حدت بخش نہ دے
ڈرتا ہوں کہ آنے والا موسم بھی
جانے والی زرد رتوں کا عکس نہ ہو
موسم گل کی صورت کے برعکس نہ ہو
صحنِ چمن میں شعلوں ہی کا رقص نہ ہو
سوچ رہا ہوں پچھلے سال اس لمحے
دو سالوں کے ایسے ہی اک سنگم پر
کیسے کیسے لوگ شریک ِ محفل تھے
کتنے ہیں جو آج یہاں موجود نہیں
سوچ رہا ہوں اگلے سال اسی لمحے
دو سالوں کے ایسے ہی اک سنگم پر
جب لکھے گا کوئی نظم تو سوچے گا
پچھلے سال کی آخری نظمیں لکھنے والے
کتنے ہیں جو آج یہاں موجود نہیں