شہید پاکستان

مصنف : منیر احمد خلیلی

سلسلہ : شخصیات

شمارہ : دسمبر 2014

            پروفیسر غلام اعظم ؒبے شمار سعادتوں کے خزینے ساتھ لیے ا ٓخر جیل ہی سے اپنے رَب کے حضور جا پہنچے۔حرص و ہوس، مفاد پرستی اور خود غرضی کی سیاست میں ایک پاکیزہ، خوش بخت اور قابلِ فخر کردار رُخصت ہوا۔ہوس خواہ اقتدار کی ہو یا مال و زرکی، انسان میں بزدلی ، منافقت ،موقع پرستی ،بے اصولی اوربے ضمیری پیدا کرتی ہے ۔۱۹۷۱ میں جماعتِ اسلامی اور کچھ اور محب ِ وطن جماعتوں کے سامنے ایک دوراہا تھا ۔یا تومنافرتوں اور تعصبات کے طوفان کے سامنے تنکا بن جائیں یا پھر اس ملک کی منفرد نظریاتی شناخت اور آزادی کو بنیادی حوالہ بنا کر اس کی سلامتی اور بقا کی جنگ میں چٹان بن کر افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑ ے ہوجائیں۔بھارتی فوج کی براہِ راست مداخلت کے بعد اب دو راہے والی بات بھی نہیں رہی تھی ۔ ملک کو بچانا ایک مقدس فریضہ تھا ۔جماعتِ اسلامی نے اپنی سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر بڑی بے جگری سے یہ فریضہ انجام دیا۔لیکن جو ہونا تھا وہ ہو کر رہا۔

            جب سقوطِ ڈھاکہ کا المیہ ہوا اس وقت پروفیسر غلام اعظم ؒ لاہور میں تھے ۔کئی وطن دوست لوگوں کے دل یہ صدمہ سہہ نہ سکے اور دھڑکن کھو بیٹھے تھے۔غلام اعظم ؒ کے دل پر کیا گزری ہو گی ، یہ اندازہ کرنا مشکل نہ تھا۔ان کی دینی زندگی کی پہلی وابستگی تبلیغی جماعت سے تھی۔اس زمانے میں جماعتِ اسلامی کے لیے مشرقی پاکستان کی سرزمین کچھ زیادہ زر خیز نہیں تھی۔ مولا نا عبد الرّحیم ؒ کوئی پودا کہیں سے اور کوئی کہیں سے اکھاڑلاتے اور اسے تحریکی چمن میں لا گاڑتے تھے۔نوجوان پروفیسر غلام اعظم کو انہوں نے ایک اجتماع میں شرکت کی دعوت دی۔ جماعت کے پیغام سے آگہی ہوئی،اس کے اسلوبِ دعوت کو دیکھا، اس کے نظم و ضبط کا مشاہدہ کیاتو دل یہیں ڈھیر کر دیا۔ تبلیغی جماعت والے مزاج کو جماعتی مزاج میں ڈھالنے میں ڈھال لیا۔علم و تفکر اور دانش و بصیرت کا بہرۂ، وافر قدرت سے ودیعت ہوا تھا۔ بڑی تیزی سے منزلیں طے کیں ۔مولا نا عبد الرّحیم ؒ کا دست و بازو ہی ثابت نہ ہوئے بلکہ بہت جلدمشرقی پاکستان جماعت کی امارت کا بار اٹھا لیا۔ مولانا مودودیؒ بھی ان کے ویژن، تحریکی شعور،تنظیمی صلاحیتوں اور سیرت و کردار کے معترف تھے ۔ ان کی قائدانہ صلاحیتیں رنگ لائیں اور مشرقی پاکستان میں تحریکی نظریہ و فکر کی کھیتی لہلہانے لگی۔ 1970 کے انتخابی معرکے میں تقریباً ہر نشست پر عوامی لیگ کی اصل حریف جماعتِ اسلامی ہی تھی۔ لیکن اندر اور باہر کی سازشوں نے سارا کھیل بگاڑ دیاتھا۔سقوطِ ڈھاکہ نے پروفیسر غلام اعظمؒ کی ساری نظریاتی اور تربیتی کھیتی اجاڑ دی۔فوجی تو جنگی قیدی بن کر عالمی قوانین کے تحت سنگین قسم کی ایذا رسانیوں سے محفوظ ہو گئے تھے لیکن جماعتِ اسلامی اور اسلامی چھاترو شنگو کے کارکن اور وہ جو ‘البدر’ اور ‘الشمس’ میں منظم ہو کردفاعِ وطن کے لیے فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے تھے وہ عوامی لیگ اورمکتی باہنی کے انتقام کا نشانہ بن کر ٹکٹکیوں پر جھول رہے تھے۔ادھر بقیہ پاکستان میں خاص طور پرتحریکِ اسلامی کی نوجوان نسل کوالگ ہو جانے والے مشرقی بازو کے نظریاتی تشخص کی وجہ سے اس کے چپے چپے سے جو محبت تھی وہ عقیدت میں ڈھل کر ایک نقطے پر جمع ہو گئی تھی۔یہ نقطہ تھا پروفیسر غلام اعظمؒ۔جدھر جاتے دیدہ و دل فرشِ راہ ہوتا۔محبتوں کے پھول نچھاور ہوتے۔ ذاتی ملاقاتوں اوراہم اجتماعات میں ان کو سننے کی پیاس ہر جگہ محسوس ہوتی تھی۔اگلے ہی سال امیرِجماعتِ اسلامی کا انتخاب ہونے والا تھا۔مولانا مودودی ؒ اپنی خرابیِ صحت کی بنیاد پر امارت کا بوجھ اٹھانے سے معذوری ظاہر کر چکے تھے۔ نوجوانوں کو پروفیسر غلام اعظمؒ کی دلجوئی اور تکریم کی ایک صورت یہ نظر آتی تھی کہ وہ منصبِ امارت پر فائز ہو جائیں۔اسی خواہش کی شدت نے پہلی دفعہ جماعت کی صفوں میں اندر اور باہر ‘ نجویٰ ’ کا ماحول پیدا کر دیا۔تا ہم ارکان کی اکثریت نے امارت ِ جماعت کا بوجھ میاں طفیل محمدؒ کے کندھوں پر ڈال دیا۔ کچھ عرصہ بعد جناب غلام اعظم ؒ برطانیہ چلے گئے۔

            عام قیاس یہ تھا کہ بنگلہ دیش میں اگلے پچاس سال تک بھی جماعتِ اسلامی کا اپنے قدموں پر کھڑا ہونا مشکل ہے۔لیکن مولانا عباس علی خان ؒ کا ایمانی جذبہ اور عزمِ و استقلال بروئے کار آیا۔ خوف و دہشت کے بادل چھٹے اور اعتماد کی فضا قائم ہوئی۔اکھڑا ہواتنظیمی ڈھانچہ پھر کھڑا ہو گیااور دعوتی و تنظیمی سرگرمیوں کا ٹوٹا ہوا سلسلہ اپنی جگہ پر آ گیا۔ میں دسمبر 1976کے آخری ہفتے میں ایک تعلیمی ادارے سے وابستہ ہو کر دوبئی پہنچا۔1977 کے اواخر میں یا اس سے اگلے سال پروفیسر غلام اعظم ؒ لندن سے دوبئی تشریف لائے۔دوبئی میں مرحوم مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے مولانا نورالزّماں کاگھرجماعتِ اسلامی کے مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔پروفیسر صاحب کا قیام بھی شاید وہیں پر تھا۔چاہنے والے وہیں ملاقاتوں کے لیے حاضر ہوتے۔میں نے جسارت کے لیے ان کا پہلا تفصیلی انٹرویو وہیں پر لیا تھا۔ان کے مشن کی پکار تھی کہ وہ بنگلہ دیش میں موجود ہوں۔چنانچہ واپس چلے گئے اور ایک طویل قانونی جنگ لڑ کر شہریت بحال کرائی ۔جماعتِ اسلامی پر بھی اچھے دن لوٹ آئے۔لیکن ایک طرف حسینہ کی تِریا ہٹ تھی اور دوسرے اس کی رگوں میں جماعتِ اسلامی سے بغض و کینہ دونوں خصلتیں خوفناک انتقامی جذبے میں ڈھل گئیں۔عا لمی ضمیر کی خوابیدگی اور انسانی حقوق کی علم بردار بڑی طاقتوں کی منافقت و بے حسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حسینہ نے جماعتِ اسلامی کی اگلی صف کی ساری قیادت کو انتقامی نشانے پر رکھ لیا۔ کم و بیش چالیس سال بعد جماعت کے لیے ابتلا و آزمائش کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔ایک دست آموز جنگی ٹریبو نل نے گزشتہ سال نوے سالہ پروفیسر غلام اعظمؒ کو جنگی مجرم قرار دے کراتنی ہی طویل قید کی سزا سنائی۔جیل میں کسی سہولت اور مناسب علاج معالجے کا ہونا تو خیالِ محال تھا، مناسب دیکھ بھال سے بھی محروم تھے۔ لیکن یہ بندہ ہر حال میں رضائے رَب پر راضی تھا زبان پرنہ کوئی شکوہ شکایت اور نہ اپنی مظلومیت و نا پرسی پر کوئی احتجاج ، نہ سہولتوں کا کوئی مطالبہ۔انہوں نے اپنے لیے جس راہ کا انتخاب کیا تھا وہ شروع ہی سے صبر آزما اور پُر خار تھی۔ ہمیشہ ہی اس صبر کا مجسمہ رہے جس کا نقشہ ان کے قائد نے تفہیم القُرآن میں یوں کھینچا ہے: ‘دشمنانِ حق کے مظالم کو مردانگی کے ساتھ برداشت کرنا۔دِینِ حق کو قائم اور سربلند کرنے کی جد و جہد میں ہر قسم کے مصائب اور تکلیفوں کو سہہ جانا۔ہر خوف اور لالچ کے مقابلے میں راہِ راست پر ثابت قدم رہنا۔شیطان کی تمام ترغیبات اور نفس کی ساری خواہشات کے علی الرّغم فرض کو بجا لانا۔حرام سے پرہیز کرنا اور حدود اللہ پر قائم رہنا۔گناہ کی ساری لذتوں اور منفعتوں کو ٹھکرادینااور نیکی اور راستی کے ہر نقصان اور اس کی بدولت حاصل ہونے والی ہر محرومی کو انگیز کر جانا۔غرض اس ایک لفظ کے اندر دین اور دینی رویے اور دینی اخلاق کی ایک دنیا سمو کر رکھ دی گئی ہے۔’ زمانے نے ان کو عمل گاہِ حیات میں بھرپور مجاہدانہ زندگی گزارتے ہوئے دیکھا اور اسیری میں بھی پرکھا۔وہ ہر حال میں پیکرِ صبر ورضا ہی ثابت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنی رضا کی خاطرصبر و استقامت سے ساری آزمائشوں کو انگیز کر جانے والوں کے لیے وعدہ ہے: ‘یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے صبر کا پھل منزلِ بلند کی شکل میں پائیں گے ۔ آداب و تسلیمات سے ان کا استقبال ہو گا۔وہ ہمیشہ وہاں رہیں گے ۔کیا ہی اچھا ہے وہ مستقر اور وہ مقام۔’رہے اس بطلِ جلیل کے جیل میں گزرے ماہ و سال تو یہاں اس کی عبادات، اس کی تلاوت و تدبّر، اس کی دعا و مناجات، اس کے ذکر و فکر اور تسبیح و تہلیل ، اس کے سوز و ساز اور پیچ و تاب ، اس کے دنوں کی تپش اور اس کی شبوں کے گداز کی گواہی اس کال کوٹھڑی کے سقف و دیوار دیں گے جو اس نفسِ مطمٗن کے اپنے رب کی طرف چلے جانے کے بعد اپنی بے نوری اور ویراں حالی پر ماتم کناں ہے۔ آئیے اسی کے در و دیوارسے پوچھتے ہیں:

غزالاں تم تو واقف ہو، کہو مجنوں کے مرنے کی
دِوانہ مر گیا، آخر کو ویرانے پہ کیا گزری؟