تبلیغی جماعت ، ایک زندہ خانقاہ

مصنف : خورشید ندیم

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : نومبر 2014

رائے ونڈ میں تبلیغی جماعت کا اجتماع جاری ہے،یہ اجتماع کیا ہے؟مو لانا سید ابو الحسن علی ندوی نے اس سوال کا جواب دیا ہے۔۱۹۴۱ کے یہی دن تھے جب ہندوستان کے ایک گاؤں ‘‘نوح’’ میں ایسا ہی ایک اجتماع منعقد ہوا۔اس میں مو لانا حسین احمد مدنی اور مفتی کفایت اللہ جیسی شخصیات شریک تھیں۔بانی تحریک مو لانا محمد الیاس بھی تھے۔ مو لانا ندوی نے اس پر تبصرہ کرتے ہو ئے لکھا:‘‘یہ اجتماع اور انسانوں کایہ جنگل ایک جلسہ سے زیادہ ایک زندہ خانقاہ تھی۔دن کے سپاہی رات کے راہب بن جا تے تھے اور رات کے عبادت گزار دن کے خدمت گزار نظر آتے تھے۔’’یہ تبلیغی جماعت کیا ہے……چلتے چلتے مو لانا وحید الدین خاں کے الفاظ میں اس سوال کا جواب بھی سنتے جائیں :‘‘ تحریکیں عام طور پر دو طرح کی ہو تی ہیں۔ایک وہ جو نظام کی بنیاد پر اٹھتی ہیں،دوسری وہ جو انسان کی بنیاد پر اٹھتی ہیں۔اوّل الذکر کا نشانہ اجتماع ہو تا ہے اور ثانی الذکر کا فرد۔ تبلیغی تحریک وہ تحریک ہے جس کا نشا نہ فرد ہے۔ایک انسان کو اس کے رب سے جوڑنا۔ایک انسان کو آخرت میں کامیاب انجام کے قابل بنانا،یہ اس کا مقصد ہے۔اس کے سوا جو چیزیں ہیں،ان کو وہ انعامِ خدا وندی کے خانے میں ڈالتی ہے نہ کہ براہ راست جدو جہد کے خانے میں۔تبلیغی تحریک کیا ہے؟ایک لفظ میں وہ خدا اور انسان کی دریافت ہے۔انسان کی روح ایک ایسا قابلِ اعتماد مر کز چا ہتی ہے جو اس کے حو صلوں اور تمنا ؤں کا مر کز ہو۔جو اس کے سفرِ حیات کی منزل بن سکے۔جس سے وہ سوال کرے اور جواب پائے۔جس سے وہ مستقل طور پر اپنے آپ کو وا بستہ کرسکے۔جو اس کی ہستی کے تمام مطالبات کی تکمیل ہو۔ اس طرح کے ایک مقام کو پانا ہی روح کے لیے زندگی کا ملنا ہے۔ اس کے بغیر روح اپنے کو بے جگہ سمجھے گی اور خلا میں معلق پڑی رہے گی۔تبلیغی تحریک،نفسیاتی مفہوم میں،انسان کی روح کو اس کا مر کز اور مر جع فراہم کرنے کی ایک کو شش ہے۔وہ انسان کو خدا سے ملانے کی ایک مہم ہے۔’’

میں اس میں مزید ایک نکتے کا اضافہ کرتا ہوں۔یہ رسالت مآب محمدﷺ کو عالمِ انسانیت سے جوڑنے کی ایک کاوش ہے۔یہ بات سمجھ نہیں آسکتی اگرہم محمدﷺ اور انسانیت کے تعلق کو پہلے دریافت نہ کریں۔رسالت مآب کون ہیں؟انبیا و رسل کی پھیلی ہو ئی کہکشاں میں اس مہ کامل کا سب سے بڑ امتیاز یہ ہے کہ وہ اللہ کے آخری رسول اور نبی ہیں۔یہ محض ایک عقیدہ نہیں ایک ایسی خبر ہے جس سے پورے عالمِ انسانیت کی نجات وابستہ ہے۔اللہ کا آخری الہام اور وحی ان کے قلبِ اطہر پر نازل ہو ئی۔آج اگر کوئی یہ جاننا چا ہے کہ اس عالم کا پر وردگار اپنے بندوں سے کیا چاہتا ہے تو اس کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ آپ کے قدموں میں آ کر بیٹھ جائے۔ہدایت آپ کی ذات کے ساتھ مقید ہو گئی۔جو ان پر ایمان کا دعویٰ رکھتا ہے وہ اپنے اس دعوے میں صادق نہیں اگر آپ اسے دنیا کے ہر رشتے،ہر تعلق اور ہر شے سے زیا دہ عزیز نہ ہو جا ئیں۔ اس عقیدے کا ایک اظہار یہ ہے کہ آپ پر ایمان رکھنے والاآپ کو اپنا آئیڈیل بنا لے۔دین کے باب میں انھوں نے جو کہا ،کیا اور جسے کلام الہٰی کے حیثیت سے پیش کیا اسے ہی دین سمجھے۔بلاشبہ وہ اس دین کو سمجھے گا ،اس پر غور کرے گا اور اپنی عقل سے راہنمائی لے گا۔تاہم ،یہ ممکن ہے کہ اس کی عقل ٹھوکر کھا جائے۔اس صورت میں وہ اپنی عقل کی بلوغت کا انتظار کرے گا لیکن مانے گا وہی جسے اللہ کے رسول نے بطور دین پیش کیا۔عقل کہتی رہے کہ لاٹھی سانپ نہیں بن سکتی لیکن وہ یہ تسلیم کرے گا کہ سید نا مو سیٰ کی لاٹھی اپنے رب کے حکم سے سانپ بن گئی تھی۔ لوگ اپنی جہالت آشکار کرتے رہیں کہ اس دور میں کوڑوں کی سزا مناسب نہیں لیکن وہ اس پر ایمان رکھے گا کہ قیامت کی صبح تک زنا کی سزا سو کوڑے ہیں کیونکہ یہ اس کتاب میں لکھ دی گئی ہے جسے اللہ کے آخری رسول لے کر آئے تھے۔کوئی مغرب کا ہو یا مشرق کا،اگر اعتراض اٹھائے کہ معاذ اللہ ہاتھ کاٹنا وحشیانہ سزا ہے تووہ اپنی آ واز بلند کرے گا کہ چور مرد ہو یا عورت، اس کی حد ہاتھ کاٹنا ہی ہے۔دلیل یہ کہ کتاب اللہ میں یہی درج ہے۔کوئی الصلٰوۃ کا مفہوم لغت سے طے کرے گا تو وہ دنیا کو بتائے گا کہ یہ حق صرف اللہ کے آخری رسول کا ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ الصلوۃ کیاہے، کن اوقات میں کتنی رکعتوں کے ساتھ اور کیسے پڑھی جائیں گی۔اس میں لغت نہیں، اللہ کے رسول کی سنت ما خذبا لذات ہے جس طرح قرآن ماخذ با لذات ہے۔

آپ پر ایمان کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ وہ آپ کے لائے ہوئے پیغام کو ان لوگوں تک پہنچا ئے گا جو اس نعمت سے محروم ہیں۔ظاہر ہے کہ وہ یہ کام اپنی استطاعت، علم اور رسائی کی حد تک ہی کر سکے گا لیکن اسے بہر حال یہ کام کر نا ہے۔یہ آپ پر ایمان لانے والوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ کچھ لوگ پہلے خود سیکھیں اور پھر اسے ان تک پہنچا ئیں جو اس سے بے خبریا بے نیاز ہیں۔ قرآن مجید کے مطابق ،یہ ممکن نہیں کہ سب لوگ اس کام پر لگ جائیں لیکن ایسا ضرور ہو کہ ایک قوم میں سے کچھ لوگ اٹھیں جو دین کا فہم حاصل کریں اور دوسروں کو انذار کریں(۱۲۲:۹)۔یہ انذار کیا ہے ؟یہی کہ لوگوں کو خبر دار کیا جائے کہ انھیں اپنے اللہ کے حضورمیں پیش ہو نا اوراپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہونا ہے۔ بد قسمتی سے امت کی سطح پر اللہ کے آخری رسول کے ساتھ تعلق کا یہ پہلو وہ اہمیت حاصل نہیں کر سکا جس کا یہ مستحق تھا۔ تبلیغی جماعت ہمیں یہ بھو لا ہوا سبق یاد دلاتی ہے۔ وہ ہمیں بتاتی ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین داعی اور مد عوکا تعلق کمزور پڑ رہا ہے جسے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

دین کے احیا، بقا اور فروغ کی ہر کوشش لائقِ تحسین ہے۔بایں ہمہ تبلیغی جماعت سمیت ایسی ہر کوشش اس کی سزاوار ہے کہ اسے رسالت مآب کے لائے ہوئے دین کے قائم شدہ معیارات پرکھا جائے اجتہاد،جہاد،حکومت اور دعوت سمیت، دین کے عنوان سے کیا جانے والے ہر کام جانچا جائے گا کہ قرآن و سنت کے مطابق ہے یا نہیں۔تبلیغی جماعت ،ظاہر ہے کہ اس سے مستثنی نہیں۔تاہم ،اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہرسال انھی دنوں میں جب یہ زندہ خانقاہ آباد ہوتی اور ساری دنیا سے مسلمان

 یہاں جمع ہو تے ہیں تو وہ ہمیں یاد دلا تے ہیں کہ اللہ کے آخری رسولﷺ کی ذات والاصفات ہی ہدایت کا واحد اور ابدی مر کز ہے۔ کتاب الہٰی آپ کے توسط سے ہمیں ملی اور سنت بھی آپ ہی کا طریقہ ہے۔یہی دین ہے جسے ہم نے ان تک پہنچا نا ہے جو اس نعمت سے محروم ہیں۔