دعوت نامہ

مصنف : محمد رضوان خالد چوھدری

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مارچ 2018

کیا آپ میری دعوت پر چند لمحات کے لیے صرف مسلمان بن سکتے ہیں؟ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ مل کر اسلام کی ابتدائی صدیوں کا جائزہ لیں پھر آپ چاہیں تو مسلمان ہی رہیں اور چاہیں تو واپس شیعہ، سْنی، دیوبندی، بریلوی یا وہابی بن جائیں۔
میں یہ فرض کرتے ہوئے اپنی بات آگے بڑھاتا ہوں کہ آپ نے میری دعوت قبول کر لی ہے اور اس لمحے آپ صرف مسلمان ہیں۔
اب خود کو اْس دور میں موجود تصور کیجئے کہ حضرت محمدﷺ کے وصال کو 80سال گزر چکے ہیں۔ ایک بھی صحابی زندہ نہیں ہے البتہ وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے صحابہ کو دیکھا تھا۔ اس وقت نہ اِمام ابو حنیفہ پیدا ہوئے تھے نہ امام مالک نہ امام جعفر صادق اور نہ فقہ لکھنے والا کوئی اورامام پیدا ہوا تھا۔ آپ ایک ایسے دور میں پہنچ گئے ہیں کہ حدیث کی ایک بھی کتاب موجود نہیں ہے۔ اور امام بخاری اور مسلم سمیت دیگر محدثین پیدا ہونے میں ابھی سو سال سے زیادہ عرصہ ہے۔ یہ تو بڑی مشکل صورتحال ہے اب آپ کو سْنت کیسے پتہ چلے گی؟ فرائض کیسے پتہ چلیں گے؟ لوگ آخر کیسے مسلمان ہیں کہ ہمارے اماموں میں سے کوئی پیدا ہی نہیں ہواجن کے کئے ہوئے کام کے بعد ہم آج شیعہ اور سْنی، حنبلی اور شافعی وغیرہ بنے۔ 
دیوبند اور بریلوی مدرسہ تو ابھی سوا ہزار سال کے بعد بنے گا لہذا آپ دیوبندی بریلوی بھی نہیں بن سکتے، وہابی بھی نہیں ہو سکتے کیونکہ وہابی فرقے کی شروعات میں بھی ابھی سوا ہزار سال کا عرصہ ہے، اہلِ حدیث تو تب بنیں جب حدیث کی کوئی کتاب ہو۔ صحابہ میں سے کوئی زندہ نہیں۔بڑی مشکل میں ہیں، ہم اب کہاں جائیں۔ اتنے میں مسجد میں اذان کی آواز آتی ہے، آپ مسجد پہنچتے ہیں تو کیسے نماز پڑھیں گے، ہاتھ باندھ کر یا ہاتھ چھوڑ کر؟
آپ یقیناً ویسے ہی نماز پڑھیں گے جیسے وہاں کی مسجد میں لوگ پڑھ رہے ہوں گے۔ یعنی سْنت مسلمانوں میں رائج ہے فرائض کا پتہ ویسے ہی قرآن سے چل رہا ہے اور قرآن تو تب بھی وہی تھا جو آج ہے۔ یعنی اْس دور کے مسلمان قْرآن اور مْعاشرے میں رائج سْنّت کے سہارے ہم سے کہیں بہتر مسلمان تھے۔ 
جن صحابہ نے نبیﷺ کو ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے دیکھا تھا ویسے ہی سکھایا جنہوں نے ہاتھ چھوڑ کر یا رفع یدین کرتے دیکھا تھا اْنہوں نے آگے ویسے ہی سکھایا۔ کوفے کی طرف جو صحابہ گئے وہ آپ کو ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتا دیکھتے رہے تھے لہٰذا عراق کے سب مسلمانوں کی اگلی نسلیں اْسی سْنت پر عمل کرنے لگیں افریقہ اور کچھ دیگر علاقوں میں جو صحابہ پہنچے اْنہوں نے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کی سْنت سکھائی لہٰذا آج تک افریقہ کے کروڑوں مسلمان ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے اور عین سْنت نبوی پر عمل کرتے ہیں۔ رفع یدین کرنا بھی سْنّت ہے نہ کرنا بھی عین سْنّت۔ نماز تو ایک مثال ہے۔ ہر ملک کے مسلمانوں نے مْختلف مْعاملات اور عبادات میں الگ الگ صحابہ سے الگ الگ سْنّت سیکھی لہٰذا سبھی تھوڑے تھوڑے مْختلف ہونے کے باوجود سْنّت پر ہی عمل کرتے ہیں۔ اللہ نے صحابہ کے ذریعے ہر وہ طریقہ عبادت کسی نہ کسی ملک میں رائج کروا دیا جو نبی نے کبھی نہ کبھی اختیار کیا تھا۔ اْس وقت کے مسلمان جب حج کے لیے مْختلف ملکوں سے اکٹھے ہوتے تو ان اختلافات کو بھی محبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ عراق والے کہتے کہ ہاتھ باندھ کر نماز کا طریقہ زیادہ مؤدبانہ ہے مدینہ والوں کی دلیل ہوتی کہ حضوری کا احساس ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے سے زیادہ آتا ہے یہ علمی مذاکرے چلتے رہتے لیکن کوئی اس اختلاف کی بْنیاد پر ایک دوسرے کو غلط نہ کہتا۔ 
اب اپنی آنکھیں بند کر کے دوبارہ کھولیں۔ ہم اس وقت120ہجری یعنی حضرت محمدﷺ کے وصال کے 110سال بعد کے مدینہ میں موجود ہیں۔ مدینہ شہر میں امام مالک موجود ہیں اور مدینے میں ہی امام جعفر صادق بھی ہیں۔ یہ دونوں امام اپنی اپنی فقہ ترتیب دے رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے نت نئے پیدا ہونے والے مسائل میں رہنمائی ہوسکے ان کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ یہ امت کو فرقوں میں بانٹیں۔ یہ ایک دوسرے کی بے پناہ عزت کرتے ہیں۔ عین اسی وقت عراق کے شہر کوفے میں امام ابو حنیفہ بھی فقہ لکھ رہے ہیں، انٹرنیٹ اور ٹیلیفون کا دور تو ہے نہیں اور نہ ہی اخبارات یا رسالے چھپتے ہیں۔ ایک ملک سے دوسرے ملک کے سفر کے لئے مہینوں لگ سکتے ہیں لہذا مختلف امام اپنے اپنے لوگوں کی آسانی کے لئے مختلف ملکوں میں فقہ لکھ رہے ہیں۔ امام شافعی اب سے کچھ سال بعد غزہ فلسطین میں اپنی فقہ لکھیں گے اور امام احمد بن حنبل بغداد میں یہی کام کریں گے۔
آپ کو یہ حال سن کر عجیب لگ سکتا ہے کہ باقی سب امام دور دراز ملکوں میں ہیں۔ اور نبیﷺ کے شہر میں پیدا ہونے اور مسجدِ نبوی میں اپنی زندگی کی سب نمازیں پڑھنے والے امام دو ہی ہیں یعنی امام مالک اور امام جعفر صادق، اور دونوں ہی اپنی اپنی فقہ میں ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کا طریقہ بتاتے ہیں۔کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ کی وفات کے سو سال بعد ہی مسجدِ نبوی میں نماز کا طریقہ بدل گیا تھا جو ان دونوں اماموں نے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کو اسلامی طریقہ بتایا۔ایسے میں آپ دیکھتے ہیں کہ اسلام کا ایک عظیم طالب علم کوفے سے علمِ دین سیکھنے مدینہ آتا ہے، جی ہاں یہ نعمان بن ثابت ہیں جنہیں آپ ابو حنیفہ کہتے ہیں، یہ امام جعفر صادق کی شاگردی اختیار کرتے ہیں اور جلد ہی انکی شہرت پورے مکے مدینے میں پھیل جاتی ہے۔ امام مالک جب بھی انہیں ملتے ہیں تو احتراماً اٹھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ امام بھی اپنی فقہ لکھ رہے ہیں اور ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے اور رفع یدین نہ کرنے کا طریقہ بیان کرتے ہیں جس پر نہ امام مالک اعتراض کرتے ہیں اور نہ ہی امام جعفر صادق بلکہ امام مالک اب بھی جیسے ہی امام ابو حنیفہ کو دیکھتے ہیں احتراماً اٹھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں، ان کے شاگرد پوچھتے ہیں آپ تو کسی کے لئے بھی کھڑے نہیں ہوتے پھر انکے لیے کیوں کھڑے ہوتے ہیں تو امام مالک کہتے ہیں اسلام کے ایسے عالم اور عاشقِ رسول کا احترام مجھ پر واجب ہے،۔ واضح رہے کہ امام مالک نے ایک حج کے علاوہ کبھی مدینے سے باہر کا سفر نہیں کیا کہ کہیں محمد کے شہر سے باہر موت نہ آجائے۔ 
ہر نماز مسجدِ نبوی میں ادا کی، کبھی جوتے نہیں پہنے کہ میں کہیں ایسی جگہ جوتا نہ رکھ دوں جہاں محمد ننگے پاؤں گزرے ہوں۔ کبھی سواری پر نہ بیٹھے کہ کہیں میں کسی ایسی جگہ سوار ہو کر نہ گزر جاؤں جہاں سے محمد پیدل گزرے ہوں۔ لیکن وہی امام مالک جو رفع یدین اور ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کا طریقہ بتاتے ہیں ایک ایسے عالم کا احترام کرتے ہیں جو رفع یدین نہ کرنے اور ہاتھ باندھ کر نماز کا طریقہ بتاتا ہے اور وہ ابو حنیفہ امام جعفر کی شاگردی اختیار کیے ہوئے ہیں جو ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں اور جنہیں اب شیعہ امام سمجھا جاتا ہے۔
غزہ سے ایک اور امام یعنی امام شافعی مدینہ آتے ہیں وہ خود ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے کا طریقہ اپنی فقہ میں لکھ چکے ہیں اور برملا یہ بھی کہتے ہیں کہ روئے زمین پر امام مالک سے بڑا حدیث اور فقہ کا کوئی عالم موجود نہیں۔
مجھے یقین ہے کہ یہ دیکھ کر آپ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے کہ آپکے دور میں تو رفع یدین، ہاتھ چھوڑ کر یا ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا اور ایسی ہی دیگر باتوں پر بیسیوں فرقے ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں اور یہ آئمہ کرام ایک دوسرے کا اتنا احترام کرتے ہیں کہ اگر کوئی امام کسی دوسرے امام کے علاقے میں جائے دوسری فقہ کے لوگ انہیں جماعت کروانے کو کہیں تو وہ اپنے طریقے سے نہیں اسی امام کے طریقے سے نماز پڑھاتا ہے جس امام کی وہ مسجد ہے۔
یہ دیکھتے ہی آپکو پتہ چل جائے گا کہ آپکے مولوی آپکو مسلمان سے حیوان بنا رہے تھے۔ آپکو اپنے دور کے مولوی ا سے نفرت اور ان آئمہ سے محبت محسوس ہو گی اور آپ مختلف طریقوں سے نماز روزہ اور دیگر عبادات کرنے والے لوگوں کو اختلاف کے باوجود محبت کی نظر سے دیکھ کر اپنے جیسا مسلمان سمجھیں گے۔
اگر میں آپ سے کہوں کہ فرقوں میں بٹ جانا شرک ہے تو شاید آپکو یقین نہ آئے کیونکہ آپ کو علما نے کبھی ان آیات کے بارے میں تو نہیں بتایا ہوگا جن میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کہتے ہیں کہ ’’اسی کی طرف رجوع کرتے رہو اور اس کا تقویٰ اختیار کرو اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے مت ہوجاؤ، اْن مشرکوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو فرقوں میں بانٹ دیا اور گروہ در گروہ ہوگئے۔ ہر گروہ اْسی پر مگن ہے جو اس کے پاس ہے‘‘۔
کیا اس آیت کے اِس کھلے حکم کے بعد بھی آپ دیوبندی، بریلوی، شیعہ، حنفی شافعی یا مالکی کہلوانا پسند کریں گے؟
آپ سب چاہتے ہیں کہ قیامت کے دِن حضرت محمد ﷺ آپکی شفاعت کریں لیکن میں آپ کو بتاتا چلوں کہ اللہ سورہ انعام کی آیت150میں اپنے نبی کو کیا حکم دے رہے ہیں۔ ’’بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو فرقوں میں تقسیم کیا آپ کا کسی چیز میں اسے کوئی تعلق نہیں‘‘
کیا یہ آیت جان کر بھی آپ شیعہ، سْنی، دیوبندی، بریلوی وغیرہ بننا پسند کریں گے یا مسلمان ہونا چاہیں گے؟
جب اسلام آیا تو لوگ قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے آپس میں نفرتیں تھیں لیکن اللہ کی رسی تھام لینے سے وہ آپس میں بھائی بھائی بن گئے، سْنتِ نبوی نے انکے دِل جوڑ دئیے لیکن مسلمان پھر سے فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے دشمن اور جہنم سے قریب تر ہوگئے۔ اللہ سورہ آل عمران میں فرماتے ہیں ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹ جانا‘‘
کیا آپ بھی وہابی، اہلِ حدیث یا اہلِ قرآن جیسے کسی فرقے سے منسوب ہونا پسند کریں گے یا مسلمان کہلانا؟
کیوں نہ ہم صحابہ کے دور کے مسلمان بن جائیں جو قرآن کو اسلامی علم کا بنیادی ماخذ مانتے تھے۔ ان کے سامنے جب کوئی حدیث پیش کی جاتی تو وہ یہ دیکھتے کہ کہیں وہ حدیث قرآن سے تو نہیں ٹکراتی، اگر ایسا ہوتا تو وہ فوراً کہہ دیتے نبی ایسا نہیں کہہ سکتے، یہ قرآن کے خلاف ہے۔ راوی سے سننے کی غلطی ہوئی ہو گی۔ اگر حدیث قرآن کے خلاف نہ ہوتی تو اْسے سر آنکھوں پر رکھتے۔
کیوں نہ ہم سب اماموں کو اپنا لیں۔ سب کی عزت کریں اور جس امام کی بھی فقہ سے جو حکم آسانیاں پیدا کرے وہ لے لیں لیکن خود کو کسی بھی امام سے منسوب نہ کریں اور بس بغیر کسی فرقہ کے پہلے دور کے مسلمان بن جائیں۔ کیوں نہ ہم عقل سے کام لینا شروع کر دیں کہ قْرأن عقل کے استعمال کا سات سو چھپن بار حکم دیتا ہے۔ 
میں آپ کو فرقوں سے نکل کر مْحمدﷺ کے دین اور صحابہ اور تمام آئمہ کے اسلام میں آنے کی دعوت دیتا ہوں۔ 
***