قبرستان کے جوتے

مصنف : مجید اختر

سلسلہ : افسانہ

شمارہ : نومبر 2014

چھ یا سات مہینے پہلے کی بات ہے میں بہت دیر سے گیراج میں چھپائے ہوئے اپنے پرانے جوتے تلاش کررہا تھا۔ ہوا یوں کہ اسد کا فون آیا کہ ہمارے ایک دوست اظہر بھائی رات انتقال کرگئے۔ صبح ان کی تدفین ہونا تھی اور مجھے اس میں شریک ہونا تھا۔ رات سے بارش بھی مسلسل ہو رہی تھی۔ پچھلے سال جب ھاشمی صاحب کا انتقال ہوا تھا تب بھی بالکل ایسا ہی موسم تھا۔میں آفس ہی سے قبرستان چلا گیا تھا۔ قبرستان کی گھاس اور کیچڑ میں میرے نئے جوتے تباہ ہوگئے تھے۔ ایک سو پندرہ ڈالر کا جوتا جو ایک نامی گرامی اسٹور سے خریدا گیا ہو، یوں کیچڑ میں لت پت ہوکر بیکار ہوجائے تو مجھ جیسے مڈل کلاس آدمی کیلئے پریشانی کا باعث تو ہوتا ہے۔ تب ہی میں نے یہ طے کرلیا تھا کہ قبرستان کیلئے ایک الگ جوتا ہونا چاہئیے۔میرے پاس ایک بہت ہی پرانا جوتا ہے جو شاید میں نے پانچ سات سال پہلے ایک گرینڈ سیل کے موقع پر خریدا تھا۔ جوتا بوسیدہ ہوجانے کے باعث قابلِ استعمال نہیں رہا تھا۔ میری بیوی کو بھی سبھی بیویوں کی طرح پرانی چیزوں سے بَیر ہے۔ اس سے نظر بچا کر میں نے یہ جوتا ایک براؤن ڈبّے میں چھپا کر کہیں رکھ دیا تھا۔ صبح قبرستان جانا تھا اور اب یہ جوتا مجھے مل نہیں رہا تھا۔ فرزین سے۔۔۔۔میری بیوی کا نام فرزین ہے۔۔۔۔۔ پوچھ نہیں سکتا تھا کیونکہ یہ کارروائی اس سے چھپ کر کی گئی تھی۔ تھک ہار کر میں نے تلاش ترک کردی اور بچوں کے ساتھ کھانے کے کمرے میں آگیا۔ تب ہی بالکل اچانک مجھے یاد آیا کہ وہ براؤن ڈبّہ میں نے خود کتابوں کی الماری کے پیچھے چھپایا تھا۔

کھانے سے فارغ ہوکر میں ٹہلتا ہوا گیراج میں گیا اور کتابوں کی الماری سے وہ ڈبّہ برآمد کرلیا۔ جوتے نکال کر ڈبّہ پھر سے وہیں چھپا دیا۔ اس جوتے کی ایڑیاں ایک سائیڈ سے پوری طرح گِھس چکی ہیں۔

اپنے تئیں ہم ساری عمر صراطِ مستقیم پر چلتے ہیں لیکن پرانے جوتوں کی ایک طرف سے گِھسی ہوئی ایڑیوں کو دیکھ کر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ساری عمر ٹیڑھے ہی چلتے رہے۔

آفس میں پہننے کے قابل یہ جوتا تھا نہیں اور مرمّت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امریکہ میں گلی کوچوں میں موچیوں کے اڈّے نہیں ہوتے۔ یہاں شْو ریپئر شاپس ہوتی ہیں۔ ہمارے محلّہ کی شاپنگ مال میں ایک ایسی ہی دکان ہے جس کا نام شْو ڈاکٹر ہے۔شْو ڈاکٹر صاحب سے نئی ایڑیاں لگوانے میں پچیس سے لیکر تیس ڈالر تک کی خطیر رقم خرچ ہوسکتی تھی۔ مرمّت تو چھوڑئیے، ان سے تو آپ جوتے پالش بھی نہیں کرواسکتے۔

یہاں جوتا پالش کرنے کا بھی بڑا اہتمام ہوتا ہے۔ ایک بہت اونچے صوفے پر آپ تشریف فرما ہوکر تازہ اخبار کا مطالعہ فرماتے ہیں۔نیچے ایک اسٹول پر بیٹھ کر شْو ڈاکٹر صاحب آپ کے جوتے چمکاتے ہیں۔حقِ خدمت آٹھ ڈالر ہے اور تین سے چار ڈالر کی بخشش درکار ہوتی ہے۔ کْل تخمینہ دس سے بارہ ڈالر کا بنتا ہے، جسے سو سے ضرب دیں تو ہزار بارہ سو کے قریب پاکستانی روپیہ کا حساب بنتا ہے۔ اتنی خطیر رقم سے شْو شائین کروانا میرے نزدیک اْمّتِ مرحومہ پر ظلم ہے اور بے جا اسراف کے زمرے میں آتا ہے۔ لاچار کسی ڈالر اسٹور سے میڈ اِن چائنا سستی سی پالش کی ڈبیا خرید کر گھر ہی میں اپنے جْوتے چمکاتا ہوں۔ بالکل اسی طرح جیسے پتھر دل مغربی معاشرے میں خود کو ایک طرف سے گَھس گَھس کر اور سستی ڈائی سے بال رنگ رنگ کر ہم لوگ اس آس میں زندگی گزاردیتے ہیں کہ ایک روز مقدر کا ستارہ ضرور چمکے گا۔ ستارہ چمکے نہ چمکے قبرستان جانے کی باری آہی جاتی ہے اور میں آپ کو قبرستان کے جوتوں ہی کے بارے میں بتلا رہا تھا۔

پچھلی بار قدوائی صاحب کے جنازے میں یہی جوتا پہن کر گیا تھا۔ ساری رسموں کے پورا ہوتے ہوتے اور آخری فاتحہ تک میں خاصا تھک چکا تھا۔ گِھسی ہوئی ایڑیوں پر ٹیڑھا کھڑے کھڑے پیر دْکھنے لگے تھے۔ لیکن مجموعی طور پر میری ترکیب نہایت کامیاب رہی تھی۔ اپنی اس کامیابی پر میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا تھا۔ گھر واپسی پر چْپکے سے جھاڑ پونچھ کر جوتوں کو اسی مخصوص ڈبّہ میں کتابوں کی الماری کے پیچھے چھپا بھی دیا تھا۔

امریکہ کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ مْردے کا غسل و کفن آپ گھر یا مسجد میں نہیں کرسکتے۔ اس کیلئے خطیر رقم خرچ کر کے کسی مردہ گھر کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ مْردوں کو دفنانے کا طریقہ کار بھی بالکل مختلف ہے۔ ٹریکٹر سے کْھدی ہوئی قبر پہلے سے تیار ہوتی ہے۔مرد حضرات جنازے کی معیت میں قبر تک جاتے ہیں۔ خواتین چونکہ ہر شعبہ حیات میں پیش پیش ہیں لہٰذا قبرستان میں بھی پیچھے نہیں رہتیں۔ انہیں قبرستان کی دیوار کے ساتھ بنے ایک چھپّر کے نیچے پناہ ملتی ہے۔ادھر مرنے والے کے اعزہ قبر میں اترتے ہیں، جنازہ ان کے حوالے کیا جاتا ہے اور وہ اسے آرام سے لٹا دیتے ہیں۔ایک ایسے صاحب جنہیں کمیونٹی میں کوئی نہیں جانتا اور جن کا مرنے والے سے دور پار کا بھی کوئی رشتہ نہیں ہوتا ، ہنگامی طور پر سارے انتظامات کی ذمہ داری سنبھال لیتے ہیں بلند آواز سے مختلف احکام جاری کرنے لگتے ہیں۔ انہی کی طرف سے حکم جاری ہوتا ہے کہ سارے لوگ قبر سے دور ہٹ جائیں۔ ٹریکٹر ایکبار پھر حرکت میں آتا ہے اور کنکریٹ سے بنا ایک بھاری بھرکم پتھر قبر میں اترا جاتا ہے جو مْردے کے عین اوپر بغلی دیواروں پر ٹِک جاتا ہے۔مرد حضرات بہانے بہانے سے چھپر تلے کھڑی خواتین کو کن اکھیوں سے دیکھتے اور زیرِ لب کلمہ شہادت پڑھتے رہتے ہیں۔غربیوں کا جنازہ ہو تو تمام اعزہ و اقربا رخصت ہوجاتے ہیں۔ انہیں یقین ہوتا ہے قبرستان کے کارکن قبر کی بھرائی مکمل کردیں گے اور اللہ میاں حساب کتاب سے غافل نہیں رہے گا۔ ہندوستانی یا پاکستانی کا جنازہ ہو تو ابھی بہت سے کام باقی رہتے ہیں۔ اصل میں ہم بہت مزے کے لوگ ہیں۔ شادی بیاہ ہو یا جنازہ، جب تک ہم ٹھوک بجا کر اپنی رسمیں پوری نہ کر لیں ہماری تسلی نہیں ہوتی۔ٹریکٹر کے ہٹتے ہی خود ساختہ لیڈر صاحب آواز لگاتے ہیں کہ قْل کی مٹّی دے دیجئیے۔ تمام مرد حضرات ایک لائین سے آگے بڑھتے ہیں اور باری باری تین مْٹّھی مٹّی قبر پر ڈالتے جاتے ہیں۔ اس کے بعد پھر ٹریکٹرکی مدد سے قبر مٹّی سے بھر دی جاتی ہے۔جنازہ کسی امیر کبیر آدمی کا یا اس کے اہلِ خانہ کا ہو تو حسبِ حیثیت دو، تین یا چار مولوی حضرات جنازے کی مشایعت فرماتے اور ساتھ ہی ساتھ مختلف ہدایات جاری کرتے رہتے ہیں کہ مردہ کو کوئی تکلیف نہ ہو اور اس کے اجر و ثواب میں کہیں کچھ کمی نہ واقع ہوجائے۔ پچھلے دنوں جب کمیونٹی کے ایک خاصے متموّل فرد، ڈاکٹر ترمذی صاحب کی بیگم کا انتقال ہوا تو تمام ادبی و ثقافتی تنظیموں کے علاوہ قسم قسم کے مولوی حضرات بھی جنازے میں شریک تھے۔ مولانا قاسمی صاحب نے نہایت جانفشانی سے ایک طویل فاتحہ مرحومہ کیلئے پڑھی ، ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ بیگم ترمذی کی انگلی پکڑ کر انہیں جنّت کے دروازے تک چھوڑ آئیں۔ دورانِ فاتحہ کئی بار ان کا گلا رقّت کے مارے رِندھ گیا۔ لوگوں کے نزدیک بڑا روحانی اور میرے نزدیک بڑا روح فرسا منظر تھا۔

جنازہ کسی غریب یا مڈل کلاس آدمی کا ہو تو مولوی صاحبان زحمت نہیں فرماتے۔ ایسے جنازوں پر حاضرین ہی میں سے کوئی کچھ دعائیں پڑھ دیتا ہے جسے مرحوم کی مغفرت کیلئے کافی سمجھا جاتا ہے۔

اب اظہر بھائی کی تدفین کیلئے جانا تھا۔ بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ بچپن میں امّاں سے سنا تھا کہ نیک لوگوں کے جنازے پر اللہ کی رحمت برستی ہے۔ اظہر بھائی بھی شاید نیک رہے ہوں گے۔ البتہ ایک بات طے شْدہ تھی۔ جنازے میں کسی مولوی کی آمد کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔کیونکہ اظہر بھائی بھی ہم سب دوستوں کی طرح سفید پوش آدمی تھے۔۔ میں نے صبح ناشتے کے بعد گیراج سے جوتے نکالے، اوپر اوپر سے انہیں پالش سے چمکانے کی کوشش کی تاکہ کسی ملنے والے پر میرا راز فاش نہ ہوجائے ، بھلا کوئی اپنے مسلمان بھائی کے جنازے میں کوئی مخصوص جوتا بھی پہن کر جاتا ہے ؟؟بارش شدید تھی اور جوتے کیچڑ میں لتھڑ گئے تھے۔ گھر واپسی پر بیک یارڈ کے نلکے سے باقاعدہ انہیں دھونا پڑا۔ خوب اچھی طرح دھو کر میں نے انہیں گیراج کی دیوار کے ساتھ سوکھنے کے لئے رکھ دیا۔ باہر دھوپ میں سْکھاتا تو کسی مغرور کی گردن کی طرح اکڑ جاتے۔ گیراج میں دو چار دن سوکھنے میں لگ بھی جائیں تو کیا حرج ہے۔ کون سی روز روز ضرورت پڑتی ہے۔ کمیونٹی کے لوگ روز تھوڑا ہی مرتے ہیں۔ دوسرے تیسرے روز جیسے ہی جوتے خشک ہوئے ان پر تھوڑا سا تیل مَل کر میں نے اسی ڈبّہ میں انہیں محفوظ کرکے کتابوں کی الماری کے پیچھے چھپا دیا۔ فرزین، میری بیوی، میری اس حرکت سے ناواقف ہے۔ اسے اگر پتا چل جائے تو مجھے کنجوس، گھٹیا اور جانے کیا کیا کہے گی۔ حالانکہ یہ تو عین سمجھداری کی بات ہے۔ بھلا کیا تْک ہے کہ آپ اپنے قیمتی جوتے پہن کر قبرستان جائیں اور ان کا ستیا ناس کرلیں۔ اور پھر جنازے میں شرکت تو خیر خواہی کے جذبے کے تحت ہوتی ہے اور سارا دارو مدار اچھی نیت اور دعائے خیر پر ہوتا ہے۔ کس نے کیسا جوتا پہن رکھا ہے اس سے جنازے کی حْرمت کا کیا تعلق ؟

آج پھر بارش ہورہی ہے۔ فرزین کو دیکھ کر میں تھکا ہارا گھر آیا ہوں۔ اس کی حالت مسلسل بگڑتی جارہی ہے۔ میرا بڑا بیٹا ہسپتال میں اپنی ماں کے پاس ہی ٹھہرا ہے۔صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں ہے، بھوک محسوس ہورہی ہے لیکن کچھ کھانے کو دل ہی نہیں کر رہا۔ اچانک میرے سیل کی گھنٹی بجتی ہے۔ فون کمرے کے اندھیرے میں چمک اٹھتا ہے۔ بیٹے سے میری گفتگو ہوتی ہے ،میری دنیا تاریک ہوجاتی ہے اور سب کچھ ایک اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔دو دن کی بھاگ دوڑ کے بعد کاؤنٹی سے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ ملا ہے۔ بارش ہے کہ مسلسل جاری ہے ، مجھے نہیں پتہ کہ میں کب تک اپنے کمرے میں بیٹھا رہا ہوں۔ بیٹا میرے کمرے میں آیا ہے اور مجھے جلدی کرنے کو کہہ رہا ہے۔ ایسا نہ ہو ہمیں دیر ہوجائے۔۔ پہلے مردہ خانے جا کر جنازہ حاصل کرنا ہے پھر قبرستان پہنچنا ہے۔۔ میں گیراج کے اندر مبہوت کھڑا ہوں۔۔۔بیٹے کی آواز پھر سے آتی ہے، وہ حیران ہے کہ میں اتنی دیر کیوں کر رہا ہوں۔۔۔۔ میں آگے بڑھتا ہوں اپنے بہت خوبصورت سے نئے جوتے پہنتا ہوں اور گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے کتابوں کی شیلف کے پیچھے چھپے ایک براؤن ڈبّہ کو اٹھا کر ٹریش کین میں پھینک دیتا ہوں۔

٭٭٭