سوال ، جواب

مصنف : مولانا طالب محسن

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : نومبر 2014

جواب: اس دنیا کا اصل اصول آزمائش ہے۔ یہاں جو کچھ بھی پیش آ رہا ہے اس سے آزمایش کا پہلو کبھی الگ نہیں ہوتا۔ اس میں شبہ نہیں کہ بعض اوقات ہماری کسی غلطی کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے آتا ہے اور کبھی قدرت ہماری تنبیہ اور تربیت کے لیے حسب ضرورت ہماری کسی غلطی پر گرفت بھی کرتی ہے لیکن بہر صورت آزمایش کا پہلو ہر حال میں ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے۔

حتمی طور پر یہ بات کہنا کہ فلاں حالات فلاں وجہ سے پیش آئے ہیں ناممکن ہے۔ البتہ ہمیں اس کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ کہیں یہ مشکل ہماری کسی غلطی پر تنبیہ کے لیے تو نہیں آئی تاکہ قدرت کا مقصود حاصل ہو۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: یہ سوال پیدا ہونے کی دو وجہیں ہیں۔ایک وجہ عقلی ہے اور وہ یہ کہ تمام دنیا کی اقوام کے لیے ہدایت کا اہتمام ہونا چاہیے۔یہ اہتمام ہوا ہے تو اس کے آثار کیا ہیں۔ اور اگر اس کے آثار نظر نہیں آتے اور واقعہ بھی یہ ہے کہ بہت سارے خطوں میں پیغمبروں کی بعثت کے کوئی آثار موجود نہیں ہیں تو پھر ان کے ناحق پر ہونے کا انجام کیا ہوگا۔

دوسری وجہ قرآن مجید کے ایک آیت ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہے۔ لکل قوم ہاد(رعد:7)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے تمام اقوام کے لیے ایک پیغمبر بھیجا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مختلف اقوام کے لیے جو پیغمبر بھیجے گئے ان کے نام کیا تھے اور ان کی تعلیمات کیا تھیں۔

قرآن مجید اور بائیبل میں جن پیغمبروں کا ذکر ہے ان کا تعلق اس علاقے سے ہے جو نیل وفرات سے ملحق ہیں اور انھی میں آباد اقوام میں انھوں نے دعوت کا کام کیا۔ اس وجہ سے ہمیں یہ مشکل پیش آتی ہے کہ ہم قرآن کی بنیاد پر باقی اقوام کے بارے میں کوئی حتمی بات کہہ سکیں۔

اس صورت حال کو دو طریقوں سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایک یہ ہے کہ اصل میں تمام اقوام میں پیغمبر آئے تھے لیکن مرور زمانہ سے ان کی شخصیات اور تعلیمات اصل تعارف اور صورت میں باقی نہیں رہیں۔ چنانچہ یہ نقطہ نظر قیاساً بدھا، کرشنا، زرتشت اور کنفیوشش جیسی شخصیات کو اسی دائرے میں رکھتا ہے اور جہاں اس طرح کی شخصیات کا تذکرہ نہیں ملتا اسے تاریخ کی ستم آزمائیوں کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے۔

دوسرا یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے لیے دو طریقے اختیار کیے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں مختلف اقوام میں رسول بھیجے اور اس زمانے میں زیادہ تر یہ ہوا کہ ان پیغمبروں کی قوموں کو آسمانی سزا نے صفحہ ہستی سے نابود کر دیا۔ لہذا ان کے کسی باقاعدہ ریکارڈکے دستیاب ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔حضرت ابراہیم کے بعد ان کے خاندان کو دعوت کی ذمہ داری دی گئی اور انھی پر یہ فرض تھا کہ یہ باقی اقوام تک خدا کا دین پہنچائیں۔ لہذا حضرت سلیمان، داؤد علیہم السلام کے زمانے میں اس وقت کی اقوام تک یہ دعوت پہنچائی گئی اور ان کے زوال کے بعد اس خاندان کی دوسری شاخ نے اس کام کو سنبھالا اور حضورﷺاور صحابہ کی قائم کردہ ریاست نے ایک بار پھر ساری دنیا تک اس حق کردہ حق کو پہنچانے کا کام کیا۔باقی رہا کچھ لوگوں کا حق کی دعوت سے محروم رہنا تو اس کے بارے میں یہ دونوں نقطہ نظر اس بات پر متفق ہیں کہ ان کا مؤاخذہ فطرت میں ودیعت ہدایت کی بنیاد پر ہو گا۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :دین کا حکم یہ ہے کہ صلہ رحمی کرو۔ میری سمجھ کے مطابق یہ حکم اس اصرار کے ساتھ اور اس اہتمام کے ساتھ اس لیے دیا گیا ہے کہ اس پر عمل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ بعض اوقات ناشکری اور حق تلفی کے رویے کے باعث اور بعض اوقات ظلم اور زیادتی کے سبب سے۔

آپ نے جو احوال لکھے ہیں کسی نہ کسی رنگ، انداز اور سطح پر تقریباً تمام لوگ ہی اس تجربے سے گزرتے ہیں۔ جن کے ساتھ ہمارا تعلق ہوتا ہے ان سے ہماری بہت سی اچھی توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کا رویہ ہمارے لیے بہت تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ مزید برآں اگر ان سے کوئی زیادتی سامنے آرہی ہو تو ہماری تکلیف بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

اصولی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے رشتے داروں کے ساتھ ہر حال میں حسن سلوک کرنا ہے ان کی بے اعتنائی، نا شکری اور زیادتی کے باوجود۔ لیکن قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے تین درجے ہو سکتے ہیں۔

پہلا یہ کہ آپ جس حد تک زیادتی ہوئی ہے اس کا بدلہ لے لیں اور تعلقات کو منقطع نہ کریں لیکن میل جول بھی نہ رکھیں۔ مطلب یہ کہ اگر کہیں ملاقات ہو جائے تو بس سلام دعا کے بعد ایک دوسرے سے دور رہیں۔

دوسرا یہ کہ آپ اس طرح کے رشتے داروں کے ساتھ صرف غمی اور خوشی کا تعلق رکھیں اور عام حالات میں ان سے میل ملاقات نہ کریں۔ لیکن اگر کوئی شدید ضرورت سامنے آجائے تو آپ مدد کرنے سے گریز نہ کریں۔تیسرا یہ کہ آپ زیادتیوں کو نظر انداز کریں اور حسن سلوک اور مہربانی کا برتاؤ بھی جاری رکھیں۔

پہلا درجہ اختیار کرنے پر آپ گناہ گار نہیں ہوں گے۔

دوسرا درجہ اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ نیکی کے مواقع ضائع نہیں ہوں گے۔

تیسرا درجہ فضیلت کا درجہ ہے۔ اللہ کی رضا زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا پیش نظر ہو تو اسی کو اختیار کرنا چاہیے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:یہ سوال جس الجھن پر مبنی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ساتھ جو کچھ پیش آرہا ہوتا ہے ہم یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یہی تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔تقدیر میں کیا لکھا ہوا ہے ہمیں اس کا کوئی علم نہیں ہے۔ ہمیں یہ اصولی بات معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں ارادہ و اختیار کی آزادی دے رکھی ہے۔ اگر اللہ تعالی نے سب پہلے سے طے کر رکھا ہے تو پھر یہ آزادی بالکل بے معنی ہے۔ پھر جزا یا سزا یا وقوع قیامت یہ سب باتیں اپنی معنویت کھو دیتی ہیں۔ہمارا کام یہ ہے کہ ہم تدبیر کریں اور تدبیر کی کامیابی کے لیے دعا کریں۔ ہم ان آفات سے محفوظ رہنے کے لیے بھی دعائیں کریں جو دوسرے انسانوں اور قدرتی عوامل کی وجہ سے پیش آتی رہتی ہیں اور جن کا کبھی ہمیں شعور نہیں ہوتا اور اگر کبھی شعور ہو بھی تو ہم اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔حضور کی سکھائی ہوئی ایک دعا کے الفاظ ہیں:

اے اللہ مجھے اس شر سے محفوظ رکھ جس کا تم نے فیصلہ کیا ہے، کیونکہ تو فیصلے کرتا ہے تیرے اوپر فیصلے نہیں ہوتے ۔یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ ہماری دعا سے اللہ کے فیصلے تبدیل ہوسکتے ہیں۔

اللہ تعالی نے ہمیں یہاں آزمایش کے لیے بھیجا ہے۔ آزمایش کے ضروری ہے کہ انسانوں کو خیر وشر کے انتخاب کی حقیقی آزادی حاصل ہو۔ وہ چاہیں تو اچھے اعمال کریں اور چاہیں تو بداعمالیا ں کریں۔ یہ آزادی بالکل محدود ہو جائے گی اگر انسانوں کو دنیوی معاملات میں فیصلے کی آزادی حاصل نہ ہو۔ مطلب یہ کہ شادی، کاروبار، تعلیم، محنت، پرہیز، علاج، ہنر، طرز زندگی ،لباس ،رسم ورواج غرض، زندگی کے بہت سے دائروں میں انسانوں کو آزادی دی گئی ہے۔ اصل میں یہ آزادی ہی ہمارا مقدر ہے۔ جسے اللہ نے اپنی قدرت کے بل پر جاری وساری کر رکھا ہے۔آپ کی بات بالکل درست ہے کہ شادی میں کئے گئے فیصلے بھی اسی آزادی کے تحت ہیں۔ لیکن یہ آزادی بعض اوقات صرف ارادے تک محدود رہتی ہے اور ایک انسان کو عمل کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اللہ تعالی کی اس مداخلت کے پیچھے کئی حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ ایک انسان کو بہت سی آزمایشیں اس کے ماحول میں موجود انسانوں کے اعمال سے پیش آتی ہیں۔ لہذا مداخلت کرکے اس آزمایش کو مطلوب درجے تک رکھا جاتا ہے۔مثال کے طور پر اگر الف ب کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلے اور ب کو قتل نہ ہونے دینا مقصود ہو تو ب کو مداخلت کرکے بچا لیا جاتا ہے۔ لیکن فیصلہ کرنے والا قتل کا مجرم بن جاتا ہے اور آخرت میں قتل کی سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات ایک بندے کے مستقبل کو بعض آفات سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی مداخلت کی جاتی ہے وغیرہ۔

اس وضاحت کو شادی کی مثال پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں نے زور زبردستی کی ہے انھوں نے اللہ کے دیے ہوئے ایک حق کو ملحوظ نہیں رکھا۔ الاّ یہ کہ وہ یہ مداخلت کرنے میں حق بجانب ہوں کہ بچوں کا فیصلہ غلط ہے اور اس سے ان کا نقصان ہوگا۔اس کا دوسرا پہلو بھی کہ اللہ تعالی نے اس معاملے میں مداخلت کرکے آئندہ کے لیے کسی آفت سے حفاظت کا بندوبست کیا ہو۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے یا سنتے ہوئے سجدے میں گر پڑنا اس کیفیت کو ظاہر کرتا ہے جو بندہ مومن پر وفور شکر یا وفور خوف کی وجہ سے طاری ہوتی ہے۔ مسجدوں سے تلاوت کی آوازوں سے اس کیفیت کے پیدا ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :سوال امیری اور غریبی کا نہیں ہے۔ اصل سوال فیملی کے کلچر کے فرق کا ہوتا ہے۔ اصل مطلوب موافقت ہے۔ آپ کی اور اس کی آمدنی میں کافی فرق ہے۔ ہمارے معاشرے کے مرد بیوی پر فائق رہنا چاہتے ہیں۔ جب وہ کسی پہلو سے بیوی سے کم ہوں تو یہ چیز ان کے رویوں کو متوازن نہیں رہنے دیتی اور وہ کسی نہ کسی پہلو سے اوور ری ایکٹ کرنے لگ جاتے ہیں جس سے گھریلو زندگی ناخوشگوار ہو جاتی ہے۔ تعلیم کا فرق ذوق کا فرق بھی پیدا کر دیتا ہے اور سوچ کا فرق بھی۔ یہ چیز بھی عدم موافقت کا سبب بن سکتی ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اس شخص کی شخصیت کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ اگر آپ یہ سمجھیں کہ آپ کے اور اس کے علمی، ذہنی اور مالی سٹیٹس کا فرق اس کی شخصیت کے دوسرے محاسن میں ایڈجسٹ ہو سکتا ہے تو رشتہ کر لیجیے اور اگر نہیں تو بہتر ہے کہ یہ شادی نہ کی جائے۔ شرعی اعتبار سے شادی ہو سکتی ہے۔ لیکن فقہا نے ہم رتبہ ہونے کو مناسب اہمیت دینے پر اصرار کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شادی کو ناکام ہونے سے بچانا بھی شریعت کے مقاصد کا حصہ ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :تقدیر کے دو جزو ہیں۔ ایک جز وہ ہے جس میں فیصلہ اللہ تعالی نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ شکل و صورت، علاقہ، خاندان، صلاحیت وغیرہ سراسر اللہ کے فیصلے ہیں اور اس دائرے میں اجر وثواب کا کوئی سوال ہے اور نہ ان کے حوالے سے قیامت میں جواب دہی ہے۔ دوسرا جز ہے جہاں تقدیر انسان کو آزادی دیتی ہے۔ یہ دائرہ سعی وجہد اور نیکی یا بدی کے اختیار کرنے کا ہے۔ اس دائرے میں اللہ تعالی کی طرف سے وہیں مداخلت ہوتی ہے جہاں اللہ تعالی کی آزمایش کی سکیم کے مطابق مداخلت ضروری ہو۔یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اصل آزمایش خیر وشر کی ہے اس لیے وہاں تمام انسان یکساں ہیں۔ مالی اور نسبی فرق آخرت کے نتائج پر اثر انداز نہیں ہوتا اس لیے اس حوالے سے اس کی کوئی اہمیت بھی نہیں ہے۔

دنیا میں انسانوں کا فرق ان حالات کو پیدا کرنے کے لیے ہے جس میں ہر شخص آزمایا جائے۔ غریب بھی شکر و صبر کی آزمایش میں ہے اور امیر بھی۔ پھر حق کو پہچاننے، جاننے اور اپنانے میں دونوں آزمایش میں ہیں۔ پھر اخلاق کے دائرے میں دونوں آزمایش میں ہیں۔ اس امتحان گاہ میں بعض پہلوؤں سے امیر سہولت میں ہے اور بعض پہلوؤں سے غریب۔ لہذا آزمایش میں کامل انصاف کا اہتمام ہے۔اس دنیا کے حوالے سے پیدا ہونے والے تمام فکری سوالات کا کوئی اطمینان بخش جواب نہیں مل سکتا جب تک آخرت کو شامل کرکے اسے سمجھنے کی کوشش نہ کی جائے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:اس کے جواب کے لیے اذن اور رضا کے فرق کو سمجھنا چاہیے ۔ اس دنیا میں جتنے بھی کام ہیں وہ اللہ کے حکم یا اذن ہی سے ہو رہے ہیں۔ صرف جادو ہی نہیں مادی فنون کا معاملہ بھی یہی ہے۔ بندوق سے نکلی ہوئی گولی ہو یا کسی کا کیا ہوا تعویز دونوں اسی صورت میں کار گر ہوتے ہیں جب اللہ کا اذن ہو۔ اس لحاظ سے جادو اور غیر جادو میں فرق ہے اور نہ مادی اور غیر مادی میں فرق ہے۔آپ غالباً یہ خیال رکھتے ہیں کہ ہاروت و ماروت پر اتارا ہوا علم چونکہ خدائی ہے اس لیے اس کے ساتھ اللہ کے اذن کا تصور ٹھیک ہے اور جادو چونکہ شیطانی ہے اس لیے اس کے ساتھ اللہ کے نام کا حوالہ ٹھیک نہیں ہے۔ یہاں اللہ کا نام اس پہلو سے نہیں لیا گیا کہ اس میں اللہ کی رضا ہے بلکہ اس پہلو سے لیا گیا ہے کہ یہ اگر کہیں اپنے اثرات دکھاتا ہے تو اللہ کے اذن سے دکھاتا ہے اللہ کے اذن کے بغیر نہیں دکھا سکتا۔اصل میں مادی قوانین کی طرح الفاظ کی تاثیر کا فن ہو یا شیاطین کی کارفرمائیاں یہ ساری چیزیں اور امکانات اللہ تعالی کے منصوبے کے تحت وجود پذیر ہوئے اور ان پر اللہ تعالی کی نگرانی مسلسل قائم ہے اور وہی کچھ ظاہر ہوتا ہے جو اللہ کو منظور ہوتاہے۔ اس معنی میں نہیں کہ اللہ اس سے خوش ہے۔ ہر گز نہیں اللہ کسی جرم پر خوش نہیں ہوتا۔ البتہ وہ قانون آزمایش کے پیش نظر کچھ جرائم کو واقع ہونے دیتا ہے یہاں اذن اللہ کا لفظ اسی محل میں آیا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :اصل میں احناف کا نقطہ نظر جس بنا پر قائم ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ نمازنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے سامنے اور روزانہ پانچ مرتبہ پڑھی ہے اور جو عمل سب کے سامنے ہوا ہو اس کے بارے میں خبر واحد سے فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ جس طرح پانچ نمازوں کے معاملے میں خبر واحد کی کوئی حیثیت نہیں ہے اسی طرح نماز کے ظاہری اعمال میں بھی اس کی حیثیت نہیں ہے۔ احناف عین صحابہ کے متصل زمانے میں کام کر رہے تھے اور اگر رفع یدین نماز کا معمول بہ حصہ ہوتا تو احناف اتنی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے تھے۔ دل چسپ بات یہ کہ اس زمانے میں احناف سے اس معاملے میں اختلاف کرنے والے بھی عمل متواتر اور جاری نماز کو دلیل کے طور پر پیش نہیں کرتے بلکہ اخبار آحاد پیش کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں وہی نتیجہ نکلتا ہے جو آپ نے بیان کیا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: آپ نے ایک جنگ میں ایک ایسے آدمی کا انجام پوچھا ہے جس نے عین قتل کے موقع پر اظہار ایمان کیا تھا۔ یہ روایت اصلاً اس مضمون کی حامل ہے کہ دنیا میں ظاہر پر معاملہ کیا جائے گا۔ ہماری دل تک رسائی نہیں ہے اس لیے ہم مجبور ہیں کہ قانونی طور پر اس شخص کو مسلمان قرار دیں جو ایمان قبول کرنے کا اعلان کیے ہوئے ہے۔ اور اسے وہ تمام قانونی حقوق دیں جو ایک مسلمان کو دیے گئے ہیں۔ باقی رہا آخرت کا معاملہ تو وہ حقیقت کی بنیاد پر ہوگا۔ ممکن ہے بہت سے اس دنیا کے مسلمان آخرت میں مسلمان کی حیثیت سے قبول نہ کیے جائیں۔ موت کو سامنے دیکھ کر کی گئی توبہ اور ایمان کی کوئی قدروقیمت نہیں۔ فرعون پر یہی اصول نافذ ہوا ہے۔ مذکورہ واقعے میں مقتول کے بارے میں اس طرح کی کوئی تصریح کتب حدیث میں نہیں ہے۔ بعض شارحین کا خیال ہے کہ وہ پہلے سے مومن تھا لیکن اس کا ایمان ظاہر نہیں تھا۔ اگر معاملہ یہ ہے تو اس کی بخشش ہو گی اور اگر نہیں تو معاملہ اس کے برعکس ہوگا۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :اجماع کا لفظ دو معنی میں بولا جاتا ہے۔ ایک اجماع امت ہے اور ایک اجماع فقہا ہے۔ اجماع امت کا مطلب یہ ہے کہ امت کسی چیز کو دین کے طور پر حضور سے منسوب کرنے میں اپنے ہر زمانے میں بالکل متفق ہو۔ یہ رائے کا اتفاق نہیں ہے بلکہ حضور سے دین کو نقل کرنے پر اتفاق ہے۔ یہی اجماع، دین کا ماخذ ہے اور اس سے اختلاف جائز نہیں۔ دوسرا اجماع رائے پر اجماع ہے یہ اصل میں نصوص سے استنباط پر علما کا متفق ہونا ہے۔ اگرچہ یہ اجماع محض دعوی ہے یعنی لوگ بہت سی دینی آرا پر اجماع کا دعوی کرتے ہیں۔ اس طرح کے اجماع سے اختلاف میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ یہ رائے سے اختلاف ہے۔ یہ دین کے کسی جزو سے اختلاف نہیں ہے۔

 علمی آرا میں غلط اور صحیح کا معاملہ ہوتا ہے حق اور باطل کا معاملہ نہیں ہوتا۔ علمی آرا میں اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسرا گمراہ ہے اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہمارے نزدیک اس کی رائے ٹھیک نہیں ہے۔ وہ اپنی رائے پر عمل کریں تو دین پر عمل کر رہے ہیں اور ان سے اختلاف کرنے والا اپنی رائے پر عمل کرے تو وہ دین پر عمل کر رہا ہے۔ ایک مجلس میں تین طلاق کے معاملے میں دو آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ تین طلاق ہے اور دوسری رائے یہ ہے کہ یہ ایک طلاق ہے۔ جس کی جو بھی رائے ہے وہ اس پر عمل کرنے میں گناہ گار نہیں ہے۔ اس طرح کے معاملات پر گمراہی کا لفظ درست نہیں ہے

(مولانا طالب محسن)

 سوال :میں ایک حدیث سے متعلق آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔ "پیغمبر نوح علیہ السلام نے بھی بیت اللہ کا حج کیا"۔ یہ ایک حدیث میں بتایا گیا ہے جو کہ عروہ بن الزّبیرسے مروی ہے۔" ہود اور صالح علیہما السلام کے علاوہ تمام پیغمبروں نے بیت اللہ شریف کا حج کیا۔ پیغمبر نوح نے بیت اللہ شریف کا دورہ کیا۔ پھر جب سیلاب نے زمین کو ڈبو دیا اور بیت اللہ پانی کے نیچے ڈوب گیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود کو بھیجا کہ وہ لوگوں کو صحیح راستے کی طرف لائیں۔ حضرت ہود تبلیغ کے کاموں میں اتنے مصروف رہے کہ وہ بیت اللہ کا حج نہ کر سکے یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیت اللہ والی پاک جگہ دکھائی گئی تو انہوں نے بھی وہاں کا حج کیا، اور اس طرح ان کے بعد تمام پیغمبروں نے جو کہ آپ کے بعد تشریف لائے"۔ (راوی۔ البیہقی، کتاب السنن)

میں بیہقی کی ان احادیث کی نوعیت جاننا چاہتا ہوں۔ یہ کس درجے کی حدیث ہے، جب کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام نے کی۔

جواب : آپ نے جس روایت کا حوالہ دیا ہے وہ مجھے تلاش کے باوجود بیہقی میں نہیں ملی۔ البتہ ازرقی کی اخبار مکہ میں یہ روایت نقل ہوئی ہے۔

ترجمہ ۔‘‘عثمان کا بیان ہے کہ مجھے ابن اسحاق نے خبر دی کہ مجھے ایک ایسے شخص نے بتایا جسے میں متہم نہیں سمجھتا کہ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ بیت اللہ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے تعمیر ہوا کہ وہ اس کا طواف کریں اور اس میں اللہ کی عبادت کریں۔ اور یہ کہ حضرت نوح نے غرق سے پہلے حج کیا وہ اس کے پاس آئے انھوں نے اس کی تعظیم کی- جب زمین پر غرق کا مرحلہ آیا اور اللہ نے قوم نوح کو ہلاک کر دیا تو بیت اللہ کے ساتھ وہی ہوا جو زمین کے ساتھ ہوا۔ پھر اس کی نشانی کے طور پر ایک سرخ ٹیلہ رہ گیا۔ پھر اللہ نے ہود علیہ السلام کو عاد کی طرف مبعوث کیا وہ اپنی قوم کے ساتھ کشمکش میں رہے یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو گئی۔ چنانچہ انھوں نے حج نہیں کیا۔ پھر اللہ تعالی نے صالح علیہ السلام کو ثمود کی طرف مبعوث کیا۔ وہ بھی اپنی قوم کے ساتھ کشمکش میں رہے۔ یہاں تک ان کی قوم بھی ہلاک ہوگئی۔ انھوں نے بھی حج نہیں کیا۔ پھر اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو ٹھکانا عطا فرمایا۔ انھوں نے حج بھی کیا اور مناسک بھی سیکھے۔ لوگوں کو اس کی زیارت کے لیے دعوت بھی دی۔ ابراہیم علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں ہوا جس نے اس کا حج نہ کیا ہو۔’’

اس روایت کی سند ہی سے واضح ہے کہ قبولیت روایت کے معیار کے لحاظ سے یہ بہت کمزور ہے۔ لیکن میرے نزدیک اس طرح کی روایات کو اس معیار پر پرکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ تاریخی روایات کے بارے میں اصول یہی ہے کہ وہ قابل قبول ہیں الا یہ کہ کسی دوسرے ذریعے سے اس کی غلطی واضح ہو جائے۔ اس روایت میں جتنے بھی بیانات ہیں وہ سب اس زمانے سے متعلق ہیں جن کے بارے میں کوئی تحریری ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ لہذا تردید و تصویب کے لیے ہمارے پاس کوئی محکم بنیاد نہیں ہے۔ قرآن مجید میں جو کچھ کہا گیا ہے اس سے اس کی بعض باتوں کی تائید ہوجاتی ہے لیکن اکثر باتوں کے لیے قرآن میں کوئی تائید نہیں ہے۔

 آپ کے سوال سے میں یہی سمجھا ہوں کہ مسئلہ کعبے کے بارے میں مسلمانوں میں رائج تصورات پر ایک مکتب فکر کی تنقید کا ہے۔ اصل میں مذہب کے بارے میں یہ تصور کہ اس کا مقصود خالق و مالک کے ساتھ تعلق کی درستی اور اس کے لیے مطلوب رسوم و آداب کی تعیین کا ہے، زمانہ حاضر کے بعض مفکرین کے لیے قابل قبول نہیں تھا اور وہ دین کو ایک ایسے نظام کے طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو دنیا میں انسانیت کی فلاح و بہبود کا ضامن ہو۔ اس زاویہ نظر سے نہ نماز کی وہ ہیئت قابل قبول رہتی ہے جو امت میں رائج ہے اور نہ حج کے مناسک قابل قبول رہتے ہیں جنھیں صدیوں سے ادا کیا جا رہا ہے۔

 بنیادی مسئلہ میرے نزدیک یہی ہے۔ ہمارا دین اصل میں خدا کے اس منصوبے کے فہم پر مبنی ہے کہ اس نے یہ دنیا آزمایش کے لیے بنائی ہے اور اصل مسئلہ آخرت کے امتحان کا ہے اور اس میں کامیابی کے لیے صحیح عقیدہ وعمل اختیار کرنا ہے تاکہ اس امتحان میں سرخروئی حاصل ہو۔

اس کے برعکس ان مفکرین کے نزدیک آخرت یہ معنی و مفہوم نہیں رکھتی۔ اور دین بھی پرستش اور پوجا پاٹ کا نام نہیں بلکہ ان طریقوں کو جاننے اور اپنانے کا نام ہے جن سے نوع انسانی کی فلاح وابستہ ہے۔

اس تصور کی تبدیلی کے نتیجے میں احادیث کے مقام اور تفسیر کے اصولوں کو نئے سرے سے متعین کرنے کی ضرورت پڑی اور امت کے مانے ہوئے مسلمات علم وعمل کو رد کرنا پڑا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ نے سورہ یاسین کی آیت 14 کے بارے میں سوال کیا ہے کہ اس میں تین رسولوں سے کون مراد ہیں۔

اس حوالے سے دو آراء ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ اس سے مسیح علیہ السلام کے حواریوں کا دعوتی کام مراد ہے۔ یہ بستی شام کی ایک بستی انطاکیہ ہے۔ لیکن جس طرح قرآن میں بات بیان ہوئی ہے اس سے حواری مراد لینا محل نظر ہے۔

دوسری رائے یہ کہ پہلے دو سے حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہما السلام مراد ہیں اور تیسرے سے وہ ہستی مراد ہے جو فرعون کے دربار میں تھا اور کئی موقعوں پر اس نے ان دونوں رسولوں کا ساتھ دیا۔ ہمارے سامنے پیغمبروں کی جتنی داستانیں ہیں ان میں سے بیک وقت دو پیغمبروں کی طرف بعثت کا واقعہ صرف ایک ہی ہے۔ اس لیے زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ اس آیات میں مصر کی طرف اشارہ ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :جھوٹ بولنا گناہ ہے۔ یہ ہرگز کار خیر نہیں ہے۔ صرف ایک صورت ہے جس میں جھوٹ بولنے کی اجازت ہے اور وہ یہ کہ کسی کی جان بچانا مقصود ہو۔ آپ نے جو مسئلہ بیان کیا ہے اس کا حل توریہ ہے۔ توریہ کی سب سے اچھی مثال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سفر ہجرت میں حضور کے بارے میں جواب ہے۔ انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا کہ آپ راستہ بتانے والے ہیں۔ یہ جملہ دشمن کے لیے اور معنی رکھتا تھا اور حضرت ابوبکر کے لیے اور مطلب۔ یعنی ایسا جملہ بنانا جس میں بولنے والا ایسے الفاظ میں اپنی بات بیان کرے جو خلاف حقیقت نہ ہوں لیکن سننے والے کو اصل بات بھی معلوم نہ ہو۔ بعض موقعوں پر زیادہ مناسب یہ ہوتا ہے کہ آپ صاف کہہ دیں کہ میں بات نہیں بتا سکتا۔ اگر یہ بات اعتماد سے کی جائے اور اس کو نبھایا جائے تو لوگ آہستہ آہستہ اس بات کو سراہنے لگ جاتے ہیں۔ ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ خاموش رہیں اور ایسا کوئی اظہار آپ کی طرف سے نہ ہو کہ آپ کو اصل بات معلوم ہے۔ آپ یہ بھی کر سکتے ہیں صرف بات کا وہ حصہ چھپا لیں جو نقصان دہ ہے اور باقی بات بیان کر دیں۔ اسی طرح ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ موضوع کو سلیقے سے بدل دیں اور اپنے آپ کو غلط بیانی سے بچالیں۔ غرض یہ کہ اگر جھوٹ سے بچنا مطمح نظر ہو تو کئی راستے نکالے جا سکتے ہیں۔ اگر آدمی کہیں پھنس جائے اور خلاف واقعہ بات اس کے منہ سے نکل جائے اور اس کے پیش نظر صرف اور صرف اصلاح احوال ہو اور اس صورت حال سے نکلتے ہی بندہ سچے دل سے اللہ سے معافی مانگ لے تو اللہ کی طرف سے رحمت اور بخشش ہی کی امید ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :قرآن مجید میں رزق کے حوالے سے یہ بات بیان ہوئی ہے کہ زمین کے ہر جاندار کا رزق اللہ تعالی پر ہے۔ یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالی جسے چاہتے ہیں کھلا رزق دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں نپا تلا رزق دیتے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ تم خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے نہ گھبراؤ اللہ وہاں سے رزق کا سامان کر دے گا جہاں سے تمھیں گمان بھی نہ ہو۔

یہ دنیا آزمایش کے اصول پر چل رہی ہے اس لیے ہماری زندگی کا ایک بڑا دائرہ محنت اور کوشش کے اصول پر قائم کیا گیا ہے۔ رزق کا حصول بھی اصلاً اسی اصول پر قائم ہے۔ قرآن صرف یہ واضح کرتا ہے کہ رزق کے لیے تمھاری کوشش تمھیں اس زعم میں مبتلا نہ کرے کہ یہ تمھاری کوشش کا نتیجہ ہے۔ یہ اللہ تعالی کی ذات ہے جو تمھاری کوشش کو جتنا چاہتی ہے پھل لگاتی ہے۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ ہمیں اسی اصول پر زندگی گزارنی ہے کہ اپنے لیے اچھے حالات پیدا کرنے کے لیے محنت اور کوشش کروں لیکن اس میں اصل اعتماد اللہ پر ہونا چاہیے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ نفخ روح سے انسان سمیع و بصیر بن جاتا ہے۔ اس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کے حیوانی قالب کو نفخ روح سے انسانی شعور عطا ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ روح کے بارے میں کوئی بات کہنا نا ممکن ہے اور شاید ہمارے لیے مفید مطلب بھی نہیں ہے۔

روح کی پاکیزگی کی اصطلاح قرآن مجید میں نہیں آئی۔ قرآن مجید میں تزکیہ نفس کی اصطلاح آئی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے ایمان ، عمل اور اخلاق کو پاکیزہ بنائے اور اس کا طریقہ قرآن مجید کی تعلیمات کو سمجھنا ، ماننا اور اپنانا ہے۔ چونکہ یہ سارا عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک کامل نمونے کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتا ہے اس لیے وہی سمجھ، رویہ ، ایمان اور عمل معتبر ہے جو حضور کے اسوہ کے مطابق ہو۔

(مولانا طالب محسن)