انتہاپسندی ۔۔۔علاج کیا ہے؟

مصنف : پروفیسر ملک محمد حسین

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : اگست 2014

 

            انتہا پسندی ایک ذہنی نفسیاتی رویہ ہے جس کی بنیاد تعصب ، ضد ، عدم برداشت اور اپنے خیالات، تصورات اور یقینیات کے معاملے میں یک رُخے پن پر ہوتی ہے ۔ اگر کسی شخص کا خیال، تصور اور یقین حق پر مبنی ہو تو حق پر مبنی ہونے کے اعتماد کی وجہ سے اس شخص میں دوسروں کو سُننے ، مذاکرہ و مباحثہ کرنے اور دلیل کے ساتھ اپنی بات کرنے کا حوصلہ ہوتا ہے کیونکہ کسی بھی بحث و مباحثہ کے نتیجہ میں اُسے اپنے خیال اور عقیدے کے باطل ہونے یا مسترد ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ ضد، عدِم برداشت اور تعصب تو اس گروہ میں ہو گا جسے اپنا خیال، تصور اور یقین پر دلیل کی بنیاد پر قائم رہنا نظر نہیں آتا۔ہاں اگر صحیح العقیدہ اور راست خیال شخص یا اشخاص کا علم سطحی اور فہم خام ہو تو اس شخص یا ان ا شخاص سے ضد اور تعصب پر مبنی رویے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ فہم و ادراک اور علم و یقین انسان کو ذہنی وسعت ، وسیع المشربی اور اختلاف و اتفاق کے معاملے میں نرم خُو بناتی ہے۔

            صحیح الخیال اور راست عقیدے کا حامل گروہ اس صورت میں بعض اوقات (ہمیشہ نہیں)ضد، تعصب اور عدمِ برداشت کا شکار ہو سکتا ہے جب باطل قوتیں میڈیا کے پروپگنڈے، جھوٹ پر مبنی الزامات ماورائے دلیل اور ماورائے حقیقت کہانیوں اور سیاسی فوجی قوت کے زور پر اہل حق کو دیوار کے ساتھ لگا دیتی ہیں۔ جب حق و صداقت کا راستہ بُزورروکا جائے ، جب بحث و مباحثہ کے راستے بند کر دئیے جائیں جب باطل پر مبنی نظامِ حیات ریاستی اور عالمی جبر کے ذریعہ نافذ کرنے کی کوشش کی جائے تو مجبور اورمقہور گروہ حق کے داعی ہونے کے باوجود محض قیامِ وجود کی خاطر عدمِ برداشت کے رویوں کا شکار ہوجاتے ہیں اگرچہ اہل حق و صداقت کے رویے "تنگ آمدبجنگ آمد"کو عدمِ برداشت کا نام دینا انصاف کی بات نہیں ہے۔

            انتہا پسندی کے متعلق ان تمہیدی کلمات کے بعد ہم اُس صورتِ حال کی طرف آتے ہیں جو اس وقت پوری اسلامی دنیا میں عموماً اور پاکستان میں خصوصاً جاری ہے۔ پوری اسلامی دنیا بشمول پاکستان اس وقت بد ترین انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شکار ہے۔ پاکستان میں انتہا پسندی کی جڑیں ایک طرف تو لبرل فاشسٹوں کے رویوں میں آشکارا ہیں تو دوسری طرف اس کے ڈانڈے عالمی فسطائی قوتوں خصوصاً امریکی سامراج اور اُس کے گماشتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں اندرونی انتہا پسندی کا ایک شاخسانہ کسی حد تک فرقہ واریت کے ذہن کی پیداوار ہے۔ مذکورہ انتہا پسندی کو کسی طرح بھی اسلامی انتہا پسندی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔

            اسلام تو اعتدال پسندی ، امن پرستی اور احترام و فروغِ انسانیت کا دین ہے۔ یہ کوئی نیا دین نہیں ۔ یہ تو ازل سے ابد تک تمام انسانوں کا دین ہے۔ آدم علیہ السلام سے لیکر نوح علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام سے لے کر اسمٰعیل علیہ السلام ،یعقوب علیہ السلام، موسیٰؑ اور عیسیٰ ؑ تک سب کا دین تھا۔ موسیٰ ؑ کے امتی اور عیسیٰ ؑ کے امتی سب مسلمان ہی تھے۔ یہ تو بنی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ کی بعثت کے بعد جب موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ کے امتیوں نے آپ ؐ کا نکار کیا تو وہ یہودی اور عیسائی بن کے رہ گئے اور شرفِ مسلمانی سے محروم ہوئے۔

            انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ایک پہلو عالمی ہے اور دوسرا پہلو مسلم معاشروں کا اندرونی پہلو ہے۔ اگر بنظرنمائر دیکھا جائے تو فی الحقیقت عالمی پہلوغالب حیثیت رکھتا ہے۔ چند سال پہلے امریکہ کے دو تھِنک ٹینکس رینڈ کارپوریشن اور انٹرنیشنل کراسنر گروپ (ICG)نے مسلم معاشروں کی جو تقسیم کی ہے اور جس کو وہ بڑھا وا دے کر (اُن کی زبان میں )بنیا د پرست مسلمانوں کا زور توڑ نا چاہتے تھے ان میں سُنی اسلام، شیعہ اسلام،صوفی اسلام، وہابی اسلام، حربی اسلام اور بنیاد پرست اسلام کی اصطلاحیں استعمال کر رہے تھے ۔ امریکہ اور روس کی حلیف مغربی اور مشرقی طاقتوں کو اُن کا مشورہ تھا کہ سُنی اور شیعہ کی خلیج کو بڑھا یا جائے۔ صوفی اسلام کی دامے درمے اور سخنے معاونت کی جائے دیوبندی اسلام کو نظر میں رکھا جائے اور حربی نیز بنیاد پرست اسلام کو کچلنے کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا تھنک ٹینکس کی سفارشات پر بہت حد تک عمل ہو چکا ہے اور اس سمت میں تیزی سے کاروائیاں ہو رہی ہیں۔ تیونس ، مصر اور لیبیا کے حالات کو ذہن میں رکھیں اور غور فرمائیں کہ کس طرح عرب بہار کا رُخ موڑ کر اسلامی قوتوں کو کچلا گیا۔ شام، عراق اور افغانستان کی صورتِ حال پر نظر ڈالیں کہ کس طرح ان ممالک میں معاشروں کو تہہ وبالا کر دیا گیا ۔ایران اور سعودی عرب کو کس طرح متحارب قوتوں کی طرح آمے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔ خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب میں اند ر ہی اندر شیعہ سُنی مخاصمت کو انتہا تک پہنچا دیا گیا۔ پاکستان میں فرقہ واریت پر مبنی کا لعدم جھگڑا لو تنظمیں قابو سے باہر ہو رہی ہیں۔ بھارت ، امریکہ، اسرائیل اور دیگر مغربی ملکوں کی خفیہ تنظیموں نے نفوذ کر کے کم از کم پاکستانی طالبان کو ایسے راستے پر لگا دیا ہے جس میں اسلام اور مسلمانوں کا گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔ اسلامی معاشروں کی فضا کو اس قدر گدلا کر دیا گیا ہے کہ اچھی بھلی صحیح الفکر جماعیتں اور افراد بھی اپنے بیانات اور طور اطوار میں توازن اور اعتدال قائم رکھنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

            دیگر مسلم معاشروں میں عموماً اور پاکستانی معاشرے میں خصوصاً فرقہ واریت پر مبنی انتہا پسندی نے قلب و اذہان کو مکمل طور پر جکڑ رکھا ہے۔ ہر گروہ بظاہر قرآن و سنت کی بنیاد پر سٹینڈ لیے کھڑا ہے لیکن بیاطن اپنے حزبی ، معاشی ،سیاسی بلکہ سفلی مفادات کی آبیاری کر رہا ہے۔ ملی یک جہتی کو نسل اور ملی مجلس شرعی کے پلیٹ فارم ہوں یا بین المذاہب اور بین لمسالک کانفرنسیں ، ہمارے محترم اور مقتدر علماء کرام کا رخ انور کچھ اور دکھاتا ہے لیکن اپنی حزبی مجالس میں اور اپنے مریدانِ با صفا کے سامنے اُن کا چہرہ بالکل بدل جاتا ہے رمضان المبارک میں سحری اور افطاری کے اوقات کے سادہ سے معاملہ پر ہمارے ان "متقی"حضرات کا سٹینڈ 90درجے کے زاویے پر ہوتا ہے تو ایسے مسائل جن میں اخذ و نتائج پر غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے اُن پر ان حضرات کا اتفاق تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ یہ اختلاف رائے جب ضد،انا، تعصب کا شکار ہو کر عدمِ برداشت کی حدوں کو چھو نے لگتا ہے تو وہ مسائل جنم لیتے ہیں جن کا اب ہم شکار ہیں۔

            اسلامی معاشرے ایک عرصے تک مغربی استعماری قوتوں کے زیرِ نگیں رہے۔ ان مغربی استعماری قوتوں نے تعلیمی نظام اور سیاسی تدابیر سے ہمارے قلوب و اذہان ہی بدل کر رکھ دئیے۔ ان مغربی استعماری قوتوں نے نظرنہ آنے والا ایک ایسا خود کار فکری نظام (Perpetual Thinking System)ہمارے خمیروں میں ڈال دیا کہ ان کے جانے کے بعد ہم مغرب کے سیکولر نظام کے پرُ جوش معاون بن گئے ۔آپ ذرا پاکستانی معاشرے پر ہی نظر ڈالیں، ہمارا تعلیمی نظام، ہمارے سماجی طور اطوار ، ہمارا میڈیا اور ہماراصارفانہ رویہ کیا اب زیادہ مغرب پرست اور سیکولر نہیں ہو گیا بمقابلہ اس کے کہ جیسے ہم 1947سے پہلے تھے۔ ہم آرزو تو اسلامی ہونے کی کرتے ہیں لیکن ہمارے تمام افعال اور ہمارے تمام مطالبات سیکولزم کو پروموٹ کرتے ہیں۔ ہماری تمام مذہبی اور دینی جماعتیں اس پر متفق ہیں کہ حکومت کو مذہبی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں اور ہم ایسی کسی مداخلت کوبزور روئیں گے جبکہ حکومتی زعما اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مُلا کو حکومتی معاملات سے علیحدہ رکھنا ہے۔ ہمارے یہ مقتدر زعما دین کو ریاست ، سیاست ، عدالت، بازار اور لین دین کے معاملات میں نافذ کرنے کے قائل نہیں۔

            کہنے کو تو ہم ایک اسلامی ریاست ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ قرار دادِ مقاصد اسلامی معاشرے کی واضح سمت متعین کرتی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 31حکومت کی ذمہ داری ٹھہراتا ہے کہ وہ عوام کو تعلیم و تربیت کے ذریعے اس قابل بنائے کہ وہ اپنی زندگی اسلام کے مطابق جیسا کہ قرآن و سنت میں بتایا گیا ہے گزار سکیں۔ سپریم کورٹ کے دو تین سال پہلے دیئے گئے ایک فیصلے کی رُو سے پاکستان کے آئین کے مطابق پورا قرآنِ حکیم دستور کا عملی حصہ ہے۔ دستور کی یہ شق بھی موجود ہے کہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کے احکامات اور تعلیمات کے خلاف نہیں بن سکتا۔

            اسلامی نظریاتی کونسل بھی موجود ہے جس کا فریضہ حکومت کی اسلامی راہنمائی ہے ۔شرعی عدالت بھی موجود ہے جس کے اختیار میں ہے کہ وہ کسی بھی قانون کو جو قرآن و سنت کے خلاف ہو کالعدم قرار دینے کا حکم دے سکتی ہے۔ اتنے کھلے، غیر فہم اور واضح آئینی اور قانونی اہتمامات کے باوجود اگر پاکستان میں اسلامی نظام کا بو ل بالا نہیں ہو رہا تو ہماری رائے میں اس کی واحد وجہ ہم سب کا سیکولر سٹ رویہ ہے۔ افسو س یہ ہے کہ اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کے لیے تسلسل کے ساتھ جدو جہد کرنے والی اسلامی تحریک بھی بسا اوقات ، فرقہ پرست اور سیکولر سٹ مذہبی جماعتوں کو (شائد) خوش کرنے کی خاطر اُسی رو میں بہہ جاتی ہے اورنعرہ زن ہو جاتی ہے کہ ہم حکومت کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ دینی مدارس کی آزادی اور خود مختاری پر کوئی قدغن لگائے حالانکہ ا دینی مدارس کی آزادی اور خود مختاری نے جہاں مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کیا ہے وہاں سب سے زیادہ نقصان تحریکِ اسلامی کو پہنچایا ہے۔ تعصب ،ضد، ان اورشدید فرقہ پرستی کی فضا میں تحریکِ اسلامی کس طرح پروان چڑھ سکتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں تمام تر کوششوں کے باوجود اسلامی نظام اپنی صحیح صورتِ حال میں قائم کرنے کا خواب پورا نہیں ہو رہا۔

            پورا عالم اسلام اس وقت ایک آتش فشاں پر کھڑا ہے ہر طرف افرا تفری اور خانہ جنگی کا سماں پیدا ہو رہاہے۔ امریکی استعمار نے اپنا معاشرہ محفوظ بنا کر اسلامی معاشروں میں جنگ و جدل کی ایسی چنگاری چھوڑی ہے جو مغربی استعماری سازشوں کی وجہ سے پھیلتی ہی جا رہی ہے۔ ہم بھی دشمن کا آلہ کار بن کر خود ہی اسے پھیلا رہے ہیں اور خود ہی اس میں بھسم ہونے کے خطرے سے دو چار ہیں۔

            قتل عام ہو رہااہے تو صرف مسلمانوں کا ، معیشت تباہو رہی ہے تو مسلمانوں کی اور تقسیم در تقسیم کا ایجنڈا ہے تو صرف مسلمان معاشروں کے لیے

            سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا س طرح کے ماحول میں اسلام کا بول بالا ہو سکتا ہے ؟کیا اس طرح کی صورت حال میں عالم انسانیت اسلام کی فیوض و برکات سے بہرہ ور ہو سکتی ہے؟ اور کیا مسلمان ایک امت واحدہ کی شکل میں زندہ رہ سکتے ہیں؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان تمام سوالوں کے جوابات نفی میں ہیں۔ اس کے بعد سوال اُٹھتا ہے کہ

پس چہ باید کرد

            یہ ایک طویل اور صبر آزما منصوبہ ہے کہ جس پر عمل کر کے حالات کا رُخ موڑا جا سکتا ہے اس منصوبہ کی بنیاد تعلیم ہے اور صرف تعلیم ، اس تعلیم میں رسمی تعلیم بھی ہے اور غیر رسمی تعلیم بھی۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ایک عظیم تعلیمی تحریک برپا کرنے کی ضرورت ہے ایک ایسی تعلیمی تحریک جس کی بنیاد رسولﷺ کے قرآن میں بیان کئے گئے معلمانہ فرائض ہوں۔ اللہ رب العزت نے رسولﷺ کے فرائض رسالت کے حوالے سے تعلیم و تربیت کے چار پہلو بیان کئے ہیں یعنی تلاوت ِ آیات، تعلیم کتاب، تعلیم حکمت اور تذکیہ نفس ۔ مجوزہ تعلیمی تحریک کے یہی چار اساسی مقاصد ہوں اور موجودہ تعلیمی اداروں میں یہی سب کچھ نافذ کرنے کی کوشش کی جائے۔ نئے ادارے بھی بنائے جائیں جو تعلیم و تربیت کے ان چار قرآنی پہلوؤں کو بنیاد بنائیں۔ نعرہ زن ہوے بغیر خاموشی سے کام کیاجائے ۔ دھوم دھڑکے والی ریلیوں ، بے مقصد مطالبوں اور ہر اِیشو پر لٹھ برداریوں سے اجتناب کیا جائے ۔ ساتھ ساتھ موجود دینی مدارس اور مغربی طرز کے سکولوں،کالجوں ، یونیورسٹیوں میں بھی مثبت اور محبانہ معاونت کے ساتھ تطہیر افکار ، تطہیر نصابات اور تطہیر ماحول کا کام کیا جائے۔ تدریسی اور تعلیمی لٹریچر تیار کرنے پر توجہ دی جائے۔ دستوری اور آئینی آلات کو کام میں لا کر حکومتوں کو بھی قائل کیا جائے، حکومتی مشینری میں موجود ایسے اذہان جو اسلامی تڑپ رکھتے ہیں انہیں متحرک کیا جائے حتیٰ کہ پارلیمنٹ میں بھی ایسے احباب مل جائیں گے جو راستہ ملنے پر تعاون کریں گے۔ ایک ہمہ گیر پُرامن اور محنت پر مبنی تعلیمی تحریک زیادہ سے زیادہ بیس سالوں میں رنگ لائے گی۔ کوششوں میں جو ش اور خلوص ہو گا تو شاید دس سالوں میں ہی تبدیلی نظر آنے لگے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے :

یہ کرے گا کون؟

            ہم سمجھتے ہیں کہ اس کار خیر کے کرنے کے لیے ملک میں اِدھر اُدھر بیٹھے کئی لوگ موجود ہیں۔ کئی چھوٹی بڑی تنظیمیں ہیں جو اپنی سی کوشش کرتی رہتی ہیں ۔ ان منتشر افراد اور تنظیموں کو اکٹھا کر کے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان سب کو اکٹھا کون کرے گا اور خود اپنی پوری طاقت اس کارِ خیر میں کون جھونکے گا؟ ہماری نظر میں اس کارِ خیر کی ذمہ داری جماعتِ اسلامی پر عائد ہوتی ہے۔ اگر وہ تعلیم کو واقعی اپنی ترجیح اول قرار دے دے اور دیگر بے ثمر سر گرمیوں سے کچھ عرصہ کے لیے اجتناب کا فیصلہ کرلے تو تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے۔ اس کے ساتھ اگر علماءِ کرام اللہ کا خوف دل میں پیدا کرکے اپنے فرائض منصبی کی طرف متوجہ ہوں اور محض خطبہ ہائے جمعہ کو ہی عوام کی تعلیم و تربیت کے لئے استعمال کرنا شروع کردیں تو چند سالوں میں منظر بدل جائے گا اور پاکستان کا اسلامی معاشرہ انتہا پسندی اور دہشت گردی ، ملاوٹ اور چور بازاری ، رشوت اور بد عنوانی ، فرقہ وارانہ جھگڑوں اور گروہی چپقلش سے چھٹکارا پالے گا۔ اگر علماءِ کرام از خود یہ کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو آئین پاکستان کا آرٹیکل 31حکومت کو اس بات کا ذمہ دار بناتا ہے کہ وہ اس کا اہتمام کرے۔ کیا جماعت ِ اسلامی اور اس طرح کی دیگر جماعتیں جو ملتِ اسلامیہ کی وحدت کی حامی اور فرقہ واریت کی مخالف ہیں حکومت کو اس بات پر قائل نہیں کرینگی کہ وہ قرار دادِ مقاصد اور آرٹیکل 31کے مطابق اپنی ذمہ داری پوری کرے۔