روزہ کی بابت حضورﷺ کی تعلیم

مصنف : حافظ ابن القیم

سلسلہ : گوشہ رمضان

شمارہ : جولائی 2014

چونکہ روزہ سے مقصود یہ ہے کہ نفس خواہش پوری کیے جانے سے رکنے کی تربیت پائے اور یہ کہ لذت کی وہ بہت سی صورتیں جو اس کے منہ کو لگ چکی ہوں، ایک اعلیٰ مقصد کی لگن میں اس سے چھڑوا دی جائیں۔اس کے حیوانی قویٰ کو قابو میں لایا جائے اور اس کی شہوانی توانائی کو اعتدال سکھایا جائے۔ نفس کی چاہت کو مادی مطالب سے پھیر کر ایک اعلیٰ و پاکیزہ رخ دیا جائے۔ اس میں وہ سلیقہ پیدا کیا جائے کہ یہ کسی اور جہان کی جستجو کر سکے جہاں لطف کی کوئی انتہا نہیں اور جہاں نعمتوں اور آسائشوں کا کوئی اندازہ نہیں اور جہاں عیش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔اور تاکہ یہ ان خوبیوں سے آراستہ ہوسکے جو دائمی زندگی پانے کا ایک مناسب ترین مقدمہ بن سکیں۔

چونکہ روزہ سے مقصود یہ ہے کہ نہ تو دنیا کی بھوک پیاس کی اس نفس میں کچھ خاص وقعت رہے اور نہ یہاں کا کھانا پینا ہی کچھ اس کا منتہائے سعی رہے اور تاکہ یہ احساس کی وہ صلاحیت بھی پالے جس کی بدولت اس کو اندازہ رہنے لگے کہ ایک بھوکے مفلس کے کلیجے پہ کیا گزرتی ہے اور مسکین کے دل کی کیا حالت ہوا کرتی ہے۔

روزہ سے چونکہ مقصود یہ ہے کہ جسم میں شیطان کی بھاگ دوڑ کیلئے راستے تنگ کردیے جائیں اور کھانے پینے کی راہ سے شیطان کو یہاں جوگزرگاہیں میسر آتی ہیں وہاں اس کا گزر دشوار کردیا جائے قوائے جسم کی آزادی ذرا محدود کرکے، اور بدن کا جوش ذرا کم کرکے، روح کو معبود کے راستے میں تحریک دی جائے۔

پس یہ متقیوں کیلئے ایک زورآور مہار ہے اور مجاہدوں کیلئے ایک زبردست ڈھال۔ یہ نیکو کاروں کی ریاضت ہے اور خدا کا قرب پانے والوں کیلئے محنت کا ایک بڑا میدان۔

اور دیکھو سارے اعمال میں سے اس کو ‘خدا کی خاطر’ہونے کی ایک خاص نسبت ہے۔وجہ یہ کہ روزہ دار کچھ بھی نہیں کرتا بس اپنی خواہش اور اپنی شہوت کو اور اپنے کھانے اور پینے کو معبود کی خاطر چھوڑلیتا ہے۔پس یہ محبوباتِ نفس کوخدا کی محبت میں بھلا دینا ہے اور نفس کی لذتوں کو خدا کی خوشنودی پروار دینا ہے۔گویا یہ نفس کا ایک محبوب سے پھر کر ایک دوسرے محبوب کو اختیار کرلیناہے۔پس یہ روزہ محبوب کا ایک شعوری اور ہمہ وقتی تعین ہے۔بندے اور خدا کے مابین ایک ‘سر’ہے۔ یہ ایک ایسا ‘راز’ہے جو بندے کو معلوم ہے یا پھر خدا کو! لوگ زیادہ سے زیادہ دیکھ سکتے ہیں تو یہ کہ یہ بندہ اپنا کھانا پینا اور دیگر مفطرات کو چھوڑکر بیٹھا ہے۔ مگر دل کی وہ حالت جو اِس سے اِس کا یہ کھانا پینا اور اِس کی یہ شہوت و خواہش چھڑوائے بیٹھی ہے اور معبود کی طلب میں ہر لذت کو قربان کروارہی ہے،صرف خدا کو معلوم ہے۔ اس کو کوئی اور کیونکر خبر پاسکتا ہے۔ روزہ کی اصل حقیقت سمجھو بس یہی ہے !

انسان کے ظاہر و باطن کو بدل کر رکھ دینے میں روزے کی عجیب تاثیر دیکھی گئی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ جسم کے فاسد مادے اس ریاضت سے دھل جاتے ہیں بلکہ روح کے ناگوار جوانب بھی اس عبادت سے خوب صاف ہوتے ہیں۔قلب اور جوارح کے صحت پانے میں روزہ کی تاثیردیدنی ہے۔ نفس کے وہ حصے جو خواہشات وشہوات کے زیرآب آچکے ہوتے ہیں وہ اس عمل کے نتیجے میں بخوبی واگزار کرالئے جاتے ہیں اور بندگی کو اس سر زمین پر پیر جما کر چلنے میں خوب مدد ملتی ہے۔ دل میں تقوی کی راہ ہموار کرنے میں‘روزہ’ کو عبادات کے مابین ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ فرمایا:

‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ،تم پر روزے فرض کئے جاتے ہیں جیسا کہ تم سے پہلوں پر فرض کئے گئے شاید کہ تم تقویٰ پاؤ’’

اور فرمایا: ‘‘روزہ ڈھال ہے’’

علاوہ ازیں جنسی خواہش کو قابو میں لانے کیلئے آپ نے روزہ تجویز فرمایا۔

غرض عقل اور فطرت کو نفس کی اصلاح میں روزہ کی اس غیر معمولی تاثیر کا جو مشاہدہ کرنے کو ملتا ہے اس کے پیش نظر ہم دیکھتے ہیں کہ خدا نے اس عبادت کو انسانوں کیلئے مشروع ٹھہرادیاپس یہ اس کی رحمت ہے اور ان پر اس کا ایک احسان اور برائی سے ان کا ایک زبردست تحفظ۔

٭٭٭

روزہ’ پس یہ ہوا کہ وہ حلال لذتیں بھی جو نفس کے منہ کو لگ چکی ہوں اور وہ جائز آسائشیں بھی جن کا یہ نفس عادی ہوچکا ہواس سے پرے کردی جائیں اور روز کچھ عرصہ اس پر یہ حالت گزرے اور اس کیفیت میں اس کو خدا کی جانب متوجہ کرایا جائے تاکہ یہ بندگی کے کچھ خاص پاکیزہ معانی ازبر کرے اور پورا ایک ماہ یہ اسی حالت میں صبح سے شام کردیا کرے۔

منہ کو لگ چکی یہ لذتیں اور آسائشیں چھڑا دینا چونکہ آسان کام نہ تھا لہٰذا اس کی فرضیت نازل ہونے سے خاصی دیر تک رکی رہی۔ یہ فرض ہجرت کے بھی کچھ دیر بعد نازل ہوا۔نفوس کے اندر جب توحیدگہری اتر چکی اور پھر ‘نماز’ نے ان موحد نفوس کو ایک بندگانہ صورت دے دی اور قرآن سے حکم لینے پر کچھ تربیت پالی تب بتدریج ان کو بندگی کی اس صورت کی جانب لایا گیا۔

چنانچہ روزہ ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوا۔ یوں جب آپ فوت ہوئے تو نو(9)رمضان روزہ کے ساتھ گزار چکے تھے۔پہلے پہل جب روزہ فرض ہوا تب آدمی کو چناؤ حاصل تھا۔چاہے تو روزہ رکھ لے اور چاہے تو ایک مسکین کا پیٹ بھردے۔پھر یہ چناؤ ختم کرکے روزہ کی حتمی صورت باقی رکھ دی گئی۔ البتہ دوسرے کو کھلانے کی آسائش ان بوڑھوں اور عورتوں کیلئے باقی رکھی گئی جو خود روزہ نہ رکھ سکیں۔یہ دونوں صنفیں روزہ چھوڑیں گی اورہر روز کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلائیں گی۔مریض اور مسافر کیلئے البتہ یہ رخصت رکھی گئی کہ وقتی طور پر وہ روزہ چھوڑ لیں مگربعد میں اس کی قضا دیں۔حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت جس کوصحت متاثر ہوجانے کا اندیشہ ہو، کو بھی یہی رخصت دی گئی۔البتہ اگر اس کو بچے کی صحت متاثر ہو جانے کا اندیشہ ہو تووہ قضا بھی دے گی اور مسکین کو کھانا بھی کھلائے گی کیونکہ اسے خود اپنے بیمارہونے کا اندیشہ نہ تھا لہٰذا وہ خائف اپنی صحت کی بابت نہیں بلکہ بچے کی صحت کی بابت ہے۔لہٰذا اس کی تلافی اطعام مسکین سے کی جائے گی۔(1)

فرضیتِ صوم تین مرحلوں سے گزری:

پہلے مرحلے میں روزہ یا اطعامِ مسکین میں سے کو ئی ایک فرض تھا۔

دوسرے مرحلے میں آدمی کو ہر حال میں روزہ ہی رکھنا تھا۔ البتہ تب روزہ کی صورت یہ تھی کہ آدمی اگر رات کو کھانا کھانے سے پہلے سوگیا تو اگلی رات تک اس کیلئے کھانا پینا ممنوع رہے گا۔

تیسرے مرحلے میں روزہ کی یہ حالت باقی نہ رہی۔ تب سے اب اور تاقیامت تک روزہ کی وہی صورت فرض ہے جو کہ معروف ہے۔

٭٭٭

آپ کا طریقہ یہ تھا کہ رمضان میں آپ ہر قسم کی عبادات بکثرت ادا فرماتے۔ جبریل رمضان میں ہر رات آپ کے پاس آتے اور یوں قرآن کا دور ہوتا۔ جبریل سے آپ کی ملاقاتوں کا اِس تمام تر عرصہ یوں ہوتا کہ نوازش اور عنایت میں آپ معمول سے بھی کہیں بڑھ جاتے یہاں تک کہ بادہ نسیم کو بھی اِلطاف میں آپ سے کچھ نسبت نہ رہے۔ فیض رسانی میں آپ تمام مخلوق سے بڑھ کرتھے۔البتہ سب سے زیادہ نوازش آپ رمضان میں فرماتے۔ خوب صدقہ کرتے۔ احسان کرتے۔ قرآن کی تلاوت، ذکر اور اعتکاف میں ہی گویا سب وقت گزرتا۔

رمضان میں آپ عبادت کا بالخصوص ایسا اہتمام فرماتے جو دیگر مہینوں میں نہ ہوتا۔یہاں تک کہ آپ ایک دن کے روزے کو دوسرے دن کے روزے سے ملا لیتے تاکہ دن اور رات کی زیادہ سے زیادہ ساعتیں آپ عبادت ہی میں گزار سکیں۔ اپنے اصحاب کو البتہ آپ اس ‘وصال’ سے منع فرماتے۔ اصحاب عرض کرتے: حضور!آپ خود تو وصال کرتے ہیں، فرماتے: ‘‘میرامعاملہ تم جیسا نہیں’’ ایک اور روایت میں ہے، فرماتے: ‘‘میں اپنے پروردگار کے ہاں ساعتیں گزارتا ہوں۔وہ مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی’’ لوگوں نے اس ‘کھلانے اور پلانے’ کا مفہوم سمجھنے میں اختلاف کیا ہے:ایک فریق کا خیال ہے کہ یہ مادی طعام وشراب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ظاہرِ لفظ کا یہی تقاضا ہے اور اس کو ظاہری معنی سے پھیر دینے کی کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔

دوسرے فریق کا کہنا ہے کہ اس سے مراد ایک اور طرح کی غذا ہے، جو دل کو آشنائی دیتی ہے۔یہ لذتِ مناجات کی ایک خاص صورت ہے جو خاص آپ کو عطا ہوتی تھی،اور خدا کے قرب کا ایک خاص احساس ہے جو آپ کی آنکھ کی ٹھنڈک بنتا تھا۔خدا کی طمع،خدا کی محبت اور خدا کے شوق کی ایک کیفیت تھی اور اس سے وجودمیں آنے والے کچھ خاص ‘احوال’تھے جو آپ کو عطا ہوئے تھے۔ یہ ہے وہ غذا جس سے دل سیراب ہوتا ہے اور روح تروتازہ ہوتی ہے۔جس سے آنکھ کو ٹھنڈک ملتی ہے اور نفس کے اندر رونق آتی ہے۔بسا اوقات یہ غذا اتنی وافر ملتی ہے کہ آدمی مادی و جسمانی غذا سے خاصا خاصا عرصہ بے نیاز رہتا ہے۔ اس حالت کا کچھ نہ کچھ تجربہ تو ہر محبت کرنے والے کوہو ہی جاتا ہے۔کچھ لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ محبوب کو پا کر ایسی حالت ان پر طاری ہو جاتی ہے کہ دنیا ومافیہا سے بے خبر ہوجاتے ہیں۔ کھانا پینا جیسے بھول ہی جاتا ہے۔محبوب کو ایک نظر دیکھ لینا میسر آجائے اور کوئی ساعت اس کے پاس تنہائی میں گزارنے کو مل جائے تو گویا وہ کسی اور ہی جہان میں ہوتے ہیں۔ان کی یہ کیفیت الفاظ میں بیان ہی نہیں کی جاسکتی۔ محبوب کا مہربان و ملتفت نگاہوں سے ان کو دیکھ لینا ان کو سب سے بڑا انعام دِکھتا ہے۔پس اگر یہاں کے محبت کرنے والوں کی یہ حالت ہے تو اس محبوب کی محبت میں اس خیرالبشر کا کیا حال ہوگا جس سے برگزیدہ تر، حسین تر،کامل تر اور عظیم تر کوئی محبوب ہوہی نہیں سکتا اور جس کی محبت نے آپ کے پورے وجود کو اپنا اسیر کررکھا ہے اور جس کی محبت آپ کے قلب وجوارح میں اس قدر گہری جاچکی ہے جس پر کسی چیز کا قیاس ہی ممکن نہیں۔

چنانچہ حدیث کے الفاظ پر غور فرمائیں: یعنی میرا تو وقت ہی خدا کے ہاں گزرتا ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں ‘‘وہ مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی’’۔ چنانچہ اس سے مراد اگر مادی اور ظاہری معنی میں ‘کھانا پینا’ ہو تب تو آپ کا ‘وصال’ کرنا تو رہا ایک طرف ‘روزہ سے ہونا ’ ہی معتبر نہ ہو ! اور اگر کوئی کہے کہ یہ مادی معنی میں خدا کی طرف سے ‘کھلایا پلایا جانا’رات کو ہوتا تھا تو یہ ‘وصال’ تو بہرحال نہ ہوا۔ اس صورت میں صحابہ کی اس بات کے جواب میں کہ ‘‘آپ تو وصال فرماتے ہیں’’آپ کو کہنا چاہیے تھا: ‘‘میں کب وصال کرتا ہوں میں تو کھاتا پیتا ہوں’’! جبکہ آپنے صحابہ کی اس بات کا اقرار فرمایا کہ آپ وصال کرتے ہیں البتہ یہ کہا کہ‘‘میرا معاملہ تمہارے جیسا نہیں’’۔چنانچہ آپ نے یہاں اپنا اور ان کا فرق بیان فرمایا۔صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمر کی حدیث کے الفاظ ہیں:

یعنی‘‘رسول اللہ نے رمضان میں (ایک دن کا روزہ دوسرے دن سے) ملایا تب لوگوں نے بھی (ایک دن کا روزہ دوسرے دن سے) ملایا۔تب آپ نے ان کو (اس سے ) منع فرمایا۔عرض کی گئی :آپ تو (ایک روز کو دوسرے روز سے) سے ملاتے ہیں۔ تب آپ نے فرمایا :میں تمہاری مثل نہیں ہوں۔ مجھے کھلایا جاتا ہے اور پلایا جاتا ہے’’

جبکہ صحیحین میں ابوہریرہ سے جو روایت آتی ہے اس کے الفاظ ہیں:

‘‘رسول اللہ نے روزہ کے ساتھ رات گزارنے (وصال) سے منع فرمایا۔ تب مسلمانوں میں سے ایک شخص نے کہا:اے اللہ کے رسول آپ خود تو وصال فرماتے ہیں۔آپ نے فرمایا:‘‘تم میں سے کون ہے جو مجھ جیسا ہو؟ میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتاہے اور پلاتا ہے’’

علاوہ ازیں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ آپنے جب ان کو وصال سے منع فرمایا اور انہوں نے مان کر نہ دیا تو آپنے ان سے ایک دن وصال کروایا۔ پھر ایک اور دن وصال کروایا۔ تب(عیدکا) چاند نکل آیا۔ تب آپ نے فرمایا۔‘‘چاند اگر ایک دن اور نہ نکلتا تو میں تم سے ایک دن اور (وصال)کرواتا’’ گویاجب انہوں نے اصرار کیا تو آپ نے ان کے ساتھ ایسا انداز اپنایا جس سے آپ کا مقصود ان کو سبق سکھادینا اور بازکردینا ہو۔

ایک جگہ لفظ آئے ہیں:اگر یہ ماہ ذرا اور دراز ہوجاتا تو ہم ایسا وصال کرتے کہ یہ زیادہ شدت کرنے والے اپنی شدت چھوڑ دیتے۔ بات یہ ہے کہ میرا معاملہ تم جیسا نہیں یا یہ کہ تمہارا معاملہ مجھ جیسا نہیں۔مجھے تو میرا رب کھلاتااور پلاتا رہتا ہے’’

چنانچہ یہاں رسول اللہ کے الفاظ سے واضح ہے کہ آپ کو بیک وقت کھلایا پلایا بھی جاتا ہے اورآپ وصال سے بھی ہوتے ہیں۔جبکہ صحابہ کو آپنے اپنے ساتھ کچھ دیر کیلئے ایسا کرنے دیا تو وہاں آپ کا انداز اْن کو عاجز کردینے کا تھااور ایک طرح سے سبق دینے او رباز کرنے کا۔ اب اگر آپ خود تو ‘کھاتے پیتے’(اس معنی میں جو کہ ظاہر بین گروہ آپ کے ان الفاظ سے لیتا ہے!) تو اس سے کیونکر یہ مفہوم نکلتا کہ آپ ان کو عملاً یہ سکھا دینا چاہتے ہیں کہ یہ کا م بس آپ ہی کے کرنے کا ہے اور یہ کہ ان کو اس بات کی طاقت ہی نہیں۔ پس معلوم ہوا یہ ‘کھانا پینا ’کسی اور انداز کا ہے،او ر بحمداللہ یہ بات بہت واضح ہے۔

٭٭٭

آپکا طریقہ تھا کہ آپ صیامِ رمضان کا آغاز نہ کرتے جب تک کہ رمضان کا چاند نہ دیکھ لیتے یاپھر کم ازکم ایک گواہ کی صورت میں چاند دیکھنے کی اطلاع نہ پالیتے۔آپ نے عبداللہ بن عمر کی گواہی پر روزہ رکھا۔ ایک بار ایک ہی اعرابی کی شہادت پر لوگوں کو روزہ رکھوایا۔ یہ بھی نہ کہا کہ کہو میں گواہی دیتا ہوں۔آدمی نے آکر اطلاع دی کہ میں نے چاند دیکھا ہے اور آپ نے اس خبر واحد پر اکتفا فرمایا۔ البتہ اگر نہ رؤیت ہو اور نہ رؤیت کی گواہی ہو تو آپ شعبان کے تیس روز پورے کرواتے۔

مطلع ابر آلود ہوتا تو شعبان کے تیس روز پورے فرماتے۔ شک کے دن کا روزہ نہ رکھتے۔ فرماتے :‘‘مہینہ تیس دن کا ہوتا ہے۔ مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے۔پس اگر مطلع صاف نہ پاؤ توتیس کی گنتی پوری کرلو’’

آپکا طریقہ تھا کہ ایک مسلم آدمی کی شہادت میسر آجاتی تو لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم فرمادیتے۔ البتہ ماہ رمضان کے اختتام کے معاملہ میں دو کی گواہی لیتے۔

عید کے چاند کی گواہی اگر آپ کو اس سے اگلی صبح عید کا وقت گزرجانے کے بعد ملتی تو آپ اسی وقت روزہ کھول لیتے اور لوگوں کو روزہ کھول لینے کا حکم دیتے۔البتہ عید کی نماز دوسرے دن جاکر عید کے وقت پڑھتے۔

٭٭٭

افطار جلد فرماتے۔ افطار میں جلدی کرنے کی بے حد تاکید کرتے۔سحری کا اہتمام فرماتے۔ سحری کرنے کی خصوصی ہدایت کرتے۔سحری کومؤخر کرتے اور مؤخر کرنے کی ترغیب دیتے۔

روزہ کھجور سے افطار کرنے کی تاکید کرتے۔ کھجور نہ ہو تو پانی سے۔یہ آپ کی امت پر کمال مہربانی اور ہمدردی کی دلیل ہے۔ دن بھر معدہ خالی رہنے کے بعد اس کے ازسر نو مصروف ہوجانے کیلئے سب سے پہلے اس کو کچھ میٹھی چیز مہیا کرنا نہایت فائدہ مند ہے اور تمام قوائے جسم کو چست کردینے کا باعث۔خصوصاً بصارت کو تقویت دینے میں یہ بہت اہم ہے۔مدینہ میں میٹھا کھجور سے بہتر کیا ہو سکتا ہے۔ اسی پر ان کی گزر بسر تھی۔یہی ان کی غذا۔یہی ان کی ضیافت۔ درخت سے اتری تازہ کھجور ہی ان کیلئے پھل تھا۔ رہا پانی تو دن بھر کا فاقہ جگر کو ایک طرح سے سْکھا دیتا ہے۔ پس سب سے پہلے اس کو پانی سے طراوت دی جائے تو بعد میں کھائی جانے والی غذا کو بہترین انداز میں جسم کیلئے کارآمد بنا سکتا ہے۔ چنانچہ ایک آدمی جو بھوکا بھی ہو اور پیاسا بھی، اس کو چاہیے کہ وہ فوراً کھانا شروع نہ کرے بلکہ پہلے تھوڑا ساپانی پئے۔پھر کچھ ٹھہر کر کھانا کھائے۔یہ تو ہوئی کھجور اور پانی کی جسم کو ضرورت۔البتہ ان دونوں چیزوں کی تاثیر قلبی اور روحانی عمل میں بھی کمال کی دیکھی گئی ہے اور اس کا اندازہ انہی کو ہے جو اس میدان کے لوگ ہیں۔

افطار آپ نماز مغرب سے پہلے فرماتے۔ آپ کیلئے درخت کی تازہ اتری کھجوریں لائی جاتیں۔اگر یہ میسر نہ ہوتیں تو خشک کھجوریں۔یہ بھی میسر نہ ہوتیں تو آپ پانی کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ ہی لے لیتے۔

مذکور ہے کہ روزہ کھولتے وقت آپ دعاگو ہوتے:‘‘خدایا تیری خاطر فاقہ کیا۔ اب تیرا دیا کھا کرافطار کیا’’۔یہ روایت ابوداؤدمیں ہے۔

یہ بھی مروی ہے کہ جب افطار کرلیتے تو گویا ہوتے :‘‘پیاس تھی سوگئی۔رگوں کو تراوت ملی اور خدانے چاہا تو اجر پکا’’

ابن ماجہ میں آپکا یہ فرمان مروی ہے کہ :‘‘روزہ دار کو روزہ افطار کرنے کے وقت ایک دعا کا حق دیا جاتا ہے جو ہرگز رد نہیں ہوتی’’

٭٭٭

رمضان میں آپ سفرکرلیتے۔رمضان کے سفر میں آپ نے روزہ رکھابھی اور چھوڑا بھی۔ صحابہ کو چناؤ دیا کہ چاہیں تو روزہ رکھیں اور چاہیں تو چھوڑ لیں۔دشمن سے آمنا سامنا ہونے کا وقت قریب ہوتا تو صحابہ کو روزہ چھوڑ دینے کا حکم دیتے تاکہ دشمن سے قتال کرنے کیلئے زیادہ طاقت پائیں۔مجاہد فوج اگر سفر میں نہ ہو بلکہ مقیم ہو تو کیا مجاہدین قتال میں زیادہ طاقت پانے کیلئے اپنے گھروں میں رہتے ہوئے بھی رمضان کے روزے چھوڑ سکتے ہیں؟اس کی بابت اہل علم کے دو قول ہیں۔ البتہ دلیل کے لحاظ سے صحیح قول یہ ہے کہ ان کو اس بات کی اجازت ہے۔ابن تیمیہ نے بھی اسی قول کو اختیار کیا اور جس وقت دمشق کے باہر مجاہدین کی دشمن سے مڈبھیڑ ہونے والی تھی انہوں نے مجاہدین کو یہی فتویٰ دیا۔یوں بھی جہاد کی مشقت سفر کی مشقت سے کہیں بڑی ہے۔ اور پھر جہاد سے جو مصلحت وابستہ ہے وہ سفر کے ساتھ وابستہ مصلحت سے کہیں بڑی ہے۔ اور پھر سفر ایک فرد کی اپنی ضرورت ہوسکتی ہے جبکہ جہاد پوری امت کی ضرورت ہے لہٰذا مقیم مجاہد کا بوقت قتال روزہ چھوڑنا ایک مسافر کی نسبت کہیں اولیٰ ہے۔

رمضان میں آپ نے دو عظیم ترین غزووں کیلئے سفر فرمایا۔ایک غزوہ بدر اور دوسرا غزوہ فتح۔ عمرؓ کہتے ہیں:ہم نے رسول اللہ کی ہمرکابی میں دو غزوے کئے۔ایک بدر کے روز اور ایک فتح مکہ کیلئے۔ان دونوں موقعوں پر ہم نے روزہ چھوڑا۔

آپ کی سیرت میں یہ کہیں نہیں پایا جاتا کہ آپ نے کسی ایسی مسافت کا تعین کیا ہو جس کا سفر کرنے کے دوران آدمی کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہو اور اس سے کم مسافت ہو تو افطارکی اجازت نہ ہو۔

صحابہ کو سفر درپیش ہوتا تووہ روزہ چھوڑ لیتے۔یہ شرط نہ لگاتے کہ وہ اپنے شہر کی آبادی سے نکل کر ہی کچھ کھاپی سکتے ہیں۔عبید بن جبر کہتے ہیں میں نے صحابی رسول ابوبصرہ غفاری کے ساتھ رمضان میں فسطاط(ایک شہر) سے کشتی کا سفر کیا۔ ابھی ہم آبادی سے نہیں نکلے تھے کہ ابو بصرہ نے دسترخوان لانے کا حکم دیا اور مجھے کھانے کیلئے آگے بڑھنے کا کہا۔میں نے کہا:کیا آپ آبادی نہیں دیکھ رہے؟ ابوبصرہ غفاری کہنے لگے: کیا تم سنت رسول اللہ سے منہ موڑتے ہو؟(رواہ ابوداؤد و احمد)محمد بن کعب کہتے ہیں :میں انس بن مالک کے ہا ں حاضرہو اجو کہ سفر پہ روانہ ہونے والے تھے۔ان کی سواری تیار کردی گئی تھی اور وہ سفر کا لباس پہن چکے تھے۔تب انہوں نے کھانا منگوایا۔میں نے

 کہا: کیا یہ سنت ہے؟ فرمایا :ہاں سنت ہے۔ اس کے بعد وہ سفر پہ روانہ ہوگئے۔ ترمذی نے اس کو حدیث حسن کہا ہے۔

(استفادہ واختصار از زاد المعاد ص:211۔201مؤلفہ ابن القیم)

٭٭٭

 یہ فقہی آراء امام ابن القیم کی ہیں، جو کہ حنبلی فقہ سے وابستہ ہیں۔ ابن القیم کا یہ مضمون ایمانی و شعوری فوائد کیلئے دیا گیا ہے نہ کہ فقہی آراء کے اثبات کیلئے۔