عبدالستار غوری

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : یادِ رفتگاں

شمارہ : جون 2014

جب سے استاذ عبدالستار غوری کی وفات کا سنا ہے میرے کانوں میں ‘ شاہِ پاکستان ’ اور ‘ شاہ ِاسلام’ کے الفاظ گونج رہے ہیں اور افسوس ہو رہا ہے کہ اب یہ الفاظ اس پیار کے ساتھ سننے کو پھر نہ ملیں گے ۔ غوری صاحب کا یہ پیار تھا کہ جب بھی وہ مجھے دیکھتے تو والہانہ اندا ز میں شاہ پاکستان اور شاہ اسلام کہہ کر مصافحہ کرتے ۔ حالانکہ وہ اگر ہمارا ،سلام ہی قبول کر لیا کرتے تو یہ بھی بہت تھا۔

غوری صاحب سے تعارف تو ایک استاد کی حیثیت سے ہوا تھا،وہ المورد میں ہم سے جونیر کلاس کو انگریزی پڑھایا کرتے تھے، لیکن بعد کے سالوں میں وہ مجھے چھوٹے بھائی سا‘پروٹوکول’ دینے لگے اور جب میں نے‘ سوئے حرم’ کا آغاز کیا تو انہوں نے نہ صرف اس کو بہت سراہا بلکہ باقاعدہ اس کا مطالعہ بھی کرتے اور بعض اوقات اس کی بہتری کے لیے تجاویز بھی ارشاد فرماتے۔

غوری صاحب کی ز ندگی ایک بامقصد زندگی کی بہترین مثال ہے ان کے ماضی سے تو میں آگاہ نہیں لیکن جو دس بارہ برس ان سے تعلق ر ہا اس کے بارے میں ، میں یقینا گواہ ہوں کہ انہوں نے اپنا سارا وقت اور ساری صلاحیتیں بائبل اور مسیحیت کی تحقیق پر صرف کر رکھی تھیں۔ ان سے قبل میرا مسیحیت کے بارے میں علم رانا محمد اسلم مرحوم کی روایات پر ہی موقوف تھا۔ رانا صاحب نے بھی رد مسیحیت اور تحقیق بائبل کو اپنی زندگی کا مقصدبنا رکھا تھا اور باوجود اپنی مفلوک الحالی کے دن رات اس میں مگن رہتے تھے ۔ باقاعدگی سے اپنا رسالہ المذاہب ہمیں عطا فرماتے اور شاہدرہ سے جب بھی مال روڈ کی طرف آتے تو سٹیٹ بنک میں ہم سے ملے بغیر نہ جاتے ۔لیکن غوری صاحب سے ملنے کے بعد رانا مرحوم کی تحقیقات بہت پیچھے نظر آنے لگیں۔

باوجود علمی مصروفیات اور لگن کے غور ی صاحب اُس علمی زعم اور عُجب سے بالکل پاک تھے جس میں اکثر علما مبتلا نظر آتے ہیں ۔سادگی او رشگفتگی ان کے مزاج کا حصہ تھی اس لیے مجھ سے ‘چھوٹے’ بھی ان سے بلا جھجک مل لیا کرتے تھے اور وہ بھی کوئی عار محسوس نہ کرتے تھے۔ان کی زندگی تصنع او ربناوٹ سے بھی پاک تھی۔ صاف محسو س ہوتا تھا کہ ان کا ظاہر او رباطن ایک ہے اور یہ خوبی شاید ہزار علمی خوبیوں پہ بھاری ہے۔

غوری صاحب کے نماز پڑھانے کا انداز بہت خوبصورت تھا ۔ المورد میں بہت سے نمازیں ان کی امامت میں پڑھنے کا موقع ملا میں ان کا مقتدی بن کر کوئی جناز ہ تو نہ پڑھ سکا لیکن ایک دوست کہا کرتے تھے کہ اگر اُن کاانتقال ہو جائے تو جنازہ غوری صاحب پڑھائیں کیونکہ وہ بہت اہتمام اور خشوع سے جنازے کی نماز پڑھاتے ہیں۔میرا خیا ل ہے کہ اللہ کریم نے ان پر بڑا کرم فرمایا کہ وہ جو تحقیق یا کام کرنا چاہ رہے تھے اسے اپنی زندگی ہی میں بہت حد تک پایہ تکمیل تک پہنچا گئے باقی کام امید ہے کہ ان کا صاحبزاد ہ مکمل کر لے گا۔ اور جس طرح زندگی میں اللہ کا ان پر کرم رہا امید ہے کہ آخرت میں بھی ان پر اس سے بھی بڑھ کر کرم ہوا ہو گااور یقینا فرشتوں نے ان کی روح کو ارجعی الی ربک راضیہ مرضیہ کہہ کر رب کے حضور پیش کیا ہو گا۔ اللہ ان کے درجات کو مزید بلند فرمائے اور ان خطاؤں سے درگزر فرمائے

وہ مسلکاً اہل حدیث لیکن مشرباً صوفی تھے اور یہا ں صوفی سے میری مراد تعصب اور نفرت سے پاک ہونااور دوسروں کی بھلائی پیش نظر رکھنا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کے منتشر عالم اسلام کو تصوف کے عقائد تو نہیں البتہ تصوف کی بعض معاشرتی اور اخلاقی روایات اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے ایک فلسطینی دوست کہا کرتے ہیں کہ آج کے عالم اسلام میں حنفی ، شافعی ، مالکی وغیر ہ سے آگے بڑھ کر سلفی (جہادی) ، تبلیغی اور صوفی کی واضح تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے ۔ مجھے ان کی بات سے بہت حد تک اتفاق ہے لیکن میری خواہش ہے کہ عالم اسلام میں اگر یہ تقسیم ہونا مستقبل میں مقدر ہے تو پھر صوفیت کا پلہ بھاری رہے لیکن کون سے صوفی؟ وہ جو غوری صاحب جیسے ہوں اور یا پھر شہزا دسلیم سے ۔ایک پتلون میں اور ایک لمبی داڑھی اور اپنے روایتی رومال میں۔ کہ ‘پتلون’ اور ‘رومال’ کا یہ ملاپ اور محبت ہی ہمارے بہت سے مسائل کا حل ہے۔