سوال ، جواب

مصنف : آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی)

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جون 2014

ج ۔آپ پر واجب یہ ہے کہ اسے نصیحت کرتے رہیں اور اسے سگریٹ پینے کے نقصان بتلاتے رہیں اور ایسی چیز تلاش کریں جو اس کے اور سگریٹ کے درمیان حائل ہو سکے۔ ان باتوں پر آپ کو اجر ملے گا اور اگر آپ اس کے فعل پر راضی نہیں تو آپ پر کچھ گناہ نہیں۔ بلکہ آپ نے تو بیوی پر گرفت کی اور اسے نصیحت کی ہے۔ آپ پر واجب ہے کہ نصیحت کرتے جائیں اور جب یہ سمجھیں کہ وہ اس سے باز نہیں آتی تو اگر اس بات پر اسے سرزنش کرنی پڑے تو وہ بھی کریں اور اللہ تعالیٰ سے اس کے لیے ہدایت کی دعا کرتے رہیں۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

ج۔برونائی دارالسلام میں منعقدہ آٹھویں اسلامی فقہی کانفرنس کے متفقہ فیصلے کے مطابق اگر مریضہ کے طبّی چیک اَپ کے لیے لیڈی ڈاکٹر موجود ہو تو اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ بذاتِ خود چیک اَپ کا فریضہ سرانجام دے اور اگر مسلمان لیڈی ڈاکٹر میسّر نہ ہو تو غیر مسلم لیڈی ڈاکٹر بھی اْسے چیک کرسکتی ہے اور اگر غیر مسلم لیڈی ڈاکٹر میسر نہ ہوتو مسلمان ڈاکٹر یہ فریضہ سرانجام دے سکتا ہے اور اگر مسلمان ڈاکٹر میسر نہ ہو تو پھر غیر مسلم ڈاکٹر چیک اَپ کا فریضہ سرانجام دے سکتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ مرض کی تشخیص اور علاج کی غرض سے عورت کے بدن کے متاثرہ حصے کو ہی دیکھے اور حتی المقدورغض بصر سے کام لے اور پھر عورت کے علاج معالجے کا معاملہ،خلوتِ محرّمہ کے ارتکاب سے بچنے کے لئے خاوند یا محرم یا قابل اعتماد عورت کی موجودگی میں ہو۔ بعض مریض خواتین ڈاکٹر کے کہنے سے پہلے ہی بغیر کسی مصلحت اور ضرورت کے اپنے بدن کا کوئی حصہ کھول دینے میں حرج محسوس نہیں کرتیں حالانکہ اْنہیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

ج ۔دودھ پلانا منع نہیں پلانے والی اپنی طاقت دیکھ لے جیسے سحری کھانے کے بغیر روزہ رکھنا منع نہیں۔ روزہ دار اپنی طاقت دیکھ لے۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

ج ۔حائضہ عورت قرآن کریم کی زبانی تلاوت کر سکتی ہے۔ حائضہ کی تلاوتِ قرآن کریم کی ممانعت پر بعض روایات تو موجود ہیں لیکن وہ تمام روایات یا تو ضعیف ہیں یا ان میں حرمت کا واضح ثبوت موجود نہیں ہے۔

ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا:

 " حائضہ عورت اور جنبی شخص قرآن میں سے کچھ بھی نہ پڑھے " سنن ترمذی حدیث نمبر ( 131 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 595 ) سنن دار قطنی ( 1 / 117 ) سنن البیھقی ( 1 / 89 ).

لیکن یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ یہ اسماعیل بن عیاش حجازیوں سے روایت کرتے ہیں، اور اس کا حجازیوں سے روایت کرنا ضعیف ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: حدیث کا علم رکھنے والوں کے ہاں بالاتفاق یہ حدیث ضعیف ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

حائضہ عورت کی تلاوت کی ممانعت میں کوئی صریح اور صحیح نص نہیں ملتی۔ اور ان کا کہنا ہے: کہ یہ تو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی عورتوں کو حیض آتا تھا، لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قرآن کی تلاوت سے منع نہیں کیا، جس طرح کہ انہیں ذکر و اذکار اور دعاء سے منع نہیں فرمایا۔

فلہٰذا حائضہ عورت زبانی تلاوت کر سکتی ہے۔ جہاں تک قرآن کو دیکھ کر پڑھنے کا تعلق ہے تو راجح قول کے مطابق حائضہ عورت قرآن کو دیکھ کر پڑھ تو سکتی ہے لیکن وہ قرآن مجید کو چھونے سے گریز کرے۔ ارشاد باری تعالی ہے:لا یمسہ الا المطہرون‘‘ اسے پاکبازوں کے علاوہ اور کوئی نہیں چھوتا‘‘۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

ج ۔عورت اگر عورتوں کوہی پڑھاتی ہوتو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اور اگر مردوں کو پڑھاتی ہو تو اس میں چونکہ فتنے کا اندیشہ ہے ،لہذا احتیاط بہتر ہے۔لیکن مجبوری کی حالت میں پڑھا بھی سکتی ہے ،جب کوئی مرد دستیاب نہ ہو،اور شرعی پردے کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہو۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

ج ۔سنت ،مستحب اور نفل ایک ہی چیز کے تین نام ہیں۔یعنی ہر وہ عمل جس کا شارع نے حکم دیا ہو ،لیکن اس کی تاکید نہ فرمائی ہو۔فرض اور واجب میں جمہور اہل علم کے ہاں کوئی فرق نہیں ہے۔صرف احناف فرق کرتے ہیں۔احناف کے ہاں ہر وہ حکم جو قطعی ذریعہ سے حاصل ہو وہ فرض ہے اور جو ظنی ذریعہ سے حاصل ہو ہو واجب ہے۔ نہیں! ان اصطلاحات کو استعمال کرنا تقلید نہیں ہے،یہ اصطلاحات اہل علم ہی استعمال کرتے ہیں اور وہ اپنے اجتہاد سے ان کا نفاذ کرتے ہیں۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

س ۔دوسری شہید خاتون کے حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے،ہاں البتہ اسلام کی پہلی شہید خاتون کے بارے میں آتا ہے کہ وہ سیدنا عمار بن یاسر کی والدہ محترمہ سیدہ سمیہ بنت خیاط تھیں ،جنہیں بد بخت ابو جہل نے نیزہ مار کر شہید کردیا تھا۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

ج ۔کتا بو ں کی طرف مراجعت اور اجتہا د کر نے کے بعدوہ جوا ب دو جس کے بارے میں ظن غا لب یہ ہو کہ وہ صحیح ہے اور اس طرح سوالوں کے جواب دینے میں کو ئی حر ج نہیں جب کسی جوا ب کے بارے میں شک ہو اور واضح نہ ہو کہ صحیح جواب کیا ہے تو کہہ دو اس جوا ب کا مجھے معلوم نہیں اور طا لبات سے یہ وعدہ کر لو کہ تحقیق کر کے اس کا جواب بتا ؤں گی پھر کتا بوں کا مطا لعہ کر و یا اہل علم سے اس کا جوا ب پوچھ لو تا کہ معلوم ہو جا ئے کہ صحیح جواب کیا ہے ۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

ج۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے شعائر اختیار کرنے سے منع کیا ہے اور ایسے مسلمانوں کو تنبیہ کی ہے جو غیر مسلموں کے شعائر اختیار کرتے ہیں۔ صورت مسؤلہ میں اگر تو واقعتا ایسا ہے کہ زیورات کی یہ جو صورتیں متعین ہیں اور ہندو مذہب میں بطور شعائر معروف ہیں تو ان سے مسلمان عورتوں کو اجتناب کرنا چاہیے۔ یہاں کسی مولوی صاحب کے کہنے کا اعتبار نہیں ہو گا بلکہ آپ کو خود یہ سروے کرنا ہو گا کہ زیورات کی یہ دو قسمیں ہندو مذہب میں عورتوں کا مذہبی شعار ہیں یا نہیں ہیں۔ اگر ہیں تو ممنوع ہے اور اگر نہیں ہیں تو محض مخصوص ڈیزائن کے زیورات اگر غیر مسلم عورتیں پہنتی ہوں تو ان کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

ج۔سجدۂ شکر اس وقت ہوتا ہے جب کوئی مصیبت دور ہو جائے یا انسان کو کوئی نعمت حاصل ہو۔ یہ سجدہ اسی طرح ہے جس طرح نماز سے باہر کا سجدہ تلاوت ہوتا ہے۔ بعض علماء کی رائے ہے کہ سجدہ شکر بھی باوضو ہونا چاہیے اور اس کے لیے بھی اللہ اکبر کہا جائے۔ بعض کی رائے ہے کہ صرف سجدہ کو جاتے وقت اللہ اکبر کہا جائے، پھر سجدہ میں گر جائے اور ‘‘سْبحَانَ رَبِّیَ الاَعلٰی’’ پڑھنے کے بعد دعا کرے۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

ج۔شاعری بمثل کلام کے ہے،اچھی شاعری اچھا کلام ہوتی ہے اور بری شاعری برا کلام ہوتی ہے۔بذات خود شاعری مذموم یا ممدوح نہیں ہے،اس کا حکم اس کے معانی اور موضوع کے مطابق ہوگا۔جس طرح براکلام ممنوع اور حرام ہے اسی طرح بری شاعری ممنوع اور حرام ہے۔امام ابن قدامہ فرماتے ہیں ‘‘ شعر کے مباح ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے،کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اسلاف میں سے بھی مکرم لوگ شعر کہا کرتے تھے،نیز لغت عرب کی معرفت اور تفسیر میں استشہاد کے لئے شعر عربی کی ضرورت پڑتی ہے۔ شعر سے کلام الہی اور کلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معانی کی معرفت ہوتی ہے اور اس سے نسب ،تاریخ اور ایام عرب پر استدلال کیا جاتا ہے۔ ’’متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شعر پڑھا کرتے تھے ،سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو آپ نے خود حکم دے کر شعر کہنے کو کہا۔ قرآن وحدیث میں جن شعروں یا شاعروں کی مذمت آئی ہے ان سے مراد ایسے شعر ہیں جو خلاف شرع ہوں ،شرک و بدعت اورجھوٹ پر مبنی ہوں۔لیکن جن شعروں میں تفقہ فی الدین ،اسلام کی سربلندی ،شان صحابہ اور عظمت اسلام کے موضوعات بیان کئے گئے ہوں ایسے اشعار مستحسن اور جائز ہیں۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

ج۔نظر لگنا برحق ہے اور یہ شرعی اور حسی طور پر ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاِن یَکَادْ الَّذِینَ کفَرْوا لَیْزلِقْونَکَ بِاَبصَٰرِھِم-القلم:51

’’اور کافر (جب یہ نصیحت کی کتاب سنتے ہیں تو) یوں لگتا ہے کہ تم کو اپنی (بری) نگاہوں سے پھسلا دیں گے۔‘‘

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ وہ آپ کو نظر لگا دیں گے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے بیٹوں کو نصیحت کی کہ وہ الگ الگ دروازے سے داخل ہوں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:‘نظر لگنا برحق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر سبقت کرتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دیا کرو۔’’سنن ابی داود، الطب، باب فی الطیرۃ، حدیث: ۲۵۳۹ وجامع الترمذی، الاطعمۃ، باب ماجاء فی الاکل مع المجزوم، حدیث: ۱۸۱۷

اسی طرح امام نسائی اور امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، جب کہ وہ غسل کر رہے تھے اتفاق سے انہوں نے سہل بن حنیف دیکھ کر بے ساختہ کہا کہ: ‘‘میں نے آج تک کسی کنواری دو شیزہ کی بھی اس طرح کی جلد نہیں دیکھی۔’’ یہ کہنا تھا کہ سہل بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جایا گیا اور عرض کیا گیا: سہل بے ہوش ہو کر گر گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: (مَن تَتَّہِموْنَ ) ‘‘تم ان کے بارے میں کس کو مورد الزام ٹھہراتے ہو؟’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: عامر بن ربیعہ کو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کرنے کے درپے کیوں ہے؟ تم میں سے کوئی جب اپنے بھائی کی کوئی خوش کن بات دیکھے تو اس کے لیے برکت کی دعا کرے۔’’سنن ابن ماجہ الطب، باب العین، ح:۳۵۰۹ وسنن الکبری للنسائی)

 پھر آپ نے پانی منگوایا اور عامر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ وضو کریں، تو انہوں نے اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھویا، دونوں گھٹنوں اور ازار کے اندر کے حصے کو دھویا اور پھر آپ نے حکم دیا کہ وہ پانی نظر لگے ہوئے شخص پر بہا دیں۔’’

واقعات سے بھی نظر بد لگنے کی شہادت ملتی ہے، بلاشبہ اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔

نظر بد لگنے کی حالت میں درج ذیل شرعی علاج استعمال میں لائے جا سکتے ہیں۔

 دم کرنا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

‘‘ جھاڑ پھونک یادم نظر لگنے یا کے لیے ہے۔’’

جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کرتے ہوئے یہ کلمات پڑھا کرتے تھے:

بِاسمِ اللّٰہِ اَرقِیکَ، مِن کْلَّ شَیءٍ یْوذِیکَ، مِن شَرِّ کْلِّ نَفسٍ اَو عَینٍ حَاسِدٍ، اَللّٰہ یَشفِیکَ، بِاسمِ اللّٰہِ اَرقِیکَ(صحیح مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقی، ح:۲۱۸۶)۔

‘‘اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ کو دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دے، اور ہر انسان کے یا حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے، اللہ آپ کو شفا دے، میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ کو دم کرتا ہوں۔’’

۲۔ دھونا: جیسا کہ سابقہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا (کہ وہ خود کو دھوئیں) اور پھر اس پانی کو مریض پر انڈیل دیا جائے۔

نظر لگانے والے کے بول و براز کو مذکورہ مقصد کے لیے استعمال کرنے کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اسی طرح اس کے پاؤں کی مٹی کو استعمال کرنا بھی بے اصل بات ہے، ثابت وہی ہے جس کا ذکر پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اس کے اعضا اور ازار کے اندرون کو دھلایا جائے گا اور شاید اسی کی مثل اس کے رومال، ٹوپی اور قمیض وغیرہ کو بھی اندر سے دھلانا ہو۔ واللہ اعلم

نظر بد سے پیشگی حفاظت تدبیر اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ایسا کرناتوکل کے منافی بھی نہیں بلکہ یہی عین توکل ہے، کیونکہ یہ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر اعتماد کرنا اور ان اسباب کو اختیار کرنا ہے جن کو اس نے مباح قرار دیا یا جن کے استعمال کا اس نے حکم دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہ کو ان کلمات کے ساتھ دم کیا کرتے تھے:اَعِیذْکَمَا بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِن کْلِّ شَیطَانٍ وَّھَامَّۃٍ وَمِن کْلِّ عَینٍ لَامَّۃٍ-BBصحیح البخاری، احادیث الانبیاء ، باب ۱۰، ح: ۳۳۷۱وسنن ابن ماجہ، الطب، باب ما عوذ بہ النبی وما عوذ بہ، ح: ۳۵۳۵،

‘‘میں تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کی پناہ میں دیتا ہوں، ہر شیطان اور زہریلی بلا کے ڈر سے اور ہر لگنے والی نظر بد کے شر سے۔’’

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اسماعیل واسحاق علیہما السلام کو اسی طرح دم کیا کرتے تھے۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))