احسان

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : جون 2014

ہَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

آج بہت دنوں بعد اس بزرگ کا ذکر پھر سے ہو رہا تھا اور ابا جان کی پیشانی پر پھر وہی سوچ کی گہری لکیریں نمودار ہو گئی تھیں۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ایک بار پھر وہ ماضی میں پہنچ گئے ہوں۔ بیٹے سے رہا نہ گیا ، بولاابا جان، آخر ایسی کیا بات ہے جو آپ آج تک اس بزرگ کو بھلا نہیں پائے حالانکہ دینی و دنیاوی اعتبار سے آپ کو اس سے بہت بُعد ہے ۔ ابا جان حسب دستور مسکرائے اور پھر انہوں نے داستان زیست کا ایک ورق پلٹا اور یوں گویا ہوئے کہ بیٹامجھے اس بزرگ سے دینی مسائل میں اصولی اختلاف ہے لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ میں اس کے احسان کو بھول جاؤں۔اس بزرگ نے مجھے اس وقت چند سو روپے عنایت کیے تھے جب مجھے اُن کی اشد ضرورت تھی ۔میرے پاس انٹر میڈیٹ کی کتابیں خریدنے اور داخلہ بھیجنے کے پیسے نہ تھے اور کسی طرف سے کوئی امید بھی نہ تھی تو یہ بزرگ آگے بڑھے اور اس شرط پر رقم عنایت کی تھی کہ جب میرے پاس گنجایش ہو واپس کر دینا۔ اور پھر میں نے برسوں بعد اپنی پہلی تنخواہ میں سے انہیں یہ چند سوواپس کر دیے تھے لیکن بیٹا! اگر اُس دن وہ بزرگ میری مدد کو نہ آتے تو آج تم سب لوگ اتنی آسودہ زندگی نہ بسر کر رہے ہوتے

اباجان نے اسی انٹر میڈیٹ میں پورے بورڈ میں تیسری پوزیشن لی تھی اور پھر روشن مستقبل نے ان کی چوکھٹ پر دستک دی تھی۔ بیٹاحیران ہوا کہ جس سے اتنا شدید اختلاف ،اس کے چند سو روپے کا احسان بھی ابا جان بھلا نہیں پاتے ۔

لیکن دوسری طرف بیٹے نے دیکھا کہ وہ جو نمازکی امامت کراتے ہوئے اکثر ہَلْ جَزَاء الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ پڑھا کرتا تھا اس نے ا با جان کے احسان کو کس طرح بھلا دیا۔

وہ اگرچہ ابا جان کا ملاز م تھا لیکن ابا جان نے اسے بیٹوں کی طرح رکھا تھا۔ابا جان نے دیکھا کہ اس کی مالی حالت بہتر نہیں ہو رہی تو اپنی گاڑی بیچی ، خود موٹر سائیکل پر آ گئے اور اس کو رکشا لے دیا تا کہ وہ اسے چلا کر اپنی مالی حالت میں بہتری لائے۔لیکن وہ اس کو صحیح استعمال نہ کر سکا اور ایک سال کے بعد ہی شکایت کرنے لگا کہ اسے اس رکشا میں نقصان ہو رہا ہے اس لیے وہ اسے مزید جاری نہیں رکھ سکتا ۔ ابا جان نے کہا کہ جب تک تم رکشا چلاؤ یہ تمہارا ہی ہے میرا کوئی مطالبہ نہیں سوائے اس کے کہ تم میری بیٹی کو جسے وہ بھی بہن کہا کرتا تھا سکول چھوڑ آیا کرو لیکن اگر تمہیں نقصان ہی ہورہا ہے تو پھر ٹھیک ہے اسے بیچ دو اور جتنے میرے پیسے ہیں ان کے بقدر مجھے لوٹا دو باقی تم رکھ لو۔ اتنا کہنا تھا کہ اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا، اس نے کہا، کن پیسوں کی واپسی ؟ آپ نے تو کہا تھا کہ یہ رکشا تمہارا ہی ہے ۔ ابا جان نے کہا کہ ہاں تمہارا ہی ہے میرا تم سے کوئی مطالبہ نہیں بشرطیکہ تم اسے چلاؤ اور اس سے اپنا گھر چلاؤ لیکن جب تم اس کو ختم کرنے پہ تلے ہوتو پھر تم مجھے میرے پیسے لوٹا دو۔ مگر وہ نہ مانا ۔ بیٹا پھر حیران ہو ا کہ ابا جان اس کے نہ ماننے پر ناراض نہ ہوئے تھے بلکہ اس کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے اور یہ کہہ کر بڑے آرام سے اٹھ آئے تھے کہ چلو اچھا یہ ایک لاکھ بھی تمہارا ہوا جو چاہو کرو۔ لیکن بیٹے نے دیکھا کہ وہ اند ر ہی اندر بہت ٹوٹ سے گئے تھے ۔اور پھر بیٹااس بات پہ بھی بہت حیرا ن تھا کہ آج کے ماحول میں جہاں لوگ پیسے پیسے پہ مرتے ہیں اس کا ابا کس طرح ایک لاکھ اُسے بخش کے آ گیا تھا بیٹے نے سوچا شاید اسے ہی کہتے ہیں کہ دنیا کی اہمیت کا دل میں نہ ہونا۔

بیٹا دیکھ رہا تھا کہ پردیس میں برسوں کی تنہائی نے اس کے والد کے اعصاب کو کمزور کر دیا تھا لیکن بیٹے نے دیکھا کہ اس احسان فراموشی نے اُن کے اعصاب کوکمزور تر کر دیا تھا ۔ وہ پہلے سے بھی آہستہ بولنے لگے تھے لیکن اس کے باوجو دان کے اس جذ بے میں کوئی فرق نہ آیا تھا کہ جتنا ہو سکے ہر حال میں دوسروں کی مدد کی جائے بیٹے نے جب اس کی وجہ پوچھی تو ابا جان نے کہا کہ بیٹا جب نا موافق حالات کے باوجود برے لوگ برائی نہیں چھوڑتے تو ہم ناموافق حالات کا بہانہ بنا کر نیکی کرناکیوں چھوڑیں۔اور پھر اس نے کہا کہ بیٹا شکر گزار بندہ بننے کا بھی یہی سب سے اچھا طریقہ ہے کہ جس طرح مالک ہر حال میں ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتا، ہم بھی ہر حال میں اس کے بندوں کا ساتھ نہ چھوڑیں اور جس طرح وہ ہر حال میں ہمیں یاد رکھتا ہے ہم بھی ہر حال میں اس کے بندوں کو یاد رکھیں اور جس طرح وہ ہماری نافرمانیوں کے باوجود ہم پر نعمتوں کی بارش کیے رکھتا ہے اس طرح ہم بھی بندوں کی احسان فراموشی کے باوجود ان سے بہتر سلوک کیے جائیں کیونکہ بندہ جانے نہ جانے ،وہ جس کے لیے ہم کرتے ہیں وہ تو بہر حال جانتا ہے ۔