ہمارا تعلیمی نظام اور شدت پسندی

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : جون 2014

عام طور پر ہندستان کے مسلمان پاکستانیوں سے ایسے ہی نفرت کرتے ہیں جیسے وہاں کے ہندو کرتے ہیں۔اس بات کا انکشاف متحدہ عرب امارات میں آنے کے بعدہوا جبکہ اس سے پہلے ہم یہ سمجھا کرتے تھے کہ شاید انڈین مسلمان ہم سے مذہبی رشتے کی بنا پر محبت رکھتے ہو ں گے ۔میں نے اپنے ایک سمجھدار انڈین کولیگ سے پوچھا کہ آخر آپ لوگ پاکستانیوں سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں جبکہ ہم اور آپ دونوں مسلمان ہیں۔ اُس نے کہا کہ اس بات کا انکشاف اُ س پر بھی امارات میں آنے کے بعدہوا کہ پاکستا نی بھی اچھے ہو سکتے ہیں۔ اُس نے کہا کہ اس نفرت کی وجہ اُ ن کاتعلیمی نظام ہے ۔ اُس نے بتایا کہ سکول سے لے کر کالج تک انہیں تاریخ اور معاشرتی علوم میں یہی پڑھایا جاتا ہے کہ ہندستان کے تمام مسائل کی جڑپاکستان ہے اور یہ کہ تقسیم ایک سازش تھی اور پاکستانی مسلمانوں نے اس سازش کا حصہ بن کر ہندستان کے لیے کانٹے بوئے ہیں اور آج ہندستان میں جو بھی مسئلہ پیدا ہوتا ہے اس کے پیچھے اصل میں کہیں نہ کہیں کوئی پاکستانی سازش پوشیدہ ہوتی ہے۔ یہ حقیقت حال جاننے کے بعد مجھے یہ لوگ ‘‘معذورو مجبور ’’ نظر آنے لگے ۔کیونکہ برسوں کی دھول ایک ہی دن میں صاف نہیں ہواکرتی ، اس کو برسوں نہیں تو مہینوں تو چاہیے ہوتے ہیں۔اسی طرح وطن عزیزکے طول و عرض میں پھیلی ہوئی شدت پسندی ، مار دھاڑ ، قتل وغارت اور نفرتوں کے انبار ایک ہی دن میں وجود میں نہیں آ گئے بلکہ اس بیج کو تناور درخت بننے میں پورے ساٹھ برس صرف ہو ئے ہیں اور اب اگر ہم اس سے دامن چھڑانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ساٹھ نہیں تو کم ازکم تیس برس کی محنت تو یقینا درکار ہوگی۔

پاکستان کا شدت پسند اور نفرت پسند طبقہ بھی دراصل ہمارے تعلیمی نظام کی پیداوار ہے ہمارے سکول و کالج اور مدارس سب میں عام طور پر سوچ پر پہرے بٹھائے جاتے ہیں، عقل پابند سلاسل کی جاتی ہے اور فکر کو نظر بند کر دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جو کتاب میں ہے اس کو ‘‘رٹا’’ لگاؤ اور کامیابی حاصل کرو۔اور یہ مرض خاص طور پر اسلامی علوم ، تاریخ اور معاشرتی علوم میں سرطان کی طر ح پھیل چکا ہے۔تاریخ کاایک ہی رخ پڑھایا جاتا ہے اور دوسرے رخ کو پڑھنا اور اس کا سوال کرنا غداری کے مترادف سمجھا جاتا ہے ۔ اسلامیات میں ایک ہی فقہی رائے کی تعلیم دی جاتی ہے اور دوسری آرا کا سوچنا یا پوچھنا حلقہ کفر میں داخل ہونے کے ہم معنی قرار دیا جاتا ہے ۔مذہبی آرا پر تنقید و تحقیق کو شجر ممنوعہ سمجھا جاتاہے اور ہر فرقے کی محبوب شخصیات پر سوال بھی خارج ازبحث جبکہ دوسرے فرقے کے برگزیدہ افراد کے بخیے ادھیڑے جاتے ہیں اور ان سب باتوں کو عین ایمان اور ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے ۔ اس میں کرنے والوں کا کیا قصور ؟ان کی تعلیم و تربیت ہی ایسے ہوتی ہے ۔ مثلا ًہمارے سکولوں اور مدارس میں ایک ہی فقہی رائے پر مبنی نماز سکھا ئی اور سمجھائی جاتی ہے چنانچہ طلبہ ساری عمر باقی سب طریقوں کو غلط سمجھتے رہتے ہیں۔اس کی ہلکی سی جھلک آپ مختلف مسالک کی مساجد میں دیکھ سکتے ہیں کہ اگر ان میں کسی اور فقہی گروپ کا شخص نماز پڑھنے آجائے تو اس کا طریقہ بڑی اجنبی نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ شاید یہ غلط کر ر ہا ہے حتی کہ ایک مسجد میں جب ایک امام صاحب نے وتر کی نماز میں معروف دعا اللہم انا نستعینک کے بجائے اللہم اہدنی فیمن ھدیت اونچی آوا ز میں پڑھ دی تو مقتدیوں نے کہاکہ امام صاحب کیوں ہمیں کافر کر کے مارنے لگے ہو۔ یہ سب یقینا جہالت اور لا علمی کی بنا پر ہوا کیونکہ وہ بچپن سے اللہم انا نستعینک ہی پڑھتے آ رہے ہیں۔اگر ان کو یہ بتایا جاتا کہ نمازمیں کچھ لازمی امور ہیں جیسے تکبیر ، قیام ، قرات ، رکوع سجدہ وغیرہ او رکچھ امور جیسے تسبیحات اور اذکار یا ادائیگی نماز میں بعض معمولی فرق ، یہ سب فرق وہ ہیں جن کی رسول اللہ ﷺ نے اجازت دی ہے اور آپﷺ ہی سے مروی ہیں تو وہ کیوں ایسا رویہ اختیار کرتے جیسے امارات کی اسلامیات کی کتابوں میں لکھا ہے کہ وترپڑھنے کے تین طریقے ہیں، ایک مغرب کی نماز کی طرح، دوسرے دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے اور تیسر ی رکعت الگ سے پڑھی جائے اور تیسرے یہ کہ تینوں رکعات ایک ہی سلام سے پڑھی جائیں ۔ اب جو بچے یہ پڑھ کر جوان ہوں گے وہ اپنے سے مختلف طریقے سے وتر پڑھنے والوں کو کیوں برا سمجھیں گے ؟ عرض کرنے کامقصد یہ ہے کہ یہ تعلیمی نظام ہے جو یا تو وسعت نظری اور رواداری کو فروغ دیتا ہے اوریاپھر تنگ نظری اور تعصب پیدا کرتا ہے، جیسا کہ ہمارے ہاں ہو رہا ہے ۔ اس لیے نفرت ، تشد د پسندی کو ختم کرنے کا مستقل اور دیر پا طریقہ ایک ہی ہے اور وہ ہے تعلیمی نظام کی تبدیلی اور اصلاح ،جوہر سطح پر ہو اور ہر سجبیکٹ میں ہو۔ہر مضمون کو اس کی تمام معروف تعبیرات ، تمام علمی روایات اور اس کے حوالے سے پائی جائے والی تمام معتبر شخصیات کے احترام کے حوالے سے پڑھایا جائے اور طلبہ کو تربیت دی جائے کہ وہ خود سب آرا، تعبیرات اور تشریحات میں سے بہتر کا فیصلہ کر کے عمل کریں اور دوسرے کو غلط نہ سمجھیں۔ ایسے تعلیمی نظام کے پروردہ نوجوانوں پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گی کہ ہر علم میں مختلف آرا ،اصل میں بہتر اور غیر بہتر کا ‘جھگڑا’ ہوتاہے نہ کہ کفر اور اسلام یاغلط اور صحیح کا۔اور ہر آنے والانیامحقق کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا ہوتا بلکہ اپنے اسلاف کے کام کو ہی آگے بڑھا رہا ہوتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ہم اسلاف کے کام سے ناواقفیت کی وجہ سے اس کے کام کونئی اختراع قراردے دیں۔یہ اصل میں اس صاحب علم کا قصور نہیں ہوتا بلکہ ہماری لاعلمی اور جہالت کا ثمر ہ ہوتا ہے۔

مسلمانوں کا تعلیمی نظام صدیوں ایسی ہی روشن روایات اور تحقیق و تنقید کا حامل رہاہے یہ تو اب دو صدیوں کے زوال نے ان کو اس حال میں پہنچا دیا ہے مسلمانوں کے ہاں علمی اختلاف عام بات تھی لیکن اس کے باوجود صاحبان علم کا احترام پورا کیاجاتا تھااور لوگ جس رائے کو صحیح سمجھتے تھے ،عمل اسی پر کرتے تھے لیکن دوسری آرا میں صحت کے امکان کو پوری طرح تسلیم کرتے تھے ۔ کاش ہم اپنی علمی اور تعلیمی دنیا کی تربیت میں امام شافعی ؒ کے اس قول کو مشعل راہ قرار دیں تو امیدہے کہ جلد یا بدیر نفرت اور تشدد کا سلسلہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا ۔ امام شافعیؒ فرمایا کرتے تھے کہ ہم خود کو صحیح سمجھتے ہیں لیکن اپنی رائے میں غلطی کے امکان کو تسلیم کرتے ہیں اور دوسرے کو غلط رائے پر سمجھتے ہیں لیکن اس کی رائے کے صحیح ہونے کے امکان کوبہر حال تسلیم کرتے ہیں۔ہمارے ہاں اصل فسا د ہی اس بات کا ہے کہ ہم خود کو حق پہ سمجھتے ہیں اور باقی سب کو باطل پر۔ اس سوچ اور فکر کو بتدریج ختم کرنا ہی مسئلے کا حل ہے اور یہ حل کوئی اور نہیں کرسکتا صرف اور صرف تعلیمی نظام ہی کر سکتا ہے ۔

ہمارے تعلیمی نظام کی دوسرا بڑا نقص اور مسئلہ اس کا طبقاتی نظا م کو فروغ دینا اور اس کی جڑیں مضبوط کرنا ہے اس پہ انشاء اللہ پھر کبھی بات ہو گی۔