حدیث اور تاریخی روایات میں تعارض اور اصول ترجیح

مصنف : نگار سجاد ظہیر

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : ستمبر 2020

چند سال قبل ایک سیمینار کے دوران ایک غیر ملکی مسلمان دانشور سے ایک نوجوان نے سوال کیا کہ اگر کسی واقعہ کے متعلق ایک حدیث اور تاریخی روایات میں تعارض ہو تو کسے ترجیح دی جائے گی؟
بوجوہ وہ صاحب نوجوان کو تسلی بخش جواب نہ دے سکے حالانکہ یہ ہمارے قدیم علماء اور محققین کا مقرر کردہ اصول موجود ہے کہ اگر مسئلہ تشریعی نہیں بلکہ تاریخی ہے تو تاریخی روایات، روایات حدیث پر راجح ہوں گی۔
اس کو دو مثالوں سے سمجھیں۔
امام مسلم نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ وفات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 65سال تھی۔(مسلم،حدیث نمبر 2353،باب کم اقام النبی بمکہ)۔نیز امام مسلم ہی نے حضرت عائشہ، حضرت معاویہ اور حضرت عبداللہ بن عباس سے روایات نقل کی ہیں کہ وفات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 63سال تھی۔(مسلم۔حدیث نمبر 2349،2350،2351،2352) 
رسول اللہ کی عمر کا مسئلہ تشریعی نہیں بلکہ تاریخی نوعیت کا ہے لہذا ان متعارض روایات حدیث میں ترجیح اس روایت کو دی جائے گی جس کی تائید تاریخی روایات کریں گی۔مورخین کے ہاں یہ مسلمات میں سے ہے کہ رسول اللہ کی عمر 63 برس تھی۔ابن سعد،ذھبی اور متعدد مورخین نے ایسا ہی لکھا ہے۔
ایک اور مثال دیکھئے:
صحیح مسلم میں سند عالی کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ حضرت ابو سفیان کے ساتھ مسلمان مل بیٹھنے سے گریز کرتے تھے تو(مسلمانوں میں عزت پانے کے لئے) حضرت ابو سفیان نے رسول اللہ سے کہا میرے پاس تین چیزیں ہیں جو آپ کو دینا چاہتا ہوں۔آپ نے فرمایا ''بہتر''۔ابو سفیان نے کہا:میری بیٹی ام حبیبہ جو احسن العرب واجملہ ہیں۔میں ان کا نکاح آپ سے کر دوں۔رسول اللہ نے فرمایا ''ٹھیک ہے ''۔ابو سفیان نے کہا:معاویہ کو آپ اپنا کاتب بنا لیں۔رسول اللہ نے فرمایا ''ٹھیک ہے ''۔ابو سفیان نے کہا:مجھے کسی فوج کی کمان دیں تاکہ میں کافروں سے اسی طرح لڑوں جس طرح مسلمانوں سے لڑتا تھا۔آپ نے فرمایا ''بہتر'' ۔ ( مسلم: حدیث نمبر 2501 باب من فضائل ابو سفیان بن حرب)
اس حدیث کے مقابلے میں ارباب سیر و تاریخ کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت ام حبیبہ کا نکاح رسول اللہ سے اس وقت ہوا جب وہ حبشہ میں تھیں اور ابو سفیان اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے۔ لہذا اس روایت حدیث کو قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ تاریخی روایات کو اس روایت حدیث پر ترجیح حاصل ہو گی۔ یوں بھی یہ کوء تشریعی مسئلہ نہیں۔ پھر آخر الذکر حدیث اصول درایت کے بھی خلاف ہے۔رسول اللہ کا عام طریقہ یہ تھا کہ جس کو عہد جاہلیت میں کسی وجہ سے فضیلت حاصل تھی اسے عہد اسلام میں بھی کماحقہ فضیلت دی گئی۔ابو سفیان رئیس قریش مکہ تھے، ایسا ممکن نہیں تھا کہ مسلمان ان کو حقارت سے دیکھتے، ان کے پاس بیٹھنے کو عار سمجھتے در آں حالیکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسر تھے۔
دو احادیث کے درمیان تعارض کو بھی اسی اصول پر حل کیا جائے گا۔
٭٭٭