ہمارا معاشرہ اور سیاسی لوگ

مصنف : محمد رضوان خالد چوھدری

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : ستمبر 2020

ایم پی اے دوست سے معذرت کے ساتھ۔۔نہ جانے آج میں نے وہ کیا منحوس خبر سُنی جو رہ رہ کر ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔واقعہ کچھ یُوں ہے کہ میرے ایک سابق رومیٹ دوست نے مجھے کھانے پر بُلایا تھا، وہ کئی بار ایم پی اے بن چکا ہے۔ کینیڈا سے گیا ہوا ایک گورا دوست جیسن بھی میرے ساتھ تھا۔ طے یہ ہوا تھا ہم ایم پی اے ہاسٹل آئیں گے، وہاں سے ہمارا ایم پی اے دوست ہمیں لے کر کھانے کے لیے کسی ہوٹل جائے گا۔ہم اُسکے ہاسٹل پہنچے تو اُس سے ملنے آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ چند گھنٹے میں اُسے ملنے طرح طرح کے بیسیوں لوگ آئے، زیادہ تر متوسط طبقے کے لوگ تھے۔ بعض پڑھے لکھے نوجوان نوکری کی درخواست کے لیے آئے تھے، کسی کو پولیس سے متعلق کام تھا کوئی اپنے علاقے میں سڑک سولنگ یا پُل بنوانا چاہتا تھا۔ کسی سے وہ اُٹھ کر گلے ملتا، کسی سے ہاتھ ملاتا، کسی کے جاتے ہوئے وہ کھڑا ہو کر ہاتھ ملاتا، کسی کو گلے مل کر رُخصت کرتا، کسی کو بیٹھے بیٹھے ہی دور سے ہاتھ ہلا کر خداحافظ کہہ دیتا۔اتنے میں لمبے قد، سفید کلف دار کپڑوں اور چمکتی تاوْ دار مونچھوں والا ایک شخص کمرے میں داخل ہوا جس نے نہایت شاندار ملتانی کُھسے پہنے ہوئے تھے، میرا دوست اُس سے نہایت پُرتپاک انداز میں اُٹھ کر ملا۔ اُسکا والہانہ استقبال دیکھ کر وہاں بیٹھے سب حاضرین نے بھی باری باری آنے والے سے کھڑے ہو کر مصافحہ کیا۔ میں نے اُس سے ہاتھ ملایا تو اُسکی کلائی میں بندھی رولیکس کی لشکارے مارتی گھڑی نوٹس کیے بغیر نہ رہ سکا جو کم سے کم دس لاکھ کی ہو گی۔
 میرا ایم پی اے دوست اُس آنے والے کو ملحقہ کمرے میں لے گیا۔ چند منٹ بات چیت کے بعد وہ باہر آئے تو اُن صاحب نے واپس جانے کا کہا۔ میرا دوست کہنے لگا چلیے میں آپکو باہر تک چھوڑ کر آتا ہوں۔ 
ایک بار پھر سبھی حاضرین نے اُس معزز شخص کو اُٹھ کر خدا حافظ کہا، وہ باہر جانے لگے تو میرا دوست بولا رضوان تُم بھی آجاوْ۔
 باہر کے راستے پر میرے دوست نے اُس شخص سے میرا تعارف کروایا اور کہا میں رضوان کو آپ کا نمبر دے رہا ہوں، یہ کسی کام کے لیے کال کریں تو یہی سمجھیے کہ میں نے کال کی ہے۔ اُس شخص نے سینے پر ہاتھ رکھا اور کہا انہیں شکایت نہیں ہوگی اور جیب سے ایک سنہری کارڈ نکال کر مجھے دے دیا۔
مجھے کچھ تجسس تھا کہ یہ کون صاحب ہیں جن کی اتنی عزت کی گئی۔ کارڈ سے اُنکے بارے میں کچھ خاص معلومات نہیں ملیں۔ اُسے اُسکی گاڑی تک چھوڑ کر واپس آتے ہوئے میرے دوست نے خود ہی بتاتے ہوئے کہا یہ پاکستان کا سب با اثر اور مہنگا دلّا (پِمپ) ہے۔ صرف پارلیمینٹیرینز اور ٹاپ کی بیوروکریسی یا فارنرز سے ڈیل کرتا ہے۔ تمہارے ساتھ گورے دوست ہیں سوچا شاید تمہیں اس سے کام پڑے، یہ ایک دن کے پندرہ سو امریکی ڈالرز لیتا ہے لیکن تُم یقین کرو تُمہیں اپنے خرچ کیے پیسوں پر افسوس نہیں ہوگا۔ 
نہ جانے وہ کونسی خبر تھی جو سن کر مجھے یہ منحوس واقعہ یاد آ گیا، لیکن یہ طے ہے تباہ حال معاشروں کی بنیادی نشانی یہی ہو گی کہ میرٹ کی بجائے دلّالی عزّت اور مرتبے کی ضامن ہوگی۔